
اسرائیل نے یہ کیسے معلوم کیا کہ اعلیٰ ایرانی حکام کے گھر کہاں ہیں اور وہ کہاں سو رہے تھے؟ اس کا سہرا مخبروں کے اس وسیع نیٹ ورک کو جاتا ہے، جو اسرائیل نے ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بنا رکھا ہے۔

13 جون 2025 کو ایران کے تہران میں ہوئے دھماکے کے بعد اٹھتادھواں تصویر: اے پی /پی ٹی آئی
جمعہ ، 13 جون ، صبح 4 بجے کے قریب ، اسرائیل نے ایران پر، اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا اور مبینہ طور پر چھ شہروں میں ایران کے اعلیٰ فوجی حکام کو ہلاک کر دیا ۔
اعلیٰ ترین رینکنگ والے میجر جنرل محمد باقری ، مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد دوسرے اعلیٰ ترین کمانڈر جنرل حسین سلامی ، ایران کی بنیادی فوجی طاقت، اسلامی انقلابی گارڈ کور کے کمانڈر ان چیف اور جنرل غلام علی راشد ، مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر ان چیف کے ساتھ تین جوہری سائنسدانوں – فریدون عباسی ، ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سابق سربراہ محمد مہدی تہرانچی ، نظریاتی طبیعیات دان اور تہران کی اسلامی آزاد یونیورسٹی کے صدر اور عبدالحمید منوشار بھی مارے گئے ۔
مجھے ایک کہانی یاد آرہی ہے ۔ چینیوں نے خود کو حملوں سے بچانے کے لیے ‘ دیوارِ چین ‘ تعمیر کی ۔ لیکن حملے کبھی نہیں رکے کیونکہ ملک کے اندر غدار دشمنوں کے لیے دروازے کھول دیتے تھے ۔ ایران نے زیادہ بڑی قیمت ادا کی ہے کیونکہ اسرائیل کی طرف سے ایسا حملہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ اسرائیل کو ‘ خفیہ ‘ اور ‘ کھلی ‘ حمایت حاصل نہ ہو ۔
آخر کیسے اسرائیل نے ایران کے چھ شہروں پر اتنی درستگی کے ساتھ حملہ کیا ؟ اسرائیل کو کیسے پتہ چلا کہ ایران کے اعلیٰ حکام کے گھر کہاں ہیں اور وہ کہاں سو رہے تھے ؟
اس کا سہرا مخبروں کے اس وسیع نیٹ ورک کو جاتا ہے، جو اسرائیل نے ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بنا رکھا ہے ۔
ایران میں ہلاکتوں کی فہرست بہت طویل ہے
ہلاکتوں کی ایک طویل فہرست ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر بم دھماکوں کا بھی ایک سلسلہ ہے ، جو ایران کے اندر موجود جاسوسوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے ٹھکانے کی جانکاری کس نے دی ، جس کے نتیجے میں ان کا قتل ہوا ؟ نیوکلیئر سائنسدان محسن فخر زادہ کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب ان کے ٹھکانے کی جانکاری لیک کی گئی ۔
گزشتہ 19مئی 2024 کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کو قتل کر دیا گیا ۔ ایران نے سرکاری طور پر اسے ایک حادثہ قرار دیا تھا ۔ لیکن یہ حادثہ مخبروں کے بغیر کبھی نہیں ہو سکتا تھا ۔
اس کے بعد 31 جولائی 2024 کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران کے انتہائی محفوظ علاقے میں قتل کر دیا گیا ، وہ بھی اس وقت جب مسعود پیزشکیان صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے والے تھے ۔ یہ پیزشکیان کے لیے ذاتی دھچکا تھا ۔
اسرائیل نے یہاں تک مذاق اڑایا کہ ہانیہ کو رئیسی کے جنازے میں مارا جانا تھا لیکن اسے کسی اور دن قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ لبنان کے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اور ایران کے جنرل عباس نیلفروشان کوبھی اسرائیل نے ملبے میں دفن کر دیا ۔ یہ سب ایسے ہی ‘ اندرونی لوگوں ‘ کی مدد سے ہوا ۔
کیا ہم نے کبھی ایران میں ہائی پروفائل قتل کے بعد کسی تحقیقاتی کمیشن کے نتائج کے بارے میں سنا ہے ؟ شاید نہیں ۔ دو بار منتخب ہونے والے سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ، جن کا پرچہ نامزدگی اس بار بھی مسترد کر دیا گیا ، ایک بار ایک تلخ سچائی سے پردہ اٹھایا تھا ۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے دور میں انہوں نے ایران کے سیکورٹی اداروں میں موساد کے ایجنٹوں کی تحقیقات کے لیے ایک خفیہ سروس یونٹ قائم کیا تھا اور پتہ چلا کہ اس کا سربراہ 20 دیگر افراد کے ساتھ موساد کے پے رول پر تھا ۔
اسرائیل نے اہم ایرانی تنصیبات پر بمباری کی
رئیسی کے قتل کے بعد ایران کو اسرائیل پر حملہ کرنے میں پورے دو ماہ ( اکتوبر 2024 ) لگے ، کیوں ؟
اسرائیل نے جوابی کارروائی کی، لیکن ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکا، کیونکہ ایران نے خود کو نئے روسی دفاعی نظام کے ساتھ جوڑ رکھا تھا ۔ یہ وہی نظام ہے جو اس بار ناکام ہوا ۔ اسرائیل نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں سے ایران کے اندر اہم تنصیبات پر بمباری کی ۔ اردن نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود بھی فراہم کر رکھی ہیں ۔ اسرائیل ایران کے اندر تمام ریڈار وغیرہ کو جام کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔
تیرہ جون کو، اسرائیل نے دن دہاڑے 200 لڑاکا بمبار طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ایران پر حملہ کیا ۔ اسرائیل سائنسدانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر کیسے مار سکتا ہے ؟
عالمی میڈیا میں اس وقت ایسی خبروں کی بھرمار ہے، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ موساد کے کمانڈوز پہلے ہی ایران میں گھس گئے تھے۔ انہوں نے خفیہ ڈرون لگائے ، میزائلوں کی اسمگلنگ کی اور ایرانی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کے لیے ایران کی سطح سے فضا تک میزائل ڈیفنس کے قریب درست گائیڈڈ ہتھیار نصب کیے ۔
اسرائیل نے ویڈیوز جاری کیے ہیں کہ کیسے اس نے خفیہ طور پر اسٹرائیک سسٹم قائم کیا ، جو ایرانی فضائی دفاعی نظام پر فائر کیے گئے ۔ یہ روس میں یوکرین کے ‘ آپریشن اسپائیڈر ویب ‘ سے بہت ملتا جلتا ہے ، جس میں سینکڑوں ڈرون روس میں بھیجے گئے تھے ۔ اسرائیل نے اس حملے کو ‘ آپریشن رائزنگ لائن ‘ کا نام دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ حملے جاری رہیں گے ۔
مشرق وسطیٰ کا تقریباً ہر ملک ایران کے خلاف ہے ۔ 22 عرب ممالک امریکہ کے سیٹلائٹ ہیں ۔ مصر ، اردن ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، قطر ، عمان وغیرہ ہمیشہ امریکہ کی طرف رہے ہیں ۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے ان ممالک نے غزہ ، فلسطین میں اسرائیلی نسل کشی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ غزہ میں روزانہ اوسطاً 100 افراد مارے جا رہے ہیں ۔
ایران کو سخت امریکی پابندیوں کا سامنا ہے
کوئی بھی اسٹریٹجسٹ بہت آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ امریکی صدر کا مشرق وسطیٰ کا آخری دورہ ( 13-16 مئی ) ایران پر آنے والے اسرائیلی حملے کے پیش نظر عرب ریاستوں کی حمایت حاصل کرنا تھا ۔ ایران 50 سال سے زیادہ عرصے سے سخت ترین امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہا تھا، لیکن اس نے اسے برداشت کیا ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں تنازعہ روس اور چین کے حمایت یافتہ ایران بمقابلہ امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان ہے ۔ فلسطین کی نسل کشی عربوں یا ترکوں کے لیے ‘ تشویش کا معاملہ ‘ نہیں ہے ۔
ایران نے فلسطین میں حماس ، لبنان میں حزب اللہ ، شام میں بشارالاسد اور یمن میں انصاراللہ کی مدد کی ، جو اسرائیل اور امریکہ کے خلاف محاذ تھے ۔ فلسطین کی نسل کشی کے دوران ترکی خاموش تماشائی بنا رہا ۔ لیکن اس نے الجولانی کو شام میں اسد کا تختہ الٹنے میں مدد کی اور کھیل اسرائیل کے حق میں جھک گیا ۔ الجولانی اور اسرائیل شام میں ایرانی تنصیبات پر حملوں میں ایک ساتھ ہیں ۔ روس ، جس نے گزشتہ دہائی میں اسد کی مدد کی تھی ، کو بھی اپنے فوجی اڈے چھوڑنے پڑے ۔ روس فروری 2022 سے یوکرین کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جسے نیٹو اور امریکہ نے مسلح کیا ہے ۔ لیکن ایران میں موساد کی دراندازی کو دیکھتے ہوئے اسرائیل اب آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بنانے کے بہت قریب ہوسکتا ہے ۔
(حیدر عباس اتر پردیش کے سابق ریاستی انفارمیشن کمشنر اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)