مہاراشٹر: ہائی کورٹ نے آپریشن سیندور سے متعلق پوسٹ پر طالبہ کو گرفتار کرنے پر حکومت اور کالج کی سرزنش کی

ایک 19 سالہ انجینئرنگ کی طالبہ کو مبینہ طور پر آپریشن سیندور کے حوالے سے سوشل میڈیا پر 'قابل اعتراض پوسٹ' ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ طالبہ نے دو گھنٹے بعد ہی دھمکیاں  ملنے پر معافی مانگتے ہوئے پوسٹ ہٹا  لی تھی۔ اب گرفتاری کے حوالے سے عدالت  نےحکومت کی سرزنش کی ہے۔

ایک 19 سالہ انجینئرنگ کی طالبہ کو مبینہ طور پر آپریشن سیندور کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ‘قابل اعتراض پوسٹ’ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ طالبہ نے دو گھنٹے بعد ہی دھمکیاں  ملنے پر معافی مانگتے ہوئے پوسٹ ہٹا  لی تھی۔ اب گرفتاری کے حوالے سے عدالت  نےحکومت کی سرزنش کی ہے۔

بامبے ہائی کورٹ۔ (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: بامبے ہائی کورٹ نے منگل (27 مئی) کو انجینئرنگ کی ایک 19 سالہ طالبہ کی گرفتاری پر حکومت اور ایک انجینئرنگ کالج کی سرزنش کی۔ طالبہ کو سوشل میڈیا پر آپریشن سیندور کے بارے میں ‘قابل اعتراض پوسٹ’ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔

لائیو لا کے مطابق ، درخواست گزار نے کہا کہ اس نے 7 مئی کو لاہور واقع ‘ریفارمستان’ ہینڈل کی جانب سے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ کو ری-پوسٹ کیا تھا۔ یہ آپریشن سیندور  کی خبر کے سامنے آنے کے ٹھیک  بعد کیا گیا تھا، جسے دو گھنٹے بعد ہی جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد معذرت کے ساتھ واپس لے لیا گیا۔

ریفارمستان پوسٹ میں ‘خواتین اور بچوں’ پر بمباری کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی کی ‘اسلامو فوبک جنون’ پر تنقید کی گئی تھی۔ طالبہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس گوری گوڈسے اور سوم شیکھر سندرسن کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ طالبہ کو رہا کیا جانا چاہیے۔

لائیو لا کے مطابق، کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس گوڈسے نے زبانی طور پر کہا، ‘یہ کیا ہے؟ آپ ایک طالبہ کی زندگی برباد کر رہے ہیں؟ یہ کیسا رویہ ہے؟ کوئی کچھ ایسا کہتا ہے کہ آپ طالبہ کی زندگی برباد کرنا چاہتے ہیں؟ آپ اسے کیسے نکال سکتے ہیں؟ کیا آپ نے وضاحت طلب کی ہے؟ایک  تعلیمی ادارے کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس کا مقصد صرف اکیڈمک تعلیم فراہم کرنا ہے؟ کیا آپ کسی طالبہ کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں یا اسے مجرم بنانا چاہتے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کچھ کارروائی کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ اسے امتحان دینے سے نہیں روک سکتے۔ اسے باقی تین پیپرز میں شامل ہونے دیں۔’

جسٹس گوڈسے نے کہا، ‘انہوں نے معافی مانگی ہے اور اپنی منشا کو واضح کیا ہے۔ آپ کو اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ مجرم بنانے کی۔ ریاست کیا چاہتی ہے؟ وہ نہیں چاہتی کہ طلبہ اپنی رائے کا اظہار کریں؟ آپ طلبہ کو مجرم بنانا چاہتے ہیں؟’

کالج کے وکیل کے قومی مفاد کے پہلو پر دلائل شروع کرنے کے بعد جسٹس سندرسن نے زبانی ریمارکس دیے، ‘کون سا قومی مفاد؟ اس کا خمیازہ وہ پہلے ہی بھگت چکی ہے۔’

عدالت نے کہا کہ وہ منگل کی شام کو اس کیس کی دوبارہ سماعت کرے گی اور طالبہ کی رہائی کا حکم دے گی۔

عدالت نے کہا، ‘تعلیمی اداروں کو طلبہ کی مدد کرنی چاہیے، لیکن انہیں مجرم بننے میں مدد نہیں کرنی چاہیے۔’

ریاستی حکومت کی جانب سے سرکاری وکیل کے طور پر پیش ہوئے پریہ بھوشن کاکڑےنے کہا کہ طالبہ پولیس اسکارٹ کے ساتھ کالج کے امتحان میں بیٹھ سکتی ہے۔ اس پر عدالت نے کہا، ‘وہ مجرم نہیں ہے۔ اسے رہا کیا جانا چاہیے۔ اسے پولیس کے ساتھ پیش ہونے کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔’

بنچ نے درخواست گزار کی جانب سے پیش وکیل فرحانہ شاہ کو طالبہ کی جیل سے رہائی کے لیے نئی درخواست دائر کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت منگل کی شام تک ملتوی کر دی۔

واضح ہو کہ درخواست گزار سنگھڈ اکیڈمی آف انجینئرنگ، پونے کی  طالبہ ہے، جو ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی سے منسلک ایک غیر امداد یافتہ نجی کالج ہے۔ طالبہ کو 9 مئی کو آپریشن سیندور پر ایک انسٹاگرام پوسٹ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا، جس میں ہندوستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

طالبہ کے پوسٹ ہٹانے اور معافی مانگنے کے باوجود بعد میں انہیں  کالج سےنکال دیا گیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ اپنی درخواست میں طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کے خلاف کی گئی کارروائی ’من مانی اور غیر قانونی‘ تھی۔