کبھی اینٹی نیشنل، کبھی دہشت گرد اور کبھی ماؤ نواز تنظیموں سے تعلقات: کیسے بدلتی رہی صحافی کی حراست کی بنیاد

سات مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سےتعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا۔ تین بار پولیس ریمانڈ میں  لیے جانے کے بعد، ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔ان پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام  عائد کیا گیاہے۔

سات مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سےتعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا۔ تین بار پولیس ریمانڈ میں  لیے جانے کے بعد، ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔ان پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام  عائد کیا گیاہے۔

کیرالہ کے صحافی رجاز ایم شیباصدیقی کو ناگپور پولیس نے جمعرات 8 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کیرالہ کے صحافی رجاز ایم شیباصدیقی کو ناگپور پولیس نے جمعرات 8 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: 7 مئی کو ناگپور پولیس نے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو آپریشن سیندور (پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے پر ہندوستان کی فوجی کارروائی) کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری اور تین بارپولیس ریمانڈ  میں لیے جانےکے بعد،  ان کی حراست کی وجوہات مسلسل بدلتی رہی ہیں۔

پولیس نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی گرفتاری ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ‘اینٹی انڈین آرمی’ اور ‘اینٹی انڈیا’ پوسٹ کرنے اور ‘دو پستول’ لہراتے ہوئے اپنی ایک انسٹاگرام فوٹو شیئر کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان پر جلد ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کا الزام لگایا گیا۔

پولیس نے اب الزام لگایا ہے کہ ان کا تعلق پونے میں واقع کلچرل گروپ کبیر کلا منچ (کے کے ایم) سے ہے، جو دلت اور بہوجن نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں، کے کے ایم اپنے تنقیدی خیالات کی وجہ سے جانچ  ایجنسیوں کی  نگرانی میں رہی ہے اور آخر کار اس پر ممنوعہ ماؤنواز تنظیم کا ‘فرنٹل’ ہونے کا الزام لگایا گیا۔

گزشتہ 15 مئی کو پولیس نے رجاز کو شام 7 بج کر 15 منٹ پر عدالت میں پیش کیا۔ جب تک ان کی حراست کا حکم جاری ہوا، تب تک رات کے تقریباً 10 بج چکے تھے۔ پولیس نے اضافی 10 دنوں کے لیے ان کی حراست کی درخواست کی، لیکن عدالت نے تین دن کی ہی اجازت دی۔

کیرالہ یونیورسٹی میں سوشل روک  کی پڑھائی کرنے والے رجاز  نیوز پلیٹ فارم مکتوب اور کاؤنٹر کرنٹ کے لیے لکھتے رہے ہیں۔ ان کےمضامین بنیادی طور پر دیگر مسائل کے علاوہ جیلوں میں پولیس کی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مرکوز رہے ہیں۔ رجاز کے دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے مطابق، ایک نوجوان طالبعلم کے طور پر وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کا حصہ تھے۔ بعد میں وہ مایوس ہو گئے اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (ڈی ایس اے) میں شامل ہو گئے، ایک ایسی تنظیم جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شدت پسند  بائیں بازوکی طرف  جھکاؤ  رکھتی ہے۔

پونے کا دورہ

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ 2023 میں رجازنے پونے کا دورہ کیا تھااور کے کے ایم کے ارکان سے ملاقات کی تھی۔ کے کے ایم کے تین آرٹسٹ– جیوتی جگتاپ، ساگر گورکھے، رمیش گائچور – ایلگار پریشد کیس میں جیل میں بند ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں کہ کیا رجاز دو دیگر لوگوں – سنتوش شیلار عرف ‘پینٹر’ اور پرشانت کامبلے عرف ‘لیپ ٹاپ’ سے ملنے پونے گئےتھے۔جہاں شیلار کو گزشتہ سال گرفتار کیا گیا تھا، وہیں کامبلے کو اس ماہ کے شروع میں گرفتار کیا گیا- دونوں کی گرفتاریاں 2011 کے کے ایم معاملے کے سلسلے میں ہوئی ہیں، جو ابھی زیر التواء ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ شیلار اور کامبلے دونوں انڈر گراؤنڈ تھے۔ پولیس کے مطابق، شیلار کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بیمار پڑگیا اور علاج کے لیے باہر آیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ کامبلے تھانے ضلع کے ایک دور دراز گاؤں میں کام کررہا تھا اور اسے وہیں سے گرفتار کیا گیا۔

پولیس کے مطابق، یہ دونوں پونے سے فرار ہوئے تھے، تاہم اب رجاز کی ریمانڈ کی درخواست میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس بات کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں کہ کیا رجاز دونوں سے ملنے پونے گیا تھا۔

اپنی گرفتاری سے قبل، رجاز ‘ریاستی جبر کے خلاف مہم’ کے زیر اہتمام ایک پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گئے تھے۔ پولیس نے اب اس پلیٹ فارم کو بھی ایک ‘فرنٹل آرگنائزیشن’ برانڈ کیا ہے، اس کے باوجود ان کے دعوؤں کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کانفرنس کے بعد رجاز ایک خاتون دوست سے ملنے ناگپور آئے اور دونوں کو شہر کے ایک ہوٹل سے اٹھایا گیا۔ رجاز کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ خاتون کو کئی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے۔

بندوقیں

ناگپور پولیس نے رجاز کو تین بار حراست میں لیا ہے۔ پہلے ریمانڈ اور ایف آئی آر میں صرف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعات شامل تھیں۔ ان پر بی این ایس کی دفعہ 149 کے تحت ‘حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے کے ارادے سے اسلحہ یا دیگر مواد اکٹھا کرنے’ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ دیگر الزامات میں بی این ایس کی دفعہ 192، 353(1)(بی،353(2)اور 353(3) کے تحت’دنگا بھڑکانے کے ارادے سے اشتعال انگیزی’اور ‘عوامی شرپسندی کو بڑھاوا دینے والے بیان’ شامل تھے۔

ان میں سے دفعہ 149 سب سے سنگین تھی۔ یہ الزام ایک انسٹاگرام اسٹوری سے شروع ہوا جس میں رجاز کو دو پستول پکڑے ہوئے دیکھا گیا تھا، جس کا کیپشن تھا’اپنے دفاع کے لیے لائسنس یافتہ’۔ ایف آئی آر کے وقت پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اسلحہ اصلی تھا یا نہیں۔

تاہم، آٹھ دن اور تین حراست کے بعد، پولیس نے ناگپور کے ایک مقامی دکان کے ملازمین سے پوچھ گچھ کی، جہاں رجاز مبینہ طور پر ایک خاتون دوست کے ساتھ گیا تھا اور پستول کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی۔ دکان کے عملے اور مالکان نے تصدیق کی کہ پستول ایئر گن تھے اور یہ دونوں وہاں گئے تھے، تصویر بنوائی اور چلے گئے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف دفعہ 149 لاگو ہے۔

ٹیرر اور لٹریچر

تیسری حراست کے دوران پولیس نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 38 اور 39 شامل کیں۔ دفعہ 38 ایک ‘دہشت گرد تنظیم’ کی رکنیت سے متعلق ہے، جبکہ دفعہ 39 ایک دہشت گرد تنظیم کی حمایت سے متعلق ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ رجاز مختلف نظریات کی حامل کئی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں، جو ان کی گرفتاری کے بعد کی گئی چھاپے ماری کے دوران ان کے فون اور ان کی کوچی کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والے مبینہ لٹریچر اورپرچے پرمبنی ہے۔

رجاز کے فون پر ملنے والے لٹریچر کے مواد کی ریمانڈ درخواست میں مکمل تفصیل نہیں ہے اور اسے ‘مشتبہ’ قرار دیا گیا ہے۔ پولیس نے رجاز کے گھر سے دو کتابیں برآمد کیں – ایک کارل مارکس کی اور دوسری کے مرلی کی کریٹکنگ برہمنواد۔ رجاز کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتابیں ان کے والد کی ہیں، جو سوشل سائنس کے ایک ریٹائرڈ استاد ہیں، اور ان میں سے کسی پر بھی پابندی نہیں ہے۔

رجاز کے پاس موجود دیگر کتابوں میں جی این سائی بابا کی ہو ڈیفائیڈ ڈیتھ: لائف ایند ٹائمز، دی گریٹ لیگیسی  آف مارکسزم-لینن ازم: لینن آن دی سوشلسٹ اسٹیٹ  اینڈ اونلی پیپل میک دیئر اون ہسٹری اور مرحوم مارکسی دانشور اعجاز احمد کا لکھا ایک تعارف شامل ہیں ۔ یہ کتابیں بھی وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔

ریمانڈ کی درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ رجاز ممنوعہ ماؤنواز تنظیم کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں مدد کر رہا تھا۔ پولیس کا یہ دعویٰ رجازکی گرفتاری کے وقت ان کے پاس سے ملے نظریہ میگزین کے ایک پمفلٹ پر مبنی ہے ۔

سوشل میڈیا پر سرگرم نظریہ کو ماؤ نواز نظریات کی حمایت کے لیے جانا جاتا ہے اور اس نے حال ہی میں کالعدم پارٹی کے جنگ بندی اور امن مذاکرات کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ تاہم،نظریہ نہ تو کالعدم تنظیم ہے اور نہ ہی حکومت نے اسے ‘فرنٹ’ تنظیم قرار دیا ہے۔ دی وائر نے پمفلٹ میں درج فون نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ناگپور پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ رجاز کے مرلی کے قریبی رابطے میں رہا ہے، جنہیں پہلے ماؤنوازوں سے تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن رہائی کے بعد سے وہ کوچی میں رہتے ہیں، جو رجاز کے گھر کے بہت قریب ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ مرلی ماؤنواز مرکزی کمیٹی کا رکن ہے، لیکن ریمانڈ کی درخواست میں کسی ثبوت کے ساتھ اس دعوے کی تائید نہیں کی گئی ہے۔ مرلی نے کالعدم تنظیم کے ساتھ کسی بھی موجودہ روابط سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماضی میں اس تحریک میں شامل تھے۔

پولیس نے انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 کو بھی لاگو کیا ہے، جو الکٹرانک شکل میں’فحش مواد’کی اشاعت یا ترسیل سے متعلق ہے۔ پولیس نے یہ واضح نہیں کیا کہ رجاز سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات سے کون سا فحش مواد ملا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)