
اب وقت آگیا ہے کہ ایران اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے ترکیہ اور دیگر ممالک کے ساتھ نہ صرف مسلم دنیا کی قیادت کا رول نبھائے، بلکہ استعماریت کے خلاف تیسری دنیا کے لیے بھی ایک استعارہ بن جائے ۔

علامتی تصویر، فوٹو: اے پی/ پی ٹی آئی
حالیہ اسرائیل-ایران جنگ اور پھر اس میں امریکی شمولیت نے مشرق وسطیٰ میں خاص طور پر ، حتیٰ کہ امریکہ حلیفوں میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجاد دی ہیں۔ درون خانہ سوال پوچھے جا رہے ہیں کہ اب ان کا نمبر کب آئےگا اور بہانہ کیا ہوگا؟
ترکیہ کے شہر استنبول کے علی بے کوائے ضلع کی گلیوں میں 78سالہ ایرانی تارک وطن حسن مرادی مجھے بتا رہے تھے کہ ایران کےلیے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ استعماریت کے خلاف تیسری دنیا کی لیڈرشپ کے حصول کا اس وقت ایک نایاب و نادر موقع ہے ۔
یہ موقع ایران کو 1979 میں انقلاب کے بعد حاصل ہوا تھا، مگر مختلف وجوہات، جن میں عراق کی طرف سے جنگ ٹھونسنا، اور پھر ایرانی لیڈرشپ کی تنگ نظری،مسلم دنیا یا تیسری دنیا کے بجائے اپنے آپ کو شیعہ فرقہ کی لیڈرشپ تک محدود کرنا، اتحاد قائم کرنے کے بجائے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کروانا، شیعہ مسلح گروپوں کو شہ دینا وغیر ہ ایسے اقدامات تھے ، جس نے ایران کے اثر و رسوخ کو منفی رخ دے دیا ۔
داخلی فرنٹ پر بھی ایرانی حکومتوں کا رویہ کچھ قابل فخر نہیں رہا ۔ 2022 میں 22سالہ کرد خاتون مہشا امینی کی زیر حراست کی ہلاکت کے بعد احتجاج سے بے دردی کے ساتھ نپٹنا، داخلی سیکورٹی کے ساتھ اس حد تک بے اعتنائی کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ایرانی حکومت کی ناک کے نیچے ایسا مؤثر نیٹ ورک بنانا، ایسی چیزیں تھیں ، جس نے ایران کی شبیہ داغدار کی تھی۔
خطے میں ایران کی قد و قامت کا اندازہ اب اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ جنگ کے دوران جب استنبول میں حال میں اسلامی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہو رہی تھی، تو سبھی کی توجہ ایران پر مرکوز تھی ۔ قطر، سعودی اور دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ اور وفود ایرانی وفد کے ارد گرد گھومتے دکھائی دیے اور ان سے صلاح و مشورہ کر رہے تھے ۔
ماضی کی کسی ایسی میٹنگ میں ایرانی وفد الگ تھلگ نظر آتا تھا ۔ اس لیے وقت اب آگیا ہے کہ ایران کو حقیقی سیاسی اصلاحات کا راستہ اپنانا چاہیے، تاکہ داخلی محاذ پر ایرانی عوام کو دہائیوں کی گھٹن کے بعد آزادی کی تازہ ہوا نصیب ہو، خفیہ ایجنسی کا استعمال اپنی آبادی یا پڑوسی ممالک کے بجائے اسرائیلی نیٹ ورک کے خلاف ہو اوربیرونی محاذ پر مغربی استعماریت کے خلاف ایک اتحاد بنانے پر توجہ صرف کرنی چاہیے ۔ مزید ایرانی حکومت کو شیعہ محور اتحادیوں اور پراکسی ملیشیاؤں کی پالیسی ترک کرنی چاہیے، جنہوں نے شام، لبنان اور دیگر خطوں کو تباہی سے دوچار کیا ۔
خلیجی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کشیدہ تو تھے ہی، مشرق وسطیٰ کی ایک اور اہم طاقت ترکیہ نے بھی کئی دہائیوں تک ایران کو خطے میں عدم استحکام کی علامت سمجھا اور اس کی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی خواہشات کی مخالفت کی ۔
مگر ایران پر اسرائیل کے یکطرفہ حملے،انقرہ کےلیے بھی خطرے کی گھنٹی بن گئے ہیں ۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید ایک دن اسرائیل ترکیہ کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے، حالانکہ ترکیہ ناٹو کا رکن بھی ہے ۔ یہ خدشہ ترکیہ کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے سربراہ اور صدر رجب طیب ایردوان کے اہم اتحادی دولت باہچلی نے بھی ظاہر کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی مہم تر کیہ کو گھیرنے اور اس کے علاقائی عزائم کو سبوتاژ کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے ۔انہوں نے کہا؛
اسرائیل کا سیاسی و اسٹریٹجک مقصد اناطولیہ کو گھیرنا اور اپنے آقاؤں کی طرف سے ترکیہ میں دہشت گردی کی مدد کرنا اور ترکیہ کی ترقی اور ایک طاقت بننے کی راہ کو سبوتاژ کرنا ہے۔
ایک ترک کالم نگار نے کے مطابق، ایران پر حملوں کے دوران اسرائیلی ایف 35 طیاروں کے ترکیہ کے اوپر پرواز کرنے کی کوشش کی تھی ۔ جن کو ترکیہ کے ایف 6 اور اے ڈبلیو اے سی ایس ایئرکرافٹ نے بھگایا ۔ یہ طیارے شاید ترکیہ کے ڈیفنس سسٹم کو ٹیسٹ کررہے تھے ۔ ترک ایف 16 کی ریڈیو وارننگ کے بعد یہ طیارے فوراً واپس پلٹ گئے ۔
اس جنگ کے دوران ترکیہ کے اعلیٰ حکام نے دو بار سکیورٹی اجلاس منعقد کیے ۔ ترک فوج نے اسرائیل کے جنگی حربوں کا باریک بینی سے مطالعہ بھی کیا۔ ایردوان نے خود بھی اسرائیل کے حملے پر خطے کے رہنماؤں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کو فون کیے ۔ انہوں نے شام کے صدر احمد الشرا ع اور عراقی وزیر اعظم محمد شیا السودانی سے بھی رابطہ کیا۔
اس جنگ کے فوراً بعد ہی ایردوان نے اعلان کیا کہ ترکیہ درمیانے اور طویل فاصلے کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو تیز کرے گا اور اپنے دفاعی نظام کی سطح مزید بلند کرکے اس کو مکمل خودکفیل بنائے گا ۔ انہوں نے اپنی تقریر کو سوشل میڈیا پر عثمانی سلطنت کے شاہی مہر کے ساتھ شیئر کیا ۔ ایردوان نے کہا؛
عثمانی سلطنت کی فاتح فوج کا اصول تھا؛اگر تم آزادی چاہتے ہو، اگر تم عزت، وقار اور ایمانداری سے اس دھرتی پر جینا چاہتے ہو، اگر تم خوشحالی، دولت اور ہم آہنگی چاہتے ہو، اگر تم امن چاہتے ہو، تو جنگ کے لیے ہمیشہ تیار رہو ۔
ایردوان کو سب سے زیادہ اس بات نے برہم کیا کہ یورپی ممالک نے ایران پر حملے کی حمایت کی، حالانکہ اس دوران امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری تنازع پر اعلیٰ سطح کی بات چیت جاری تھی ۔
ذرائع کے مطابق پچھلے سال ستمبر میں جب اسرائیل نے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصراللہ کو قتل کیا، ترک حکام نے اسی وقت ممکنہ اسرائیلی حملے اور ممکنہ وسیع تر علاقائی جنگ کے مختلف منظرناموں پر غور کرنا شروع کر دیا تھا۔
حکام نے ہنگامی منصوبے بنائے، جن میں ممکنہ پناہ گزینوں کی آمد سے متعلق اقدامات بھی شامل تھے ۔ اکتوبر میں انقرہ نے قید کرد باغی تنظیم پی کے کے رہنما عبداللہ اوجلان سے بات چیت شروع کی تاکہ اس گروپ کو ایران یا اسرائیل کا پراکسی بننے سے روکا جا سکے ۔ یہ بات سچ ہے کہ ترکیہ پہلا مسلم ملک تھا جس نے 1949 میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور 1990 کی دہائی میں تل ابیب کا اتحادی بنا، جب ترک سلامتی اداروں کو اندرونی عدم استحکام کے دوران کرد باغیوں اور آرمینا کے خلاف مدد درکار تھی ۔
جب 2003 میں رجب طیب ایردوان نے اقتدار سنبھالا، تو فلسطینیوں کے حوالے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ مگر چونکہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں ترک تنظیموں کو رفاء عام کے کام کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی، اس لیے ان تعلقات میں زیادہ ابتری دیکھنے کو نہیں ملی۔ 2010 میں ماوی مرمرہ جہاز پر اسرائیلی چھاپے کے بعد تعلقات میں زبردست بگاڑ آیا، جس میں 10 ترک کارکن بین الاقوامی پانیوں میں ہلاک ہو گئے ۔
بعد میں تعلقات میں کچھ بہتری آئی، مگر 2023 کے آخر میں غزہ کی جنگ کے باعث ترکی نے اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں ختم کر دیں۔ گزشتہ برس اسرائیل کی حزب اللہ کو کمزور کرنے کی مہم اور شام میں اسد حکومت کے زوال کے بعد، جہاں پہلے ایران کا غلبہ تھا، اب اسرائیل خطے کی کلیدی طاقت بن کر ابھرا ہے۔
اسرائیلی حکام اب کھلے عام کہتے ہیں کہ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ترکیہ ہے، جو خطہ میں وسائل اور اثرورسوخ رکھتا ہے ۔ مشرقی بحیرہ روم کے ایک سرے پر اس وقت اسرائیل کی فوجی طاقت ہے، تو دوسرے سرے پر ترکیہ کی فوجی قوت ہے ۔ ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے کئی بار کہا ہے کہ خطے پر کسی ایک طاقت، حتیٰ کہ ترکیہ کی بھی، بالادستی نہیں ہونی چاہیے ۔
سب سے پہلا بڑا چیلنج شام کے مسئلے پر تھا، جب نیتن یاہو کی حکومت نے جنوبی شام میں ترک ریڈار اور ایئر ڈیفنس بیس کی مخالفت کی۔ امریکی حکام کی مداخلت کے نتیجے میں اپریل میں ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان ایک ہاٹ لائن قائم ہوئی۔
مذاکرات میں اتنی پیش رفت ہوئی کہ ترک حکام نے شام کے نمائندے بھی اسرائیلیوں کے ساتھ بات چیت میں شامل کیے تاکہ شام پر اسرائیلی حملے روکے جا سکیں ۔ اصل مسئلہ شام کی فضائی حدود پر کنٹرول کا تھا ۔ ترک حکام نے اسرائیل کو مشورہ دیا کہ شام کی فضائی حدود پر اپنے تحفظات کا حل براہِ راست شام کے ساتھ طے کرے، نہ کہ ترکیہ کو اس قضیہ میں گھسیٹے ۔
جب 2014 میں رجب طیب ایردوان ایران گئے تودونوں ممالک نے تجارتی معاہدوں اور توانائی و صنعتی روابط پر کئی یاداشتوں پر دستخط کیے۔ لیکن گیارہ برس بعد ایران کے لیے ترکیہ میں وہ محبت یا احترام باقی نہیں تھا ۔ بعض ماہرین اس کشیدگی کی جڑیں پرانی رقابت میں تلاش کرتے ہیں جو سلطنت عثمانیہ کے زمانے سے چلی آتی ہیں ۔
مگر موجودہ دور میں اس کی وجہ ایران کا شام اور لبنان میں کردار تھا ۔ ورنہ جب 1979 میں ایران کا اسلامی انقلاب آیا تو ترک اسلام پسند خوشی سے سرشار تھے ۔ ایردوان کے سیاسی اور نظریاتی استاد سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان علی شریعتی کے مداح تھے اور 1990 کی دہائی تک ایران کو بعض حوالوں سے ایک مثالی ماڈل کے طور پر دیکھتے رہے ۔ اربکان نے 1997 میں مسلمان اکثریتی ممالک کو ڈی 8 اقتصادی تعاون تنظیم کے تحت متحد کرنے کی کوشش کی اور بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، ملائیشیا، ناءجیریا اور پاکستان کو ساتھ ملایا ۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1997 میں اربکان کی حکومت کے خاتمے کا ایک سبب وہ القدس نائٹ تھی، جو انقرہ کے سنجان ضلع میں ان کی ویلفیئر پارٹی نے ایرانی سفیر کی موجودگی میں منعقد کی ۔ اس تقریب میں فلسطینی کاز پر مبنی ایک ڈرامہ پیش کیا گیا اور ہال میں حزب اللہ اور حماس کے پرچم لہرائے گئے ۔
ایرانی سفیر نے سیکولر ترک حکومت پر تنقیدی تقریر کی، جسے ترک فوج نے حکومت کے خلاف ایک کارروائی کا بہانہ بنایا اور اربکان کی حکومت کو بے دخل کر دیا ۔ 2002 میں ایردوان اور ان کے ساتھیوں نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) قائم کی تو انہوں نے اپنی لبرل اور یورپی یونین نواز پالیسیوں کے باوجود ایران سے قربت برقرار رکھی ۔
ایک نمایاں مثال برازیل کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری تنازعہ پر ثالثی کی کوشش تھی، جس میں ایران نے 1200 کلوگرام کم افزودہ یورینیم ترکی کو بھجوانے پر آمادگی ظاہر کی تاکہ اسے میڈیکل ریسرچ ری ایکٹر کے لیے ایندھن میں بدلا جا سکے ۔
سال 2011 میں غالباً ایردوان پہلے سنی لیڈر تھے، جنہوں نے نجف میں حضرت علی کے مزار پر حاضری دی اور آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی ۔ ترکی اور ایران کے تعلقات اتنے قریبی تھے کہ 2012 میں امریکی رپورٹس نے ایردوان پر الزام لگایا کہ انہوں نے ترکیہ میں کام کرنے والے اسرائیلی جاسوسوں کے نام تہران کو بتائے ۔
ٍتاہم 2011 میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت اور مظاہرین پر تشدد، اور خاص طور پر 2013 میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اور 2014 میں حلب جیسے شہروں کا محاصرہ، ایران کی جانب سے ان مظالم کی حمایت نے تر کیہ کو شدید بدظن کر دیا۔
اس کے بعدذرائع کے مطابق ترکیہ کا کرد باغی تنظیم پی کے کے، کے ساتھ ہور ہے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ایران کی طرف سے ہوئی، جس کی وجہ سے تعلقات میں خیر سگالی کی فضا ختم ہو گئی تھی ۔
ایران کے ساتھ رقابت اور مغرب کے ساتھ ناپسندیدہ مگر ناگزیر شراکت داری کے بیچ پھنسا ترکیہ پچھلے کئی برسوں سے نئے مواقع اور خدشات دونوں کولے کر ابھرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
صدر رجب طیب ایردوان نے اس بحران کے دوران انقرہ کو ثالث کے طور پر پیش کرنے کی سعی کی ۔ ساتھ ہی اب دفاعی منصوبہ ساز ترکی کی فوجی جدید کاری کی رفتار بڑھانے، میزائل نظام کو اپ گریڈ کرنے اور اسٹیلتھ فائٹر پروگرام کو تیز کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔
اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں انقرہ نے خاموشی سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان سفارتی رابطہ کار کے طور پر کام کیا ۔ ایردوان نے جون کی 14 اور 15 تاریخ کو دو بار ٹرمپ سے بات کی اور پھر 16 جون کو ایرانی صدر مسعود پزیشکیان سے گفتگو کی ۔ خطے کے دیگر رہنماؤں سے بھی انقرہ نے کشیدگی کم کرنے کے لیے رابطے کیے ۔
تجزیہ کار سونر چاغاپتے کے مطابق ایردوان ٹرمپ کے ساتھ اپنی قربت کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے اسلامی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اعلامیہ میں اسرائیل کی مذمت تو کی گئی، مگر امریکہ کا نام نہیں لیا گیا۔
چاغاپتے کے بقول گزشتہ دہائی میں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی پر ترکی کا اتنا نرم لہجہ کبھی نہیں رہا ہے ۔ اس کی وجہ ایردوان اور ٹرمپ کے درمیان ذاتی کیمسٹری بتائی جاتی ہے ۔ انقرہ کی اصل تشویش ایک اور مشرق وسطیٰ کے ہمسایہ ملک میں شام اور عراق کی طرح عد م استحکام کا خطرہ تھا، جہاں طاقت کے خلا نے شدت پسند جہادیوں اور پی کے کے کے عناصر کو ترکیہ پر حملوں کا موقع دیا۔ اسرائیل اور ایران کے تنازعہ کا ایک فوری اثر یہ ہوا کہ ترکیہ کی دفاعی حلقوں میں خطے میں اپنی فضائی دفاعی صلاحیتوں کی تیاری اور لچک پر سنجیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ۔
اسرائیل کی برق رفتاری اور جدید حربوں کے بعد اب ترک ماہرین متفق ہیں کہ ملک کو اپنے جدید اسٹیلتھ فائٹرایم ایم یو،کے اے اے این، اسٹیل ڈوم ایئر اور میزائل دفاعی نظام، اور میزائل ہتھیاروں کے ذخیرے پر مزید سرمایہ کاری کرنی ہو گی ۔ ترکی کا اسٹیل ڈوم ایک جدید فضائی دفاعی نظام ہے جو میزائلوں ، ڈرونز اور طیاروں جیسے فضائی خطرات کو مختلف فاصلے اور بلندی پر روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
اگست 2024 میں ایردوان نے اس کا اعلان کیا تھا اور اکتوبر 2024 میں اس کا اہم جزو ‘سیپر بلاک-1’ فعال ہو چکا ہے ۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظام ابھی مکمل آپریشنل نہیں ہوا ۔
دفاعی تجزیہ کار کوزان سلچوق ارکان نے کہا کہ ترکی کو نہ صرف یہ نظام تیزی سے مکمل کرنا ہوگا بلکہ اے ڈبلیو اے سی ایس طیارے خریدنے ہوں گے اور سیپر ایئر ڈیفنس کے کم از کم آٹھ یونٹ بنانے ہوں گے ۔ ایردوان نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ میزائل ذخیرہ اتنا بڑھایا جائے گا کہ کوئی بھی ترکیہ پر حملے یا اس کی طرف میلی نظر ڈالنے کی جرأت نہ کر سکے ۔
انقرہ میں مقیم ایران امور کے ماہر اور سابق تھنک ٹینک محقق عارف کسکن کا ماننا ہے کہ ایران کی بڑھتی مشکلات کے نتیجے میں ترکی کے لیے خطے میں کچھ امکانات بھی پیدا ہو رہے ہیں ۔ ایک اہم موقع جنوبی قفقاز میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں آرمینیا، جو ایران کا قریبی اتحادی ہے، آذربائیجان کے ساتھ امن معاہدے کی راہ پر گامزن ہے ۔
سال 2023 میں آذری افواج نے نگورنو کارا باخ کے آرمینیائی اکثریتی علاقے میں کارروائی کر کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا اور وہاں سے بڑی تعداد میں آبادی نقل مکانی کر گئی۔
مارچ میں دونوں ممالک نے اپنے دیرینہ تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ۔
کسکن کے مطابق ایران کی کمزوری ترکیہ اور آذربائیجان کی آرمینیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوششوں میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔ امید بندھی ہے کہ ترکیہ ،آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک نیا سہ فریقی تعلق بن کر نخشیویان کے راستے زنگزور کوریڈور کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے، جس سے ترکیہ باقی ترک دنیا سے منسلک ہو جائیگا ۔
اقتدار سے علیحدگی سے قبل ایردوان تاریخ میں ایک ایسے ترک حکمران کے بطوراپنے آپ کو درج کروانا چا ہتے ہیں ،جس نے وسطی ایشیا ء کی چار ترک ریاستوں ، روس کے ترک اکثریتی صوبوں اور آذربائیجان کے ساتھ ترکیہ کے زمینی روابط بحال کیے ۔ اس کوریڈور کی بحالی ایردوان کےلیے خصوصی طور جذباتی حثیت رکھتی ہے ۔
اسی سلسلے میں آرمینیائی وزیر اعظم نیکول پاشینیان نے حال ہی میں ترکیہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا ۔اسرائیل-ایرا ن جنگ سے قبل شاید ہی ایسی پیش رفت ہو سکتی تھی ۔
ہندوستان بھی آرمینیا کو ترکیہ کے مقابل کھڑے رہنے کےلیے اکساتارہا ہے ۔ یہ دورہ اس وقت ہوا جب آذربائیجانی صدر الہام علییف ایک روز قبل انقرہ آئے تھے ۔ آرمینیا اور ترکی کے درمیان 1993 میں سفارتی تعلقات ختم ہوئے تھے اور سرحدیں بند کر دی گئی تھیں ، جب آرمینیا نے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کیا تھا۔
ایک سینئر آرمینیائی سفارت کار نے بتایا کہ ایردوان نے پاشینیان کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد کے فون کے بعد اس دورے کی دعوت دی تھی اور بعد میں یہ دعوت سفارتی ذرائع سے باضابطہ بھیجی گئی ۔
سفارت کار نے اس دورے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں رہنماؤں کی قائدانہ بصیرت اور صبر سے تعلقات میں مثبت پیش رفت ممکن ہو رہی ہے ۔ پاشینیان نے حالیہ دنوں میں ترکیہ کے ساتھ بہتر ہمسائیگی کے تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے تاکہ آرمینیا کی تنہائی ختم ہو اور تجارتی و سفارتی تعلقات بحال ہوں ۔
مارچ میں آرمینیا اور آذربائیجان نے ایک ابتدائی امن معاہدے پر اتفاق کیا، مگر باکو مزید مطالبات کرتا رہا اور اس نے انقرہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ 2023 میں ایروان کے ساتھ طے پانے والے اعتماد سازی کے بعض اقدامات پر عمل درآمد نہ کرے۔
ان اقدامات میں ایک اہم نکتہ الیجان-مارگارا سرحدی گزرگاہ کا کھولنا تھا تاکہ تیسرے ملکوں کے شہریوں اور سفارتی پاسپورٹ رکھنے والوں کو آمد و رفت کی اجازت دی جا سکے ۔ آرمینیا نے اپنی طرف سے مرمت کا کام مکمل کر لیا ہے، مگر ترکیہ نے اب تک اس معاہدے پر عملی قدم نہیں اٹھایا۔
دوسری جانب، آذربائیجان اصرار کر رہا ہے کہ آرمینیا اپنے آئین میں ترمیم کرے جس میں ابھی تک نگورنو کاراباخ پر دعویٰ موجود ہے، اس شرط کے بغیر وہ امن معاہدے پر دستخط کرنے سے گریزاں ہے ۔ پاشینیان عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ آئینی ترمیم پر غور کر سکتے ہیں ، مگرابھی فی الحال ان کو انتخابات کا سامنا کرنا ہے، وہ سال کے اختتام تک آذربائیجان کے ساتھ امن معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایران اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے ترکیہ اور دیگر ممالک کے ساتھ نہ صرف مسلم دنیا کی قیادت کا رول نبھائے، بلکہ استعماریت کے خلاف تیسری دنیا کےلیے بھی ایک استعارہ بن جائے ۔