
امریکی محکمہ انصاف نے اڈانی گروپ کےاس کردار کی تحقیقات شروع کی ہے جس میں اس پر ایران سے ایل پی جی درآمد کرنے کا شبہ ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں اور دستاویزوں میں بے ضابطگیوں کی جانچ کی جارہی ہے۔

گوتم اڈانی۔تصویر بہ شکریہ: انسٹاگرام
نئی دہلی: امریکی محکمہ انصاف نے (یو ایس ڈپارٹمنٹ آف جسٹس) نے اڈانی گروپ کے اس کردار کی جانچ شروع کی ہے، جس میں اس پر ایران سے پیٹرو کیمیکل مصنوعات (خصوصی طور پر ایل پی جی) درآمد کرنے کا شک ہے۔یہ جانکاری وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں دی گئی ہے۔ یہ جانچ ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اڈانی گروپ بدعنوانی کے ایک الگ معاملے میں سمجھوتے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے اڈانی گروپ نے امریکی پابندیوں کو جھانسہ دینے یا ایرانی ایل پی جی کی تجارت میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ اڈانی کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسی کسی امریکی تحقیقات سے واقف نہیں ہیں۔
ترجمان نے کہا، ‘وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کی ٹائمنگ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کا مقصد محکمہ انصاف کی جانب سے جاری پراسیکیوشن کو متاثر کرنا ہے۔’
وال اسٹریٹ جرنل نے قبل ازیں 13 اپریل کو خبر دی تھی کہ گوتم اڈانی کے وکیلوں نے امریکی محکمہ انصاف سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے خلاف درج فوجداری مقدمات کو خارج کردیں۔ ان معاملات میں اڈانی پر ہندوستان میں شمسی توانائی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کی رشوت دینے کا الزام ہے۔
ان الزامات کو اکتوبر 2024 میں عام کیا گیا تھا، جس میں اڈانی، ان کے بھتیجے ساگر اڈانی اور تین کمپنیوں کے چھ دیگر عہدیداروں کا نام شامل تھا۔
ایک متوازی مقدمے میں یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن(ایس ای سی) نے گوتم اور ساگر اڈانی پر وفاقی سیکیورٹیز قوانین کی اینٹی فراڈ دفعات کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔
پانچ مئی کو بلیومبرگ نے بتایا تھاکہ اڈانی کے وکیلوں اور ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کے درمیان بات چیت تیز ہو گئی ہے اور آنے والے ایک مہینے میں کسی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی2 جون کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ امریکی استغاثہ اڈانی انٹرپرائزز کے لیے ایل پی جی کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والے کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل نے خلیجی بندرگاہوں اور اڈانی کے زیر انتظام مندرا بندرگاہ کے درمیان سفر کرنے والے ایل پی جی ٹینکروں کے ایک گروپ کا بھی پتہ لگایا۔ رپورٹ کے مطابق، انہیں ان جہازوں کی نقل و حرکت کو چھپانے کی کوشش کے کچھ واضح نشانات ملے، جن میں جہاز کی لوکیشن بتانے والے خودکار شناختی نظام (اے ائی ایس) میں ہیرپھیرکرنا شامل ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایرانی تیل اور گیس کی مصنوعات کے خریدار اکثر عمان اور عراق میں بنے فرضی دستاویزوں کا استعمال کرتے ہیں۔
اس جانچ کا فوکس پاناما میں رجسٹرڈ ٹینکر جہازپر ہے جسے ایس ایم ایس بروزکہا جاتا ہے، جسے بعد میں نیل کا نام دیا گیا۔ اے آئی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ جہاز 3 اپریل کو عراق کی خور الزبیر بندرگاہ پر تھا۔ لیکن اسی دن کی سیٹلائٹ تصاویر میں جہاز کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔ اس کے بجائے، اسی طرح کی بناوٹ والا ایک جہاز ایران کے ٹومبک میں ایل پی جی ٹرمینل پر کھڑا نظر آیا۔ چار دن بعد، ٹینکر متحدہ عرب امارات کے ساحل پر نظر آیا اور اس کے ڈیٹا سے پتہ چلا کہ یہ پانی میں کچھ نیچے بیٹھا ہوا تھا – جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں مال لدا ہوا تھا۔
جہاز نے عمان کی بندرگاہ سہار کے قریب لنگر انداز ہونے کا اشارہ بھیجا تھا، لیکن اسے کبھی وہاں لنگر انداز ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ دو دن بعد،اڈانی گلوبل پی ٹی ای نے جہاز سے تقریباً 11250 میٹرک ٹن ایل پی جی لوڈ کرنے اور اسے ہندوستان کی مندرا بندرگاہ تک پہنچانے کا معاہدہ کیا۔ ہندوستانی کسٹم ریکارڈ کے مطابق، 17 اپریل کو، اڈانی انٹرپرائزز نےایک ایسا ہی مال درآمد کیا،جس کی قیمت 70 لاکھ ڈالر سے کچھ زیادہ تھی ۔
ایس ایم ایس بروز (اب نیل) کے دستاویزوں میں اس سے قبل بھی کئی تضادات پائے گئے ہیں۔ جون 2024 کی ایک بنگلہ دیشی بندرگاہ کے دستاویز میں اس کا ذکر ایرانی نژاد ایل پی جی کی ڈیلیوری کے لیے کیا گیا تھا، جبکہ اے آئی ایس ڈیٹا میں اسے عراق کی جانب جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا -یہ پیٹرن اپریل والے معاملے سے میل کھاتاہے۔
اڈانی کی مندرا بندرگاہ سے منسلک تین دیگر ایل پی جی ٹینکروں کی سرگرمیوں میں بھی بے ضابطگیوں کا پتہ چلا ہے۔ ایک جہاز، جو اسی کمپنی کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو نیل کا انتظام کرتی ہے، وہ امریکی سینیٹ کی اس واچ لسٹ میں شامل تھی جس میں ایرانی تیل اور گیس لے جانے والے جہازوں کا نام ہے ۔ ایک اور جہاز نے خور الزبیر کی بندرگاہ پر پہنچنے کا دعویٰ کیا، لیکن سیٹلائٹ امیج میں وہ وہاں نظرنہیں آیا۔ چوتھا جہاز، جو بار بارمندرا میں ڈاک کرتا ہے، امریکی محکمہ توانائی کی 2024 کی رپورٹ میں ایرانی پیٹرولیم برآمد کرنے والے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
اڈانی گروپ نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کو پوری طرح سے خارج کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایل پی جی کا کاروبار ‘آپریشنل اوراہم نہیں ہے’ – یہ اڈانی انٹرپرائزز کی 11.7 بلین ڈالرکی کل سالانہ آمدنی کا صرف 1.46 فیصد ہے۔
گروپ نے کہا کہ وہ تمام ایل پی جی قابل اعتماد بین الاقوامی سپلائرز کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے خریدتا ہے، او ایف اے سی کی پابندیوں والی فہرست میں شامل کسی بھی کمپنی کے ساتھ تجارت نہیں کرتا ہےاورشپنگ کا کام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس کمپنیوں کے ذریعے اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کرواتاہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں مذکور کنسائنمنٹس کا جواب دیتے ہوئے اڈانی نے کہا کہ یہ ایک معمول کا تجارتی لین دین تھا، جس کا انتظام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس پارٹنر نے کیا، اور دستاویزات میں سہار (عمان) کو کنسائنمنٹ کا سورس بتایا گیا ہے۔
اڈانی گروپ نے یہ بھی کہا، ‘ہم ان جہازوں (جیسے ایس ایم ایس بروز/نیل)کے مالک، آپریٹر یا ٹریکر نہیں ہیں اور نہ ہی ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہے، اس لیے ہم ان کی موجودہ یا ماضی کی کسی بھی سرگرمی پر تبصرہ نہیں کر سکتے ۔’
گروپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک حقیقی درآمد کرنے والے کی تمام ذمہ داریاں پوری کی گئی ہیں۔