
دو سالوں سے نسلی تنازعہ کا سامنا کر رہے منی پور کے میتیئی گروپ کی نمائندگی کرنے والی ریاست کی تین سول سوسائٹی تنظیموں کے ایک وفد نے دہلی میں مرکزی وزارت داخلہ کے افسران سے ملاقات میں ریاست میں این آر سی نافذ کرنے اور لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔

فوٹو بہ شکریہ: ایکس
نئی دہلی: دو سال سے نسلی تنازعہ کا سامنا کر رہے منی پور کی تین سول سوسائٹی تنظیموں کے 19 نمائندوں کے ایک وفد نے ان گروپوں کے ساتھ پچھلے دور کی بات چیت کو جاری رکھتے ہوئے سوموار کو دہلی میں مرکزی وزارت داخلہ کے حکام سے ملاقات کی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، وفد نے وزارت داخلہ کی جس ٹیم سے ملاقات کی اس کی قیادت وزارت کے شمال -مشرقی مشیر اے کے مشرا اور آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر راجیش کامبلے کر رہے تھے۔
یہ پہلا موقع تھا جب میتیئی کے مفادات کی نمائندگی کرنے والےتین اہم گروپوں کے نمائندے – کوآرڈینیشن کمیٹی آن منی پور انٹیگریٹی (سی او سی او ایم آئی) ، آل منی پور یونائیٹڈ کلبز آرگنائزیشن (اے ایم یو سی او) اور فیڈریشن آف سول سوسائٹی آرگنائزیشن (ایف اور سی ایس)کے نمائندے دہلی میں وزارت داخلہ کے حکام سے ملے۔
ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے اجلاس میں اٹھائے گئے اہم مسائل کا خاکہ پیش کیا۔ اس کہا گیا کہ اس نے ‘کسی بھی ایسے اقدام پر اپنے غیر سمجھوتہ کرنے والے موقف کی توثیق کی جو ریاست کی علاقائی سالمیت کو مجروح کرتا ہے۔’ یہ موقف کُکی گروپوں کی جانب سے ریاست کے ان حصوں کے لیے ‘علیحدہ انتظامیہ’ کے نظام کےمطالبے کے خلاف ہے جہاں ان کی برادری اکثریت میں ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا، ‘وفد نے سب کے لیے آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ نہ صرف حکومت کا بنیادی حق اور آئینی ذمہ داری ہے بلکہ ریاست میں امن کی بحالی کی جانب ایک ضروری پہلا قدم ہے۔’
مئی 2023 میں نسلی تشدد کے آغاز کے بعد سےدونوں میں سے کسی بھی برادری کے ممبران نے بڑی حد تک ان علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں جہاں دوسری کمیونٹی اکثریت میں ہے۔ تمام برادریوں کے لیے ریاستی شاہراہوں کو کھولنا بھی متنازعہ رہا ہے، کیوں کہ کُکی گروپوں نے اپنے سیاسی مطالبات پر بات کیے بغیر اس پر اتفاق کرنے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے دو دیگر دیرینہ مطالبات پر زور دیا۔ سب سے پہلے، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) یا اس سے ملتا جلتا نظام ریاست میں ‘غیر قانونی امیگریشن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے’ لاگو کیا جانا چاہیے، جو ان کے خیال میں خطے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے۔
دوسرا، ریاست کے اندر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان پیشگی جامع اور دوستانہ ماحول کے بغیر کُکی باغی گروپوں کے ساتھ آپریشن کی معطلی(ایس او او) کے معاہدوں میں توسیع کے خلاف واضح موقف کا اظہار کیا۔
اخبار کے مطابق، گزشتہ ماہ کُکی کے نمائندوں نے تجویز پیش کی تھی کہ کمیونٹی کی جانب سے ہندوستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات صرف ایس او او گروپس کریں گے اور ان گروپوں اور مرکزی حکومت کے درمیان ایس او او معاہدوں کے بنیادی اصولوں پر نظرثانی کے لیے بات چیت جاری ہے۔
وفد کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ‘وزارت داخلہ کے حکام نے وفد کو یقین دلایا کہ اٹھائے گئے مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے اور ضروری کارروائی اور منظوری کے لیے متعلقہ حکام کو بھیجا جائے گا۔’