پونے: دو گاؤں میں مسلمانوں کا بائیکاٹ، دھمکیوں کے بعد کئی لوگ گھر چھوڑنے کو مجبور

پی یو سی ایل اور اے پی سی آر کی ایک ٹیم نے گزشتہ ہفتے پونے کے دو گاؤں کا دورہ کیا، جہاں سے مسلم کمیونٹی کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اطلاعات تھیں۔ ٹیم نے یہاں خوف و دہشت ، بند پڑی دکانیں، ٹوٹی -بکھری زندگی اور تباہ حال خاندان کا مشاہدہ کیا ۔

پی یو سی ایل اور اے پی سی آر کی ایک ٹیم نے گزشتہ ہفتے پونے کے دو گاؤں کا دورہ کیا، جہاں سے مسلم کمیونٹی کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اطلاعات تھیں۔ ٹیم نے یہاں خوف و دہشت ، بند پڑی دکانیں، ٹوٹی -بکھری زندگی اور تباہ حال خاندان کا مشاہدہ کیا ۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: مہاراشٹر کے پونے ضلع کے ملشی تعلقہ کے پوڑ اور پیرنگوٹ گاؤں میں مسلمانوں کے خلاف دھمکیوں اور سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔

بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد کئی مسلم خاندان جو یہاں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے رہ رہے تھے، کو گاؤں چھوڑ کر جانا پڑا۔ گاؤں کے متعدد ہندو باشندوں نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی کہ یہ لوگ ‘مقامی مسلمان نہیں’ ہیں۔

گزشتہ دو جولائی کو پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی ایک مشترکہ ٹیم نے دونوں گاؤں کا دورہ کیا اور زمینی حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔ ٹیم نے وہاں خوف کا ماحول ، بند پڑی دکانیں،  تباہ حال خاندان بکھرتی زندگی کا مشاہدہ کیا۔

پی یو سی ایل اور اے پی سی آر کی طرف سے یہ تحقیقات 2 مئی کو پوڑ گاؤں میں اناپورنا دیوی کی مورتی کی مبینہ بے حرمتی اور 5 مئی کو بی جے پی اور دیگر دائیں بازو کی تنظیموں کی ایک ریلی کے بعد شروع ہوئی، جب گاؤں میں ‘غیر مقامی مسلمانوں’ کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے غیر قانونی پوسٹر لگائے گئے تھے۔ ان ریلیوں میں مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دی گئی تھیں۔

پی یو سی ایل کے مطابق، ان پوسٹروں اور مسلسل دھمکیوں نے گاؤں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی۔ تنظیم نے 4 جولائی کو پونے( دیہی) سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سندیپ سنگھ گل کو ایک میمورنڈم بھی سونپا۔ پوسٹر ہٹا دیے گئے، لیکن ان کے اثرات سے مسلمانوں کی دکانیں – بیکری، کباڑ کی دکانیں، حجام کی دکانیں اور چکن سینٹر  اب بھی بند ہیں۔

پوڑ میں روشن بیکری کے مالک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ‘ہماری بیکری 40 سال سے چل رہی ہے، لیکن صرف اس لیے کہ میرے والد کا تعلق اتر پردیش سے ہے، ہمیں باہری قرار دیا گیا۔ ہمیں متنبہ کیا گیا کہ اگر ہم نے دوبارہ دکان کھولی تو ہمیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔ پولیس کو متعدد بار شکایت کرنے کے باوجود کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی۔’

روشن بیکری کے علاوہ نیو سنگم اور نیو بھارت بیکری پر بھی تالے لگ گئے ہیں، جس کی وجہ سے تقریباً 400 یومیہ اجرت والے مزدور اپنی روزی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں۔ بھارت بیکری کے مالک نے کہا، ‘ہماری دکان ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو روزگار فراہم کرتی تھی۔ پانچ ہندو دکاندار جو گھر گھر جا کر ہمارا بریڈ فروخت کرتے تھے اب بے روزگار ہیں۔ یہ صرف مذہب کا معاملہ نہیں ہے، یہ ہماری روزی روٹی چھیننے کی سازش ہے۔’

تفتیشی ٹیم نے پوڑ پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر سنتوش گریگوساوی سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ ایس پی کے حکم پر متنازعہ پوسٹروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ لیکن صرف پوسٹرز ہٹانے سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔

خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور

جانکاری ملی ہےکہ کئی ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے مسلمان دکانداروں کو اپنی دکانیں کرایہ  پر دینے اور علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔

ہندو راشٹرا سینا کے ممبر دھننجے دیسائی – جو 2014 میں آئی ٹی پروفیشنل محسن شیخ کے قتل میں ملزم رہے اور شواہد کے فقدان میں بری ہو ئے تھے – کو ایک بار پھر دھمکیوں کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ دیسائی کے خلاف فارم ہاؤس پر قبضہ کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور وہ فی الحال مفرور ہے۔

مقامی خبروں کے مطابق، جون کے اوائل میں ایک اسکریپ ڈیلر کی دکان جلا دی گئی تھی اور انہیں تقریباً 20 لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا، ‘میں نے یہیں شادی کی، یہیں سکونت اختیار کی، لیکن اب مجھے اپنے خاندان کو کامشیت (پونے ضلع میں گاؤں) بھیجنا پڑاہے۔ میں نے شکایت درج کرائی ہے اور معاوضے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔’

نفرت کی یہ مہم مذہبی مقامات تک بھی پہنچ گئی۔ دو مساجد کے باہر ایسے پوسٹر لگائے گئے جس میں نماز کوصرف مقامی مسلمانوں تک محدود بتایا گیا، جس سے پڑوس کے  کولوان گاؤں کے لوگ نماز پڑھنے سے ڈرنے لگے۔  ایک مقامی مسلمان نے بتایا ‘اگرچہ پوسٹر ہٹا دیے گئے ہیں، لیکن خوف اب بھی برقرار ہے۔’

حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ بہت سے مسلم خاندان اپنے آبائی گاؤں (خاص طور پر اتر پردیش میں) واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے قریبی کامشیت گاؤں میں پناہ لی ہے۔

اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کی پڑھائی کو ہوا ہے جو درمیان میں ہی چھوٹ گئی۔

ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ مسلمانوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘400 گاؤں والوں کا ایک وہاٹس ایپ گروپ ہماری ہر سرگرمی پر نظر رکھتا ہے۔ میں اپنے بیٹے کے لیے دوائی لینے میڈیکل اسٹور پر گیا تو فوراً میری تصویر گروپ میں پوسٹ کر دی گئی۔’

پیرنگوٹ کے کانگریس کے سابق تعلقہ صدر اشوک ماترے نے ملشی کی ‘گنگا جمنی تہذیب’ پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا،’پہلے مسلم کمیونٹی ہری نام سپتاہ (ہندو تہوار) میں روایتی لباس میں شرکت کرتی تھی۔ لیکن اب آر ایس ایس، شیو پرتشٹھان اور ہندو راشٹر سینا جیسی تنظیموں نے گاؤں کا ماحول خراب کر دیا ہے۔’

اس سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کو ‘آئین کے خلاف’ قرار دیتے ہوئے پی یو سی ایل نے دیگر سول تنظیموں کے ساتھ مل کر اس معاملے میں قانونی کارروائی کی تیاری شروع کر دی ہے۔