
ای ڈی نے انل امبانی کے ریلائنس گروپ کی کمپنیوں کے منی لانڈرنگ معاملے میں جانچ شروع کی ہے۔ یس بینک کی طرف سے دیے گئے تقریباً 3000 کروڑ روپے کے قرضوں میں بھاری گڑبڑی، رشوت اور دھوکہ دہی کے الزامات ہیں۔ ای ڈی نے 50 کمپنیوں اور 35 سے زیادہ ٹھکانوں پر چھاپے مارے کی ہے۔

سی بی آئی کی جانب سے دو کیس درج کیے جانے کے بعد ای ڈی نے انل امبانی کے ریلائنس گروپ کی کمپنیوں کے منی لانڈرنگ معاملے کی تحقیقات شروع کی ہے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے انل امبانی کے ریلائنس گروپ کی کمپنیوں کی جانچ شروع کردی ہے۔ مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی جانب سے ان کمپنیوں کے خلاف دو ایف آئی آر درج کرنے کے بعد یہ کارروائی کی گئی ہے۔
ای ڈی نے منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ (پی ایم ایل اے) کی دفعہ 17 کے تحت چھاپے مارے کی کارروائی کی ہے، جس کے دائرے میں 35 سے زیادہ ٹھکانے، 50 کمپنیاں اور 25 سے زیادہ افراد شامل ہیں۔
یہ معاملہ یس بینک سے متعلق ہے، جس نے 2017 میں ریلائنس گروپ کی تین کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔ یس بینک نے ریلائنس کمرشل فائنانس لمیٹڈ میں 900 کروڑ روپے، ریلائنس کیپیٹل لمیٹڈ میں 1,000 کروڑ روپے اور ریلائنس ہوم فائنانس لمیٹڈ میں 1,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس وقت رانا کپور یس بینک کے سربراہ تھے۔
اس سرمایہ کاری کے بدلے انل امبانی گروپ کی کمپنیوں نے رانا کپور کے خاندان کے افراد سے منسلک اداروں کو 285 کروڑ روپے کا قرض دیا، جسے مبینہ طور پر رشوت مانا جا رہا ہے۔
انل امبانی گروپ کی ان کمپنیوں میں یس بینک کی سرمایہ کاری 2019 میں این پی اے ہوگئی۔ اس کے بعد بینک نے 2020 میں سی بی آئی سے شکایت کی۔ جانچ ایجنسی نے 2022 میں آرسی2242022اے0002اور آر سی2242022اے0003 نمبر کی دو ایف آئی آر درج کیں۔
ای ڈی نے تین سال بعد اس معاملے میں تلاشی مہم شروع کی ہے۔
دیگر ایجنسیوں اور اداروں جیسے نیشنل ہاؤسنگ بینک، سیبی (سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا)، نیشنل فنانشل رپورٹنگ اتھارٹی (این ایف آر اے) اور بینک آف بڑودہ نے بھی ای ڈی کے ساتھ جانکاری کا اشتراک کیا ہے۔
ای ڈی کی ابتدائی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بینکوں، شیئر ہولڈرز، سرمایہ کاروں اور دیگر عوامی اداروں کو دھوکہ دے کر عوام کے پیسے کوموڑنے یا ہڑپ کرنے کے لیے سوچ سمجھ کرمنصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس میں بینک حکام، خاص کر یس بینک لمیٹڈ کے پروموٹرز کو رشوت دینے کا معاملہ بھی ای ڈی کی جانچ کے دائرے میں ہے۔
ای ڈی کا کہنا ہے کہ 2017 سے 2019 کے درمیان تقریباً 3,000 کروڑ روپے کے غیر قانونی قرضوں کو یس بینک سے دوسری جگہوں پر بھیجا گیا۔ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان قرضوں کی منظوری سے ٹھیک پہلے یس بینک کے پروموٹرز کے کاروباری اداروں کو رقم بھیجی گئی تھی۔
یس بینک کے ذریعہ ریلائنس انل امبانی گروپ کی کمپنیوں کو قرضوں کی منظوری میں ای ڈی کے ذریعہ جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں شامل ہیں؛
بیک ڈیٹیڈ کریڈٹ اپروول میمورنڈم،
بغیر کسی جانچ یا کریڈٹ انالسس کے سرمایہ کاری کو منظوری دینا،
اور بینک کی کریڈٹ پالیسی کی خلاف ورزی کرنا۔
قرض کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، یہ قرضے مزید کئی دیگر گروپ کمپنیوں اور شیل کمپنیوں کی طرف موڑ دیے گئے۔ ای ڈی نے جو بے ضابطگیاں پائی ہیں ان میں شامل ہیں؛
کمزور مالی پوزیشن والے اداروں کو قرض دینا،
قرض سے متعلق صحیح دستاویزوں کی کمی،
کوئی جانچ پڑتال نہیں کی گئی،
قرض لینے والی کمپنیوں کےپتے یا ڈائریکٹر کا ایک ہونا، وغیرہ۔
ای ڈی کو یہ بھی پتہ چلا کہ؛
قرضوں کو پروموٹر گروپ کے اداروں کی طرف موڑ دیا گیا،
جی پی سی (جنرل پرپز کارپوریٹ) لون کا ایورگریننگ (یعنی پرانے لون کو نئے لون سےچھپانا) کیا گیا،
درخواست کی تاریخ کو ہی لون جاری کر دیا گیا،
بعض اوقات لون کی منظوری سے پہلے ہی رقم جاری کردی گئی،
اور مالیاتی ڈیٹا کے بارے میں غلط معلومات دی گئیں۔
اس کے علاوہ، سیبی نے ریلائنس ہوم فائنانس لمیٹڈ (آر ایچ ایف ایل)کے معاملے میں اپنی تحقیقات کے نتائج کو ای ڈی کے ساتھ شیئر کیا ہے۔
ای ڈی اس بات کی بھی تحقیقات کر رہا ہے کہ کس طرح آر ایچ ایف ایل کے کارپوریٹ قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا – مالی سال 2017-18 میں 3,742.60 کروڑ روپے سے 2018-19 میں 8,670.80 کروڑ روپے تک۔
ای ڈی قرضوں کی بے قاعدگی اور تیزی سے منظوری، طریقہ کار کی خلاف ورزیوں اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی بھی تحقیقات کر رہی ہے۔
ریلائنس پاور اور ریلائنس انفراسٹرکچر کا بیان
ریلائنس پاور اور ریلائنس انفراسٹرکچر نے ایک جیسے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ای ڈی کی کارروائی کا کاروباری آپریشنز، مالیاتی کارکردگی، شیئر ہولڈرز، ملازمین یا ریلائنس پاور یا ریلائنس انفراسٹرکچر کے کسی دوسرے اسٹیک ہولڈرز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس میں جن الزامات کے بارے میں بات کی جا رہی ہے ان کا تعلق ریلائنس کمیونی کیشن لمیٹڈ (آر کام) یا ریلائنس ہوم فائنانس لمیٹڈ کے لین دین سے ہے، جو 10 سال سے زیادہ پرانے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ [ریلائنس پاور/ریلائنس انفراسٹرکچر] ایک آزاد اور الگ فہرست شدہ ادارہ ہے جس کا آر کوم یا آر ایچ ایف ایل کے ساتھ کوئی کاروبار یا مالی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریلائنس کمیونی کیشنز (آر کام) گزشتہ چھ سالوں سے انسولوینسی اینڈ بینکرپٹسی کوڈکے تحت کارپوریٹ انسولوینسی ریزولوشن کے عمل سے گزر رہی ہے، جبکہ ریلائنس ہوم فائنانس لمیٹڈ (آر ایچ ایف ایل) کا معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نمٹ چکا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے، ‘اس کے علاوہ، انل امبانی ریلائنس پاور/ریلائنس انفراسٹرکچر کے بورڈ میں شامل نہیں ہیں۔ لہذا، آر کوم یا آر ایچ ایف ایل کے خلاف کی گئی کسی بھی کارروائی کا ریلائنس پاور/ریلائنس انفراسٹرکچر کے آپریشنز، مینجمنٹ یا ایڈمنسٹریشن پر کوئی اثر یا اثر نہیں ڈالتی۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )