علی گڑھ: بیف اسمگلنگ کے نام پر تشدد کے بعد آئی فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کا دعویٰ خارج

علی گڑھ میں چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر ہندوتوا تنظیموں کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ اب فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کے دعوے کو خارج کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی ملزمین نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو اسی جگہ پرنشانہ بنایا۔

علی گڑھ میں چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر ہندوتوا تنظیموں کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ اب فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کے دعوے کو خارج کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی ملزمین نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو اسی جگہ پرنشانہ بنایا۔

اوپر: گرفتار ملزم کو ، یو پی پولیس نےایکس اکاؤنٹ پراس کی  جانکاری شیئر کی۔ نیچے: علی گڑھ حملے کے زخمی متاثرین

نئی دہلی: 24 مئی کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر حملہ کیا تھا ۔ اب اس معاملے میں پولیس ذرائع نے دی وائر کو بتایا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت گائے کا نہیں تھا۔

ہردوآ گنج تھانے کے ایس ایچ او دھیرج کمار نے تصدیق کی کہ متھرا کی سرکاری لیب میں جانچ کے لیے بھیجے گئے گوشت کے نمونے کی رپورٹ نے اس حقیقت کو مسترد کر دیا ہے کہ یہ گائے کا گوشت ہے۔

بدھ (28 مئی) کی صبح علی گڑھ پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس بابت پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے الزامات جھوٹے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی  ملزمین کے گروہ نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس بار حملہ آوروں نے گاڑی کو آگ لگا دی اور ہائی وے کو بلاک کر دیا۔

حملے کا ایک نیا ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے، جس میں ملزم پولیس کی موجودگی میں ایک بے ہوش متاثرہ کو پولیس کی گاڑی سے گھسیٹتے ہوئے باہر نکالتے نظر آرہے ہیں۔ جن چار متاثرین کی شناخت ہوئی وہ ہیں-ارباز، عقیل، قدیم اور منا خان ہیں۔ سب علی گڑھ کے اترولی قصبے کے رہنے والے ہیں۔ الزام ہے کہ ہجوم نے انہیں برہنہ کیا اور تیز دھار ہتھیاروں، اینٹوں، لاٹھیوں اورراڈ سے بے دردی سے پیٹا۔

ایس ایچ او دھیرج کمار نے دی وائر کو بتایا کہ اس کیس میں چار ملزمین کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے تین کا نام پہلےسے ایف آئی آر میں درج تھا، جبکہ چوتھے ملزم کی شناخت ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر کی گئی۔

ملزمین کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں 191 (3) (مہلک ہتھیار سے دنگا)، 109 (قتل کی کوشش)، 308 (5) (موت کی دھمکی دے کر جبری وصولی) اور 310 (2) (ڈکیتی) شامل ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ چاروں متاثرین کو مقامی پولیس نے بچا یا تھا، لیکن تب تک وہ شدید زخمی ہو چکے تھے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) امرت جین نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے زخمی افراد کو علی گڑھ کے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا، جہاں تینوں  کی حالت تشویشناک ہے۔

حملے اور فرانزک رپورٹ کے بعد اب متاثرین کے اہل خانہ نے انتظامیہ سے تمام حملہ آوروں کو گرفتار کرنے اور متاثرین کے خلاف درج ‘جھوٹی’ ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

معلوم ہو کہ ایک مقامی شخص وجئے بجرنگی نے چار مسلم نوجوانوں کے خلاف گائے کے ذبیحہ سے متعلق ایکٹ 1955 کی دفعہ 3، 5 اور 8 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی تھی۔حالانکہ پولیس نے وجئے بجرنگی کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن ایف آئی آر کو ابھی تک رد نہیں کیا گیا ہے۔

عقیل کے بھائی محمد ساجد نے کہا کہ لیب رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت ‘بھینس’ کا تھا، اس لیے اب جھوٹے مقدمے کو ختم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘حقیقت اب پوری دنیا اور میڈیا کے سامنے ہے۔ اس نے خود کو بچانے کے لیے یہ جھوٹا مقدمہ درج کروایا تھا۔ اگر حکومت خود اس کو ختم نہیں کرتی تو اس سے زیادہ شرمناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمارے لیے دوہری مار ہے۔’

انہوں نےمزید کہا کہ ‘مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ یہ فرضی کیس واپس لے لیا جائے گا۔’

اپوزیشن نے کی تھی مذمت

کانگریس، سماج وادی پارٹی، عام آدمی پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم جیسی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے حملے کی مذمت کی تھی اور بعد میں متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات  بھی کی  ہے۔

گزشتہ 27 مئی کو بھیم آرمی چیف اور نگینہ کے ایم پی چندر شیکھر آزاد نے علی گڑھ کے جواہر لال نہرو اسپتال میں متاثرین سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘ یہ صرف امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں اور غریب  لوگوں کے کاروبار پر منظم حملہ ہے ۔’

عقیل کے والد سلیم نے پہلے دی وائر کو بتایا تھا کہ جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ان کا کام کاج  پوری طرح سے ٹھپ ہوگیا ہے اور ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ گئی  ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس لائسنس  بھی تھا اور گوشت کا نمونہ بھی پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود ان پر حملہ کیا گیا۔

وہیں، ساجد نے کہا، ‘یہ جو گئو رکشک ہیں ،یہ اب بھتہ خور گینگ بن چکے ہیں۔ انہیں حکومت کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اس بار حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ اسے پولیس کی گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل – یہ سب ایک ہی ہیں۔ انہوں نے سماج کو ہندو-مسلمان کے نام پر تقسیم کرنے کے لیے غنڈہ گردی کا ماحول بنایا ہوا ہے۔ کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا جا رہا تھا، پھر بھی حملہ کیا گیا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)