یوپی کانسٹبل بھرتی: امت شاہ نے جس امتحان کو بے داغ کہا، وہ کبھی پیپر لیک کے بعد ہوا تھا رد

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یوپی پولیس میں بھرتی کے عمل کو 'شفاف' قرار دیا ہے، لیکن گزشتہ سال پیپر لیک کی وجہ سے اس امتحان کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس کا انعقاد کرنے والی گجراتی کمپنی ایڈوٹیسٹ کی تاریخ داغدار رہی ہے۔ یوپی حکومت کو بھی اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرنا پڑا تھا۔ اس کمپنی کے بانی ڈائریکٹر کے بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں سے قریبی روابط رہے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یوپی پولیس میں بھرتی کے عمل کو ‘شفاف’ قرار دیا ہے، لیکن گزشتہ سال پیپر لیک کی وجہ سے اس امتحان کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس کا انعقاد کرنے والی گجراتی کمپنی ایڈوٹیسٹ کی تاریخ داغدار رہی ہے۔ یوپی حکومت کو بھی اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرنا پڑا تھا۔ اس کمپنی کے بانی ڈائریکٹر کے بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں سے قریبی روابط رہے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ جوائنگ لیٹردیتے ہوئے۔تصویر بہ شکریہ: ایکس/ امت شاہ

نئی دہلی: 15 جون، 2025 کو لکھنؤ میں منعقد ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اتر پردیش پولیس کے ‘اب تک کی سب سے بڑی بھرتی کے عمل’ کے تحت منتخب کیے گئے   60244سپاہیوں کو تقرری لیٹر سونپے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بھرتی مکمل طور پر شفاف تھی اور کسی کی سفارش نہیں چلی، اور نہ ہی رشوت لی گئی اور ذات یا برادری  بھی نہیں دیکھی گئی- انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا۔

اس دعوے میں کتنی صداقت ہے؟

وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کئی سطحوں پر سوالوں کے دائرے میں ہے۔

اول، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے امت شاہ بھول گئے کہ پچھلے سال، اسی امتحان، یعنی ‘کانسٹبل سول پولیس ڈائریکٹ ریکروٹمنٹ-2023’ پربدعنوانی کے تمام طرح کے الزام لگے تھے اور اس کی جانچ یوپی ایس ٹی ایف نے کی تھی۔ وہ بھول گئے کہ سال بھرقبل پرچہ لیک ہونے کی وجہ سے اتر پردیش حکومت کو یہ امتحان منسوخ کرنا پڑا تھا۔

اس کے بعد دوبارہ امتحان ہوا جس کے بعد اب بھرتیاں کی گئی ہیں۔ اس دوسرے امتحان کی شفافیت کا دعویٰ کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ پچھلے سال منسوخ ہونے والے امتحان کا ذکر کر دیا جائے جس نے لاتعداد امیدواروں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی تھیں۔

دوم، امت شاہ نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ اس امتحان کا انعقاد کرنے والی کمپنی ایڈوٹیسٹ سولیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈپربہارحکومت نے ایک دوسرےپیپر لیک معاملے میں بہت پہلے پابندی لگا دی تھی ۔ اس کے باوجود اتر پردیش حکومت نے دوبارہ امتحان کرانے کا ٹھیکہ اس کمپنی کو دیا ۔

سوم، امت شاہ بھول گئے کہ یہ کمپنی دراصل گجرات کی ہے  اور اس کے بی جے پی لیڈروں سے روابط رہےہیں۔

چہارم، انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ 20 جون 2024 کو اتر پردیش حکومت کی طرف سے بلیک لسٹ کیے جانے کے باوجود، سی ایس آئی آر نے، جو کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والا ادارہ ہے، سیکشن آفیسر (ایس او)، اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر(اے ایس او) کے عہدوں پر بھرتی کے لیے ایڈوٹیسٹ کی خدمات کو لینا جاری رکھا، جس پر شدید بے ضابطگیوں کے الزامات تھے۔

یعنی، جس امتحان کو ملک کے وزیر داخلہ نے شفاف قرار دیا ، نہ صرف اس کی تاریخ پیپر لیک اور بدعنوانی کی  ہے بلکہ اس امتحان کو منعقد کرنے والی کمپنی پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے- اور ان پابندیوں کے باوجود کمپنی مختلف امتحانات کا انعقاد کرتی رہی ہے۔

پیپر لیک کی تاریخ

اتر پردیش پولیس میں کانسٹبل کی بھرتی کے لیے امتحان 17 اور 18 فروری 2024 کو منعقد ہوا تھا۔ 48 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔ لیکن سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزام کے بعد دوبارہ امتحان کرانے کا مطالبہ کیا جانے  لگا۔

اس معاملے میں ریاست کے مختلف حصوں سے 120 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ لوگ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ کچھ لوگوں کو اصلی امیدواروں کی جگہ امتحان میں شریک ہونے پر گرفتار کیا گیا، جبکہ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے امیدواروں کے ساتھ  دھوکہ  کیا تھا۔

اس وقت کے پولیس ڈائریکٹر جنرل پرشانت کمار نے کہا تھا ، ‘کل 122 گرفتار لوگوں میں سے 15 کو ایٹا میں، نو-نو کو مئو، پریاگ راج اور سدھارتھ نگر میں، آٹھ کو غازی پور میں، سات کو اعظم گڑھ میں، چھ گورکھپور میں، پانچ کو جونپور میں، چار کو فیروز آباد میں، تین-تین کو کوشامبی میں اورہاتھرس میں،دو-دو کو جھانسی ،وارانسی، آگرہ آگرہ اور کانپور میں ، اور ایک -ایک کوبلیا، دیوریا اور بجنور میں گرفتار کیا گیا ۔’

یہ بدعنوانی ریاست گیر تھی

سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزامات کے بعد ریاستی حکومت نے فروری 2024 میں ایس ٹی ایف کی تشکیل کی تھی۔ ایس ٹی ایف نے مارچ 2024 میں بلیا کے رہنے والے نیرج یادو کو گرفتار کیا تھا ۔ اس پر امیدواروں کو وہاٹس ایپ پر جوابات بھیجنے کا الزام تھا۔

اس کے علاوہ بھی کئی گرفتاریاں  کی گئی تھیں۔

کمپنی پر اٹھائے گئےسوال

ریاست بھر سے امیدواروں نے لکھنؤ پہنچ کر احتجاج کیا ، اور آخرکار یوگی آدتیہ ناتھ نے امتحان کو رد کرنے کا اعلان کیا ۔

گجرات کی جس  ایجنسی ایڈوٹیسٹ کو اس امتحان کے انعقاد کی ذمہ داری دی گئی تھی، اسے ریاستی حکومت نے پیپر لیک کے الزامات کے بعد 20 جون 2024 کو بلیک لسٹ کر دیا ۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ اس کمپنی پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

دی وائر نے گزشتہ سال تین حصوں میں اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا تھا کہ یوپی میں پولیس بھرتی امتحان کے لیے ٹینڈر حاصل کرنے سے پہلے بہار میں امتحان کے عمل میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے ایڈو ٹیسٹ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔

بلیک لسٹڈ کمپنی کی بی جے پی لیڈروں سے قربت

بار بار تنازعات میں آنے کے باوجود اسے بی جے پی مقتدرہ ریاستوں اور خود نریندر مودی کی سربراہی والی سی ایس آئی آر سے ٹھیکے ملتے رہے۔ اس کمپنی کا رجسٹریشن گجرات میں ہوا تھا۔

دی وائرنے اپنی رپورٹ میں بتایاتھا کہ نہ صرف اس کمپنی کو کئی بار بلیک لسٹ کیا گیا، بلکہ اس کے بانی ڈائریکٹر کے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی کے کئی بڑے لیڈروں سے خوشگوار تعلقات ہیں۔

دراصل، ایڈوٹیسٹ کے بانی ڈائریکٹر سریش چندر آریہ ایک ممتاز ہندو تنظیم ‘سارودیشک آریہ پرتینیدھی سبھا‘ کے صدر ہیں ۔ سبھا نے سال 2018 میں چار روزہ بین الاقوامی آریہ مہا سمیلن کا انعقاد کیا تھا ، جس میں بی جے پی اور سنگھ کے کئی سینئر لیڈروں نے شرکت کی تھی۔ اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند مہا سمیلن کی افتتاحی تقریب میں پہنچے تھے اور سریش چندر آریہ نے استقبالیہ تقریر کی تھی۔

فروری 2023 میں نئی دہلی میں دیانند سرسوتی کے 200 ویں یوم پیدائش کی تقریبات کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ آریہ سماج کے اس پروگرام کے دوران پی ایم مودی کے ساتھ اسٹیج پر سریش چندر آریہ موجود تھے۔  مودی نے اپنی تقریر میں سریش چندر کا بھی ذکر کیا تھا ۔

سریش چندر آریہ پی ایم مودی کے دائیں طرف کھڑے ہیں۔ (تصویر بہ شکریہ: نریندر مودی ویب سائٹ)

وزیراعظم کے ادارے کے امتحان پر بھی سوالات اٹھائے گئے

سریش چندر کے بیٹے یعنی ایڈوٹیسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت آریہ کو 2017 میں امتحان سے متعلق بے ضابطگیوں کے الزام میں جیل رسید کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کی سربراہی والی  مرکزی حکومت کے ادارے سی ایس آئی آر اور کئی ریاستوں میں بی جے پی حکومتوں نے امتحان کے انعقاد کے لیے ایڈوٹیسٹ کو ٹھیکہ دیا تھا۔

سی ایس آئی آرکےسیکشن آفیسر (ایس او) اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر (اے ایس او) بھرتی امتحان کے مختلف مراحل میں بے ضابطگیاں سامنے آئی تھیں۔ پہلے مرحلے کا امتحان 5 اور 20 فروری 2024 کے درمیان ملک بھر کے مختلف مراکز پر آن لائن منعقد ہوا تھا۔ 8 فروری 2024 کو اتراکھنڈ پولیس نے ایک امتحانی مرکز پر چھاپہ مارا اور ملزم انکت دھیمان کو گرفتار کیا تھا، جس نے اعتراف کیا کہ اس نے ایک امیدوار کا پرچہ حل کرایا تھا۔

ایسے تمام الزامات کے بعد امیدواروں نے سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) سے رجوع کیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہاں کوئی فیصلہ ہوتا، 7 جولائی 2024 کو ملک کے بڑے میٹرو میں منعقد ہونے والے امتحان کے دوسرے مرحلے میں بدانتظامی اور بے ضابطگیاں سامنے آ گئیں ۔

ظاہر ہے، اگر امت شاہ نے اتر پردیش پولیس بھرتی امتحان کے ماضی اور امتحان منعقد کرنے والی اس کمپنی کی تاریخ پر نظر ڈالی ہوتی، تو شاید وہ ‘بدعنوانی سے پاک عمل اور شفافیت’ کا دعوی کرنے کے بجائے اپنی ہی حکومتوں کی جانب سے ہوئی لاپرواہی کا تذکرہ کرتے۔