
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہےکہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے۔ یہ بیان ثقافتی ہی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے – جو زبان، تعلیم، پہچان اور عالمی مسابقت سے متعلق سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ خیال معاشرے میں تفرقہ پیدا کرتا ہے اور عدم مساوات کو وسیع کرتا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/امت شاہ)
نئی دہلی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جمعرات (19 جون، 2025) کو کہا کہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے، اور ایسا معاشرہ بننے میں اب زیادہ دیر نہیں ہے۔
شاہ نے یہ تبصرہ سابق آئی اے ایس افسر آشوتوش اگنی ہوتری کی کتاب ‘میں بوند سویم، خود ساگر ہوں’ کی تقریب رونمائی کے دوران کیا۔ اس پروگرام میں کی گئی ان کی تقریر کا ویڈیو نیوز ایجنسی اے این آئی نے اپنے ایکس ہینڈل پر شیئر کیا تھا، لیکن بعد میں اسے ہٹا لیا گیا۔ یہی نہیں، اے این آئی نے اپنی ویب سائٹ سے امت شاہ کے تبصرے کی بنیاد پر شائع ہونے والی خبر کو بھی حذف کر دیا۔
تاہم، ہندوستانی سیاست میں اس طرح کی باتیں پہلے بھی سننے کو ملتی رہی ہیں، لیکن امت شاہ کا یہ بیان اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں دوسرے اہم لیڈر مانے جاتے ہیں اور مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ یعنی ان کے بیان کو محض ذاتی رائے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا ہے بلکہ حکمران جماعت کے پالیسی اشارے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اس بیان کو ہندوتوا کے دیرینہ نظریہ – ‘ہندی، ہندو، ہندوستان’ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ صرف ایک ثقافتی تبصرہ نہیں رہ جاتا۔ اس کا اثر بہت گہرا اور وسیع ہے، جس میں قومی شناخت، سماجی ترقی، دانشوری اور ہندوستان کی بین الاقوامی امیج جیسے پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔
جہاں شاہ کا بیان ایک طرف ملک میں انگریزی زبان کے بارے میں عام تاثر کو چیلنج کرتا ہے، وہیں اس سے یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ کیا ہندوستان میں کسی زبان کا استعمال اب ثقافتی برتری بمقابلہ شرم کا معاملہ بن گیا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر ہندوستان کی کثیر لسانی شناخت کو ایک طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے – لیکن اندر سے اس شناخت کو ‘ایک زبان، ایک ثقافت’ کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوششیں بھی تیز ہوتی نظر آ رہی ہیں۔
امت شاہ کے بیان کے پانچ اہم پہلو یہ ہوسکتے ہیں؛
لسانی برتری اور تقسیم
ہندوستان کی اصل طاقت اس کے لسانی تنوع میں مضمر ہے۔ یہاں کوئی ایک قومی زبان نہیں ہے، لیکن آئین کے آٹھویں شیڈول میں 22 تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ ایسے میں انگریزی کو ‘غیر ملکی تسلط’ کہنے اور اسے ‘شرم’ سے جوڑنے کی سوچ لسانی برتری کو فروغ دیتی ہے۔
ہندوستان میں، انگریزی زبان اکثر ایک پل کا کام کرتی ہے – خاص طور پر اعلیٰ تعلیم، کاروبار اور بین ریاستی مواصلات میں۔ امت شاہ کے بیان کو ملک کے ان حصوں میں جہاں ہندی نہیں بولی جاتی ہے (خاص طور پر جنوبی ہندوستان، شمال مشرق اور مشرقی ہندوستان میں) ہندوتوا سیاست کی ہندی تھوپنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے علاقائی عدم اطمینان اور تقسیم کے گہرا ہونے کا خطرہ ہے۔
نوآبادیاتی وراثت کے بہانے ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوشش
امت شاہ کا بیان ہندی کو ہندوستانی شناخت کے مرکز میں قائم کرنے کی بی جے پی کی پرانی سیاسی حکمت عملی سے میل کھاتا ہے۔ انگریزی کو ‘نوآبادیاتی میراث’ اور ‘شرم’ کی علامت قرار دے کر، وہ قوم پرست جذبات سے فائدہ اٹھانے اور پارٹی کے حامیوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ان کی یہ زبان اس خیال کو فروغ دیتی ہے کہ سچا محب وطن وہ ہے جو ہندوستانی زبانوں کو اپناتا ہے (بنیادی طور پر بی جے پی کی نظر میں ہندی)۔
یہ درست ہے کہ نوآبادیاتی ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے، لیکن انگریزی اب عالمی رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جڑنے کا یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ ایسے میں انگریزی کو ‘شرم’ کے ساتھ جوڑنا ایک حساس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔
یہ نقطہ نظر عوام کی توجہ حقیقی مسائل جیسے کہ عوامی تعلیم کے معیار سے ہٹا سکتا ہے۔
ہندوستان کی عالمی مسابقت کو خطرے میں ڈالنے والا خیال
انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) اور خدمات کے شعبے میں ہندوستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت اس کے انگریزی بولنے والے نوجوانوں کے ذریعہ چل رہی ہے۔ یہ لسانی برتری ہندوستان کو چین جیسے ممالک سے الگ کرتا ہے اور اسے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بناتا ہے۔
لیکن جب امت شاہ جیسے سینئر لیڈر انگریزی کو شرم کا باعث قرار دیتے ہیں، تو اس سے پوری دنیا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ ہندوستان ایک تنگ نظر، ماضی میں الجھا ہواملک بن رہا ہے، جو اپنی طاقت کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے۔
اس طرح کا رویہ نوجوانوں کو ان مہارتوں سے محروم کر سکتا ہے جو انہیں عالمی مسابقت میں برتری فراہم کرتی ہیں – ہندوستان کے معاشی مستقبل کو متاثر کرتی ہے۔
اگر شاہ کے بیان کو ہندوتوا حکومت کی پالیسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تو یہ ایک کھلے، جدید اور عالمی سطح پر جڑے ہوئے ملک کے طور پر ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سماجی تحرک اور تعلیم پر اثرات
ہندوستان میں انگریزی کو اکثر بہتر تعلیم، ملازمتوں اور اعلیٰ سماجی حیثیت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امت شاہ کا انگریزی کو شرم کے ساتھ جوڑنے سے لاکھوں لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے جو عملی وجوہات کی بنا پر یہ زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔
اس بیان کے تعلیمی پالیسی پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں – خاص طور پر زبان سے متعلق فیصلوں میں۔ اگر انگریزی کو تعلیم سے ہٹا دیا جاتا ہے، تو غیر مراعات یافتہ طلباء کے لیے عالمی مواقع تک رسائی مشکل ہو سکتی ہے۔
اس سے شہری اور دیہی تقسیم اور انگلش میڈیم بمقابلہ مقامی میڈیم اسکولوں کے درمیان فرق مزید بڑھ سکتا ہے، جس سے معاشرے میں عدم مساوات بڑھنے کا خطرہ ہے۔
دانشوری کی مخالفت اور ثقافتی پسماندگی کا فروغ
انگریزی بولنے کو ‘شرم’ سے جوڑنا دانشوری کی شدید مخالف کی علامت ہے۔ امت شاہ کا بیان ان لوگوں کو حاشیے پر ڈالتا ہے، جو انگریزی میں بے ساختگی سے بات چیت کرسکتے ہیں – اور اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بہتر تعلیم یافتہ، عالمی سطح پر جڑے ہوئے اور ہندوستان کے نمائندہ چہرے ہیں۔
اس سے یہ پیغام جاتاہے کہ کھلا، عالمی نقطہ نظر ہندوستانی نہیں ہے۔ اس طرح کی سوچ ہندوستان کو دنیا سے جوڑنے کے بجائے اندر کی طرف موڑ دیتی ہے، جو سماجی اور ثقافتی تنگ نظری کو فروغ دیتاہے۔