سابق ججوں نے امت شاہ سے کہا – سپریم کورٹ کے سلوا جڈوم کے فیصلے کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کریں

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے نائب صدر کے عہدے کے لیے اپوزیشن کے امیدوار جسٹس بی سدرشن ریڈی اور سپریم کورٹ پر سلوا جڈوم فیصلے کے ذریعے 'نکسل ازم کی حمایت' کا الزام لگایا ہے۔ شاہ کے بیان کو مذکورہ فیصلے کی غلط تشریح قرار دیتے ہوئے سابق ججوں نے کہا کہ یہ 'بدقسمتی' ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے نائب صدر کے عہدے کے لیے اپوزیشن کے امیدوار جسٹس بی سدرشن ریڈی اور سپریم کورٹ پر سلوا جڈوم فیصلے کے ذریعے ‘نکسل ازم کی حمایت’ کا الزام لگایا ہے۔ شاہ کے بیان کو مذکورہ فیصلے کی غلط تشریح قرار دیتے ہوئے سابق ججوں نے کہا کہ یہ ‘بدقسمتی’ ہے۔

اپوزیشن کے نائب صدر کے امیدوار بی سدرشن ریڈی جمعرات 21 اگست 2025 کو نئی دہلی کے پارلیامنٹ ہاؤس کمپلیکس میں اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنے سے پہلے گاندھی کے مجسمے کےپاس۔ (تصویر: پی ٹی آئی/روی چودھری)

نئی دہلی: نائب صدر کے عہدے کے لیے اپوزیشن کے امیدوار جسٹس بی سدرشن ریڈی کے ساتھ یکجہتی کے ایک بے مثال مظاہرہ میں  سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے 18 سابق ججوں نے ایک بیان جاری کیا ہے ،جس میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے حالیہ حملے اورسپریم کورٹ پر 2011 کے سلوا جڈوم کے فیصلے کو نشانہ بنائے جانے پر تنقید کی ہے۔

واضح ہو کہ مذکورہ فیصلے میں چھتیس گڑھ میں نکسل شورش کے خلاف مسلح ویجیلنٹ گروپ کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔

حال ہی میں وزیر داخلہ شاہ نے جسٹس ریڈی اور سپریم کورٹ پر اپنے فیصلوں کے ذریعے ‘نکسل ازم کی حمایت’ کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جج ‘نکسلی نظریہ’ سے متاثر ہیں۔

جمعہ (22 اگست) کو کیرالہ میں خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ شاہ نے کہا تھا ، ‘سدرشن ریڈی وہی شخص ہیں جنہوں نے نکسل ازم کی مدد کی تھی۔ انہوں نے سلواجڈوم پر فیصلہ سنایا۔ اگر سلوا جڈوم پر فیصلہ نہ دیا گیا ہوتا تو 2020 تک نکسل دہشت گردی ختم ہو چکی ہوتی۔ وہ وہی شخص ہیں جو سلوا جڈوم پر فیصلہ دینے والے نظریے سے متاثر تھے ۔’

شاہ کے بیان کو سلوا جڈوم فیصلے کی غلط تشریح قرار دیتے ہوئے ججوں نے کہا کہ یہ ‘بدقسمتی’ ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ ‘کہیں بھی، واضح طور پر یا اس کے متن کے ذریعے، نکسل ازم یا اس کے نظریے کی تائید نہیں کرتا ہے۔’

بیان پر دستخط کرنے والے سپریم کورٹ کے سابق ججوں میں جسٹس اے کے پٹنائک، جسٹس ابھے ایس اوکا، جسٹس گوپال گوڑا، جسٹس وکرم جیت سین، جسٹس کورین جوزف، جسٹس مدن بی لوکور، جسٹس جے چلمیشور شامل ہیں۔

سابق ججوں نے کہا،’ہندوستان کے نائب صدر کے عہدے کے لیے انتخابی مہم نظریاتی ہو سکتی ہے، لیکن اسے شائستگی اور وقار کے ساتھ چلایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی امیدوار کے نام نہاد نظریے پر تنقید سے گریز کیا جانا چاہیے۔’

عدلیہ پر ‘منفی’ اثر

ججوں کا بیان ہندوستان میں عدالتی آزادی پر شاہ کے فیصلے کی ‘غلط تشریح’ کے اثرات کی طرف بھی توجہ مبذول کراتا ہے۔

انہوں نے کہا،’اعلیٰ سیاسی عہدیدار کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی متعصبانہ اورغلط تشریح کا سپریم کورٹ کے ججوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے اور عدلیہ کی آزادی پر آنچ آ سکتی ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہندوستان کے نائب صدر کے عہدے کے احترام  کے باعث  نام کو بدنام کرنے سے گریز کرنا ہی دانشمندی ہوگی۔’

واضح ہو کہ 2011 کا فیصلہ جسٹس ریڈی اور جسٹس ایس ایس نجر نے سنایا تھا، جن کا اب انتقال ہو چکا ہے۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے مختلف بنچوں کی طرف سے ترتیب وار دیے گئے عدالتی احکامات کا ایک حصہ تھا، جنہوں نے 2007 میں نندنی سندر اور دیگر کی طرف سے دائر ایک پی آئی ایل کی سماعت کی تھی، جس میں ان قبائلی لوگوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا جو سلوا جڈوم دستے کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار تھے۔

سال 2008 میں ہی جسٹس کے جی بالاکرشنن نے، جو اس وقت کیس کی سماعت کر رہے تھے، کہا تھا کہ سلوا جڈوم کو ریاستی تعاون جرم کو فروغ دینے کے مترادف ہوگا۔

سپریم کورٹ کے سات ریٹائرڈ ججوں کے علاوہ ہائی کورٹس کے تین سابق چیف جسٹس گووند ماتھر، ایس مرلیدھر اور سنجیو بنرجی نے بھی اس بیان پر دستخط کیے۔ بیان پر دستخط کرنے والوں میں ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس انجنا پرکاش، جسٹس سی پروین کمار، جسٹس اے گوپال ریڈی، جسٹس جی رگھورام، جسٹس کے کنن، جسٹس کے چندرو، جسٹس بی چندر کمار اور جسٹس کیلاش گمبھیر شامل ہیں۔

ان سب کے ساتھ پروفیسر موہن گوپال اور سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے بھی اس بیان پر دستخط کیے ہیں۔