ہریانہ پولیس نے محمود آباد کی گرفتاری پر نوٹس کا اب تک جواب نہیں دیا: ہیومن رائٹس کمیشن

این ایچ آر سی نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کا از خود نوٹس لیتے ہوئےاسے پہلی نظر میں استاد کے انسانی حقوق اور آزادی کی  خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ اب کمیشن نے بتایا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ایک ہفتہ کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود اس کے نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔

این ایچ آر سی نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کا از خود نوٹس لیتے ہوئےاسے پہلی نظر میں استاد کے انسانی حقوق اور آزادی کی  خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ اب کمیشن نے بتایا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ایک ہفتہ کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود اس کے نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) نے کہا ہے کہ ہریانہ پولیس نے آپریشن سیندور پر تبصرے کے لیے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی حال ہی میں ہوئی گرفتاری پر کمیشن کی طرف سے جاری نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، گزشتہ ماہ این ایچ آر سی نے محمود آباد کی گرفتاری کا از خود نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ پہلی نظر میں محمود آباد کے انسانی حقوق اور آزادی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں دی ہندو کی جانب سے دائر کردہ حق اطلاعات قانون 2005 کے تحت ایک درخواست کے جواب میں این ایچ آر سی نے کہا کہ ہریانہ پولیس نے ایک ہفتہ کی ڈیڈ لائن کے اندر اس کے نوٹس کا جواب نہیں دیا، جو 27 مئی کو ختم ہوگئی ۔

اخبار کو دیے گئے جواب میں این ایچ آر سی نے کہا کہ کمیشن نے سوموار (10 جون) کو ہریانہ پولیس کو ایک ریمائنڈر بھیجا ہے اور معاملہ ابھی بھی زیر سماعت ہے۔

اس سے قبل، این ایچ آر سینے 21 مئی کو ایک پریس ریلیز میں کہا تھا، ‘نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن(این ایچ آر سی)، انڈیا کو ہریانہ میں اشوکا یونیورسٹی (ایک ڈیمڈ یونیورسٹی) کے پروفیسر کی گرفتاری اور حراستی ریمانڈ کے حوالے سے  20 مئی 2025 کو  ایک رپورٹ ملی ہے۔’

کمیشن نے مزید کہا تھا کہ ‘کمیشن نے پایا ہے کہ یہ رپورٹ، جس میں ان الزامات کا خلاصہ ہے جن کی بنیاد پر اسے گرفتار کیا گیا ہے، پہلی نظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذکورہ پروفیسر کے انسانی حقوق اور آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس لیے کمیشن نے رپورٹ شدہ واقعے کا ازخود نوٹس لینا مناسب سمجھا ہے۔’

معلوم ہو کہ 18 مئی کو ہریانہ پولیس نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور پر تبصرے پرسیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اس کے بعد 21 مئی کو سپریم کورٹ نے محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دی تھی۔ عدالت نے ان کی دو سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا بھی حکم دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس  معاملے سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی تقریر کر سکتے ہیں۔

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا

غور طلب ہے کہ محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے قبل ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر طلب کیا تھا۔

ان کے خلاف ہریانہ میں بی جے پی کے یووا مورچہ کے جنرل سکریٹری یوگیش جٹھیری نے شکایت درج کروائی تھی۔ پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق، جٹھیری ہریانہ کے ایک گاؤں کے سرپنچ ہیں، اور محمود آباد کے تبصرے سے انہیں تکلیف ہوئی  ہے۔

محمود آباد پر بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 152 کے تحت ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات’ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان پر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے، شہریوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے ارادے سے دانستہ اور متعصب کام کرنے، مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان، ذات یا برادری کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی یا دشمنی، نفرت یا بغض و عداوت کے جذبات کو فروغ دینے یا فروغ دینے کی کوشش کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

واضح ہو کہ محمود آباد پر حساس وقت میں لوگوں کو ملک کے خلاف اکسانے کا الزام ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ‘ایسے حساس وقت میں بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑنے کے لیے لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے پروفیسر جذبات کو بھڑکاتے رہے اور مذہب کے نام پر بیرونی یا غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کا کام کرتے رہے۔’

وہ تبصرہ کیا تھا؟

آٹھ  مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ محمود آباد نے کرنل صوفیہ قریشی کی ستائش کرنے والے ہندوتوایوں کے تضاد کو اجاگر کیا تھا۔ محمود آباد نے کہا تھا کہ کرنل قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ ایک علامت کے طور پر اہم تھی، لیکن اسے زمینی حقیقت میں بدلنا ہوگا، ورنہ یہ محض منافقت ہے۔

اس کے بعد ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ محمود آباد کے تبصرے نے ہندوستانی مسلح افواج میں خواتین افسران کی توہین کی اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیا۔

خواتین کمیشن کے جواب میں محمود آباد نے کہا تھا کہ ‘میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے اور کمیشن کے پاس اس معاملے میں کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے… مجھے جاری کیے گئے سمن اس بات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے کہ میری پوسٹ کس طرح خواتین کے حقوق یا قوانین کے خلاف ہے۔’

محمود آباد کے مطابق، ‘میں نے کرنل قریشی کی حمایت کرنے والے دائیں بازو کے لوگوں کی بھی تعریف کی اور ان سے عام ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ  بھی یہی رویہ اپنانے کے لیے کہا، جو روزانہ ہراسانی  کا سامنا کرتے ہیں… میرا تبصرہ شہریوں اور فوجیوں دونوں کی سلامتی کے بارے میں تھا۔ اس کے علاوہ، میرے تبصروں میں دور دور تک کوئی بدگمانی نہیں ہے۔’