شاہ کا بل: سیاست میں اخلاقیات لانے کی کوشش یا اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنانے کا نیا ہتھیار؟

امت شاہ کی جانب سے پیش کیے گئے  130 ویں آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ 30 دن کی حراست پر وزیر، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم تک  کی کرسی جا سکتی ہے۔ یہ بل جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال کرکے اپوزیشن لیڈروں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا نیا ہتھیار بن سکتا ہے۔

امت شاہ کی جانب سے پیش کیے گئے  130 ویں آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ 30 دن کی حراست پر وزیر، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم تک  کی کرسی جا سکتی ہے۔ یہ بل جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال کرکے اپوزیشن لیڈروں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا نیا ہتھیار بن سکتا ہے۔

امت شاہ لوک سبھا میں بل پیش کرتے ہوئے۔ (تصویر: سنسد ٹی وی)

نئی دہلی: بدھ (20 اگست، 2025) کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں 130 ویں آئینی ترمیمی بل کے ساتھ تین بل پیش کیے، جنہیں اب جوائنٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جا چکا ہے۔ 21 اگست کو راجیہ سبھا میں بھی یہی ہوا۔

اگر یہ بل قانون بن جاتے ہیں تو صرف ‘سنگین الزامات’ کی بنیاد پر مرکزی اور ریاستی وزراء، وزرائے اعلیٰ حتیٰ کہ وزیر اعظم تک کی کرسی جا سکتی ہے۔ تاہم وزیراعظم کی کرسی جانے کا امکان کم ہے کیونکہ جانچ ایجنسیوں کی  باگ ڈور انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس بل سے سیاست میں اخلاقیات آئے گی۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ بل نہ صرف موجودہ آئینی تحفظ کی تمام شقوں کو نظر انداز کرتا ہے بلکہ اس کے ذریعے ان کی حکومتیں غیر مستحکم کی  جائیں گی۔ انتخابی شکست کا بدلہ لیا جائے گا۔

کیا اپوزیشن کے دعوے میں کوئی صداقت ہے یا مودی حکومت سیاست میں اخلاقیات قائم کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے؟

ہم اس سوال کی طرف آئیں گے لیکن پہلے یہ سمجھیں کہ بل اصل میں کیا کہتا ہے؛

بل کہتا ہے کہ ‘اگر کوئی وزیر ، کسی عہدے پر رہتے ہوئے مسلسل تیس دنوں تک، کسی  جرم کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد حراست میں رکھا جاتا ہے- اور وہ جرم موجودہ وقت میں کسی بھی قانون کے تحت آتاہے، جس کی سزا پانچ سال یا اس سے زیادہ  کی قید کی سزا ہو، تو صدر اسے وزیر اعظم کے مشورے سے عہدے سے ہٹا دیں گے، جو اس وزیر کو حراست میں لینے کے 31ویں دن تک دیا جانا ہوگا۔’

‘اگر وزیراعظم 31 ویں دن تک صدر کو ایسے وزیر کو ہٹانے کا مشورہ نہیں دیتے ہیں تو اس کے بعد والے دن سے وہ وزیر اپنے عہدہ پر نہیں رہےگا۔’

‘ایک شق یہ بھی ہو گی کہ اگر وزیر اعظم، اپنے دور میں مسلسل تیس دن تک کسی ایسے جرم کے الزام میں، جو کسی قانون کے تحت قابل سزا ہے اورجس کی سزا پانچ سال یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے، گرفتار کیے جانے کے بعد حراست میں رکھا جاتا ہے تو اسے 31ویں دن تک استعفیٰ دینا ہو گا۔ اگر وہ مستعفی نہیں ہوتے تو اگلے دن سے وہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر نہیں  رہیں گے۔‘

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ  کہ اگر کسی منتخب وزیر اعلیٰ کو 30 دن یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے حراست میں رکھا جائے یا گرفتار کیا جائے، چاہے اس کا جرم ثابت نہ ہو تو اسے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی سرکاری جانچ ایجنسی  وزیراعظم کو گرفتار کر سکتی ہے؟ شاید نہیں۔ اس لیے خدشہ ہے کہ یہ قانون صرف اپوزیشن کے خلاف استعمال ہوگا۔

سیاست میں اخلاقیات یا اپوزیشن کو نشانہ بنانا؟



یہ 2019 کی بات ہے۔ دہلی حکومت کے ویجیلنس ڈپارٹمنٹ نے ایک ایف آئی آر درج کی ۔اس میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کے رہنما اور اس وقت کے محکمہ تعمیرات عامہ(پی ڈبلیو ڈی) کے وزیر ستیندر جین پر الزام لگے کہ  انہوں نے پی ڈبلیو ڈی  کے لیے 17 صلاح کاروں  کی ایک ٹیم  کی آؤٹ سورسنگ کے ذریعےتقرری  کو منظوری دی تھی، جس میں اسٹینڈرڈ سرکاری بحالی ضابطہ کو درکنار کیا گیا۔

اسی ایف آئی آر کی بنیاد پر سی بی آئی نے تحقیقات کی۔ تقریباً پانچ سال کی تفتیش کے بعد اگست 2025 میں سی بی آئی نے عدالت میں کلوزر رپورٹ داخل کی، جس کی بنیاد پر عدالت نے کہا، ‘سی بی آئی کی تحقیقات میں حکومت کو غیر قانونی فائدے یا نقصان کا کوئی معاملہ نہیں ملا، جس سے یہ ثابت ہو اکہ نہ تو کوئی سازش تھی اور نہ ہی بدعنوانی’۔

اسپیشل  جج ونے سنگھ (پریوینشن آف کرپشن ایکٹ کورٹ) نے کہا ،’جب سی بی آئی کو مجرمانہ سازش، طاقت کے غلط استعمال، سرکاری خزانے کو مالی فائدہ یا نقصان پہنچانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ کارروائیاں مبینہ طور پر زیادہ تر انتظامی خرابی کی زد میں آتی ہیں، تو نہ تو انسداد بدعنوانی کے قانون  کی دفعہ 13(1) (ڈی )کے تحت  کوئی جرم ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی مجرمانہ سازش۔’

اس قانون کے تحت پانچ سال سے زیادہ کی سزا ہوسکتی ہے۔ ایسے میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر امت شاہ کا پیش کردہ بل پہلے سےقانون کے طور پر لاگو ہوتا  تو اس کاکیا نقصان ہوتا۔

دوسری جانب سوال یہ ہے کہ جانچ ایجنسیوں کے  نشانے پر کون ہے؟ ستمبر 2022 میں انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2014 کے بعد سےسیاست دانوں کے خلاف ای ڈی کے استعمال میں چار گنا اضافہ ہوا ہے اور 95 فیصد معاملات میں حزب اختلاف کے رہنما نشانے پر ہیں۔

اپریل 2024 کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2014 سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے 25 لیڈران، جو مرکزی ایجنسیوں کی جانچ کے دائرے میں تھے،وہ  بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 25 لیڈروں میں سے 23 کو ان معاملات میں راحت مل چکی ہے، جن میں وہ تحقیقات کا سامنا کر رہے تھے۔ جبکہ تین رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں اور دیگر 20 کی تحقیقات تعطل کا شکار ہیں یا ٹھنڈے بستے  میں ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا، ‘اس فہرست میں ایسے چھ رہنما شامل ہیں جو عام انتخابات سے چند ہفتے قبل اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ۔’

ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کیا ہم اس خدشے کو مسترد کر سکتے ہیں کہ امت شاہ کی طرف سے پیش کیا گیا بل اپوزیشن لیڈروں کو مجبور کرنے یا انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا؟

امت شاہ کی وزارت کے تحت آنے والے ای ڈی کا ریکارڈانتہائی مشکوک ہے۔ یہ سیاستدانوں کے خلاف مقدمات درج کرتا ہے لیکن زیادہ تر مقدمات میں کچھ ثابت نہیں کر پاتا۔ اس سال مارچ میں مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ کو بتایا کہ گزشتہ 10 سالوں میں سیاسی لیڈروں کے خلاف 190 سے زیادہ ای ڈی کیسز میں سے صرف دو کیسوں میں الزامات ثابت ہوئے ہیں۔

اکثر آئینی عہدے پر فائز کسی بااثر شخص پر سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں تو اسے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ اب بی جے پی لیڈر اخلاقیات کی بات کر رہے ہیں، لیکن اس معاملے میں ان کا رویہ کیا رہا ہے؟ ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ سیاست میں اخلاقیات کی بات کرنے والی بی جے پی حکومت نے انتخابی فائدے کے لیے داغدار لیڈروں کو پارٹی میں شامل کیا ہے۔