محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔

(اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/اشوکا یونیورسٹی)
اب یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ علی خان محمود آباد کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس پر پوری طرح قبضہ کر لیا جائے گا؟ کیا یہ جے این یو کی طرح برباد کر دیا جائے گا؟
اس خدشے کی وجہ ہے۔ اس بار آر ایس ایس کی تنظیمیں، بی جے پی، سرکاری ادارے، سب مل کر اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کر رہے ہیں۔ خبرہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے تین ماہ قبل اشوکا یونیورسٹی کیمپس میں دو طالبعلموں کی موت کے معاملے میں وضاحت کے لیے ہریانہ پولیس اور انتظامیہ کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس نے یہ کام کسی کی شکایت پر کیا ہے۔
کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ ‘شکایت کنندہ نے الزام لگایا ہے کہ 14 اور 15 فروری کو اشوکا یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کی المناک موت نے ممکنہ ادارہ جاتی کوتاہی کے بارے میں شدید تشویش پیدا کی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ایک طالبعلم کی خودکشی سے موت کا اندازہ ہے، جبکہ دوسرے طالبعلم کی لاش چند ہی گھنٹے بعد یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب غیر واضح اور مشتبہ حالات میں پائی گئی۔’
کمیشن کے مطابق، ‘شکایت کنندہ نے واقعات کے ارد گرد شفافیت کی تشویشناک کمی کو اجاگر کیا، جس میں مبینہ خودکشی نوٹ کے مواد کو ظاہر نہ کرنا بھی شامل ہے۔ مزید برآں، یونیورسٹی کے مینٹل ہیلتھ سپورٹ سسٹم، سیکورٹی پروٹوکول، اور کیمپس کے مجموعی ماحول سے متعلق اہم سوال بھی تھے۔’
یہ سب کچھ نارمل لگ سکتا ہے اگر ہم یہ نہ دیکھنا چاہیں کہ مرنے والوں کی عمریں 21 اور 19 سال تھیں اور انہیں کسی بھی طرح بچوں کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ ہے، حالانکہ یہ اپنے آپ میں تشویشناک ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس کمیشن نے بچوں کے حقوق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس حکومت کے ناقدین پر بار بار حملہ کیا ہے۔ ہرش مندر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نوٹس کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کے ادارہ جاتی عمل کی تحقیقات شروع کی جائیں گی اور اسے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی جائے گی۔
اس نوٹس کا وقت بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ علی خان کے مقدمے کے عین درمیان میں آیا ہے۔ اس طرح کے واقعات پچھلے 11 سالوں میں کئی کیمپس میں پیش آئے ہیں۔ کیا کمیشن نے ہر جگہ اس انداز سے متحرک ہونے کا ثبوت دیاہے؟
اس نوٹس سے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کیا۔ پریشداس بات پر ناراض ہے کہ یونیورسٹی نے علی خان کی رہائی پر راحت کا اظہار کیوں کیا اور اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ علی خان کو معطل یا برخاست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ احتجاج میں بہت کم لوگ تھے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی نے پریشد کو دو تین دن بعد جواب کی یقین دہانی کرائی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے بھی اسی بہانے اشوکا یونیورسٹی کے خلاف لکھا ۔ علی خان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ اشوکا یونیورسٹی ان کے خیالات سے متفق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے اشوکا یونیورسٹی کے کچھ اکیڈمک پروگراموں میں ریزرویشن کو لے کر بھی سوال اٹھائے ہیں۔
علی خان کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن نے اشوکا یونیورسٹی کو کھری -کھوٹی سنائی تھی اور اسے دھمکی بھی دی تھی۔
یہ بھی یوں ہی نہیں ہوا کہ علی خان کے معاملےکی سماعت کے دوران جسٹس سوریہ کانت نے اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کو احتجاج کرنے پر دھمکی دی۔ اس کا کوئی موقع نہیں تھا۔ کیا اشوکا یونیورسٹی انتظامیہ اس زبانی دھمکی کو طلبہ اور اساتذہ کو نظم و ضبط کے لیے استعمال کرے گی؟
علی خان محمودآباد کے تبصرے میں خیالی طور پرخاتون مخالف اور سیڈیشن ڈھونڈ کر ان پر حملہ کیا جا رہا ہے، وہ اب اشوکا یونیورسٹی پر حملے میں بدل گیا ہے۔ اس کا مطلب کیاہے؟
ہندوتوا تنظیمیں اشوکا یونیورسٹی کو بھی اسی طرح شک و شبہ دیکھتی ہیں جس طرح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھی ملک دشمن کہہ کر گھیر لیا گیا ۔ اس کے زیادہ تر اساتذہ آزاد خیال تھے، یہ حقیقت آر ایس ایس کو مسلسل پریشان کرتی رہی۔ اس کے نصاب نوجوانوں میں لبرل سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ ہندو راشٹر واد کے ناقد تھے۔
جے این یو ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک ماڈل تھا۔ اگرچہ یہ تعداد اور حجم میں دہلی یونیورسٹی سے چھوٹا تھا، لیکن اس کا تعلیمی وقار زیادہ تھا۔ اسے ختم کرنا ضروری تھا۔ اسی طرح اشوکا یونیورسٹی بھی ایک بہت چھوٹا ادارہ ہے، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر علمی اور اکیڈمک دنیا میں اس کی علامتی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ آر ایس ایس کے ثقافتی تسلط کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس علامت کو ختم کرنا ضروری ہے۔
جے این یو کو بھی ملک دشمن کہہ کر بدنام کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے کردار کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اسے سرکاری طور پر کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ہندوتوا دی وائس چانسلر مقرر کرکے جے این یو کو تباہ کیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی کو بھی آہستہ آہستہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سے پہلے وائس چانسلر کی تقرری اور پھر اساتذہ کی تقرری کے ذریعے کیا گیا۔ اب، ایسے اساتذہ کی کافی تعداد ہے جو ہندوتوا یا دائیں بازو کے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر نااہل بھی ہیں۔
اشوکا یونیورسٹی میں ایسے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں اپنی سوچ میں ترقی پسند یا لبرل کہا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے یونیورسٹی کا نصاب بھی لبرل ازم کی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے طلبہ بھی زیادہ تر لبرل اقدار کی پیروی کرتے ہیں۔ ابھی انہوں نے علی خان کی حمایت کی ہے۔ لیکن اس کے منتظمین پر ترقی پسندی یا لبرل ازم کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
پچھلے 10 سالوں میں انہوں نے بارہا ان اساتذہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے جن کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس نے ناراضگی ظاہر کی۔ 2016 میں انتظامیہ نے کشمیر سے متعلق ایک بیان پر دستخط کرنے پر راجندرن نارائنن اور دو اکیڈمک اہلکاروں سورو گوسوامی اور عادل مشتاق شاہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اس کے بعد وائس چانسلر پرتاپ بھانو مہتہ کو بھی اشارہ کیا گیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کی موجودگی سے ادارے پر حکومت کی سفاک نگاہیں بنی رہیں گی اور وہ اس کے کام کاج میں رکاوٹیں پیداکرے گی۔
ان کے استعفیٰ کے بعد انتظامیہ یہ کہتی رہی کہ پرتاپ نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا ہے۔ اس کے بعد، ابھی کچھ دن پہلے، اقتصادیات کے پروفیسر سبیہ ساچی داس کو ان کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا گیاکہ انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر ایک اکیڈمک پیپر جاری کیا تھا، جو بی جے پی کوناگوار گزرا تھا۔
اساتذہ کو سزا دیتے ہوئے انتظامیہ نے ہر بار یہ دلیل دی کہ اشوکا یونیورسٹی کی بقا ہندوستان کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر اس کے لیے اساتذہ کو قربانی دینی پڑتی ہے تو یہ جائز ہے کیونکہ اشوکا یونیورسٹی ہندوستان کے نالج کیمپس کے لیے ضروری ہے۔ بڑے مقصد کے لیے سب کی قربانی ضروری ہے۔ یعنی یونیورسٹی بذات خود ایک ایسا مقدس مقصد ہے کہ اس کے لیے ان اقدار کو بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے جن کا اشوکا یونیورسٹی دعویٰ کرتی رہی ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے اپنی ترقی کے لیے، زمین، پانی اور بجلی کے لیے سرکار کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ایک دو اساتذہ نہ ہوں تو کیا تبدیلی آ جائے گی؟
تو کیا اس بار بھی علی خان کی قربانی دے کر اشوکا یونیورسٹی اپنے لیے کچھ اورمہلت طلب کر لے گی؟ یا اس بار بی جے پی اور آر ایس ایس اس سے مطمئن نہیں ہوں گے اور ان کا مطالبہ کچھ اوربڑا ہوگا؟ کیا وہ انتظامیہ کے لیے اپنا آدمی چاہیں گے؟ کیا وہ یونیورسٹی کی فکری سمت میں تبدیلی کا مطالبہ کریں گے؟ یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا موقف ہوگا؟
ہم اشوکا یونیورسٹی کے بورڈ سے ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس بار پھر سے وہ بی جے پی یا حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی قربانی دیں گے۔
وہ یہ نہیں بھی کر سکتے ہیں۔ میں کم از کم ایک ایسے اسکول منتظم کو جانتا ہوں جس نے دائیں بازو کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اسکول پر حملہ اس لیے کیا گیا تھاکہ اس نے اپنے طلبہ کو پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں تجویز کی تھیں اور ہندوتوا کے حامیوں کواس پر اعتراض تھا۔ اسکول میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن اسکول کے منتظم نے کہا کہ وہ کتابوں کی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ اگر انتظامیہ نے اسے سکیورٹی فراہم نہیں کی تو وہ اسکول بند کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ابھی اسکول چل رہا ہے۔
کیا اشوکا یونیورسٹی کے سرپرستوں میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اگر انہیں ان کے مقاصد کے مطابق کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ ادارے کو بند کرنے کو ترجیح دیں گے؟ وہ شاید ہی ایسا کر سکیں۔
لیکن ہم ان کی بزدلی پر کتنی ہی لعنت بھیجیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ اگر اشوکا یونیورسٹی بچ جاتی ہے اور جے این یو کی طرح ختم ہوجا تی ہے تو اس کے ذمہ دار وہی ہیں۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)