اسرائیل کا جوہری پروگرام: پردہ اٹھانے کی ضرورت

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae

پوکھرن میں جوہری تجربات کے چار ماہ بعد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرنے کے لیے ستمبر  1998کو نیو یارک آپہنچے تھے۔ منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس ان کے کام کا طریقہ نہایت آسان، سست مگر چست ہوتا تھا۔ وہ صرف کام اور کام پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بالعموم وہ شام کو کوئی اپائنٹمنٹ نہیں رکھتے تھے اور دن میں بھی لنچ کے بعد وہ وزیر اعظم ہاؤس کے احاطہ میں موجود رہائشی بنگلہ میں قیلولہ کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے بیرون ملک ان کے سرکاری دورے تین دن کے بجائے پانچ دن کے رکھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ میڈیا ٹیم کے مزے ہوتے تھے۔

ایک تو وہ خود بھی ملنا جلنا پسند کرتے تھے۔ پھر چونکہ ان کی تین یا چار سے زیادہ اپائنٹمنٹ نہیں ہوتی تھیں، اس لیے میڈیا ٹیم کو اس شہر کو دیکھنے اور خریداری کرنے کے بھر پور مواقع فراہم ہوتے تھے۔

یہ عیاشیاں سنگھ کے دور میں نہیں ہوسکتی تھی،کیونکہ ان کے کام کاج کا اسٹائل ہی اذیت بھرا ہوتا تھا۔ مودی نے ویسے تو میڈیا ٹیم کو ساتھ لینا ہی بندکردیا، مگر ان کا بھی ورک اسٹائل منموہن سنگھ جیسا خود گزیدہ ہے۔

خیر نیو یارک کے اس دورہ کے دوران ان کی اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہو گئے تھے۔ میڈیا ٹیم کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ملاقاتوں کے حوالے سے دوپہر کو بریفنگ ہوگی اور تب تک ہندوستانی سفارت خانے نے ان کے لیے شہر گردی کا پروگرام رکھا  ہواہے۔

ایک ہندی اخبار کے ایڈیٹر کا اپنا کوئی پروگرام تھا، اس لیے انہوں نے اس ٹیم میں شمولیت نہیں کی۔ اسی ہوٹل کے ایک سیوٹ میں نیتن یاہوکو وزیر اعظم واجپائی کا استقبال کرنا تھا۔ جب یہ ایڈیٹر باہر جانے کے لیے لابی میں آئے، تو واجپائی دروازے سے اندر آرہے تھے۔ چونکہ وہ خاصے یار باش شخص تھے اور ایڈیٹر صاحب کو ایک عرصے سے جانتے تھے انہوں نے ان کا حال چال پوچھا اور ہاتھ پکڑ کر سیوٹ میں اپنے ساتھ لے گئے، جہاں نیتن یاہو ان کا انتظار کر رہے تھے۔

 اسرائیلی وزیر اعظم نے واجپائی کا استقبال کرتے اور ان کو گلے لگاتے ہوئے کہا؛

مسٹر پرائم منسٹر، اب آپ نیوکلیر ہیں، ہم نیوکلیر ہیں، کیوں نہ ہم اس طرح (گلے لگتے ہوئے) پاکستان کو کرش کریں۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے افسران کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلی بار نیوکلیر ہونے کا اعلان ایک صحافی کے سامنے کر رہے تھے۔ واجپائی ابھی بھی ایڈیٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کو اپنے پاس ہی بٹھایا ہوا تھا۔

خیر سفارت خانے کے کسی افسر کی دماغ کی بتی جل گئی، انہوں نے ایڈیٹر صاحب سے کہا کہ باہر ریسیپشن پر آپ کا فون آیا ہے۔ ان کو باہر لےجاکر دروازہ بند کروادیا۔ ان کو تاکید کی گئی کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا، اس کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے اور سرگوشیوں میں بھی کبھی یہ سننے میں نہیں آنا چاہیے، ورنہ ان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

ایڈیٹر صاحب اور میڈیا ٹیم میں جن افراد کو بھنک مل گئی تھی، نے بھی اس کی کسی کو ہوا لگنے دی نہ کبھی اس کو اخبارات کی زینت بنادیا۔

خیر جس طرح خاص طور پر مغربی دنیا  ابھی ایران اور شمالی کوریا اور ماضی میں پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی پروگرام پر نظریں جمائے ہوئے بیٹھی تھی، اب وقت آگیا ہے کہ ان کو اسرائیل کے مبہم اور غیر اعلانیہ ایٹمی ذخیرہ کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح کے غیرذ مہ دار لیڈران اس وقت تل ابیب میں برسر اقتدار ہیں، وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

اسی ایٹمی ذخیرہ کی سیکورٹی اور اس کے غلط استعمال کو روکنا بین الاقوامی سفارت کاری کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ویسکونسن پروجیکٹ آن نیوکلئیر آرمز کنٹرول کے مطابق اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان کے ذخیرے کا اندازہ 90 سے لے کر 400 وار ہیڈز تک لگایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایک مکمل ایٹمی سہ جہتی نظام (ٹریایڈ) تیار کر لیا ہے: ایف-15 اور ایف-16 لڑاکا طیاروں سے بم گرانے کی صلاحیت، ڈولفن کلاس آبدوزوں سے کروز میزائل داغنے کی صلاحیت، اور بین البرِاعظمی مار کرنے والی ‘یریکو’ میزائل سیریزان کی اسلحہ انوینٹری میں شامل ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے اپنا پہلا قابلِ استعمال ایٹمی ہتھیار 1966 کے آخر یا 1967 کے اوائل میں تیار کر لیا تھا، جو اسے دنیا کی آٹھویں ایٹمی قوت بناتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ‘مبہم پالیسی’ اختیار کر رکھی ہے—نہ کبھی تصدیق نہ انکار کیا۔

اس مبہم پالیسی کو حالیہ دنوں میں ایران پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے بعد ایک بار پھر توجہ ملی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ نہ صرف تہران بلکہ پورے خطے کو اسرائیل کی روایتی اور ممکنہ ایٹمی صلاحیتوں کا پیغام تھے۔

جوہری امور کی ماہر سوزی سنائیڈر نے اس حوالے سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر بھی بات کرے، جو خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔عالمی شفافیت کے مطالبوں کے باوجود، اسرائیل نے آج تک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کیے۔

اس کا موقف ہے کہ علاقائی امن اور باہمی اسلحہ کنٹرول کے معاہدے اس سے پہلے ہونا چاہیے۔ یہی موقف اسے بین الاقوامی معائنے کے نظام سے باہر رکھتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی مسلسل مانیٹرنگ کرتی ہے، مگر اسرائیلی جوہری پروگرام تک اس کی رسائی ہے نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکام کے بیانات سے اس کی صلاحیتوں کو زیادہ واضح طور پر تسلیم کرنے کے اشارے ملے ہیں۔ 2023 میں اُس وقت کے وزیرامیحائی ایلیاہو،  نے غزہ پر ایٹم بم استعمال کرنے کی تجویز  دی تھی، جس پر انہیں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے معطل کر دیا۔

اگرچہ اس بیان کی سرکاری طور پر تردید کی گئی، مگر اس نے اسرائیل کے ایٹمی ارادوں اور تیاریوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی۔

اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ  1948 میں اس کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ فرانس کی مضبوط پشت پناہی اور خفیہ ذرائع سے ضروری مواد اور ٹکنالوجی حاصل کر کے، اسرائیل نے ‘دیمونا’ میں نیگیو نیوکلئیر ریسرچ سینٹر تعمیر کیا۔1986 میں ایک وسل بلور خائی وانونو کے انکشافات نے اس پروگرام کی پہلی جھلک دنیا کے سامنے رکھی، جس میں ایڈوانس ہتھیاروں کے ڈیزائن، بشمول تھرمو نیوکلئیر وار ہیڈز کی تصاویر شامل تھیں۔

وانونو کو بعد میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روم سے اغوا کر کے اسرائیل لا کر غداری کے الزام میں سزا دلوادی۔نامور مؤرخ ایوینر کوہن کے مطابق، اسرائیل نے 1966 میں باضابطہ طور پر اپنی ایٹمی پالیسی تشکیل دی۔ اس کی نیوکلیر ڈاکٹرائن میں چار ریڈ لائنز متعین کی گئیں۔ان میں  اسرائیل کی 1967 سے پہلے کی سرحدوں میں فوجی مداخلت، اسرائیلی فضائیہ کی مکمل تباہی؛ اسرائیلی شہروں پر زہریلی گیس یا حیاتیاتی ہتھیاروں سے مہلک فضائی حملے؛ اور اسرائیلی سرزمین پر ایٹمی حملہ شامل ہیں۔

معروف صحافی سیمور ہرش نے اپنی کتاب ‘دی سیمسن آپشن’ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل  1973 کی یوم کپور جنگ کے دوران ایٹم بم کو استعمال کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ 8 اکتوبر کو، جنگ کے چند دن بعد، وزیرِاعظم گولڈا مئیر اور ان کے مشیروں نے مبینہ طور پر آٹھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایف-4 فینٹم طیاروں کو ‘تل نوف’ ائیر بیس پر ہمہ وقت الرٹ پر رکھاہوا تھا۔ اسی دوران ‘سدوت میخا’ بیس پر جوہری میزائل لانچرز بھی فعال کیے گئے تھے۔

ہرش کے مطابق، اسرائیل کے ابتدائی اہداف میں قاہرہ اور دمشق میں مصری اور شامی فوجی ہیڈکوارٹر شامل تھے۔ یہ الرٹ محض دفاعی نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کے لیے پیغام تھا کہ وہ اپنے عرب اتحادیوں کو لگام دے، اور امریکہ پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ اسرائیل کی بکھری ہوئی فوج کے لیے بھاری فوجی امداد فراہم کرے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک سوویت انٹلی جنس افسر نے مصر کے فوجی سربراہ کو اسرائیلی ایٹمی تیاریوں سے آگاہ کیا تھا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے قریبی افراد نے بعد میں تسلیم کیا کہ جوہری خطرے کے خدشے نے واشنگٹن کو فوجی امداد کے جلد آغاز پر مجبور کردیا۔

کسنجر کے سوانح نگار مارٹن انڈک کے مطابق اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کے بھر م کو توڑنے کے لیے اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکہ نے مداخلت سے گریز کیا تھااو ر مصر کو پوری آزادی دی۔ اسرائیل کے دماغ میں دوبارہ بٹھایا گیا کہ اس کا وجود امریکہ کے مرہون منت ہے۔

ہرش کا مزید کہنا ہے کہ سیٹلائٹ نگرانی کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے، اسرائیل نے سوویت اہداف کی معلوما ت امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی جاسوسی کرکے حاصل کی تھی۔ 1991 کی خلیجی جنگ میں جب عراق نے اسرائیل پر اسکڈ میزائل داغے، اسرائیل نے مکمل ایٹمی الرٹ نافذ کردیا تھا۔ ممکنہ کیمیائی یا حیاتیاتی حملے کے خدشے کے تحت جوہری صلاحیت والے موبائل میزائل لانچرز تعینات کیے گئے۔ اگرچہ اسرائیل نے امریکی دباؤ کے تحت جوابی کارروائی سے گریز کیا، لیکن یہ لمحہ بھی ایک سنجیدہ جوہری غور و فکر کی مثال بن گیا۔

اسی طرح 2003  میں بھی امریکی صدر جارج بش کو اسرائیلی وزیرِاعظم ایرئیل شیرون نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، تو اسرائیل ایٹمی اسلحہ کا استعمال کر سکتا ہے۔

فوجی تجزیہ کار اور منصوبہ ساز تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کی جوہری پالیسی کبھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن یہ قومی سلامتی کے اصولوں کا بنیادی جزو بن چکی ہے۔

لوئس رینی بیرس، جو ‘پروجیکٹ ڈینیئل’ کے نمایاں رکن ہیں، نے اس پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو اپنی حکمت عملی امریکی پنٹاگون کی ‘ڈاکٹرائن فار جوائنٹ نیوکلئیر آپریشنز ‘کے مطابق رکھنی چاہیے، جو پیشگی حملے پر زور دیتی ہے۔اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں دانستہ ابہام اب بھی ایک مؤثر سفارتی ڈھال کا کام دے رہا ہے۔

مگر مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، جہاں غیر روایتی خطرات اور ہائبرڈ جنگوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ پرانی ‘ریڈ لائنز”بھی بدل سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایٹمی استعمال کے خطرہ بھی حقیقت بن چکا ہے۔

اسرائیل کے رہنماؤں نے متواتر ایٹمی ہتھیاروں کو قومی بقا کا آخری سہارا قرار دیا ہے، اور اکثر ہولوکاسٹ کے ساتھ اس کو نتھی کیا جاتا ہے۔  ‘سیمسن آپشن’یعنی بڑے خطرے کی صورت میں زبردست جوابی کارروائی اسی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔

اسی طرح 1980 کی دہائی میں بنائی گئی ‘بیگن ڈاکٹرائن’کے تحت اسرائیل کسی بھی دشمن ریاست کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی اصول کے تحت عراق کا ‘اوسیرک’ ری ایکٹر 1981 میں، شام کی ممکنہ جوہری تنصیب 2007 میں، اور ایران کے ‘نطنز’ پلانٹ پر ‘سٹکس نیٹ’ سائبر حملہ 2010 میں کیا گیا۔ اب حال میں ایران پر حملوں کا جواز بھی یہی ڈاکٹرائن فراہم کرتی ہے۔

اسرائیل مسلسل اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جانچ سے بچاتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قراردادوں میں، عرب ممالک اور دیگر غیر وابستہ ریاستیں مسلسل اسرائیل پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ این پی ٹی  یعنی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہو کر اپنے جوہری اثاثے عالمی معائنے کے لیے کھول دے۔ مگر اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی کے باعث ڈٹا ہوا ہے۔امریکہ کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ مفاہمت کے تحت،  اسرائیل جوہری ہتھیا کا تجرنہ کرتا ہے، نہ اس کا اعلان کرتا ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل کے ایٹمی ‘ڈیلیوری سسٹمز’  ایک خطرناک سہ جہتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق، یریکو-III میزائل بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور بین البرِاعظمی مار کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی فضائیہ کے ترمیم شدہ ایف-15I اور ایف-16I طیارے دور دراز اہداف پر حملہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عراق، شام اور اب ایران میں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جرمن ساختہ ڈولفن کلاس آبدوزیں جوہری صلاحیت والے کروز میزائل سے لیس ہیں، جو ‘سیکنڈ اسٹرائیک’ کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ جہاں واشنگٹن ایران پر تو سختی کرتا ہے مگر اسرائیل کی طرف آنکھیں بند رکھتا ہے۔

اب یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے۔ 2009 میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 300 سے زائد وار ہیڈز ہو سکتے ہیں۔ ‘بلٹن آف اٹامک سائنٹسٹس’کے حالیہ جائزے میں اس تعداد کو تقریباً 80 بتایا گیا ہے، مگر مزید ہتھیار بنانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔

اسرائیلی پروگرام کو ابتدائی طور پر غیر ملکی مدد سے فروغ ملا۔ فرانس نے دیمونا ری ایکٹر کی تعمیر اور ری پروسیسنگ ٹیکنالوجی فراہم کی۔ برطانیہ اور ناروے نے خفیہ یا بالواسطہ طریقوں سے بھاری پانی اور یورینیم مہیا کیا۔ جنوبی افریقہ سے بھی 1970 کی دہائی میں جوہری تعاون کے شواہد موجود ہیں۔

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

لیکن ناقدین کے مطابق، یہ خطے میں اسلحہ کنٹرول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور خاص طور  پڑوسی ممالک میں عدم تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔ جہاں ایران کا 60 فیصد یورینیم افزودہ کرنا پابندیوں اور دھمکیوں کا سبب بنتا ہے، وہاں اسرائیل کے درجنوں یا سینکڑوں جوہری ہتھیار سفارتی سطح پر سوال سے بھی بچے رہتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور سیاسی بیانیے میں ایٹمی خطرات دوبارہ ابھر رہے ہیں، اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر دہائیوں سے چھایا ہوا سکوت اب برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی تزویراتی زمین، ایران کے ساتھ  کشیدگی کا عروج، اور عالمی سطح پر جوہری خطرات کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد، یہ تقاضا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جوہری مساوات میں دوہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔

اگر ایران، شمالی کوریا  یاکسی اور ملک کی ایٹمی سرگرمی پر دنیا کی نظریں فوری طور پر مرکوز ہو جاتی ہیں، تو اسرائیل جیسے غیر اعلانیہ جوہری طاقت کو مسلسل استثنیٰ دینا نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی اصولوں کی ساکھ کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کی جوہری حقیقتوں پر سے بھی وہ پردہ ہٹایا جائے جس نے ایک خاموش مگر مہلک خطرے کو برسوں سے عالمی نظروں سے چھپائے رکھا ہے۔

Next Article

بہار: الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ووٹر لسٹ سے 35.6 لاکھ نام باہر ہو جائیں گے

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں ڈرافٹ ووٹر لسٹ کی اشاعت کے بعد 35.6 لاکھ سے زیادہ ووٹر ووٹر لسٹ سے باہر ہو جائیں گے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں ،جن کی  یا تو موت ہوگئی ہے، یا بہار سے باہر چلے گئے ہیں یا پھر ان کے نام ایک سے زیادہ جگہوں پر درج ہیں۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریاست کے 1.59فیصد رائے دہندگان کی موت ہو چکی ہے، 2.2فیصد مستقل طور پر شفٹ ہو گئے ہیں اور 0.73فیصد ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ پائے گئے ہیں۔ تصویر بہ شکریہ : ایکس

نئی دہلی: الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں ڈرافٹ ووٹر لسٹ کی اشاعت کے بعد 35.6 لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان ووٹر لسٹ سے باہر ہو جائیں گے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی  یا تو موت ہو چکی ہے، یا بہار سے باہر چلے گئے ہیں، یا پھر ان کے نام ایک سے زیادہ جگہوں پر درج ہیں۔

بہار میں ووٹر لسٹ کے ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر)’ پر اپنی تازہ ترین ریلیز میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس کے اہلکاروں کے ذریعے ‘گھر گھر جاکر’ سروے کے دو مرحلوں کے بعد کل ووٹروں میں سے 88.18فیصد نے اپنے فارم جمع کیے ہیں۔

واضح ہو کہ ریاست میں ووٹر لسٹ میں ترمیم کی یہ مشق اس سال نومبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل شروع کی گئی ہے۔

کمیشن کے مطابق، یہ 88.18 فیصد تعداد بہار میں 7,89,69,844 (7.8 کروڑ) ووٹروں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان میں سے 83.66فیصد یا 6,60,67,208 (6.6 کروڑ) ووٹروں نے اپنے فارم جمع کرائے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے دیگر ووٹروں کی تفصیلات میں کہا کہ ریاست کے 1.59فیصد رائے دہندگان (12,55,620) کی موت ہوچکی ہے، 2.2فیصد مستقل طور پر منتقل ہو گئے (17,37,336) اور 0.73فیصد ووٹرز (5,76,479) ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ پائے گئے۔

مجموعی طور پر یہ تعداد 35,69,435 یا 35.6 لاکھ سے زیادہ ووٹروں کی ہے۔ اس طرح ایس آئی آر کا تیسرا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے ہی بہار میں ووٹر لسٹ سے 35.6 لاکھ سے زیادہ ناموں کو حذف کر دیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ ووٹر لسٹ کا مسودہ 1 اگست کو شائع کیا جائے گا۔

دریں اثنا، الیکشن کمیشن نے اس مرحلے میں ان لوگوں تک رسائی کے لیے اخبارات میں اس عمل کی تشہیر شروع کر دی ہے جو بہار سے عارضی طور پر باہر چلے گئے ہیں۔ کئی اخبارات نے صفحہ اول پر ایس آئی آر کے عمل کے بارے میں اشتہارات دیے ہیں۔

دی ٹریبیون کے صفحہ اول پر بہار ایس آئی آر پر الیکشن کمیشن کا اشتہار۔

الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے ووٹر اپنے موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے ای سی آئی نیٹ ایپ کے ذریعے یا ووٹرزڈاٹ ای سی آئی ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ان پر آن لائن فارم کے ذریعے (ایس آئی آرکے رہنما خطوط کے پیرا 3(ڈی) کے مطابق) آسانی سے فارم بھر سکتے ہیں۔ وہ اپنے فارم متعلقہ بی ایل او کو اپنے خاندان کے افراد کے ذریعے یا وہاٹس ایپ یا اس سے ملتے جلتے کسی آن لائن میڈیم کے ذریعے بھی بھیج سکتے ہیں۔

معلوم ہو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اچانک ایس آئی آر جاری کرنے کے عمل کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ عدالت نے اس سلسلے میں کمیشن سے 28 جولائی تک جواب طلب کیا ہے۔

دریں اثنا، الیکشن کمیشن نے 11 دستاویزوں کی فہرست بھی تیار کی ہے جسے ووٹر اس عمل کے لیے جمع کرا سکتے ہیں۔

پچھلی سماعت میں سپریم کورٹ نے کمیشن سے کہا تھا کہ وہ اس فہرست میں ووٹر شناختی کارڈ، آدھار کارڈ اور راشن کارڈ کو شامل کرنے پر غور کرے ۔

دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق،کئی جگہوں پربی ایل او (بلاک سطح کے افسر) ص درست دستاویزرکھنے والوں سے بھی صرف آدھار کارڈ ہی لے رہے ہیں ۔

Next Article

بہار ووٹر لسٹ پر نظرثانی کے درمیان آسام کا مطالبہ – الیکشن کمیشن نظرثانی کے عمل میں این آر سی پر غور کرے

آسام کے حکام نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ چونکہ یہ واحد ریاست ہے جس نے پہلے ہی این آر سی کی تیاری کا عمل شروع کر دیا ہے، اس لیے جب بھی الیکشن کمیشن ریاست کی انتخابی فہرست کے ایس آئی آر کے لیے اہلیت کے دستاویز کی فہرست کو حتمی شکل دے تو اس کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: آسام کے حکام نے الیکشن کمیشن (ای سی) سے کہا ہے کہ چونکہ یہ واحد ریاست ہے جس نے شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کی تیاری کا عمل پہلے ہی شروع کر دیا ہے، اس لیے جب بھی ای سی اپنی ٹائم لائن طے کرے اور ریاست کی انتخابی فہرستوں کی ایس آئی آرکے لیے اہلیت کے دستاویزوں کی فہرست بنائے تو اس پہلو کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، آسام حکومت کے ذرائع نے کہا کہ چونکہ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے اہلیت کا فیصلہ کرتے ہوئے شہریت کے پہلو پر بھی غور کر رہا ہے – اور یہ دیکھتے ہوئے کہ آسام میں شہریت کی تصدیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، این آر سی کے شائع ہونے کے بعد ایس آئی آر کے لیے قابل قبول دستاویزوں میں ایک بن سکتا ہے۔ اس لیے ریاست نے یہ درخواست  کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حزب اختلاف کی جماعتیں الزام لگا رہی ہیں کہ بہار ایس آئی آر عملی طور پر شہریت کی تصدیق کا عمل  ہے – یعنی پچھلے دروازے سے این آر سی – اور یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں  ہے۔

اگر بہار میں ایس آئی آر کی مشق شروع ہونے کے بعد آسام کی درخواست کو قبول کر لیا جاتا ہے، تو اس کا واضح مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست کے ایس آئی آر میں تاخیر ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسام این آر سی – ریاست میں دہائیوں سے جاری آبادیاتی خدشات کو دور کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلنے والا عمل – غیر یقینی صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔

معلوم ہو کہ آسام میں این آر سی ہندوستانی شہریوں کی شناخت اور انہیں غیر قانونی تارکین وطن سے الگ کرنے کے لیے ایک طویل مدتی اور حساس عمل ہے۔ 2019 میں این آر سی کا مسودہ شائع ہونے کے بعد سے، 3.3 کروڑ درخواست دہندگان میں سے تقریباً 19.6 لاکھ لوگ باہر رہ گئے ہیں۔ تاہم، اس این آر سی کو ابھی تک مطلع نہیں کیا گیا ہے۔

تب سے، بی جے پی کی قیادت والی دونوں ریاستی حکومتوں نے کہا ہے کہ وہ فہرست کو اس کی موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں سمجھتے ہیں۔

آسام حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں شامل اور خارج کیے گئے نام غلط ہیں، اور یہ کہ اس میں ‘اصل باشندوں’ کو شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ ‘غیر ملکیوں’ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، 24 مارچ 1974 – این آر سی کی آخری تاریخ – کے بعد غیر قانونی طور پر ریاست میں داخل ہونے والوں کی تعداد 19 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔

سال 2019 کے این آر سی کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے دوبارہ تصدیق کا سوال اٹھایا گیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

گزشتہ ماہ ایک خصوصی اسمبلی اجلاس میں وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ ریاستی حکومت ابھی بھی بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل اضلاع میں فہرست کے 20فیصد اور باقی اضلاع میں 10فیصد کی دوبارہ تصدیق کرنے کے عمل میں ہے۔

اخبار نے ایک ذرائع کے حوالے سے کہا،’این آر سی جاری ہونے والا ہے۔ اسے ایک یا دو ماہ میں، ممکنہ طور پر اکتوبر تک جاری کیا جائے گا۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہم محسوس کرتے ہیں کہ تصدیق کے بعد تیار کردہ این آر سی ڈیٹا – اور دوبارہ تصدیق کا عمل بھی جاری ہے – شہریت ثابت کرنے کے لیے ایک مثالی دستاویز ہوگا۔ یہ ان دستاویزوں میں سے ایک ہو سکتا ہے جن پر مکمل نظر ثانی کے لیے غور کیا جائے گا۔’

معلوم ہو کہ بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کرنے کے الیکشن کمیشن کا فیصلہ تنازعات میں گھرا ہوا ہے ۔

Next Article

سال 2020 سے اب تک ہوائی جہاز کے انجن بند ہونے کے 65 واقعات، 17 ماہ میں 11 مے ڈے کال: رپورٹ

ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) سے موصولہ جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہوائی جہاز کے انجن بند ہونے کے 65 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

علامتی تصویر۔تصویر بہ شکریہ: فلکر

نئی دہلی: حکومت ہند کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ معلومات میں انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہوائی جہاز کے انجن بند ہونے کے 65 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں یہ  انکشاف ہوا ہے کہ 17 مہینوں میں ہوائی جہاز کے کاک پٹ سے 11 ‘مے ڈے’ یعنی ہنگامی کال کیے گئے۔

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تقریباً ہر ماہ ہندوستان میں کام کرنے والی ایئر لائنز میں انجن کی خرابی کے مسائل سامنے آتے ہیں اور یہ کتنا عام ہو گیا ہے ۔ اس سلسلے میں اخبار کو دی گئی ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ڈی جی سی اے نے کہا، ‘2020 سے 2025 (اب تک) ملک بھر میں پرواز کے دوران انجن بند ہونے کے کل 65 واقعات رپورٹ ہوئے۔’

ان تمام 65 معاملات میں پائلٹ ایک انجن کے ساتھ طیارے کو بہ حفاظت قریبی ہوائی اڈے پر اتارنے میں کامیاب رہے۔

ڈی جی سی اے کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 1 جنوری 2024 سے 31 مئی 2025 کے درمیان 11 پروازوں سے ‘مے ڈے’ کال موصول ہوئے، جس میں مختلف تکنیکی خرابیوں کی اطلاع دی گئی اور ہنگامی لینڈنگ کی درخواست کی گئی۔

اعداد و شمار میں 12 جون کو احمد آباد میں گر کر تباہ ہونے والی پرواز اےآئی171 اور19 جون کو ڈائیورٹ کی گئی انڈیگو کی گھریلو پرواز  شامل نہیں ہے ۔

اعداد و شمار کے مطابق، 11 میں سے 4 پروازوں نے تکنیکی خرابی کی وجہ سے مے ڈے کال جاری کیے تھے اور یہ طیارے حیدرآباد میں اترے تھے۔

اس سلسلے میں ایئر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن آف انڈیا (اے ایل پی اے) کے سکریٹری انل راؤ نے اخبار کو بتایا، ‘ہوائی جہاز میں آگ لگنے، انجن میں خرابی جیسی سنگین ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے پر فلائٹ کا عملہ مے ڈے کال دیتا ہے، جس کے لیے فوری لینڈنگ یا گراؤنڈنک  کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ایسی صورتحال میں پرواز جاری رکھنا غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔’

Next Article

کیا بہار میں ووٹر لسٹ رویژن کو لے کر بی جے پی بیک فٹ پر آ گئی ہے؟

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بہار میں بی جے پی بیک فٹ پر آ گئی ہے۔ بی جے پی کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے ایک ممبرنے دی نیو انڈین ایکسپریس کو بتایا، ‘جب ہم لوگوں کو کال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے کیا امید رکھتے ہیں، تو زیادہ تر لوگ ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بی جے پی کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے اپلوڈ کی گئی ایک تصویر

نئی دہلی: اب تک کی میڈیا میں آ رہی خبریں  اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ، جو غریبوں اور پسماندہ طبقات کو حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے اور ان کو ‘غیر ملکی‘ قرار دیا جا سکتا ہے، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو انتخابی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

تاہم، اب ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی خود اس معاملے پر بیک فٹ پر آ گئی ہے ۔

دی نیو انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ، بی جے پی کی اندرونی پری پول سروے ٹیموں کو عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ لوگ ووٹر لسٹ سے اپنےنام نکالے جانے کے خدشات کا اظہار کر تے ہوئے  بی جے پی سے ناراض ہیں۔

رپورٹ میں بی جے پی کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے ایک ممبر کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘جب ہم لوگوں کو کال کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے کیا امید رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کے خوابوں کو پورا کرنے میں بی جے پی کی کس طرح مدد کریں گے، تو زیادہ تر لوگ ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بی جے پی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔

ٹیم کے ایک اور ممبر نے اخبار کو بتایا، ‘ہم 10 سے جن 6-7لوگوں سے بات کرتے ہیں، وہ کھل کر بی جے پی کے تئیں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔’

بتادیں کہ بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کچھ دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر نتیش کمار کی قیادت میں حکومت چلا رہی ہے۔

رپورٹ میں حاجی پور کے ایک ووٹر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان کے نام ووٹر لسٹ میں کئی دہائیوں سے درج ہیں لیکن اب ‘بی جے پی کے کہنے پر الیکشن کمیشن جو ووٹر لسٹ میں  ترمیم کروا رہا ہے، اس  میں ہم سے شہریت کا ثبوت مانگا جا رہا ہے۔’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نئے قدم کے بعد بی جے پی کے پرانے حامیوں کو بھی پارٹی کے تئیں اپنی وفاداری کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبورہونا پڑ رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس عمل کی وجہ سے خود بی جے پی کے بہت سے ووٹر پولنگ بوتھ سے باہر ہو سکتے ہیں۔

بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘یقین کریں یا نہ کریں، لیکن تقریباً 15-20 فیصد بی جے پی اور 10-15 فیصد جے ڈی یو ووٹر اس بار ووٹ نہیں ڈال سکیں گے کیونکہ ان کے پاس ضروری دستاویز نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس آدھار اور ووٹر آئی ڈی ہے، لیکن اس نئی ترمیم میں انہیں قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ بدھ (9 جولائی) کو بائیں بازو کی جماعتوں، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد نے اس ترمیمی عمل کے خلاف بہار بند کی کال دی تھی۔

Next Article

اتر پردیش: کانوڑ یاترا پر تبصرہ کرنے پر ٹیچر کے خلاف ایف آئی آر درج

اترپردیش کے بریلی میں سرکاری اسکول کے ٹیچر رجنیش گنگوار کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ انہوں نے دعائیہ اجتماع میں ایک نظم کے ذریعے ‘کانوڑ یاترا’ کے بجائے ‘گیان کے  دیپ جلانے’ کی بات کہی تھی۔ اس پردائیں بازو کے گروپوں نے اعتراض کیا تھا، جس کے بعد کیس درج کیا گیا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا

نئی دہلی: اترپردیش کے بریلی میں ایک سرکاری اسکول کے استاد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق،انہوں  نے ایک نظم سنائی جس میں مبینہ طور پر مذہبی یاترا اور ‘توہم پرستی’ پر تعلیم کو ترجیح دینے کی بات کی گئی تھی۔

پانچ منٹ کے اس ویڈیو کا 26 سیکنڈ کا حصہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں استاد رجنیش گنگوار کو دعائیہ اجتماع کے دوران ایک ہندی نظم پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بول یہ ہیں، ‘کانوڑ لینے مت جانا۔ تم گیان کے دیپ جلانا۔ مانوتا کی سیوا کرکے ،سچے مانو بن جانا۔’

مکمل ویڈیو-

اس تبصرے کے بعد سوشل میڈیا پر ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، جس میں اس نظم کو ساون کے مہینے میں نکلنے والے کانوڑیاترا پر تنقید کے طور پر دیکھا گیا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، یہ ایف آئی آر ‘کانوڑ سیوا سمیتی’ نامی تنظیم کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔

اخبار نے بہیڑی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سنجے تومر کے حوالے سے بتایا کہ یہ مقدمہ بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 353 کے تحت درج کیا گیا ہے، جو ‘پبلک ڈسٹربنس کو بڑھاوا دینے والے بیانات’ سے متعلق ہے۔ تومر نے کہا کہ ٹیچر رجنیش گنگوار کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔

پولیس کے مطابق یہ ویڈیو بریلی کے ایم جی ایم انٹر کالج کا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے  اسکول کے پرنسپل اشوک کمار گنگوار نے کہا،’میں دو دن کی چھٹی پر تھا، استاد نے ہفتے کے روز اسکول کی ایک سرگرمی کے دوران یہ نظم سنائی، مجھے فون پر اس واقعے کا علم ہوا اور میں نے استاد سے وضاحت طلب کی ہے۔’