اسرائیلی حملوں کے درمیان ایران میں پھنسے ہندوستانی طلباء  نے سنائی دہشت کی کہانی

ایران میں زیر تعلیم ہندوستانی طلباء نے بتایا کہ ایران پر اسرائیل کے حملوں کے بعد تہران میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ طلبہ نے بتایا کہ اس کشیدہ ماحول میں ہندوستانی سفارت خانے نے طلبہ کی بہت مدد کی۔

ایران میں زیر تعلیم ہندوستانی طلباء نے بتایا کہ ایران پر اسرائیل کے حملوں کے بعد تہران میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ طلبہ نے بتایا کہ اس کشیدہ ماحول میں ہندوستانی سفارت خانے  نے طلبہ کی بہت مدد کی۔

ایران  کے تہران میں سنیچر کومبینہ اسرائیلی حملے کے بعد تیل ذخیرہ کرنے کے مرکز سے اٹھتادھواں ۔ (تصویر: اے پی/پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 25 سالہ ثانیہ مہدی 14 جون کی رات اپنے اپارٹمنٹ میں تھیں، جب انہوں نے دور سے زور دار آوازیں سنیں۔ انہوں نے کہا،’میں نے سوچا کہ شاید یہ پٹاخے ہیں۔’ انہیں ایسا اس لیے لگا کہ تہران میں ایک تہوار کی شروعات  ہوئی تھی۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا،’لیکن پھر آوازیں تیز ہوتی چلی گئیں، اور آسمان پر بجلی جیسی چمکدارروشنی نمودار ہونے لگی ۔’

ایران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس میں زیر تعلیم ہندوستانی طالبہ ثانیہ کے مطابق، انہوں نے گزشتہ چار سالوں میں یہ آوازیں کبھی نہیں سنی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ 1500سے زیادہ ہندوستانی طلباء ایران میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کیونکہ یہاں تعلیم نسبتاً سستی ہے اور اس کے نصاب کو حکومت ہند سے منظوری حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے طلباء ایف ایم جی ای کا امتحان پاس کر کے ہندوستان میں پریکٹس کر سکتے ہیں۔ طلباء کے مطابق، یہ ہندوستان یا بنگلہ دیش کے پرائیویٹ کالجوں کے مقابلے کافی سستا ہے۔

تہران پر حملہ ہوا ہے

جب آوازیں بڑھنے لگیں تو ثانیہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ یہ پٹاخے کی آوازنہیں آسمان پر چمکنے والی کوئی اور چیز تھی۔ ثانیہ نے بتایا، ‘وہ مسلسل آ رہی تھیں اور رک نہیں رہی تھیں۔ ہم نے فوراً ایکس پر دیکھا، پھر ہمیں معلوم ہوا کہ تہران پر اسرائیل کی جانب سےحملہ ہو رہا ہے۔’

ثانیہ کے مطابق، دوسری رات اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ اسرائیلی فضائی حملے تیز ہو گئے ہیں اور وہ عام لوگوں کی بستیوں، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے سنا کہ تہران یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کو معمولی چوٹیں آئیں اور انہیں فوری طور پر محفوظ مقام پر لے جایا گیا۔

پڑوسی بھاگ گئے

تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس (آئی یو ایم ایس) میں فائنل ایئر کی طالبہ شاکرہ منظور نے بتایا، ‘تہران میں حالات بے حد خراب ہیں۔ ہم شہر کے وسط میں رہتے ہیں، ہم تین دن تک سو نہیں پائے، رات کو حالات مزید خراب ہو جاتے تھے۔ ہم نے زور دار دھماکوں کی آوازیں سنیں اور ڈرون  اپارٹمنٹ کے او پر سے اڑتے نظر آتے تھے۔’

منظور نے کہا کہ طالبات کو پہلے دن حملے کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ‘دن میں حالات کچھ پرسکون رہتےتھے، لیکن 16 جون کو دن کے وقت بھی شدید بمباری ہوئی۔ عام لوگوں کی عمارتیں اور کئی سرکاری عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔’

تہران کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے اور دہلی کی طرح یہ بھی تارکین وطن کا شہر ہے۔ جیسےہی حملوں میں اضافہ ہوا، اسرائیلی دھمکیوں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی وارننگ کے بعد لوگوں نے بڑی تعداد میں شہر چھوڑنا شروع کردیا۔ منظور نے دیکھا کہ ان کا محلہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نےبتایا، ‘ہمارے سامنے والے ایرانی پڑوسی ہمیں تسلی دے رہے تھے کہ سب ٹھیک ہو گا، لیکن پھر وہ ہمیں بتائے بغیر اپنے گھرچھوڑ کر چلے گئے۔’

انہوں نے سنا کہ شہر سے باہر جانے والی سڑکیں گاڑیوں سے بھری پڑی تھیں۔ جب ان سے ان کے ایرانی دوستوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ بہت غصے میں ہیں، لیکن اس سے زیادہ وہ خوفزدہ ہیں کیونکہ تباہی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔’

ہندوستانی سفارت خانے نے بہت مدد کی

حملوں کے پہلے ہی دن آئی یو ایم ایس کے طلباء ہندوستانی سفارت خانے پہنچے۔ ‘پہلے دو دن سفارت خانے کے اہلکاروں نے ہمیں پرسکون رہنے کو کہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ صورتحال جلد معمول پر آجائے گی۔’ ایک طالبعلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔

ثانیہ نے کہا، ‘لیکن پھر ہمیں سفارت خانے سے پیغام ملا کہ ہم جلد ہی تہران چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔’

منظورنے بتایا، ‘ہندوستانی سفارت خانے نے بہت مدد کی۔ انہوں نے ہمارے لیے بس، رہائش اور کھانے کا انتظام کیا۔’

ثانیہ نے کہا کہ آئی یو ایم ایس اور آزاد یونیورسٹی کے سینکڑوں ہندوستانی طلباء کو ایئر کنڈیشنڈ بسوں میں قم شہر لایا گیا، جہاں انہیں ہوٹلوں میں رکھا گیا ہے۔ وہ خود سفارت خانے کے کرائے پر لیے گئے ہوٹل میں 30 طالبعلموں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طلباء کو مشہد لے جانے کے لیے 20 بسوں کا انتظام کیا گیا ہے۔

‘پہلے بیچ کی 10 بسیں روانہ ہو چکی ہیں۔ ہم اب تک تقریباً 200 کلومیٹر (پورے سفر کا پانچواں حصہ) طے کر چکے ہیں۔’

کرمان یونیورسٹی کے ایک طالبعلم فیضان نے کہا، ‘ہمیں انڈین ایمبیسی کو کریڈٹ دینا چاہیے کیونکہ یہ پہلے دن سے بہت فعال ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور نائیجیریا جیسے ممالک کے طلبا کو اپنے طور پر واپس آنے کے لیے کہا گیا ہے لیکن ہندوستانی سفارت خانے نے تمام انتظامات کیے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ طلباء کو ایئر لفٹ کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے اور زمینی سفر بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘تہران سے براہ راست سرحد تک جانا ممکن نہیں ہے، لیکن جہاں بھی ممکن ہوا وہاں طلباء کی مدد کی گئی ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ ارمیا میڈیکل یونیورسٹی کے طلباء کو آرمینیا لے جایا گیا اور وہاں سے وہ دوحہ کے راستے ہندوستان واپس آئیں گے۔

جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے کنوینر ناصر نے کہا، ‘ارمیا میڈیکل یونیورسٹی کے 110 ہندوستانی طلبہ (90 طلبہ وادی کشمیر سے ہیں) منگل کو بحفاظت آرمینیا پہنچ گئے۔ ہم نے ان طلباء سے بات کی ہے جو دارالحکومت یریوان میں اپنے اپنے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزارت خارجہ نے طلباء کو مطلع کیا ہے کہ ‘تمام ٹکٹ حکومت ہند کی طرف سے مفت فراہم کیے گئے ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)