
بنگال کے مرشد آباد میں حالیہ تشدد کی تحقیقات کرنے والی ایک 17 رکنی ٹیم نے پایا کہ یہ تشدد ‘بے حدمنظم اور سیاسی طور پر محرک تھا، جس میں مذہبی پولرائزیشن، ریاستی بے عملی اور پولیس کے جبر نے برسوں سے امن وامان سے رہ رہے ہندو- مسلم بقائے باہمی کو بگاڑ دیا۔’

مرشد آباد میں تشدد کے بعد سیکورٹی اہلکار ۔ (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)
کولکاتہ: بنگال کے مرشد آباد میں حالیہ تشدد کے بعد ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پایا ہے کہ یہ تشدد محض فرقہ وارانہ تصادم یا امن و امان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک’بے حدمنظم، منصوبہ بند اور سیاسی طور پر محرک صورت حال تھی، جہاں مذہبی پولرائزیشن، حکومت کی بے عملی اور پولیس کے جبر نے مل کر سالوں کے پرامن ہندو مسلم بقائے باہمی کو بگاڑ دیا ہے۔’
رپورٹ کے مطابق، 18 اور 19 اپریل کو فیمنسٹ ان ریزسٹنس (ایف آئی آر)، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس (اے پی ڈی آر)، ناری چیتنا،کمیٹی فار دی ریلیز آف پولیٹیکل پریزنرز (سی آر پی پی) اور گونو سونگرام مونچو (مرشد آباد) سمیت 17 رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے کے مرشدآبادکے شمشیر گنج بلاک کے گردونواح کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا۔
ٹیم نے ایک پریس ریلیز، جس کو ابھی پوری طرح سے جاری نہیں کیا گیا ہے، میں اہم حصوں کو شامل کیا ہے۔ اس میں متاثرین، عینی شاہدین، قریبی علاقوں کے باشندوں اور پولیس اور انتظامیہ کے نمائندوں سے بات کرنے کے بعد جو کچھ معلوم ہوا اس کو درج کیا گیا ہے۔
تشدد کا آغاز
ٹیم نے پایا کہ 11 اپریل کو دھولیان کے گھوش پارہ میں وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک احتجاجی ریلی میں مظاہرین پر پتھراؤ کیا گیا۔ ریلی منتشر ہو گئی؛ کچھ لوگ زخمی ہوئے۔ اس اچانک حملے سے مشتعل ہجوم نے آس پاس کی دکانوں میں توڑ پھوڑ شروع کر دی، جس میں ہندوؤں کی دکانیں بھی شامل تھیں۔ ٹائروں کو آگ لگا دی گئی اور ہندوؤں کی ایک مٹھائی کی دکان کو بھی آگ لگ گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمشیر گنج پولیس اسٹیشن سے صرف چند منٹ کے فاصلے پر واقع پولیس نے کوئی مدد نہیں کی۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ جن تین گھروں سے پتھر پھینکے گئے ،ان میں سے ایک ہندوتوا تنظیم سے وابستہ کسی شخص کا ہے، جس نے حال ہی میں ایک دھمکی آمیز ویڈیونشر کیا تھا۔ باقی دو گھر ان کے حامیوں کے تھے۔
مٹھائی کی دکان کے مالک نے ٹیم کو بتایا کہ توڑ پھوڑ کے بارے میں اطلاع دینے کے باوجود پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ اگلے دن جب انہوں نے مبینہ طور پر اپنی دکان بند کرنے کی کوشش کی تو انہیں اور ان کے ملازمین کو بی ایس ایف اہلکاروں نے تھپڑ مارے۔ ٹیم نے بتایا کہ چونکہ شٹر کھلا تھا، اس لیے اگلے دن دوبارہ دکان میں لوٹ پاٹ کی گئی۔
نقاب پوش حملہ آور
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی دن ڈاک بنگلہ موڑ پر ایک پرامن احتجاج اس وقت پرتشدد ہو گیا، جب کچھ نقاب پوش افراد نے ‘شری ہری ہندو ہوٹل’ پر حملہ کیا اور اسے آگ کے حوالے کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک اور مٹھائی کی دکان پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی، لیکن علاقے کے مسلمان دکانداروں نے انہیں روک دیا اور ہندوؤں کی ملکیت والی دکان کی حفاظت کی۔
ٹیم کا اہم ترین انکشاف یہ ہے کہ 11 اپریل کو تشدد پر قابو پانے میں انتظامیہ کی ناکامی افواہوں کے پھیلنے کا باعث بنی، جس سے کمیونٹی کے درمیان طویل مدتی پرامن بقائے باہمی میں خلل پڑا اور بداعتمادی پیدا ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوس نگر میں’پولیس اور بی ایس ایف اہلکاروں کے لباس میں نقاب پوش افراد نے مسلم علاقوں میں گھروں پر چھاپہ مارا اور بغیر کسی وارنٹ یا وضاحت کے 17-30 سال کی عمر کے نوجوانوں کو اٹھا لیا۔’
مقامی باشندوں نے دعویٰ کیا کہ ان ‘پولیس’ کے پاس چاقو، خنجر اور ہتھوڑے تھے۔’ ان میں سے اکثر کو حراست میں بے دردی سے مارا گیا۔ ایک ہی علاقے سے حراست میں لیے گئے افراد کی کل تعداد 274 کے لگ بھگ تھی۔
آنے والے دنوں میں مزید تشدد کے واقعات ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 اپریل کو شیو مندر بازار میں ایک مسلمان کی دکان کو جلا دیا گیا۔ بیٹ بونا اور جعفرآباد میں بھی حملے ہوئے اور نقاب پوش افراد نے تباہی مچا ئی۔ اس دوران پولیس نے کچھ نہیں کیا۔
ٹیم کی طرف سے انٹرویو کیے گئے کچھ لوگوں نے مقامی کونسلر پر تشدد بھڑکانے کا الزام بھی لگایا۔ رپورٹ میں پایا گیا کہ کئی لوگ خود کو بچانے کے لیےندی پار کر کے مالدہ بھاگ گئے۔
رپورٹ میں ایک اور اہم نکتہ جس پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ حملہ آور نقاب پوش تھے اور بچے ہوئے لوگ ان کی شناخت کے بارے میں یقینی نہیں تھے، پھر بھی پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں انہیں ‘مسلم دہشت گرد’ قرار دیا گیا ہے۔ متاثرین نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کے پاس بم کے علاوہ تلواریں تھیں۔
اسی طرح کے حملے جعفرآباد میں ہوئے، جہاں باپ بیٹا ہرگوبندو داس اور چندن داس مارے گئے۔ ٹیم نے رہائشیوں کے حوالے سے بتایا کہ تشدد 3-4 گھنٹے تک جاری رہا، لیکن پولیس کو پہنچنے میں پانچ گھنٹے لگے – حالانکہ جائے واردات پولیس اسٹیشن سے صرف آٹھ منٹ کی دوری پر تھی۔
یہاں بھی نقاب پوشوں نے نشانہ بناکر حملے کیے۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وقف کے احتجاج اور حملوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوتی پولیس اسٹیشن کے تحت سجور موڑ پر وقف احتجاج کی وجہ سے قومی شاہراہ 12 پر سڑک بلاک ہوگئی تھی اور پولیس کی فائرنگ میں قاسم نگر کے رہنے والے اعجاز احمدکی موت ہو گئی۔ بنگال پولیس نے ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔
رپورٹ میں پایا گیا ہے کہ تارباگان میں جھڑپیں ہوئیں اور فائرنگ میں ایک 12 سالہ لڑکا اور دو دیگر شدید زخمی ہوگئے۔
تنظیم اور مزاحمت
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح منصوبہ بند طریقے سے تشدد کیا گیا۔ ‘حملے سب کو نشانہ بناکر کیے گئے تھے۔ ہندو یا مسلمان، گھروں اور دکانوں کو اتنی صفائی سے آگ لگائی گئی کہ ایک گھر جل کرراکھ ہو گیا، جبکہ پڑوس کی عمارتوں میں اس کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔
مزید یہ کہ فرضی بی ایس ایف کے چھاپوں میں صرف مسلمانوں کے گاؤں کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ حملہ اور آتش زنی صرف دو ہندو علاقوں میں ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مخلوط آبادی والے علاقے پرامن رہے۔’
ٹیم نے یہ بھی بتایا کہ مالدہ کے بیشنو نگر کے پرلال پور ہائی اسکول میں واقع سرکاری ریلیف کیمپ کا دورہ کرنے کی کوشش کے دوران پولیس اور بی ایس ایف کے اہلکاروں نے ٹیم کو مین گیٹ پر روک دیا، جس کی وجہ سے وہ کیمپ میں موجود لوگوں سے بات نہیں کر سکے۔
ٹیم نے یہ بھی پایا کہ جب یہ کام چل رہا تھا، تو کچھ باہری لوگوں کو فون کرکے یہ بتایا جا رہا تھا کہ جو کچھ بھی بات چیت ہو رہی تھی، وہ سب کچھ بتا دیا گیا ہے۔ اکثر پنچایت کے اہلکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ٹیم کو روکتے اور پوچھتے کہ کیا ان کے پاس اجازت ہے۔ اکثران کی تصویریں کھینچی جاتی تھیں اور ویڈیوگرافی کی جاتی تھی۔
جعفرآباد میں کچھ لوگوں نے ایک ہندوتوا تنظیم کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو دھمکی بھی دی۔
رپورٹ میں اہم مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل عدم موجودگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں پایا گیا کہ غلط معلومات اور افواہوں نے بھی مذہبی پولرائزیشن کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا۔
رپورٹ میں پایا گیا کہ یہاں حقیقی متاثرین عام لوگ ہیں- ہندو اور مسلمان دونوں، جنہوں نے اپنے گھر، معاش، امن اور بھروسے کوکھو دیا ہے۔
رپورٹ میں اٹھائے گئے سوال
اس میں اس حقیقت پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ان حملوں کو کس نے منظم کیا اور پولیس اور انتظامیہ ‘جان بوجھ کر غیر فعال’ کیوں تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اور بھی سوال بنے ہوئے ہیں؛
بیٹ بونا اور جعفرآباد کے متاثرین کو پرلال پور کے لوگوں کے ذریعے ناؤسے کیوں بچایا جانا پڑا؟
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو پرلال پور ریلیف کیمپ میں داخل ہونے سے کیوں روکا گیا؟
مسلم علاقوں میں تباہی پھیلانے والے یہ فرضی بی ایس ایف اہلکار کون ہیں؟
پولیس بغیر وارنٹ یا میمو کے مسلم نوجوانوں کو کیوں اٹھا رہی ہے؟
ٹیم نے 11 اپریل کے بعد سے پیش آنے والے تمام واقعات کی فوری اور آزادانہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق، ریاستی حکومت کو متاثرہ علاقوں میں فوراًامن و امان کی بحالی کاعمل شروع کرنے اور معمولات کو بحال کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے تمام افراد کی فوری اور غیر مشروط رہائی اور غیر قانونی گرفتاری میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ متاثرہ خاندانوں کو فوراً معاوضہ دیا جائے اور بے گھر افراد کی بازآبادی کی جائے۔ اس میں بربریت اور لاپرواہی میں ملوث پولیس اور بی ایس ایف اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
فائرنگ کے متاثرین کی شکایات کو قبول کرنے کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کو فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے میں اپنی انتظامی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور ان تمام افسران کے خلاف فوری طور پر انکوائری شروع کرنی چاہیے جو ان دنوں ڈیوٹی پر تھے۔