پہلگام اور اس کے بعد: ایک بے بس امن پسند دیوانے کی بڑ

گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پہلگام حملے کی خبر نے پہلے مجھے حیران کیا اورمشتعل کر دیا، لیکن جلد ہی میں نے اپنے اندر خوف اور بے چینی بھی محسوس کی۔ میں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کا ردعمل زیادہ تر ملک کے شہریوں میں فوری انتقام کا شدید احساس پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت، سب سے مکروہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستانیوں کا ایک زہریلا طبقہ ایسے سانحات کو سنہری موقع تصور کرتا ہے—مسلمانوں کو پاکستان کا حمایتی،غدار اور دہشت گردی کے حامی کے طور پرپیش کرنےکے لیے- جو سزا کے مستحق ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو تقریباً آٹھ دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا ذرا بھی صاف نہیں ہوئی۔ گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئے ہیں – اور مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اسے اور بھڑکایاہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما  ہوتا ہے، اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلگام کے واقعہ کے بعد جو ماحول بناہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

بحیثیت معاشرہ ہم حیوانیت کی ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ میرے بال تراشنے والا ایک  نوجوان ہیئر ڈریسر – جو میرے سر پر بچے کھچے بالوں کو سنوارتاہے – انتہائی صدمے میں ہے، کیونکہ مسعود پور ڈیری کے علاقے میں رہنے والے اس جیسے مسلمانوں پر وہاں سے نکل جانے کادباؤ بنایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوتوا گروہ مسلم کمیونٹی کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے ایک بدنام وزیر نتیش رانے نے لوگوں سے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کی پہچان کرنے کے لیےانہیں ہنومان چالیسہ پڑھنے کو کہیں اور پھر ان کا اور ان کے سامان کا بائیکاٹ کریں۔ راجستھان میں سینکڑوں مسلمانوں کو اس بہانے سے گرفتار کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ تلنگانہ میں ‘کراچی بیکری’ کی دو شاخوں میں توڑ پھوڑ کی گئی – صرف اس لیے کہ اس کا نام ‘کراچی’ ہے، جبکہ وہ  دکان ہندوؤں کی ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ نفرت نے اب منطق، سچائی اور انسانیت کی ہر حد کو کچل دیا ہے۔

کشمیری طلبہ اور مزدوروں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے کشمیر واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ امتیازی سلوک کے ایک واضح عمل میں دہلی یونیورسٹی نے کالجوں سے کشمیری طلبہ کی تفصیلات جمع کرنے کو کہا ہے — ٹھیک ویسے ہی جیسے ہٹلر کے جرمنی میں یہودیوں کی فہرست تیار کی جاتی تھی۔ اور جو نفرت  ہمانشی نروال جھیل رہی ہیں— صرف اس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی— ان سب کے آگے ہمیں شرم آنی چاہیے! یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں ہے۔


آج ہم ایسے ہندوستان میں رہ رہے ہیں جسے پچھلی دہائی سے ایک ایسا شخص چلا رہا ہے جو ‘وشوگرو’ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے – ایک ایسا ہندوستان جس نے نہ امن کا مشاہدہ کیاہے، نہ انصاف، نہ اچھائی اور نہ اتحاد۔جہاں اپوزیشن ناقابل معافی سیکورٹی لیپس کے لیے جوابدہی کا مطالبہ کر رہی ہے، وہیں میرے لیے پہلگام کی بربریت کے بعد کےخوفناک دنوں میں مودی کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ جب ملک میں کئی لوگ ‘خانہ جنگی’ کے خدشے کا اظہار کر تھے، تب انھوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

اس طرح کی بربریت اور جبر کے سامنے ان کی خاموشی ناقابل معافی ہے – لیکن حیرت کی بات نہیں، کیونکہ انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت اسی  وعدے کے سہارے بنائی اور بنائے  رکھی ہے کہ ‘مسلمانوں کو سبق سکھائیں گے۔’


ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ ملک کی بدترین جبلتوں کا نمائندہ بن چکا ہے- طبقاتی، نرگسیت، بزدل اور خود غرضی۔ اور سب سے اہم بات، اندر تک  فرقہ وارانہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو وہاٹس ایپ پر نفرت اور تفرقہ پیدا کرنے والے غنڈوں میں تبدیل ہوچکے ہیں – اپنے محفوظ گھروں سے زہر فشانی کرتے ہوئے، اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ جس غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر ذرا بھی شرمندہ نہیں۔

انہیں گودی میڈیا کے جھوٹے اور زہریلے بیانیے کے ذریعے تربیت دی گئی ہے – جس کی قیادت ارنب گوسوامی، انجنا اوم کشیپ اور نویکا کمار جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ان چہروں نے معاشرے کے مکروہ جذبات کو ہوا دی ہے۔ اس کے باوجود، ان کے ٹی وی شوز سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں – یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نفرت سے بھرا معاشرہ بن چکے ہیں۔

وہ ہولناک سانحہ جس کا مجھے خدشہ تھا وہ 7 مئی کی صبح اس وقت حقیقت بن گیا،  جب ‘ گھر میں گھس کر ماروں گا’ کہنے والے ہمارے وزیر اعظم نے جنگ کا بگل بجا دیا۔ ہندوستان نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں پر ہائی-پریسیشن ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ وزیر دفاع نے چونکا دینے والا دعویٰ کیا کہ 100 سے زائد دہشت گردوں کو مارا گیا، لیکن ایک بھی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ حالاں کہ،اگلے ہی دن پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر 15 ہندوستانی شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ ہندوستان کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا، بین الاقوامی ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ حملوں میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے۔

ہر سیاسی جماعت کے قائدین نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر انتہائی سخت کارروائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ کسی نے تحمل سے کام لینےیا پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے جنگ کے علاوہ دوسرے متبادل کی بات نہیں کی۔ ہمیشہ دانشمندی کی بات کرنے والےششی تھرور نے بھی دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے والے ردعمل کا مطالبہ کیا۔ مودی کے دفاعی وکیل کا نادانستہ کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے انٹلی جنس ایجنسیوں کی ناقابل معافی ناکامی کو اس مضحکہ خیز دلیل کے ساتھ نظر انداز کر دیا کہ ‘سکیورٹی سسٹم عالم کل نہیں ہوتا’ اور ‘یہاں تک کہ اسرائیل بھی 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کو نہیں روک سکا۔’ ان کی اس دفاعی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی پارٹی بدلنے کی تیاری میں ہیں۔

تشدد کا یہ خوفناک سلسلہ تین دن سے کچھ زیادہ ہی جاری رہا، جب تک کہ امریکہ کی ثالثی سے اچانک جنگ بندی نہیں ہوگئی۔ اب دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک اس خودکش جنگ کو ختم کرنے اور جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔

یہ احمقانہ تصور کہ ہم سپریم ہیں اور یہ کہ پاکستان ایک کمزور، بے بس قوم ہے جو جوابی حملہ کرنے سے قاصر ہے، چاہے ہم اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہوں۔ رافیل طیاروں پر مبینہ ‘حملے’ کی بحث پر ہماری خاموشی بہت کچھ کہتی ہے۔ ہم نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن ہم نے خود بھی کم نقصان  نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجود، خود ساختہ ماہرین، خونخوار ہجوم اور یہاں تک کہ سابق فوجی افسران بھی ہندوستان  کے جنگ بندی کے فیصلے پر شدید تنقید کر رہا ہے – ایک ایسے فیصلہ کن  موڑ پر جب یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ہم کیا حاصل کر سکتے تھے۔

آئیے تصور کریں کہ اگر ہم قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ جاری رکھتے تو ہم کیا حاصل کر سکتے تھے؟ کیا ہم اپنے دور دراز اہداف کے قریب کہیں بھی پہنچ پاتے؛ (الف) دہشت گردی کو ختم کرنا یا اسے معذور بنا دینا، (ب) پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) کو واپس لینا، اور (سی) پاکستان کو گھٹنےپر لا دینا؟

عملی سیاست کے عظیم مفکر میکیاویلی کا خیال تھا کہ ‘اگر کسی کو تکلیف پہنچانی ہے تو اسے اتناشدید ہونا چاہیے کہ وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔’ لیکن جس چیز کو ہمارے اندر موجود جنگی جنون کی خواہش نظر انداز کردیتی  ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہندوستان کے پاس پاکستان سے زیادہ فوجی طاقت ہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس ‘باغی’ ملک پر اپنی مرضی مسلط کر سکتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ کمزور اور بے بس لوگوں میں شامل فلسطینی، جنہیں عالمی برادری نے کئی دہائیوں سے تقریباً علیحدہ کر دیا ہے، وہ اسرائیل کی بے رحم فوجی طاقت کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اور پاکستان کی بات کریں تو یہ ایٹمی طاقت ہے، جسے چین کی سرگرم حمایت حاصل ہے۔

ایسے میں اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو مودی کی جارحانہ پالیسی، جس میں ایٹمی خطرے سے کھیلنے کا رجحان بھی شامل ہے، دراصل کھوکھلی اور بے معنی نظر آتی ہے— صرف لفظوں کا غبارہ۔ جیسا کہ ڈگلس ہارٹن نے کہا تھا، ‘جب بدلہ لینے نکلو تو دو قبریں بنواؤ – ایک دشمن کے لیے اور ایک اپنے لیے!’


مودی کی کشمیر پالیسی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ جب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا اور ریاست کی حیثیت کو کم کر کے مرکزکے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا، تب سے یہ خطہ شدید عدم اطمینان میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں مرکزی حکومت کو پہلگام سانحہ کے بعد انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس، حکومت نے یوگی ماڈل کی پیروی کی اوردہشت گردوں سے تعلق رکھنے کے شبہ میں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنا شروع کر دیا، اور سینکڑوں کشمیریوں کو ایک بڑے سیکورٹی کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا گیا، جس میں مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ بے گناہ بھی پھنس گئے۔


جبر کی پالیسی براہ راست علیحدگی پسندوں اور پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں کشمیریوں پر ظلم و ستم نے اس زہر کو مزید مہلک بنا دیا ہے۔ جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت یہ تینوں اب تقریباً مر چکے ہیں۔

اس تاریک دور میں ہمیں اپنے ماضی کے عظیم رہنماؤں سے تحریک اور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارا دور اندیش معاشرہ اندرا گاندھی کے ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب انہوں نے 1971 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ لیکن آج جب صورتحال اس قدر سنگین ہے تو ہم نے ہندوستان کے عظیم ترین اور شاید اس سرزمین کے سب سے بڑے انسان مہاتما گاندھی کو کیوں یاد نہیں کیا؟

کڑوا سچ یہ ہے کہ گاندھی اس مسئلے کو بالکل مختلف طریقے سے حل کرتے، اور اسی لیے انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔

میں اپنے دوستوں سے، مذاق میں نہیں، بلکہ سنجیدگی سے کہتا ہوں کہ اگر گاندھی آج زندہ ہوتے تو مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات کی وجہ سے انہیں ہجوم نے مار ڈالا ہوتا!

ہمیں بھی اب اسی طرح کی اُولُو الْعَزْمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔ بصورت دیگر، ہمیں یا تو ایک اور ہزار سال کی جنگ کے لیے تیار رہنا ہوگا – یا پھر اس دن کے لیے جب ایٹمی تباہی ہمارے مشترکہ مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ بلاشبہ پہلا آپشن بہت آسان اور سب کے لیےمفید ہے۔

(میتھیو جان سابق سول سرونٹ ہیں۔)