علی گڑھ: ’گائے کے گوشت‘ کے شبہ میں گئو رکشکوں نے چار مسلم نوجوانوں کو برہنہ کرکے بے رحمی سے پیٹا

علی گڑھ کے فروزن فوڈ میٹ فیکٹری سے گوشت لے کر چار لوگ ایک پک اپ وین میں اترولی جا رہے تھے، جب ان کی گاڑی کو ہردوآ گنج پولیس اسٹیشن کے قریب روکا گیا اور ان کی بے رحمی سے پٹائی کی گئی۔ معاملے سے متعلق ایک ایف آئی آر میں وی ایچ پی سے وابستہ افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور ان پر گاڑی کو چھوڑنے کے عوض پیسہ لینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

علی گڑھ کے فروزن فوڈ میٹ فیکٹری سے گوشت لے کر چار لوگ ایک پک اپ وین میں اترولی جا رہے تھے، جب ان کی گاڑی کو ہردوآ گنج پولیس اسٹیشن کے قریب روکا گیا اور ان کی بے رحمی سے پٹائی کی گئی۔ معاملے سے متعلق ایک ایف آئی آر میں وی ایچ پی سے وابستہ افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور ان پر گاڑی کو چھوڑنے کے عوض پیسہ لینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: اترپردیش کے علی گڑھ میں سنیچر (24 مئی) کو ہندوتوادی بھیڑنے چار مسلم نوجوانوں کو یرغمال بنا کر ان پر بے رحمی سے حملہ کیا۔ ان میں سے تین کی حالت تشویشناک ہے۔

رپورٹ کے مطابق، چار نوجوانوں کی پہچان ارباز، عقیل، قدیم اور منا خان کے نام سے ہوئی ہے۔ یہ  علی گڑھ کے اترولی قصبے کے رہنے والے ہیں۔

اس حملے کے ویڈیو کئی بار سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے  ہیں۔ ہجوم نے مبینہ طور پر چاروں نوجوان کو برہنہ کیا اور ان پر تیز دھار ہتھیاروں، اینٹوں، لاٹھیوں اور راڈ سے حملہ کیا۔ شدید زخمی ہونے کے بعد مقامی پولیس نے انہیں بچایا۔ چار میں سے تین شدید زخمی ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

حملے میں زخمی ہونے والے عقیل کے والد سلیم خان نے کہا، ‘میں چوٹ کے بارے میں نہیں بتا سکتا۔ آپ ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔ میرا بیٹا ہسپتال میں اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔

سلیم کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق، 24 مئی کو علی گڑھ میں العمار فروزن فوڈ میٹ فیکٹری سے گوشت لے کر ایک پک اپ ٹرک میں چار لوگ اترولی لوٹ رہے تھے۔ صبح تقریباً 8:30 بجے ،ہردوآ گنج تھانے کے قریب سادھو آشرم میں گوشت سے لدی ایک پک اپ گاڑی کو روکا گیا۔

ہندوتوا تنظیموں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اس راستے پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کی اطلاع ملی تھی۔ ایف آئی آر میں 13 ملزمین کا ذکر ہے،جن میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے لیڈر راج کمار آریہ اور بی جے پی لیڈر ارجن سنگھ کے طور پر پہچانے گئے ہیں۔

سلیم نے الزام لگایا کہ چاروں لوگوں کو زبردستی گاڑی سے باہر دھکیل دیا گیا۔ خریدے گئے گوشت کا بل مبینہ طور پر پھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ مبینہ طور پر انہیں چھوڑنے کے لیے ایک خاص رقم ادا کرنے کو کہا گیا ۔

سلیم نے کہا، ‘جب عقیل اور اس کے چچازاد بھائی  نے پیسے دینے سے انکار کیا تو ان کی گاڑی میں توڑ پھوڑ کی گئی ، اس کوپلٹ دیا گیا اور آگ لگا دی گئی۔’

حملہ آوروں نے مبینہ طور پر نوجوانوں سے لوٹ پاٹ کی

حملہ آوروں نے مبینہ طور پر چاروں نوجوانوں کے موبائل فون اور پیسے لوٹ لیے۔ حملے کے ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گوشت کوسڑک پر پھینک دیا گیا ہے۔

سلیم کے مطابق، ان میں سے تین کومرنے کی حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ پولیس کے پہنچنے کے بعد ہی حملہ آور وہاں سے گئے۔ تاہم، کچھ ویڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کے پہنچنے کے بعد بھی حملہ جاری رہا۔

ایس پی امرت جین نے صحافیوں کو بتایا کہ گوشت کو سیمپلنگ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاروں نوجوانوں کو پولیس نے بچا لیا ہے اور دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا ہے۔ تمام الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اس معاملے کو لے کرفیکٹ چیکر محمد زبیر نے العمار فروزن فوڈ ایکسپورٹ کی تفصیلات بھی پوسٹ کیں – جس میں فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا (ایف ایس ایس اے آئی) کی رجسٹریشن اور دیگر سرٹیفیکیشن شامل ہیں۔

زبیر نے بتایا کہ یہ کمپنی بھینس کا گوشت ایکسپورٹ کرنے والی کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ انہوں نے العمار فیکٹری کے گیٹ پاس کی تصویر بھی پوسٹ کی، جس میں تفصیل کے کالم میں ‘گوشت میں بھینس کی ہڈی’ کا ذکر ہے۔ وقت اور گاڑی کا نمبر ایف آئی آر میں دی گئی تفصیلات سے میل کھاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس پر چار لوگوں میں سے ایک قدیم کے دستخط ہیں۔

معاملے میں دو ایف آئی آر درج

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش سے 388680 میٹرک ٹن بھینس کا گوشت ایکسپورٹ کیا جاتا ہے، یعنی ہندوستان سے کل بھینس کے گوشت کی برآمد کا 30 فیصد۔

بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی درج ذیل دفعات کے تحت ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے؛ 191 (2) (دنگا)، 191 (3) (مہلک ہتھیار سے حملہ)، 190 (غیر قانونی ہجوم  کا ہر رکن جرم کے لیے ذمہ دار)، 109 (قتل کی کوشش)، 308 (5) (موت کی دھمکی دے کر جبراً وصولی)، 310 (2)، ڈکیتی (3) (5) (غیر قانونی پرتشدد ہجوم کی مشترکہ مجرمانہ ذمہ داری)۔

وجئے بجرنگی نامی ایک شخص کی جانب سے چار مسلم افراد کے خلاف اتر پردیش گائے ذبیحہ روک تھام ایکٹ 1955 کی دفعہ 3، 5 اور 8 کے تحت ایک الگ ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ایک خفیہ اطلاع کے بعد کہ گوشت سے لدی کار میں گائے کا گوشت  رکھا ہے، اس کا پیچھا کیا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے، ‘میں اپنی موٹر سائیکل پر پک اپ وین کا پیچھا کر رہا تھا اور میں نےگاڑی کو روکنے کی کوشش کی۔ ڈرائیور نے مجھے کچلنے کی کوشش کی۔ میں توازن کھو کر گڑھے میں گر گیا، لیکن پک اپ بھی پلٹ گئی۔’

ایف آئی آر میں مزید الزام لگایا گیا ہے کہ گائے کے اسمگلروں نے گاؤں والوں پر حملہ کیا تھا۔ لیکن جب گائے کی لاشوں کی خبر پھیلی تو انہیں گھیر لیا گیا اور انہوں نے بیف اسمگل کرنے کے لیے پولیس کو 3 لاکھ روپے رشوت دینے کی بات قبول کی۔

انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ 15 دن پہلے بھی یہی کار پکڑی گئی تھی، لیکن پولیس کی ملی بھگت سے ان لوگوں کو چھوڑ دیا گیا۔ پولیس نے انہیں بتایا تھا کہ گاڑی میں بھینس کا گوشت تھا اور ان کے پاس لائسنس بھی تھا۔

سلیم نے اس کہانی کے کچھ حصوں سے اتفاق کیا، لیکن اہم تفصیلات پر اختلاف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 15 روز قبل اسی گروہ نے العمار میٹ فیکٹری سے گوشت لے جانے والی گاڑی کو روک کر 50 ہزار روپے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے فوری طور پر معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے گاڑی کو بچایا۔ سلیم نے کہا کہ اگر پولیس نہ آتی تو یہ ‘مجرم’ کافی نقصان پہنچا سکتے تھے۔

سلیم نے بتایا کہ ان کی روزی روٹی کچھ عرصے سے داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ سلیم نے کہا، ‘ہم بجرنگ دل کو نہیں جانتے… ہم جانتے ہیں کہ اس حکومت کے آنے کے بعد ہمارا کام برباد ہو گیا ہے۔ ہمیں ایس ایس پی صاحب نے کارخانوں سے گوشت لانے کو کہا اور ہم نے ایسا کیا۔ ہمارے پاس لائسنس تھا اور یہ بھینس کا گوشت تھا۔لیکن پھر بھی…’

اپوزیشن نے حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا- کیامسلمانوں کو نشانہ بنا نا ریاست کی نئی پالیسی

دی ہندو کے مطابق ، سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور کانگریس سمیت مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی گروپوں کی ٹیموں نے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے اس واقعہ پر ریاستی حکومت کو نشانہ بنایا اور سوال اٹھایا کہ کیا مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور گئو رکشکوں کا حملہ کرنا ریاست کی پالیسی بن گئی ہے۔

کانگریس کے قومی سکریٹری شاہنواز عالم نے کہا کہ علی گڑھ میں جو کچھ ہوا ہے وہ مختلف طریقوں سے مسلم کمیونٹی پر حملے کا تسلسل ہے۔ گئو رکشکوں کا حملہ کرنا ریاست کی پالیسی بن گئی ہے، جس میں مسلمانوں کو بی جے پی کے قریبی عناصر اور گروہوں کے ذریعہ مارا پیٹا جاتا ہے۔ علی گڑھ معاملے میں ایک غیر معروف ہندوتوا گروپ کا نام سامنے آیا ہے۔ انتظامیہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو سزا دینا چاہیے۔’

سماج وادی پارٹی نے کہا کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد کچھ مفاد پرست گروہ مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے ایسا ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایس پی کے ترجمان عمیق جامعی نے کہا، ‘پہلگام کے بعد یوپی میں اقلیتوں پر حملوں کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ کچھ مفاد پرست لوگ مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور علی گڑھ میں گئو رکشکوں کا تشدد اس کی ایک مثال ہے۔ حکومت اس کو سنجیدگی سے لے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔’