بیانیہ، بیداری اور فیصلے: استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی

 مسلم دنیا میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔

 مسلم دنیا میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔

اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم کے اجلاس کی ایک تصویر، فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم کے اجلاس کی ایک تصویر، فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

بیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ ہندوستان کے دور میں مرحوم احمد شاہ پطرس بخاری اپنے ایک طنزیہ مضمون ’مرید پور کا پیر‘ میں رقمطراز ہیں کہ جس شہر میں وہ مقیم تھے، وہیں کانگریس والوں نے اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی اور جب ایسا جلسہ بغل میں ہو رہا ہوں، تو کون متقی وہاں جانے سے گریز کرے۔

یہی صورتحال کم و بیش حال ہی میں مجھے پیش آئی۔ معلوم ہوا کہ ترکیہ کے عروس البلاد استنبول میں ستاون اراکین پر مشتمل اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزرائے  خارجہ کا اکیاون واں اجلاس منعقد ہو نے والا ہے۔ اب ترکیہ میں مقیم  کون صحافی اس موقع کو ضائع ہونے دیتا۔

ایک تو خطے کی صورتحال ایران- اسرائیل جنگ، غزہ کی صورتحال، دوسرا اس کانفرنس کے دوران افریقی ملک برکانو فاسو کے وفد سے ملاقات کی لالچ تھی، جس کے صدر ابراہیم ترورے نے  استعماری طاقتوں کے خلاف افریقی ممالک کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔

میں نے اس کانفرنس کےلیے رجسٹر کرکے انقرہ سے استنبول کی راہ لی۔ بتایا گیا کہ حکومت ترکیہ سے ایکرڈیٹڈ صحافی ہونے کا ناطے کانفرنس کےلیے رجسٹر کرنا بس ایک رسمی کاروائی ہے۔

ترکیہ کے شہر استنبول کی داد دینی پڑے گی کہ شہر میں ستاون وزرائے خارجہ اور ان کے وفود کی موجودگی کے باوجود کہیں ٹریفک میں خلل تھا نہ معمولات زندگی میں رخنہ ڈالا گیا تھا ۔ کانفرنس بلڈنگ تک  معلوم ہی نہیں پڑا، کہ شہر میں اتنی بڑی تعداد میں وی وی آئی پییز جمع ہیں ۔

کوئی سڑک بند، نہ پولیس کے دستے نظر آرہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بس ایک یا دو غیر ملکی سربراہان کی آمد پر تو نئی دہلی میں  کئی اہم شاہراہیں بند ہو جاتی ہیں۔جن سے میلوں دور تک ٹریفک جام لگتا تھا۔ اسلام آباد میں پچھلے سال شنگھائی تعان تنظیم کے اجلاس کے وقت تو پورا شہر ہی بند کردیا گیا تھا۔

حتیٰ کہ شہر کے نواح میں کانفرنس ہال سے میلوں دور شادی ہالوں تک کو بند رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ چونکہ استنبول میں آئے دن غیر ملکی مہمانوں کے آنے کا تانتا بندھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے بھی شاید یہ ایک روٹین سا بن گیا ہے۔ پھر اسی کانفرنس بلڈنگ کے پاس ہی ایک نیم دائرہ میں ہوٹلوں کی ایک قطار تھی۔ وفود کے اکثر اراکین کو پیدل ہی ہوٹل سے کانفرنس ہال تک آتے دیکھا۔

خیر کانفرنس کے استقبالیہ پر معلوم ہوا کہ میرا نام لسٹ میں موجود ہی نہیں تھا۔ وجہ بتانے کےلیے کوئی موجود نہیں تھا۔ دو گھنٹہ منت سماجت کرنے اور یہ دہائی دینے کے بعد کہ میں انقرہ سے بس اسی کانفرنس کو کور کرنے کےلیے چلا ہوں اور ہوٹل میں مقیم ہوں، تو اسکارٹ کرکےمجھے پریس گیلری میں لے جایا گیا، جو اسٹیج سے کافی دور اوپر کی منزل میں تھی۔

بتایا گیا کہ صرف افتتاحی سیشن ہی پریس کےلیے اوپن ہے۔ترک افسران بار بار معذرت اور پشیمانی کا ٓاظہار  کررہے تھے کہ رجسٹریشن کے باوجود او آئی سی کے سکریٹریٹ کے اجازت نامے کی لسٹ میں میرا نام نہیں تھا۔ معلوم ہو اکہ میرا ہندوستانی پاسپورٹ اور شہریت دیکھ کر آو آئی سی سکریٹریٹ نے میرا نام لسٹ میں شامل نہیں کیا تھا۔ ان کو ہدایت تھی کہ ہندوستانی اور اسرائیلی صحافیوں کو اس کانفرنس تک رسائی نہیں دینی ہے۔

 افتتاحی سیشن ، جس کو ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خطاب کیا، کے بعد صحافیوں کو دوسری بلڈنگ میں میڈیا سینٹر لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ اب کانفرنس کے جائے وقو ع تک ان کی رسائی بند ہے۔ یہ ایک نیا ٹرینڈ ہے۔

پچھلے تیس برسوں سے سارک سربراہ یا وزرائے خارجہ کانفرنس، ناوابستہ ممالک کا اجلاس،برکس، شنگھائی تعاون تنظیم، افریقہ چوٹی اجلاس یا اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق وغیرہ ایسی ان گنت کانفرنسیں کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس میں ایک یا دو سیشن آن ریکارڈ میڈیا کےلیے کھول دیے جاتےتھے، مگر پھر صحافی وہیں بلڈنگ کے آس پاس یا لابی وغیر میں ہی گھومتے پھرتے تھے۔

باہر سے آئے مہمان بھی ناشتہ، لنچ کے وقت ان سے ملنے اور اس ملک کے متعلق جاننے کے خواہشمند ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ دہلی میں افریقہ سمٹ کے موقع پر ایک افریقی ملک کے وزیر  بہار کے صوبائی انتخابات کے بارے میں جاننے کےلیے بیتاب تھے۔

اس طرح جب صحافیوں کا کانفرنس کے مندوبین کے ساتھ تعامل ہوتا تھا، تو خبرو ں کے حصول کے علاوہ ان کے شعور اور عالمی امور کی سوجھ بوجھ  میں اضافہ ہوجاتا تھا اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی۔ یہ تعامل چونکہ غیر رسمی ہوتا تھا ، مندوبین بھی کھل کر اپنی علمی مہارت شئیر کرتے تھے۔

صحافیوں کےلیے یہ اب ایک سنجیدہ معاملہ بن چکا ہے۔پوری دنیا میں مسند حکومت پر برا جمان افراد کو لگتا ہے کہ اب ان کو میڈیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سوشل میڈیا نے ان کی رسائی پبلک تک براہ راست کر دی ہے۔  اس لیے میڈیا کو اب رسمی یا غیر رسمی رسائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اب صحافیوں کی موجودہ جنریشن کو علمی مہارت یا تجزیہ کاری کا تجربہ حاصل ہو تو کیسے ہو۔ اس میں صحافی خود بھی قصوروار ہیں۔ الکٹرانک میڈیا کے آنے سے بس مائک اور کیمرہ رپورٹروں کو کسی مندوب کے آگے کرکے بریکنگ نیوز لانی ہوتی ہے۔ اس پر خاصے جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ اس وجہ سے بھی رسائی بند کر دی گئی۔

ارباب اقتدار اور صحافیوں کو اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انفارمیشن حاصل کرنے کےلیے ایک غیر رسمی بریفنگ  اور انٹر ایکشن کا ہونا ضروری  ہے، جو بعد میں مضامین یا ایڈیٹوریل میں جھلکتا ہے۔ ورنہ وہی حال ہوگا، جس کا مظاہرہ حال کی ہندوستان-پاکستان جنگ میں ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینل کر چکے ہیں۔

خیر اس کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام کے بعد ہی امریکہ نے ایران پر حملہ کرکے اس کی نوعیت ہی بدل دی۔ اگلے روز ایرانی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اپنا دورہ ادھورا ہی چھوڑ کر صلاح و مشورہ کےلیے ماسکو چلے گئے۔ چونکہ شام کی جنگ میں ایران نے روس کی خاصی مدد کی تھی اور مشرق وسطیٰ میں ایک عرصے کے بعد روس کو قدم جمانے اور بحری اڈہ قائم کرنے میں مدد کی تھی، اس لیے امید تھی کہ روس اس احسان  کا کچھ بدلہ تو ضرور چکائے گا۔

اس کانفرنس کے دوران احساس ہوا کہ پاکستان، سعودی عرب اسلامی ملک کی لیڈرشپ کے کردار میں واپسی کر رہے ہیں۔کئی دہائی قبل ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہو گئی تھی کہ اسلامی ممالک کی سربراہی دھیرے دھیرے  پاکستان اور سعودی عرب کے ہاتھوں سے نکل کر ترکیہ اور ایران کے پاس چلی گئی تھی۔

جب سے او آئی سی کا قیام عمل میں آیا، تب سے ہی پاکستان میں وزارت خارجہ کی نکیل چونکہ ذولفقار علی بھٹو سے لےکر شاہ محمود قریشی بشمول صاحب زادہ یعقوب خان وغیر جیسے زیرک اور انگریزی جاننے والے افراد کے ہاتھوں میں ہوتی تھی، اس لیے کانفرنس کا ایجنڈہ اور اعلامیہ اکثر وہی ڈرافٹ کرتے تھے۔

سعودی عرب میں اس تنظیم کا سکریٹریٹ تھا اور مالی طور پر سب سے زیادہ بار وہی اٹھاتا تھا۔ اس لیے ان دو ممالک کا رتبہ اسلامی تنظیم میں وہی تھا، جو اقوام متحدہ میں امریکہ اور سویت یونین کا ہوتا تھا۔ مگر تین دہائی قبل ہی آہستہ آہستہ پاکستان اس تنظیم کےلیے غیر متعلق ہوتا گیا اور یہ سیٹ ترکیہ کے پاس آتی گئی، جو اب خاصا فعال ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایردوان کی حکومت آنے کے بعد یہ رول کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا۔

 سعودی عرب خو د ہی لیڈرشپ رول سے پیچھے ہٹتا گیا، جس کا خاطر خواہ فائدہ قطر، متحدہ امارات، ملیشیا اور ایران کو حاصل ہوا۔ نظریاتی وجوہات کی بناکر ایران کا رول محدود ہی رہا۔ مگر اس نے لیڈرشپ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

موجودہ حالات میں خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ محدود جنگ میں ہارڈ پاور کا استعمال کرکے پاکستان کے لیے لیڈرشپ کا رول پھر استوار ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کی وجہ سے ایران کا بھی پیمانہ بھاری ہو گیا ہے۔

اس کانفرنس میں محسوس ہوا کہ سعودی عرب لیڈرشپ کے حصول کےلیے واپسی کر رہا ہے۔ مصر بھی ایک بار لیڈرشپ رول میں تھا، مگر وہ پھر پوری طرح غیر متعلق ہوگیا ہے۔عرب ممالک میں قطر اور افریقی ممالک میں برکینو فاسو اس بار بہت ہی سرگرم تھے۔

کانفرنس کے دوسرے دن جب خاصی تگ و دو کے بعد اعلامیہ جاری ہوا، تو مایوس کن بات یہ تھی کہ اس میں ایران پر اسرائیل کے حملوں کا تو ذکر تھا، مگر امریکہ کا کہیں نام شامل نہیں تھا۔

فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

 ستاون ممالک میں کوئی بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ پاکستان کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ایردوان کو بریف کرنے پہنچ گئے تھے، انہوں نے بھی افتتاحی سیشن میں شرکت کی۔

ایک اہم انکشاف یہ تھا کہ مسلم دنیا میں اب یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔

اس کانفرنس میں استنبول میں ہی ایک میڈیا فوم کے قیام کو منظوری دی گئی۔ اس کا خاکہ ایک دہائی قبل دیا گیا تھا، مگر ابھی بھی اس کا قیام باقی تھا۔ بتایا گیا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف یہ ایک مؤثر فورم کا کام کرےگا اور مسلم دنیا کےلیے بیانہ وضع کرنے کا بھی کام کرےگا۔

 ایک ایسے عہد میں جب تاثرات کی جنگ سفارتی میدانوں سے پہلے ڈیجیٹل دنیا میں لڑی جاتی ہے، مسلم دنیا کے لیے اپنی کہانی خود سنانا — بغیر مسخ، تعصب یا بیرونی مفروضات کے — نہ صرف ثقافتی ضرورت ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔

فورم کے تحت تربیتی پروگراموں کا آغاز، کردار کشی پر فوری ردعمل کے نظام، اور عوامی نشریاتی اداروں و میڈیا ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فروغ متوقع ہے۔

ایسے وقت میں جب ایک وائرل کلپ یا جھوٹی خبر بین الاقوامی پالیسی کو کمزور کر سکتی ہے یا نفرت انگیزی کو ہوا دے سکتی ہے، تو یہ پہل علامتی نہیں بلکہ ایک تزویراتی ضرورت بن چکی ہے۔

اسلاموفوبیا سے نمٹنے کی حکمت عملی کے طور پر شفارش کی گئی کہ اشتعال انگیز تقاریر کو قابل سزا جرم بنانا اور مذہبی تعصب کے خلاف تعلیمی اصلاحات کرنا اور اقوام متحدہ کی شراکت سے ایسے عالمی نظام کی تشکیل کرنا، جو مذہبی امتیاز کی تفتیش اور نگرانی کرکے اس پر فوری کاروائی بھی کرے۔ جس بھی ملک سے کوئی شہری اس ادراہ کے پاس امتیاز کی شکایت کرے، تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔

اگر یہ اقدامات عملی شکل اختیار کر لیں تو یہ بین الاقوامی قانون میں مذہبی رواداری سے متعلق اسلامی دنیا کا پہلا بامعنی کردار ہو گا۔

دہائیوں سے اسلامی ممالک تعصب اور نفرت کی نشاندہی کرتے رہے ہیں، اب وہ ان کا تدارک پیش کر رہے ہیں — ایک ایسی پیش رفت جسے مغربی جمہوریتیں نظرانداز نہیں کر سکتیں۔

اعلامیہ میں ایک حیران کن چیز یہ دیکھنے کو ملی  کہ جہاں برما کے روہنگیا وغیر کا تذکرہ کیا گیا تھا، اس میں چین کےشین جیانگ یا چینی ترکستان کے اویغور آبادی کا تذکرہ نہیں تھا۔

 چونکہ یہ اجلاس ہی استنبول میں منعقد ہو رہا تھا، جہاں جلا وطن ایغور آبادی آچھی خاصی ہے، تو ان کا ذکر نہ کرنا عجیب ہی لگا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے اعلامیوں میں جب ایغور آبادی کا تذکرہ ہوتا تھا تو چین اس پر سیخ و پا ہوتا تھا، جیسے ہندوستان کشمیر کے ذکر پر اسلامی تنظم کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔

 چند برس قبل چین نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ جدہ میں او آئی سی سکریٹریٹ کےلیے ایک خصوصی سفیر کا تقرر کیا۔ جس کی وجہ سے اس کو اسلامی تنظیم کے اندر رسائی حاصل ہوئی اور اس نے تنظیم کو آفر دی کہ وہ ہر سال اسلامی ممالک کے وفد کو شین جیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دیں گے اور اگر وہاں عوام کی بہبودی کےلیے ان کو کوئی سفارش کرنی ہو، تو براہ راست اسلامی تنظیم میں متعین چینی سفیر کو دیا کریں۔

اس کے بعد اعلامیہ میں ایغور آبادی کا ذکر آنا بند ہوگیا۔ یہ شاید ہندوستان کےلیے بھی ایک سبق ہے۔ بجائے اسلامی تعاون تنظیم کے اعلامیوں کو ہدف تنقید بنانے کے، انٹرایکشن کا ماحول ترتیب دینے کی کوشش کرے۔

 اسی کانفرنس کے دوران او آئی سی سکریٹریٹ نے چین کی وزارتِ تعلیم کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ جس کا مقصد وظائف، تعلیمی تبادلے اور مشترکہ تحقیق کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ جہاں او آئی سی عشروں سے مغربی اداروں سے منسلک رہی ہے، وہاں یہ شراکت ایک نئی جہت کی طرف اشارہ ہے — ترقی کے ایسے ماڈلز تیار کیے جائیں گے جو مغربی امداد کی شرائط سے آزاد ہوں گے۔

او آئی سی  ممالک کے لیے یہ ایک نایاب موقع ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو تعلیم، سائنس اور تحقیق کے میدان میں مغربی انحصار سے باہر نکلنے کے راستے فراہم کرے۔ چینی سفیر چانگ ہوا نے اس معاہدے کو دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات میں’اہم سنگِ میل’ قرار دیا اور تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، اور دیگر مشترکہ شعبوں میں مزید تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔

اسلامی دنیا میں اعلیٰ تعلیم، سائنسی تحقیق، علمی تبادلہ اور ادارہ جاتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اسٹریٹجک فریم ورک قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔جس میں بیس سے زائد ترک اعلیٰ تعلمی ادراے شامل ہوں گے۔

 اس کے ذریعے مشترکہ تحقیق، تربیتی پروگرام، اور رکن ممالک کی جامعات کے درمیان نیٹ ورکنگ کو تقویت ملے گی۔

اسی طرح او آئی سی مرکز برائے پولیس تعاون کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس میں ابتدا میں سات رکن، ترکیہ ، قطر، موریتانیا، بینین، گنی بساؤ، گیمبیا اور لیبیا شامل ہوں گے۔ یہ مسلم ممالک میں داخلی استحکام اور بین الاقوامی قانون نافذ کرنے کےلئے طریقہ کار وضع کرے گا۔

یہ مرکز ایک رضاکارانہ ماہر ادارے کے طور پر تربیت، انٹلی جنس شیئرنگ اور سرحد پار تعاون کو فروغ دے گا۔ دہشت گردی، سائبر جرائم اور انتہا پسندی جیسے چیلنجز کے لیے مشترکہ ردعمل کی ضرورت ہے، اور اگر اس مرکز کو وسعت دی جائے تو مسلم ممالک مغربی سکیورٹی سانچوں اور ٹکنالوجی پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔

اگر ان تمام اعلانات کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ او آئی سی کے نقطۂ نظر میں ایک خاموش لیکن فیصلہ کن تبدیلی کی نشان دہی کرتے ہیں۔

صدر ایردوان نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ مسلم دنیا کو صرف ردعمل دینے والا نہیں، بلکہ رہنمائی فراہم کرنے والا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس قیادت کا اندازہ تقریروں یا پریس ریلیز سے نہیں، بلکہ اُن اداروں، مراکز اور معاہدوں کے عملی اطلاق سے ہو گا جن کا  اعلان کیا گیا۔

استنبول کا یہ اجلاس ممکن ہے ایک ایسے لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے، جب او آئی سی نے ایک اخلاقی آواز سے بڑھ کر ایک منظم قوت بننے کی طرف پہلا قدم اٹھایا ۔ایک ایسا قدم جو محض ردعمل پر مبنی نہیں بلکہ بھرپور اقدامات کی طرف گامزن ہے۔

مگر اعلامیے کافی نہیں؛ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم اپنی آبادیاتی قوت کو ادارہ جاتی طاقت میں تبدیل کرے۔

ایران پر اسرائیل کے حملے کے حوالے سے وزرائے خارجہ نے ایک کھلے مینڈیٹ والے رابطہ گروپ کے قیام پر اتفاق کیا، جو دنیا کی بڑی طاقتوں سے رابطہ قائم کر کے کشیدگی میں کمی، اور اسرائیلی جارحیت کے احتساب کے لیے اقدامات کرے گا۔

اسرائیل کی ‘عدم استحکام پھیلانے والی پالیسیوں’ کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے خطرناک انسانی، معاشی اور ماحولیاتی نتائج پوری دنیا کو متاثر کریں گے۔

وزرائے خارجہ نے ان کوششوں کی مذمت کی جو اسرائیلی حکام کی جانب سے القدس الشریف کی تہذیبی شناخت کو مسخ کرنے اور مسجد اقصیٰ کی قانونی و تاریخی حیثیت بدلنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

اعلامیے میں اردن کی ہاشمی حکومت کی کوششوں کو سراہا گیا، جو یروشلم میں اسلامی و مسیحی مقدس مقامات کی متولی ہے۔ بیت المال القدس ایجنسی اور القدس کمیٹی کے کردار کی بھی تعریف کی گئی۔

او آئی سی نے یونیسکو کی ان قراردادوں کا خیرمقدم کیا جن میں مسجد اقصیٰ کو اسلامی عبادت گاہ قرار دیا گیا اور اردن کی انتظامی بالادستی کو تسلیم کیا گیا۔

ایردوان نے کہا کہ اسلامی تنظیم کے رکن ممالک کو صرف اپنے ہی مسائل کا حل نہیں نکالنا، بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کی آواز بھی بننا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم اقلیتیں، او آئی سی اور باقی دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہیں۔

 ان کا اشارہ مغربی اور دیگر ممالک میں مسلم اقلیت کی طرف تھا، جو ایک پل کا کام کرسکتے ہیں اور ان ممالک میں تنظیم کےلیے ایک اثاثہ ہیں۔ بدلے میں ان کی مفادات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے فلسطینی دھڑوں کے مابین اختلافات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛

یہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا فلسطین کی حمایت میں متحد ہے مگر ہمارے بھائی آپس میں تقسیم کا شکار ہیں۔

وحدتِ امت پر زور دیتے ہوئے ایردوان نے کہا؛

 استنبول سے لے کر القدس تک، ترکوں سے لے کر کردوں تک، سنیوں سے لے کر شیعوں تک — ہمارا قبلہ ایک ہے، تو ہمارا مقدر بھی مشترک ہے۔

ایک اہم پیش رفت میں، او آئی سی نے اقوامِ متحدہ میں مشترکہ سفارتی اقدام شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسرائیل کے جوہری پروگرا م کو دنیا کے سامنے کھولنے اور اس کو جوہری عدم پھیلاو کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کروانا ہے۔

یہ فیصلہ ایک بند کمرہ اجلاس میں کیا گیا، جو ایران کی درخواست پر منعقد ہوا۔ اس میں اسرائیل کو اپنے خفیہ جوہری ہتھیاروں کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی(آئی اے ای اے) کے تحت مکمل معائنہ کے لیے پیش کرنے پر مجبور کرنے کے لیے عالمی کوششیں تیز کرنے کا عزم کیا گیا۔

ایردوان نے مغربی طاقتوں پر دوہرے معیار برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا؛

 ایران جیسے این پی ٹی پر دستخط کنندہ ممالک پر دباؤ ڈالنے والے یہ کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف اس معاہدے سے باہر ہے، بلکہ معائنے کو بھی رد کرتا ہے؟

لگتا ہے کہ استنبول میں منعقدہ یہ اجلاس صرف تقاریر یا قراردادوں تک محدود نہیں رہا۔ اس نے امتِ مسلمہ کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا — ایسا راستہ جو جوہری توازن کی بحالی، مظلوموں کے دفاع، اور عالمی انصاف کے قیام پر مبنی ہے۔

آنے والے دن اور ہفتے اس بات کا امتحان ہوں گے کہ اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم صرف آواز بنے گی یا  اپنے کسی اعلان پرعمل بھی کرے گی۔