
سماجی کارکنوں نے مہاراشٹرحکومت کی جانب سے منظور کیے گئے ‘مہاراشٹر اسپیشل پبلک سکیورٹی بل’ پر شدیدتشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بل ‘اربن نکسل ازم’ کی آڑ میں اختلاف رائے کو جرم قرار دینے کا راستہ کھولتا ہے۔

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
ملک میں دہشت گردی کے معاملوں سےنمٹنے کے لیے موجودہ قوانین کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت نے گزشتہ ہفتے ایک نیا بل – مہاراشٹر اسپیشل پبلک سکیورٹی بل متعارف کرایا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاست میں ’ نکسل ازم کے شہری اثرات‘سے نمٹے گی۔
وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس کی قیادت والی ریاستی حکومت طویل عرصے سے ‘اربن نکسل ازم’ کو قانونی دائرے میں لانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
سال 2018میں، جب انسانی حقوق کے کارکنوں کو متنازعہ ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، تب اس مبہم اور غیرمتعینہ اصطلاح کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہوئے کارکنوں کو مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ اب یہ اصطلاح قانون کا حصہ بننے سے محض ایک قدم دور ہے۔
یہ بل مہاراشٹر کی قانون ساز اسمبلی اور قانون ساز کونسل دونوں میں پہلے ہی پاس ہو چکا ہے۔ اب اسے گورنر کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا، جس کے بعد یہ قانونی شکل اختیار کر لے گا۔
یہ بل پہلی بار پچھلے سال مانسون اجلاس میں پیش کیا گیا تھا، لیکن اسمبلی اجلاس کے ملتوی ہونے کی وجہ سے پاس نہیں ہو سکا تھا۔ اس کے بعد دسمبر 2023 میں سرمائی اجلاس کے دوران اسے دوبارہ متعارف کرایا گیا۔
تاہم، اس کے بعد اسے شہری حقوق کے گروپوں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدیدتنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد اسے ریاستی مقننہ کی جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔
لیکن اس سال ایک بار پھر، 9 جولائی کو وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے اسے اسمبلی میں متعارف کرایا اور دو گھنٹے کی بحث کے بعد اسے صوتی ووٹ سے منظور کر لیا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی میں حکمراں اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کے رہنما شامل تھے اور کمیٹی کو گزشتہ چند مہینوں میں اس بل پر 12 ہزار سے زائد تجاویز اور اعتراضات موصول ہوئے ،تاہم حتمی بل میں صرف تین تبدیلیاں کی گئیں۔
یہ بل ‘مسلمہ قوانین اور اداروں’ کے خلاف کسی بھی اختلاف رائے کو جرم کے دائرے میں لاتا ہے
ترمیم شدہ بل میں تین تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں سے پہلی تمہید اور یہاں تک کہ عنوان سے لفظ ‘انفرادی’ (فرد)کو ہٹاناشامل ہے۔ ترمیم شدہ تمہید میں کہا گیا ہے کہ ‘چونکہ بل کا مقصد اربن نکسل ازم کو ختم کرنا ہے، اس لیے کمیٹی نے اس پہلو کو واضح کرنے کی سفارش کی…’ اس کے علاوہ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ بل ‘بائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں یا اس جیسی تنظیموں کی غیر قانونی سرگرمیوں’ سے نمٹنے کے لیے لایا گیا ہے۔
دوسری بڑی ترمیم بل کی دفعہ 5(2) میں کی گئی ہے۔ قبل ازیں اس دفعہ میں کہا گیا تھا کہ ‘مشاورتی بورڈ تین ایسےافراد پرمشتمل ہوگا جو ہائی کورٹ کے موجودہ ، سابق یا اس عہدے کے اہل جج ہوں۔ حکومت ان کی تقرر کرے گی اور ان میں سے کسی ایک کو چیئرپرسن نامزد کرے گی۔’
کمیٹی نے اب سفارش کی ہے کہ بورڈ ایک چیئرمین پرمشتمل ہو گا جو ہائی کورٹ کا سابق یا موجودہ جج ہو گا، اور دو دیگر ممبران ہوں گے – جن میں سے ایک ریٹائرڈ جج اور دوسرا ہائی کورٹ کا سرکاری وکیل ہو گا – جسے ریاستی حکومت مقرر کرے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے ریاستی حکومت کو کم از کم اپنی پسند کو کے ایک شخص کو اس بورڈ میں شامل کرنے کا موقع ملتا ہے۔
تیسری ترمیم بل کی دفعہ 15(2) میں کی گئی ہے۔ پہلے کے مسودے میں تفتیش کی ذمہ داری پولیس سب انسپکٹر یا اس سے اوپر کے افسر کو دی جانی تھی۔ لیکن اب نئے ترمیم شدہ بل میں کہا گیا ہے کہ تفتیش صرف ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) سطح کے افسر کو سونپی جائے گی۔
بل کے تحت جرائم کی سزا دو سے سات سال تک قید اور دو لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔
اس بل میں ضلع مجسٹریٹ اور پولیس کمشنر کو کسی بھی ایسی جگہ کو مطلع کرنے کا اختیار دیا گیا ہے،جسے کوئی بھی کالعدم تنظیم غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مجسٹریٹ اور کمشنر کو منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔
اگرچہ اسمبلی میں اپوزیشن نے کھل کر اس بل کی مخالفت نہیں کی، لیکن انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس شق کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ اس لیے اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ کردار ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے بجائے جوڈیشل مجسٹریٹ کو سونپا جائے۔
بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ مسلمہ قوانین اور اداروں‘کے خلاف کوئی بھی مخالف رخ اختیار کرناجرم مانا جائے گا۔
‘فرنٹل تنظیموں’ کے نام ظاہر نہیں کیے گئے
چیف منسٹر دیویندر فڑنویس نے اس خصوصی قانون کی ضرورت کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ، ‘اس طرح کے قوانین ملک کی چار دیگر ریاستوں – چھتیس گڑھ، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور اڑیشہ میں پہلے سے موجود ہیں اور وہاں اب تک 48 فرنٹل تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ لیکن صرف مہاراشٹر میں 64 ایسی تنظیمیں سرگرم ہیں، جو ملک میں سب سے زیادہ ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے کم از کم چار تنظیموں پر دیگر ریاستوں میں پابندی عائد کی گئی ہے، لیکن مہاراشٹر میں نہیں۔
فڑنویس نے یہ بھی کہا کہ یہ فرنٹل تنظیمیں ‘عوامی بہبود اور سماجی ترقی’ کی آڑ میں کام کر رہی ہیں۔ تاہم، انہوں نے ان مبینہ تنظیموں کے نام ظاہر نہیں کئے۔
غور طلب ہے کہ ‘فرنٹل آرگنائزیشن’ کی اصطلاح حکومت اکثر ان تنظیموں کے لیے استعمال کرتی ہے جنہیں وہ اپنی پالیسیوں کے خلاف سمجھتی ہے، لیکن اس اصطلاح کی کوئی واضح قانونی تعریف نہیں ہے۔
دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کے پاس پہلے ہی ایک مرکزی قانون موجود ہے – ‘غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ’ یعنی یو اے پی اے۔ یہ ایکٹ کسی تنظیم کو ‘غیر قانونی’ قرار دینے اور اسے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالنے کا عمل فراہم کرتا ہے۔
یو اے پی اے کے تحت 39 تنظیموں کو ‘دہشت گرد تنظیم’ اور 10 کو ‘غیر قانونی تنظیم’ قرار دیا گیا ہے
اب تک، مرکزی حکومت نے یو اے پی اے(غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ) کے پہلے شیڈول میں 39 تنظیموں کو ‘دہشت گرد تنظیم’ قرار دیا ہے، اور 10 دیگر تنظیموں کو ‘غیر قانونی تنظیموں’ کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ریاستی یا مرکزی ایجنسیوں سے موصول ہونے والی معلومات یا سفارشات کی بنیاد پر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یو اے پی اے میں کہیں بھی ‘فرنٹل آرگنائزیشن’ کی واضح تعریف نہیں ہے – اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی تنظیم کالعدم دہشت گرد یا غیر قانونی تنظیم کا ‘فرنٹ’ کیسے بن جاتی ہے۔
تاہم، قانون کے مطابق، جب کسی تنظیم پر پابندی لگائی جاتی ہے، تو ریاستی حکومتوں کو پابندی کو جاری رکھنے کے لیے ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں خصوصی ٹریبونل کے سامنے ثبوت پیش کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر ریاستی حکومتیں اس قانونی عمل سے گریز کرتی ہیں اور صرف تنظیموں کو ‘فرنٹل’ کے طور پر لیبل کرکے چھوڑ دیتی ہیں۔
اب خدشہ یہ ہے کہ نیا قانون – جو گورنر کی منظوری کے فوراً بعد نافذ کیا جائے گا – اس ڈھیلے اور مبہم زمرے میں اور بھی تنظیموں کو ڈالنے کی راہ ہموار کرے گا۔
سال 2023میں وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں ہوئی ایک پولیس کانفرنس میں گڑھ چرولی کے اس وقت کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی پی) سندیپ بی پاٹل نے ایک مقالے میں دعویٰ کیا تھا کہ 15 ثقافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو دراصل نکسلیوں کی سرگرم فرنٹل تنظیموں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
اب وزیر اعلیٰ فڑنویس کہتے ہیں کہ مہاراشٹر میں ایسی 64 تنظیمیں سرگرم ہیں۔ لیکن کسی تنظیم کو ‘فرنٹ’ کہنے کی بنیاد کو کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی اس پر کوئی عوامی بحث یا قانونی چھان بین ہوئی ہے۔
زیادہ تر اپوزیشن ایم ایل اے احتجاج نہیں کر سکے
پہلے سے سخت یو اے پی اے قانون کی موجودگی کے درمیان، مہاراشٹر کی فڑنویس حکومت ریاستی سطح کا ایک اور قانون شامل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن اس نئے بل میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جو پہلے سے لاگویواے پی اے، بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) یا مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ(مکوکا) میں شامل نہ ہو۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس نئے قانون پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی اختلاف یا احتجاج کو ‘نکسل ازم’ کہہ کر مجرمانہ قرار دیا جائے گا۔ یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ اس قانون کا تعلق ودربھ خطہ میں چل رہی مسلح تحریک سے نہیں ہے، بلکہ یہ ‘اربن نکسل ازم’ یعنی شہری علاقوں میں سرگرم شہری تنظیموں اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں پر مرکوز ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس بل میں اتنے سارے مسائل شامل ہیں تو یہ اتنی آسانی سے پاس کیسے ہو گیا؟ 288 رکنی مہاراشٹر اسمبلی میں، 235 ایم ایل اے بی جے پی کی قیادت والے مہایوتی اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی حکومت کو ایوان میں واضح اکثریت حاصل ہے اس لیے حکومت کے لیے کوئی بھی بل پاس کرنا مشکل نہیں ہے۔
اس اکثریت کی وجہ سے اپوزیشن اس قانون کو روکنے میں مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہی۔ اور نتیجتاً تمام تر تحفظات کے باوجود بل شدید مخالفت کے بغیر منظور کر لیا گیا۔
تاہم، مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کے تحت آنے والی مختلف پارٹیوں کے بقیہ 53 ایم ایل اے اسمبلی میں بل کی منظوری کے دوران کوئی احتجاج درج نہیں کرا سکے۔ اسمبلی میں واحد مخالفت سی پی آئی (ایم) ایم ایل اے ونود نکول کی جانب سے آئی۔
بعد ازاں جب یہ بل قانون ساز کونسل میں گیا تو اپوزیشن نے واک آؤٹ کر کے باقاعدہ احتجاجی نوٹ جمع کرایا۔
جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی میں اپوزیشن رہنما شامل تھے؛
کانگریس سے نانا پٹولے، وجئے وڈیٹیوار اور ستیج پاٹل،
نیشنلسٹ کانگریس (شرد پوار دھڑے) سے جتیندر اوہاڈ اور ششی کانت شنڈے
شیو سینا (ادھو بال ٹھاکرے دھڑے) سے امباداس دانوے اور بھاسکر جادھو
ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں این سی پی لیڈر جینت پاٹل نے دعویٰ کیا کہ جوائنٹ کمیٹی میں اپوزیشن اراکین کی طرف سے دی گئی اہم تجاویز کو زبانی طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔ لیکن جب یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو ان تجاویز کو بل کے حتمی ورژن میں شامل نہیں کیا گیا۔
پاٹل نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ اپوزیشن نے اسمبلی میں کوئی اختلافی نوٹ نہیں دیا کیونکہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی تجاویز کو بل میں شامل کیا جائے گا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔