مہاراشٹر: ٹھاکرے بھائیوں کا ملن ادھو کے لیے خطرہ تو نہیں؟

جسے پورا مہاراشٹردو بھائیوں کا ملن سمجھ رہا ہے، کیا یہ ادھو ٹھاکرے کے لیے ٹریپ ہے؟ راج ٹھاکرے بی جے پی کے قریب رہے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ کیا بھائیوں کے ملن کی یہ کہانی بی جے پی نے لکھی ہے؟

جسے پورا مہاراشٹردو بھائیوں کا ملن سمجھ رہا ہے، کیا یہ ادھو ٹھاکرے کے لیے ٹریپ ہے؟ راج ٹھاکرے بی جے پی کے قریب رہے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ کیا بھائیوں کے ملن کی یہ کہانی بی جے پی نے لکھی ہے؟

مہاراشٹر نو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے (بائیں) اور شیو سینا(یو ٹی)کے سربراہ ادھو ٹھاکرے 5 جولائی 2025 کو ممبئی میں ایک مشترکہ ریلی کے دوران۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ادھو اور راج ٹھاکرے کا ملن ہو چکا ہے۔ 5 جولائی کو دونوں بھائیوں نے تقریباً 20 سال بعد اسٹیج شیئر کیا۔ یہ مہاراشٹر کی سیاست میں ایک اہم واقعہ ہے۔ دونوں بھائی مراٹھی شناخت اور مراٹھی زبان کے نام پر متحد ہوئے ہیں۔ یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اتحاد ہندی کی مخالفت سے ہوا ہے۔ مہاراشٹر بالخصوص ممبئی میں ہندی اور مراٹھی تنازعہ اپنے عروج پر ہے۔مراٹھی نہ بولنے والے  اور ہندی بولنے والوں کو پیٹا جا رہا ہے۔ ریاست میں حکومت بی جے پی کی ہے، جو ہندی کو ماتھے کی بندی بتاتی ہے، لیکن وہ بھی کافی حد تک خاموش ہے کیونکہ اسے بھی اپنا مراٹھی ووٹ بینک کھونے کا خطرہ ہے۔

اس وقت تمام جماعتیں حساب وکتاب میں مصروف ہیں۔ اگلے چند مہینوں میں برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن سمیت بلدیہ کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ انتخابات مستقبل کے سیاسی ایکوئیشن کی بنیاد رکھیں گے۔ بلدیاتی انتخابات طویل عرصے کے بعد ہو رہے ہیں۔ تکنیکی طور پر ان کا انعقاد 2022 میں ہونا تھا لیکن سیاسی ہنگامہ آرائی اور عدالتی مقدمات کی وجہ سے یہ معاملہ اٹکا رہا۔

گزشتہ ممبئی میونسپل انتخابات میں شیوسینا (غیر منقسم) نے سب سے زیادہ 84 سیٹیں جیتی تھیں، لیکن بی جے پی نے اپنے بل بوتے پر 82 سیٹیں جیت کر اس کی  بالادستی کو سخت چیلنج دیا۔ اب تصویر بالکل مختلف ہے۔ شیو سینا دو حصوں میں بٹ گئی ہے اور ایکناتھ شندے کا دھڑا اپنی پوری طاقت کے ساتھ بی جے پی حکومت کا حصہ ہے۔ اس نقطہ نظر سے ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کا بی ایم سی کے سنگھاسن تک کا راستہ مشکل ہے، لیکن اسے محال نہیں کہا جا سکتا۔

اگرچہ ادھو ٹھاکرے کو اسمبلی انتخابات میں زیادہ کامیابی نہیں ملی لیکن ادھو کا دھڑا ممبئی کی 36 میں سے 10 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہا۔ وہیں شندے شیوسینا کو صرف 6 سیٹیں ملیں۔ بی جے پی یقینی طور پر 15 سیٹوں کے ساتھ سب سے آگے رہی۔

ممبئی ادھو ٹھاکرے کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ غلط ہوا ہے۔ نہ صرف مراٹھی مانوس بلکہ ہندی بولنے والے بھی ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ ادھو کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے کو پسند کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ایکناتھ شندے کی شیو سینا نے ریاست میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن ادھو دھڑے کی شیوسینا کو ممبئی میں زیادہ سیٹیں ملیں۔

شندے کی پارٹی کی بہتر کارکردگی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس شیو سینا کی کمان ہے جسے بالاصاحب نے قائم کیا تھا اور اس کا انتخابی نشان بھی ہے۔ آج بھی دیہاتوں میں لوگ انتخابی نشان دیکھ کر ووٹ ڈالتے ہیں۔

ممبئی میں بڑی تعداد میں دوسری ریاستوں کے لوگ رہتے ہیں اوراس میں  ہندی بولنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ یہ ہندی بولنے والے نہ صرف مہاراشٹر کی معیشت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ اس کی سیاست میں بھی ان کا خاصا دخل ہے۔

ممبئی میں ہندی بولنے والے ووٹروں کی بڑی تعداد ہے، جو میونسپل انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ جب سے شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے-یو بی ٹی) نے زبان کے نام پر تشدد کرنے سے گریز کیا ہے، ہندی بولنے والوں میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندی بولنے والوں نے ادھو ٹھاکرے کی طرف سے کورونا کے دور میں شمالی ہندوستانیوں کو دی گئی مدد کی بہت تعریف کی تھی۔ اس کے علاوہ پارٹی کی ‘مار سے  نہیں پیار سےمراٹھی سکھانے’ کی مہم بھی سرخیوں میں رہی۔ ایسے میں شیوسینا بلدیاتی انتخابات میں اپنی طاقت دکھانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔ تاہم 5 جولائی کے بعد بدلے ہوئے  حالات نے  بہت کچھ بدل دیا ہے۔

ادھو-راج ٹھاکرے کے اتحاد کی وجہ سے شیو سینا (یو بی ٹی) کے بہت سے لیڈر مہاراشٹر نو نرمان سینا (ایم این ایس) کے متشدد نظریہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس ‘اثر’ نے ادھو ٹھاکرے کے بارے میں ہندی بولنے والوں کی سوچ کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ راج ٹھاکرے کے ‘ہندی پر گال لال’ کے کام کرنے کے انداز کو تقویت ملے گی۔ میڈیا بھی یہ بات چیخ چیخ کر بتا رہا ہے۔

جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، اوراگر یہ خیال ہندی بولنے والوں کے دلوں میں گہرا ہو جاتا ہے کہ ادھو کی پارٹی بھی ہندی اور ہندی بولنے والوں کے خلاف تشدد کے حق میں ہے، تو ہندی بولنے والوں کے ووٹ جو اب تک پارٹی کے حق میں رہے ہیں رک جائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی بی جے پی نے اقتدار میں رہنے کے باوجود ہندی تنازعہ پر جس طرح سے موقف اختیار کیا ہے اس سے لوگ ناراض ہیں۔ اس لیے بلدیاتی انتخابات میں ادھو کے لیے یہ غصہ کارآمد ثابت ہو سکتا تھا۔ ‘تھا’ کیونکہ اب شیو سینا (یو بی ٹی) نے ایم این ایس کے ساتھ ہاتھ ملالیا ہے،  ایسے میں بی جے پی واحد پارٹی رہ گئی ہے جو زبان کے نام پر تشدد کی بات نہیں کرتی ہے۔

راج ٹھاکرے کی بات کریں تو ان کا اور ان کی پارٹی ایم این ایس کا سیاسی گراف زمین پر آ چکا ہے۔ اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پارٹی جسے کبھی شیو سینا کا متبادل سمجھا جاتا تھا، اسمبلی میں اس کی موجودگی صفر ہے۔ آج بھی راج کے جلسوں میں بڑی بھیڑ جمع ہوتی ہے، لیکن وہ ووٹ میں تبدیل نہیں ہوتی۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ لوگ صرف اس کی باتیں پسند کرتے ہیں۔ ایسے میں ادھو ٹھاکرے سے ہاتھ ملانا ان کی سیاسی مجبوری کہی جا سکتی ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ پورا مہاراشٹر جس چیز کو دو بھائیوں کا ملن سمجھ رہا ہے، وہ دراصل ادھو ٹھاکرے کے لیے ایک ٹریپ ہو۔ یہ بات عجیب لگ سکتی ہے، لیکن سیاست میں کچھ بھی عجیب یا ناممکن نہیں ہوتا۔

راج ٹھاکرے بی جے پی کے قریب رہے ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ نریندر مودی سے ان کی قربت کئی مواقع پر عیاں ہے۔ اس لیے ان کے لیے بی جے پی کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ کئی سیاسی پنڈتوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بھائیوں کے اتحاد کی یہ کہانی بی جے پی نے لکھی ہو گی۔ اس سے نہ صرف اسے ادھو ٹھاکرے کو ہندی بولنے والوں سے دور کرنے میں مدد ملے گی، بلکہ انہیں مستقبل میں اپنے ساتھ لانے کے لیے اچھی پوزیشن میں بھی ہوگی۔

(نیرج نیر آزاد صحافی ہیں۔)