گڑگاؤں کے ’ہولڈنگ سینٹر‘ میں بند بنگالی بولنے والے: ’ہمیں صرف زبان کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا‘

بنگلہ دیش سے آئے مبینہ شہریوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے درمیان سینکڑوں بنگالی اور آسامی مزدوروں کو گروگرام پولیس نے حراست میں لے کر 'ہولڈنگ سینٹر' میں رکھا ہے۔ ان میں زیادہ تر مرد ہیں۔ صرف 19 جولائی کو 74 مزدوروں کو حراست میں لیا گیا۔

بنگلہ دیش سے آئے مبینہ شہریوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے درمیان سینکڑوں بنگالی اور آسامی مزدوروں کو گروگرام پولیس نے حراست میں لے کر ‘ہولڈنگ سینٹر’ میں رکھا ہے۔ ان میں زیادہ تر مرد ہیں۔ صرف 19 جولائی کو 74 مزدوروں کو حراست میں لیا گیا۔

گڑگاؤں کے کھٹولہ گاؤں میں مسلم خواتین حراست میں لیے گئے اپنے شوہروں کے دستاویز دکھاتے ہوئے۔ (تصویر: شروتی شرما/دی وائر)

نئی دہلی: 19 جولائی کو گڑگاؤں میں ایک دکان کے باہر کلینر کے طور پر اپنی شفٹ ختم کرنے کے بعد 41 سالہ حفیظر شیخ کو پولیس نے روکا اور پوچھ گچھ  شروع کر دی۔ انہوں نے تمام سوالوں کے جواب دیے، لیکن پھر ان سے ‘ شہریت کی تصدیق’ کے لیے شناختی کارڈ دکھانے کو کہا گیا۔

حالانکہ ان  کے فون پر ان کا آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور دیگر دستاویز موجود تھے، لیکن پولیس نے انہیں مسترد کردیا۔ ان کے بھائی امانر نے دی وائر کو بتایا، ‘پولیس کو دستاویز کی فزیکل کاپی چاہیے تھی۔ میرے بھائی نے کہا کہ وہ گھر سے دستاویز لا سکتا ہے یا پولیس اس کے ساتھ گھر جا کر انہیں دیکھ سکتی ہے، لیکن انہوں نے ایک نہیں سنی اور  حراست میں لے لیا۔

حفیظرکا تعلق مغربی بنگال کے نادیہ ضلع سے ہے اور وہ ان سینکڑوں لوگوں میں شامل ہیں، جنہیں پولیس نے ہریانہ کے گڑگاؤں میں حراست میں لیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مسلمان مرد ہیں جو گڑگاؤں میں بڑی کمپنیوں میں کلینر، کچرا اٹھانے والے، پبلک سینی ٹیشن ورکرز اور ڈیلیوری ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔

حفیظر شیخ کے بھائی امانر شیخ اور ان کی اہلیہ اپنی بیٹی کے ساتھ۔ (تصویر: علی شان جعفری/ دی وائر)

حفیظر شیخ کے بھائی امانر شیخ اور ان کی اہلیہ اپنی بیٹی کے ساتھ۔ (تصویر: علی شان جعفری/ دی وائر)

صرف 19 جولائی کو پولیس نے کم از کم 74 مزدوروں کو حراست میں لیا، جن میں 11 مغربی بنگال اور 63 آسام سے ہیں۔

پولیس کو شبہ ہے کہ یہ سب بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ‘غیر قانونی تارکین وطن’ ہیں، اس لیے انھیں ‘ہولڈنگ سینٹر’ میں رکھا گیا ہے، جنہیں انسانی حقوق کے کارکن عارضی حراستی کیمپ قرار دے رہے ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) (سی پی آئی-ایم ایل) کے رکن اور وکیل سوپنتا سنہا نے بتایا،’گڑگاؤں کے سیکٹر 10 میں واقع اس کیمپ میں 200 سے زیادہ لوگ بند ہیں۔’

‘شہریت کی تصدیق کے نام پر مزدوروں کو حراست’ میں لیے جانے کی خبریں سامنے آنے کے بعد21 جولائی کو  سی پی آئی-ایم ایل کی ایک دو رکنی ٹیم نے گڑگاؤں کے سیکٹر 10 میں قائم ایک عارضی حراستی مرکز کا دورہ کیا۔ سنہا اس ٹیم کا حصہ تھے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ مزدوروں کو ‘غیر انسانی حالات’ میں رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سی پی آئی-ایم ایل کے ایک بیان میں کہا گیا  کہ ‘گڑگاؤں کے دیگر حصوں میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور کچھ علاقوں میں 200 سے زیادہ لوگوں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔’

سنہا نے کہا کہ یہ کارروائیاں وزارت داخلہ کی ہدایات کے بعد کی جا رہی ہیں۔ یہ ملک بھر میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف چلائی جانے والی مہم کا حصہ ہے۔ لیکن کئی میڈیا رپورٹس میں ایسا کہا جا رہا ہے کہ ان اقدامات کا سب سے زیادہ اثر بنگالی بولنے والے مسلمانوں پر پڑ رہا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو مغربی بنگال اور آسام سے ہیں۔

کولکاتہ میں منعقدہ حالیہ احتجاج میں ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس نے دلی (جئے ہند کالونی)، این سی آر اور اڑیسہ میں مزدوروں پر ہو رہے حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔ بنرجی نے بی جے پی کو چیلنج کیا تھا کہ ‘اگر آپ میں ہمت ہے تو مجھے ڈٹینشن سینٹر میں ڈالو۔’

انہوں نے ان کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا ، ‘ملک میں دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بنگالی، آسام کی بھی دوسری بڑی زبان  ہے۔ اگر کوئی شہری امن سے رہنا چاہتا ہے اور اپنی زبان اور مذہب کا احترام کرتا ہے تو اسے ہراساں کرنا غیر آئینی ہے۔’

راجیہ سبھا کے رکن پارلیامنٹ اور بنگالی ڈائاسپورا بورڈ کے سربراہ سمیر الاسلام نے بی جے پی پر بنگالیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا الزام لگایا ۔ ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا نے بھی ان گرفتاریوں کو ‘غیر قانونی اغوا’ قرار دیا ۔

حراست میں نہیں لیا، صرف عارضی طور پر رکھا ہے

جب دی وائر نے گڑگاؤں پولیس کے ترجمان سندیپ کمار سے پوچھا کہ ان لوگوں کو کن دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، تو انہوں نے کہا، ‘انہیں حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کی ہدایات کے مطابق، کچھ ‘ہولڈنگ سینٹرز’ بنائے گئے ہیں، جہاں مشتبہ بنگلہ دیشی شہریوں کو رکھا گیا ہے۔ ان مراکز میں تمام بنیادی سہولیات اور طبی خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔’

اس سال مئی میں مرکزی حکومت نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ملک بھر میں غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کرنے، انہیں حراست میں لینے اور پھر ان کے ملک واپس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

وی آن کی ایک رپورٹ کے مطابق ، مرکز نے ریاستوں کو 30 دنوں کے اندر دستاویز کی تصدیق اور ملک بدری کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ساتھ ہی ضلع سطح پر حراستی مراکز قائم کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔

کمار نے کہا کہ ‘مشتبہ تارکین وطن’ کو حکومت کے رہنما خطوط کے مطابق ‘ہولڈنگ سینٹر’ میں رکھا گیا ہے، حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ رہنما خطوط کیا ہیں۔

کمار نے بتایا کہ فی الحال گڑگاؤں میں اس طرح کے چار ہولڈنگ سینٹرز ہیں، لیکن انہوں نے ان مراکز میں رکھے گئے لوگوں کی تعداد بتانے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا، ‘اگر کوئی شخص ہندوستانی شہری ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، تو ہم متعلقہ ضلع مجسٹریٹ سے اس کی شہریت کی تصدیق کرواتے ہیں۔ اور اگر اس کی تصدیق ہو جائے تو اسے رہا کر دیا جاتا ہے اور جن کی شہریت کی تصدیق نہیں ہو پاتی  ان کے لیے ملک بدری کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔’

انہوں نےبتایا کہ اب تک صرف 5-6 افراد کو رہا کیا گیا ہے جن کی شہریت ثابت ہو چکی ہے۔

گڑگاؤں چھوڑ کر بھاگے سینکڑوں مزدور

دی وائر نے گڑگاؤں کے کھٹولہ گاؤں میں ایک بستی کا دورہ کیا، جہاں آسام کے مسلم مہاجرین کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ سڑک کے ایک طرف کثیر المنزلہ عمارتیں ہیں جن میں بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے دفاتر ہیں اور دوسری طرف جھگیوں میں رہنے والے مہاجر آسامی مزدورو، جو ان دفاتر میں صفائی کا کام کرتے ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق، پہلےاس بستی دو ہزار کے قریب لوگ رہتے تھے۔ لیکن جب دی وائر کی ٹیم وہاں پہنچی تو کالونی تقریباً خالی تھی۔ صرف 10-12 خواتین رہ گئیں جو حراستی مرکز میں بند اپنے شوہروں اور رشتہ داروں سے ملنے جا رہی تھیں۔

حالیہ کارروائی کے بعد کالونی تقریباً ویران ہے۔ (تصویر: شروتی شرما)

خواتین نے بتایا کہ 19 جولائی کو پولیس نے علاقے سے 40 سے زائد مردوں کو حراست میں لیا، جس کے بعد تقریباً پوری بستی آسام لوٹ گئی ہے۔

روہیما، جن کے شوہر نذر اسلام مونڈل کو 19 جولائی کو پولیس نے ان کے گھر سے اٹھایا، جب ان سےپوچھا گیاکہ وہ ابھی تک آسام کیوں نہیں گئی تو انہوں نے کہا،’ہم کیسے جائیں جب ہمارے شوہر حراستی مراکز میں سڑ رہے ہوں؟ کون جانتا ہے کہ پولیس ان کے ساتھ کیا کر رہی ہوگی؟’

روہیما کا دعویٰ ہے کہ مونڈل کے پاس تمام دستاویز تھے، ان کا نام این آر سی میں بھی درج ہے، پھر بھی انہیں اٹھا لیا گیا۔

اس دن کو یاد کرتے ہوئےانہوں  نے بتایا، ‘پولیس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں کی ہوں، میں نے کہا کہ  آسام سے ۔ لیکن انہوں نے کہا، ‘تم سب بنگلہ دیشی ہو، سب کو اٹھا ئیں گے۔’ اس کے بعد وہ ہمارے مردوں کو اٹھا کر لے گئے۔ جب ہم نے پوچھا کہ انہیں کب رہا کریں گے؟ تب  پولس نے کہا- تجھے کیا مطلب ؟ بھاگ یہاں سے۔’

خواتین کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کے دستاویز دیکھے بغیر انہیں اٹھالیا، حالانکہ انہوں نے کئی شناختی کارڈ دکھانے کی کوشش کی۔

روہیما نے بتایا کہ ان کے شوہر نے انہیں حراستی مرکز سے فون کیا اور سارے دستاویزبھیجنے کو کہا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے تمام دستاویز بھیجے، لیکن اس کے بعد سے ان  کا فون بند آ رہاہے۔’

سائرہ بانو، جن کے شوہر روکیبز حسین کو بھی پکڑا گیا ہے، نے کہا، ‘شوہر کے جانے کے بعد سے میں کھانا نہیں کھا سکی۔ ہماری 12 سالہ بیٹی اسکول نہیں جا رہی، کیونکہ اس کے والد اسے سکول چھوڑتے تھے۔’

سائرہ اور اس کے شوہر دونوں قریبی دفاتر میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں۔

لوگ گلی محلوں میں پھیلے کچرے کے ڈھیروں کے بیچ زندگی گزارنے کو مجبور ہیں۔ (تصویر: شروتی شرما)

جب خواتین سے پوچھا گیا کہ وہ اب یہاں رہیں گی یا نہیں تو ان میں سے اکثر نے کہا کہ ان کے شوہروں کی رہائی کے ساتھ ہی وہ گڑگاؤں چھوڑ دیں گی۔

‘ایسے ماحول میں کون رہ سکتا ہے جہاں مسلسل خوف ہو؟’ سائرہ بانو کے ساتھ کھڑی ایک خاتون نے کہا۔

دی وائر نے حراست میں لیے گئے متعدد افراد سے فون پر بات کی۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ اسے پالم وہار سے اس وقت اٹھایا گیا جب وہ آسام سے آئے درجن بھرمہاجرین کے ساتھ اپنے دستاویز دکھانے کے لیے رضاکارانہ طور پر وہاں گیا تھا۔

ایک اور بولا، ‘کتوں کو بھی ہم سے اچھاکھانا ملتا ہے۔’

ہمیں صرف بنگالی بولنے پر حراست میں لیا گیا ہے

امانر شیخ، جو مغربی بنگال سے آئے ہیں اور کچرا چننے والوں کی کالونی میں رہتے ہیں، نے کہا،’پولیس ہمیں صرف اس لیے اٹھاتی ہے کہ ہم بنگالی بولتے ہیں۔ کیا اس ملک میں بنگالی بولنا گناہ ہے؟ اور اگر یہ گناہ ہے تو ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔’

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات نے انہیں خوف کے سایے میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ‘ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ کوئی بھی ہمیں بنگلہ دیشی کہہ کر دھمکی دے سکتا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘اگر حکومت چاہتی ہے کہ بنگالی بولنے والے این سی آر چھوڑ دیں، تو اسے واضح طور پر کہنا چاہیے،ہم پرامن طریقے سے مغربی بنگال واپس لوٹ جائیں گے۔ لیکن ہمارے ساتھ اس طرح کا غیر انسانی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔’

شیخ نے اسے سیاسی سازش قرار دیا۔ ‘بی جے پی کی بار بار کوششوں کے باوجود وہ بنگال میں ان کی حکومت نہیں بن پائی ہے۔ اس لیے اب وہ بنگالیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔’

حفیظر کی پھوپھی روپا گزشتہ 15 سالوں سے دہلی کی ایک فیکٹری میں کلینر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘کچھ مہینے پہلے پولیس اچانک میرے گھر آئی اور پوچھا کہ کیا میں بنگلہ دیشی ہوں؟ جب میں نے انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں شکایت موصول ہوئی ہے۔ میں نے انہیں دستاویزدکھائے تب کہیں جاکر  وہ مانے۔’

انہوں نے کہا، ‘جب سے میرے بھتیجے کو حراست میں لیا گیا ہے میں سو نہیں پا رہی ہوں۔ میرے شوہر بھی خوف کی وجہ سے پچھلے تین دنوں سے کام پر نہیں جا رہے۔’

کچرا چننا بستی میں ذریعہ معاش کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ (تصویر: علی شان جعفری)

ان کے پڑوسی میزانر مولا نے الزام لگایا کہ پولیس نے گزشتہ ماہ ان کے سسر سید مولا (45) اور پانچ دیگر کو حراست میں لیا تھا۔

میزانر، جو دہلی میں گزشتہ چار سال سے صفائی کا کام کر رہے ہیں، نے کہا، ‘پولیس میرے سسر کو ان کے کمرے سے اٹھا کر لے گئی، انہوں نے کاغذات بھی دکھائے، لیکن پولیس نے ان کے کاغذات لے لیے اور انہیں دو تین دن تک جیل میں رکھا، وہاں ان پر تشدد بھی کیا گیا۔’

انہوں نے کہا، ‘پولیس مانتی ہے کہ ہر بنگالی بولنے والا مسلمان بنگلہ دیشی ہے۔’

‘ہمارے گاؤں میں کوئی ہندی نہیں بولتا، سب  بنگالی بولتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بنگلہ دیشی ہیں،’ روپا کہتی ہیں۔

یہ حراستیں غیر قانونی ہیں

ایڈوکیٹ سوپنتا سنہا نے کہا، ‘پولیس حکام سے بات کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وزارت داخلہ کی ہدایات کے مطابق کسی بھی مشتبہ شخص کو 30 دن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے تاکہ اس کی شناخت کی تصدیق کی جا سکے۔’

ان حراستوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘قانون کے مطابق ، حراست میں لیے گیے کسی بھی شخص کو قانونی مدد کا حق حاصل ہے۔ بغیر وجہ بتائے کسی کو حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اور غیر معینہ مدت تک حراست تو بالکل بھی نہیں دی جا سکتی۔’

انھوں نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ یہ ڈٹینشن شناخت پر مبنی ہے۔ زیادہ تر لوگ بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں جو مغربی بنگال یا آسام سے ہیں۔’

انہوں نے سوال اٹھائے، ‘ان کی شہریت کا فیصلہ کون کر رہا ہے؟ اور کن دستاویزوں کی بنیاد پر؟ کیا ان پر کوئی سروے ہوا ہے؟ کس پیرامیٹر سے ان کے دستاویزوں کو مشکوک قرار دیا جا رہا ہے؟’

ان سوالوں پر سرکاری اہلکار اب تک خاموش ہیں۔ سنہا نے کہا کہ سی پی آئی-ایم ایل اب اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ‘ہم تمام قانونی متبادل پر غور کر رہے ہیں۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)