
کبھی مزاحمت کی توانا آواز تصور کیے جانے والے فیض احمد فیض کا ‘ہم دیکھیں گے’گانے پر اب سیڈیشن کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔گزشتہ ہفتےایکٹوسٹ ویرا ساتھیدار کی یاد میں منعقد ایک تقریب میں اس نظم کی پیشکش پر ناگپور پولیس نے منتظمین اور مقررین کے خلاف سیڈیشن کا مقدمہ درج کیا ہے۔

فیض احمد فیض اور ویرا ساتھیدار۔ پس منظر میں ‘ہم دیکھیں گے’ کا متن
ممبئی: کبھی مزاحمت کی توانا آواز تصور کیے جانے والے فیض احمد فیض کی انقلابی نظم ‘ہم دیکھیں گے‘ پر ہندوستان میں اب سیڈیشن یعنی غداری کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے ۔
گزشتہ ہفتے، اداکار اور ایکٹوسٹ ویرا ساتھیدار کی یاد میں منعقد ایک تقریب میں نوجوان ثقافتی کارکنوں کےایک گروپ نے فیض کی مشہور زمانہ نظم ‘ہم دیکھیں گے’ کا ایک حصہ پیش کیا تھا۔ اب ناگپور پولیس نے تقریب کے منتظمین اور مقررین کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 152 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے، جو سیڈیشن سے متعلق ہے، ساتھ ہی بی این ایس کی دیگر دفعات کے تحت بھی معاملہ درج کیا ہے، جس میں دفعہ 196 (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور دفعہ 353 (عوامی شرپسندی کے لیے سازگار بیان) شامل ہیں۔
ایک کامیاب اداکار، مصنف، صحافی اور سیاسی مفکر ساتھیدار ایک ہفتے سے زائد عرصے تک کووِڈ 19 سے لڑنے کے بعد 13 اپریل 2021 کو انتقال کر گئے تھے ۔ ان کی موت کے بعد سے ان کی اہلیہ پشپا نے ایک سالانہ یادگار کا اہتمام کیا ہے، جس میں اس سال سماجی کارکن اتم جاگیردار کو اظہار خیال کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اگرچہ ایف آئی آر میں واضح طور پر کسی شخص کا نام نہیں لیا گیا ہے، لیکن اس میں تقریب کے منتظم اور مقرر کا ذکر ہے۔
گزشتہ 13 مئی کو ودربھ ساہتیہ سنگھ میں منعقدہ ایک تقریب میں- جس میں 150 سے زیادہ افراد نے شرکت کی – جاگیردار نے متنازعہ مہاراشٹراسپیشل پبلک سیکورٹی بل، 2024 کے بارے میں بات کی تھی۔ بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومت اس بل کو قانون میں تبدیل کرنے اور اسے نافذ کرنے کے لیے جارحانہ طور پر زورآزمائی کررہی ہے۔
تاہم، سماجی کارکنوں اور ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ اگر یہ بل لاگو ہوتا ہے، تو یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا باعث بنے گا اور اختلاف کرنے والوں کو ‘اربن نکسل’ قرار دیا جائے گا۔
‘ایک پاکستانی شاعر’
ناگپور کے مقامی باشندے دتاتریہ شرکے کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں مراٹھی چینل اے بی پی ماجھا پر نشر ہونے والی ایک خبر کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ چینل غالباً پہلا چینل تھا، جس کوہندوستان میں فیض کی شاعری سنانے سے مسئلہ ہے۔ اپنی شکایت میں شرکے نے دعویٰ کیا ہے کہ ‘ایک ایسے وقت میں جب ملک پاکستانی فوج کے ساتھ بہادری سے لڑ رہا تھا، ناگپور میں بائیں بازو کے بنیاد پرست پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی نظمیں گانے میں مصروف تھے۔’
شرکے نے مزید دعویٰ کیا کہ ‘تخت ہلانے’ والی لائن حکومت کے لیے براہ راست دھمکی ہے۔ اگرچہ ایف آئی آر میں مندرجہ بالا سطر کا حوالہ دیا گیا ہے، لیکن نظم کی اصل لائن’سب تخت گرائے جائیں گے’ ہے۔ یہ نظم سمتا کلا منچ کے ممبئی کے نوجوان ثقافتی کارکنوں نے پیش کی تھی۔
سیڈیشن پر سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود ناگپور پولیس نے منتظمین اور مقررین کے خلاف اس دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 11 مئی کو اپنے تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس متنازعہ قانون پر اس وقت تک کے لیے روک لگا دی تھی، جب تک کہ مرکز نوآبادیاتی دور کے اس قانون پر نظرثانی کا اپنا وعدہ پورا نہیں کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کی ایک خصوصی بنچ نے کہا تھا کہ ہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ایف آئی آر درج کرنے، تحقیقات جاری رکھنے یا آئی پی سی کی دفعہ 124 اے (سیڈیشن)کے تحت جبری کارروائی کرنے سےاس وقت تک گریز کریں گے جب تک کہ اس پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے۔ مناسب ہو گا کہ قانون کی اس شق کو اس وقت تک استعمال نہ کیا جائے جب تک اس پر نظر ثانی نہ کر لی جائے۔
اس کے بعد بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے آئی پی سی کو بی این ایس سے بدل دیا ہے۔ تاہم، نئے قانون میں غداری کی شق کو ختم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے، بی این ایس دفعہ 152 کا حوالہ دیتا ہے، جو کہ بغاوت کے قانون سے بہت ملتا جلتا ہے لیکن واضح طور پر لفظ ‘سیڈیشن’ کا استعمال نہیں کرتا ہے۔
رواں ماہ صحافی کوگرفتار کیا گیا
اس ماہ یہ دوسرا معاملہ ہے جس میں ناگپور پولیس نے کسی شخص کی اظہار رائے کی آزادی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کو کو دو نقلی بندوقوں کے ساتھ اپنی تصویر پوسٹ کرنے اور ہندوستانی فوج کے خلاف احتجاج کرنےکے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس معاملے میں ابتدائی طور پر ناگپور سٹی پولیس نے تفتیش کی تھی اور اب انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) معاملے کو سنبھال رہاہے،رجاز پر آپریشن سیندور کی مخالفت کا الزام ہے۔
ایجنسی نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ رجاز کے کالعدم تنظیموں سے روابط ہیں، جن میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین شامل ہیں۔ ان کالعدم تنظیموں کے نظریات بالکل مختلف ہیں اور پولیس نے رجاز پر ان کالعدم تنظیموں میں سے ہر ایک کے نظریات کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔
ویرا ساتھیدار کی مخالفت
زندگی میں ساتھیدار کو اپنی سیاسی سرگرمی کی وجہ سے پولیس کی طرف سے مسلسل ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ پولیس کے ریڈار پر رہے۔ اپنی موت سے چند ماہ قبل دی وائر کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں ساتھیدار نے اپنے شہریوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے نئے طریقے اپنانے کی حکمت عملی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ مثال کے طور پر 2013 میں فلم کورٹ کی شوٹنگ کے دوران گوندیا پولیس ممبئی کے سیٹ پر پہنچ گئی اور ‘ناگپور نکسلائٹ’ کو تلاش کرنے لگی۔ ان کی موت سے ایک سال قبل مقامی پولیس نے ناگپور میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ہیڈکوارٹر کے خلاف مسائل اٹھانے کے بعد ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ چھاپے کے دوران ایک تلوار برآمد ہوئی تھی، تاہم مقامی نوجوانوں نے پولیس کو بھگا دیا۔
اکتوبر 2020 میں جب این آئی اے نے ایلگار پریشد کیس میں ایک ضمنی چارج شیٹ داخل کی، تو ساتھیدار کو نام نہاد ‘اربن نکسلیوں’ میں شامل کیا گیا، یہ اصطلاح دیویندر فڈنویس کی قیادت والی حکومت نے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کی ہے۔ اب، مہاراشٹر اسپیشل پبلک سیفٹی بل کے ساتھ ریاستی حکومت قانونی فریم ورک کے اندر ‘اربن نکسل’ اصطلاح کو باقاعدہ شکل دینا چاہتی ہے۔
حکومت نے ساتھیدار کے زندہ رہتے ہوئے مجرم قرار دینے کی کئی کوششیں کیں اور ان کی موت کے بعد بھی ایسی کوششیں جاری رہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )