احوال 2019 کی ہندوپاک فضائی جنگ کا

دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔

دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in

یہ کیسا اتفاق ہے کہ 22 اپریل کو کشمیر کے پہلگام پہاڑوں میں سیاحوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہندوستان اورپاکستان کے درمیان پیدا ہوئی کشیدگی سے بس ایک ماہ قبل معروف دفاعی تجزیہ کار سوشانت سنگھ کا  2019  میں ہوئے پلوامہ حملوں اور بالاکوٹ فضائی آپریشن پر ایک تحقیقی مضمون مؤقر جرنل کارواں کے مارچ شمارے میں شائع ہوا تھا۔

 بالاکوٹ پر فضائی حملوں کے بعد ہندوستانی فضائیہ کی اپنی جائزہ رپورٹ اور متعدد انٹرویوز پر مشتمل اس مضمون میں بتایا گیا نہ صرف فضائیہ نے ہدف کو مس کیا، بلکہ خود اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔

 ایک اور واردات اسی دن راجستھان سیکٹر میں ہوتے ہوتے رہ گئی، جہاں روسی ساخت کے جدید ترین سخوئی فائٹر نے اپنے ہی ایک مگ طیارہ کو کو نشانہ بنادیا تھا، مگر میزائل بس چند سینٹی میٹر کے فاصلے سے چوک گیا۔ اس واردات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اس سب کے بعد اپنا ایک پائلٹ بھی پاکستان کی تحویل میں دےکر پورے ملک کو بیک فٹ کر کھڑا کر کے رکھ دیا۔

سوشانت سنگھ، جو خود بھی ایک ملٹری افسر رہ چکے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، کے مطابق ان حملوں نے تو بس ایک کارنامہ انجام دیا، وہ یہ تھا کہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک ایسا ماحول بنانے میں مدد دی، جس سے وہ دوسری بار عوام میں پولرائزیشن کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے نتیجہ میں بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت گئے۔

 سال 2002میں جب وہ پہلی بار اسمبلی انتخاب میں قسمت آزمائی کر رہے تھے، گجرات کے شہر احمد آباد میں اکشر دھام مندر پر حملہ ہوا تھا، جس میں 30ہندو مارے گئے تھے۔ مودی نے اس کے لیے اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہرایا اور انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ پاکستان ان کے لیے انتخابات جیتنے اور ہندوستانی عوام کی نفسیات کو ایڈریس کرنے کا ایک آزمودہ ہتھیار بن چکا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر جو بالا کوٹ کے بعد قائم جائزہ کمیٹی کے رکن تھے، کے مطابق پہلے روز یعنی 26فروری 2019کو ہندوستانی فضائیہ نے 100میں سے 80نمبرات حاصل کیے، کیونکہ حملہ اور اس کی نوعیت نے پاکستان کو حیرت زدہ کردیا۔

 اس دن پاکستانی فضائیہ کو 100میں سے بس 25نمبرات حاصل ہوئے۔مگر اگلے روز پاکستانی فضائیہ نے کسرپوری کردی۔اس دن ہندوستانی فضائیہ کی کارکردگی 25سے نیچے ہوگئی۔اس روز پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی ہم آہنگی کا ایک بہترین نمونہ تھی۔

پاکستانی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول اور پنجاب کی سرحد کی طرف آتے ہوئے دو ہندوستانی جہازوں کی ٹیموں کو دیکھ لیا تھا اور وہ ان کو روکنے کے لیے فضا میں پرواز کر گئے تھے۔ مگر ایک تیسری ٹیم اسی وقت وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے اوپر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وادی نیلم کی طرف رواں تھے اور تین منٹ کے وقفے میں انہوں نے ایک غیر آباد علاقے کو نشانہ بناکر کئی میزائل گرادیے۔

 سنگھ کے مطابق، اس پورے واقعہ نے ہندوستان کی قومی سلامتی کے اسٹرکچر کی خامیوں کو اجاگر کردیا۔ گو کہ عوامی طور پر ان حملوں کو بہادری سے تعبیر کیا گیا،مگر اندرون خانہ اس نے تشویش کی لہر دوڑا دی اور عالمی سطح پر بھی فضائیہ کی کارکردگی کی پول کھل گئی۔

ان کہ کہنا ہے کہ 2016میں اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ کے بعد ہوئی سرجیکل اسٹرئکس کے بعد پاکستان نے جس طرح خاموشی اختیار کی، اس بار بھی اندازہ تھا کہ پاکستان یہ خون کے گھونٹ پی جائےگا اور کوئی جوابی کارروائی نہیں کرےگا۔

بالی ووڈ نے تو اوڑی سرجیکل اسٹرئک پر فلم بھی بنائی، جو پلوامہ حملوں سے قبل ریلیز کی گئی۔ بالاکوٹ پر حملہ کرکے مودی شاید فلم میں ان کے اپنے کردار کو اب حقیقی روپ دینا چاہتے تھے۔ ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کہ حملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہوسکتا ہے۔

سنگھ کے مطابق، پلوامہ حملوں کے ایک د ن بعد ہی فضائی کارروائی کا پلان بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے فضائیہ کو تیاری وغیرہ کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی ایما پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخواہ صوبہ کے بالاکوٹ علاقہ میں جیش محمد کے ٹھکانے پر حملہ کیا جائےگا، جو ایک نان ملٹری ٹارگیٹ ہوگا اور عالمی برادری کو قابل قبول ہوگا اور پاکستان کو جوابی حملہ کرنے کا جواز نہیں ملے گا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ ٹارگیٹ ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے اور زیادہ سویلین ہلاکتیں ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ بالا کوٹ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ لائن آف کنٹرول سے قریب ہی واقع ہے۔ ڈوبھال کو آپریشن کی نگرانی اور سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان تال میل کی ذمہ داری اور آنجہانی ارون جیٹلی کو میڈیا کو سنبھالنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔

ایک دون قبل حکومت نے کئی سربراہان مملکت اور سفارت کاروں کو پلوامہ حملوں پر مشتمل ایک ڈوزیر تھما دیا، جس میں جیش محمد کو خود کش حملہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

چھبیس فروری رات کے آخری پہر مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر کے فوجی مستقر سے ہندوستانی فضائیہ کے 12میراج 2000جہازوں نے اڑان بھری، جو اسرائیلی ایس پی اے سی ای 2000میزائلوں سے لیس تھے۔ یہ میزائل جہاز سے ریلیز ہونے کے بعد کنٹرول روم سے گائیڈ کیے جاتے ہیں۔ ان کے ہمرا سخوئی 30فائٹر اور مواصلاتی طیارہ اور ہوا میں ایندھن بھرنے والا طیارہ بھی شامل تھا۔

پلان تھا کہ چھ میزائل  ٹارگٹ پر داغے جائیں گے۔ پانچ طیاروں سے تو میزائل ریلیز ہو گئے، مگر چھٹا میزائل طیار ہ سے باہر ہی نہیں آیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ 35برس پرانے میراج طیارہ کے نیوی گیشن سسٹم میں نقص آگیا تھا۔ گو کہ ہندوستانی میڈیا اور سیاستدانوں نے فصائیہ کی یہ کہہ کر ستائش کی کہ اس نے  گھر میں گھس کر مارا، یعنی پاکستان کے اندر جاکر بم گرائے، مگر حقیقت ہے کہ یہ میزائل چالیس کلومیٹر دور سے ہندوستانی کنٹرول والے علاقے سے ہی داغے گئے۔

تکنیکی طور پر اسرائیلی ساخت کے یہ میزائل عمودی طور پر سیدھے زمین پر نہیں آتے ہیں، بلکہ ان کو بیضوی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ان کو دور سے ہی داغا جانا تھا۔ نئی دہلی میں جشن منایا گیا اور بتایا گیا کہ جیش محمد کے کئی سو اراکین مارے گئے۔

سنگھ کے مطابق، سیٹلائٹ ڈیٹا سے یہ تو پتہ چلا کہ میزائل بالا کوٹ کے پہاڑوں کی طرف گئے، مگر وہ ہدف پر گرے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ گہرے بادلوں کی وجہ سے طیارے اس کی تصویر نہیں لے سکے۔ اس دوران پاکستانی فضائیہ اس علاقے میں متحرک ہو چکی تھی۔ کسی دوست ملک کے سٹیلائٹ کو بھی ٹارگیٹ کی تصویر نہیں مل پائی۔

 لہذا دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔  ایک   فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ افسر، جو اس مشن میں شامل تھے نے سنگھ کوبتایا کہ انہوں نے اگلے دن دوبارہ حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر سیاسی قیادت نے سختی کے ساتھ منع کردیا۔

 آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے ایس پی آئی) اور اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فارنزک لیب،  کے مطابق تینوں ایس پی آئی سی ای-2000 بم تقریباً ایک جیسے زاویے پر لیکن ہدف سے تیس سے چالیس میٹر دور جا گرے۔ اس کی وجہ ہندوستانی فضائیہ کا صرف جی پی ایس پر انحصار تھا، جبکہ ان بموں کے لیے درست ہدف تک پہنچنے کے لیے 3ڈی ماڈلز اور جدید گائیڈنس ٹکنالوجی درکار تھی، جو ہندوستان کے پاس نہیں تھی۔

رپورٹ کے مطابق، ہدف کی بلندی کا اندازہ بھی غلط تھا۔ اگر جی پی ایس میں غلط اونچائی درج کی جائے، تو بم بھی غلط جگہ گرتے ہیں، چاہے طیارہ ہدف کے بالکل اوپر ہو۔ یہ تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حملہ تکنیکی لحاظ سے ناکام رہا۔

جوابی کارروائی کے طور پر  چند گھنٹوں بعدپاکستان نے ایل او سی پر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ 27 فروری کی علی الصبح، پاکستان نے اوڑی سیکٹر میں ہندوستانی چیک پوسٹوں پر توپ خانے سے گولہ باری کی۔ یہ صرف ایک چال تھی۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ پاک فضائیہ نے جموں و کشمیر میں ہندوستانی اہداف کے قریب چھ فضائی حملے کیے۔  24 پاکستانی طیاروں نے ایل او سی کے اس پار چار کلومیٹر تک پرواز کی۔  راجوری کے نادن، لام، جھنگار، کیری اور ہمیرپور علاقوں، اور بھمبر گھاٹی میں بم گراکر طیارہ واپس چلے گئے۔

چونکہ یہ کارروائی بہت کم وقت میں کی گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اہداف پہلے سے طے اور نشاندہی شدہ تھے۔ پاکستانی حکام نے کہا کہ ان کے لڑاکا طیاروں کو خالی علاقوں میں بم گرانے کا حکم دیا گیا تاکہ جانی نقصان یا سویلین تباہی نہ ہو۔پاکستانی ایر فورس کے حکام نے ایک ویڈیو بھی ریلیز کی جس میں دکھایا گیا کہ طیاروں نے عسکری تنصیبات پر نشانہ لگایا اور پھر شعوری طور پر قریبی بنجر علاقوں میں بم گرائے تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔

پاکستانی فضائیہ  نے راجستھان کے انوگڑھ علاقے میں بھی ایک حملے کی کوشش کی، جو شاید ایک چال تھی، کیونکہ وہاں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ہندوستانی فضائیہ کو شمالی ہندوستان میں اپنے مختلف فضائی اڈوں پر حملے کا خدشہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیشتر جنگی طیارے پہلے ہی  مستعد گشت پر تھے تاکہ کسی بھی خطرے کی صورت میں فوری ردعمل دے سکیں۔ اسے ‘آپریشنل ریڈی نیس پیٹرول’ کہا جاتا ہے۔

چار ہندوستانی جنگی طیارے—دو میراج 2000 شمالی کشمیر میں بانڈی پورہ کے قریب، اور دو ایس یو -30 ایم کے آئی راجوری کے نوشہرہ علاقے میں —ایل او سی پر دفاعی جنگی گشت پر تھے۔ مزید دو ایس یو -30 ایم کے آئی طیارے ایک ائیر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ساتھ، جو کہ ایک فضائی کمانڈ پوسٹ ہے تمام فضائی کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کے پاس صرف پانچاے ڈبلیو اے سی ایس طیارے ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس نو ہیں۔رپورٹس کے مطابق، ہندوستانی اے ڈبلیو اے سی ایس کو پاکستانی طیاروں کا مسلسل سراغ رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ کشمیر کی پہاڑی زمین اور زمینی رکاوٹوں سے ریڈار کی رینج متاثر ہوتی ہے۔

پاکستانی فضائیہ کے اسٹرائیک اسکواڈ میں چار میراج-III اور چار جے ایف-17 لڑاکا طیارے شامل تھے، جن کے ساتھ چار ایف-16 طیارے بطور حفاظتی اسکواڈ تھے۔

جموں و کشمیر میں زمینی طور پر ایم آئی جی- 21 بی آئی ایس او این ایس کو فوری پرواز کا حکم دیا گیا، جن میں ایک ابھینندن ورتمان چلا رہے تھے۔ جب وہ ایل او سی عبور کر گئے تو ان کا طیارہ میزائل سے نشانہ بنا، اور وہ ایجیکٹ ہو کر پاکستانی قبضے میں آ گئے۔

 پاکستانی فضا ئیہ نے علاقے میں تمام ریڈیو رابطے جام کر دیے تھے، جس سے ابھینندن کو کنٹرولر سے واپسی کے احکامات موصول نہ ہو سکے۔ ہندوستانی فضا ئیہ کے پائلٹ اور ایئر ڈیفنس کنٹرولرز مکمل الجھن میں آ گئے تھے۔ ایم آئی جی- 21  طیارہ ایک محفوظ ڈیٹا لنک سے محروم تھا، جو جدید فضائی جنگ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

 فضا ئیہ کے اعلیٰ افسران اس خامی پر شدید برہم تھے، جس کا الزام دفاعی تحقیقاتی ادارے اور تاخیر سے ہونے والی خریداریوں پر عائد کیا گیا۔ ایر فورس کے چیف، آر کے ایس بھدوریا، جو بعد میں بی جے پی میں شامل ہوگئے  نے اعتراف کیا کہ 27 فروری کو آپریشنل ڈیٹا لنک کی کمی نے ہندوستانی فضا ئیہ کی کارروائی کو متاثر کیا۔

پاکستان نے ابتدائی طور پر دو ہندوستانی پائلٹوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، لیکن بعد میں اسے ایک تک محدود کر دیا۔ہندوستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستانی ایف16کو مار گرایا، لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت حاصل نہ ہو سکا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی طیارہ پاکستانی حدود میں زمینی افواج کے ذریعے گرایا گیا۔مگر فارن پالیسی نے امریکی دفاعی حکام کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے سبھی ایف 16طیارے ثابت و سلامت ہیں۔

ہندوستان نے بعد میں تسلیم کیا کہ ایم آئی جی-21  کا ایک پائلٹ لاپتہ ہے، جسے پاکستان نے اپنی تحویل میں بتایا۔ یہ سب کچھ چند منٹوں میں ہوا۔ایک اور ناکامی ہندوستان کے سری نگر ایئربیس پر ہوئی، جب فضا ئیہ نے اپنے ہی ایم آئی -17 وی-5 ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ تمام چھ افراد، بشمول ایک سویلین، ہلاک ہو گئے۔

 تحقیق سے معلوم ہوا کہ مسئلہ ‘فرینڈ یا فو’ سسٹم کا تھا، جو سول فریکوئنسیوں کے ساتھ الجھ گیا۔ جنگ کے دباؤ میں، افسر نے اسے دشمن طیارہ سمجھ کر مار گرایا، بعد میں سزا دی گئی۔ اس نقصان کا علم ہو گیا تھا لیکن اس کو2019 کے انتخابی نتائج آنے تک خفیہ رکھا گیا۔

 ایک اور واقعہ جس کی کوریج نہیں ہوئی، وہ بارمیر، راجستھان میں پیش آیا۔ ایک سخوئی طیارے نے اپنے ہی ایم آئی جی- 21  پر میزائل داغ دیا، لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گیا۔

ایک سابق رکن اسمبلی نے واقعے پر لکھا، بعد میں ایک افسر نے تصدیق کی کہ اگر یہ میزائل نشانہ لگا لیتا، تو ایر فورس کا سربراہ برخاست ہوتا۔اس لیے  میڈیا کی توجہ جان بوجھ کر ابھینندن کی گرفتاری پر رکھی گئی۔

ستائیس  فروری کو شام پاکستانی سکریٹری خارجہ  تہمیہ جنجوعہ، نے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی سفیروں کو بتایا کہ ‘ہندوستان کے نو میزائلوں کو پاکستان پر نشانہ بنانے کے لیے تیار رکھا گیا ہے۔ پاکستان نے انتباہ دیا کہ وہ اپنی میزائل طاقت سے ‘تین گنا زیادہ’ جوابی کارروائی کرے گا، اور اپنی فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا۔

مودی نے ایک انتخابی ریلی میں کہا؛’پاکستان ہمیں دھمکی دیتا ہے، کہ اس کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ بٹن دبائے گا۔’ 17 اپریل کو انہوں نے کہا، ‘اب ہندوستان رونے والا نہیں، پاکستان کو رونا ہو گا۔ ہمارے پاس سب ایٹم بموں کی ماں ہے۔ میں نے کہا، پاکستان کو کہہ دو، جو کرنا ہے کرو، ہندوستان بدلہ لے گا۔’

ابھینندن کی گرفتاری اور رہائی ہندوستان-پاکستان تعلقات میں ایک نازک لمحہ تھی۔ حیران کن طور پر، دونوں ممالک کے حکومت حامی میڈیا نے کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا، اور پائلٹ کی واپسی کو بحران کے خاتمے کے طور پر پیش کیا۔

 پاکستانی میڈیا نے ابھینندن کی گرفتاری کو اپنی فوج کی کامیابی کے طور پر دکھایا، جبکہ ہندوستانی میڈیا نے انہیں قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔کارگل جنگ کی طرح، اس بار بھی ہندوستانی حکومت اور فوج کو قومی جذبات کی حمایت حاصل تھی، اور میڈیا نے حب الوطنی کو آزادرپورٹنگ پر ترجیح دی۔ ارنب گوسوامی اوروہاٹس ایپ چیٹس کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ میڈیا کو حکومت کے فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔

 اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ کس طرح ہندوستانی میڈیا نے قوم پرستی کے نام پر تحقیقاتی صحافت کو ترک کر دیا ہے۔ہندوستانی میڈیا نے ممکن ہے اپنے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی ہو، مگر بین الاقوامی ساکھ اور فوجی نتائج نے واضح کر دیا کہ ہندوستان کو عملی طور پر نقصان ہوا۔

پاکستانی فضائیہ نے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جبکہ ہندوستان کی قیادت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اگر اس بحران میں ہندوستان کے پائلٹ ابھینندن مارے جاتے، تو ردعمل شدید ہوتا، اور مودی اس بحران کو ختم نہیں کر پاتے۔ ایک معمولی غلطی بڑے پیمانے پر جنگ کو جنم دے سکتی تھی۔

سوشانت سنگھ کے مطابق، ہندوستان کی فوجی ناکامی واضح تھی، چاہے اسے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ ایک کمزور حریف کے خلاف بھی فضا ئیہ فیصلہ کن برتری نہیں دکھا سکی۔ہندوستانی فوجی قیادت غیر ذمہ دار اور غیر پیشہ ور نظر آئی، جو سیاسی قیادت کی خواہشات کے سامنے کوئی مؤثر مزاحمت نہ کر سکی۔

اس تحقیقی مضمون کے آخر میں سنگھ تحریر کرتے ہیں کہ،’ایک سیاسی طور پر کمزور مودی،جو کمزور معیشت سے نبرد آزما ہے، کسی بہانے سے ایک بار پھر ملک کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کراسکتا ہے۔’ ان کی  یہ پیشن گوئی ایک ماہ بعد ہی حقیقت کی شکل میں سامنے آگئی ہے۔

Next Article

پی سی آئی سمیت 22 تنظیموں نے صحافیوں کو ڈیٹا پروٹیکشن قانون سے دور رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے میمورنڈم دیا

پریس کلب آف انڈیا اور 21 دیگر میڈیا تنظیموں نے مرکزی وزیر اشونی ویشنو کو ایک مشترکہ میمورنڈم پیش کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صحافیوں کے پیشہ ورانہ کام کو ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن (ڈی پی ڈی پی) ایکٹ 2023  کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ اس میمورنڈم کو ایک ہزار سے زیادہ صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹ کی حمایت حاصل ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی) اور ملک بھر کی 21 دیگر صحافتی اداروں نے مرکزی وزیر اشونی ویشنو کو ایک مشترکہ میمورنڈم پیش کیا ہے، جس میں صحافیوں کے پیشہ ورانہ کام کو ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن (ڈی پی ڈی پی) ایکٹ، 2023 کے دائرے سے باہر رکھنےکی اپیل کی گئی ہے  ۔

پریس کلب نے بدھ (25 جون) کو بتایا کہ میمورنڈم کو ملک بھر کے 1000 سے زیادہ صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹ کی حمایت حاصل ہے۔

اپنے بیان میں، پی سی آئی نے کہا،؛قانونی اور ڈیٹا تحفظ کے ماہرین کے ساتھ ایکٹ کی مختلف تعریفوں اور دفعات کے مکمل مطالعہ کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایکٹ آئین ہند کے آرٹیکل 19 (1) (اے) اور 19 (1) (جی) کے تحت صحافیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔’

بیان میں کہا گیا ہے کہ مختلف ریاستوں کی 22 صحافتی تنظیموں نے اس بات پر شدیدتشویش کا اظہار کیا ہے کہ بل کا مسودہ تیار کرتے وقت صحافت کو اس کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا تھا، لیکن اب اسے اس میں شامل کیا جا رہا ہے۔

یہ میمورنڈم پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی) کے ایک سینئر اہلکار کے ذریعے دیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ بل الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے پیش کیا تھا۔ اشونی ویشنو مرکزی حکومت میں اطلاعات و نشریات، الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی اور ریلوے کی وزارت سنبھال رہے ہیں۔

یہ میمورنڈم پریس کلب آف انڈیا کی طرف سے مئی 2025 میں شروع کی گئی دستخطی مہم کا حصہ ہے۔ اس مہم کے ذریعے وزارت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس قانون میں ضروری تبدیلیاں کرے تاکہ پرنٹ، آن لائن اور الکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹ کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

Next Article

بہار میں ووٹر لسٹ پر سیاست: شہریت کا ثبوت، این آر سی کی آہٹ؟

بہار اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن شروع کیا ہے، جس میں 2003 کے بعد شامل ووٹروں سے شہریت کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن  نے اسے ‘خفیہ این آر سی’ کہتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے کاٹے جا سکتے ہیں۔

علامتی تصویر ، بہ شکریہ: فری پک

نئی دہلی: بہار میں نومبر 2025 سے پہلے ہونے والے اسمبلی انتخابات سےعین قبل الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ایک اہم فیصلہ لیا ہے اور ریاست میں اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کا عمل شروع کیا ہے۔ اس کے تحت نہ صرف ووٹر لسٹ نئے سرے سے تیار کی جا رہی ہیں بلکہ 2003 کے بعد رجسٹرڈ ووٹرز سے شہریت ثابت کرنے والےدستاویز بھی طلب کیے  جا رہے ہیں۔

اس اعلان کے بعد سے ریاست کی سیاست گرما گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس قواعد کو بی جے پی کی اشارے پر کی گئی کارروائی قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کا مقصد بہار کے لوگوں  کے حق رائے دہی کو چھیننا اور انتخابات سے قبل این آر سی جیسے عمل کو نافذ کرنا ہے۔

سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا ایک ماہ میں 8 کروڑ ووٹروں کی درست دستاویزات کے ساتھ تصدیق ممکن ہے؟ کیا اس کی وجہ سےغریب اور پسماندہ طبقوں کے ووٹ کا حق چھیننے کا خطرہ ہے؟ کیا یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کا قدم ہے یا حکمران جماعت کو ووٹروں کی منتخب تعداد تک محدود کرنے کی چال؟

اپوزیشن کا الزام: ‘یہ ووٹر کے حقوق چھیننے کی سازش

آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے ایکس پر لکھا، ‘بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کا اچانک خصوصی نظر ثانی کا اعلان انتہائی مشکوک اور تشویشناک ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکم دیا ہے کہ تمام موجودہ ووٹر لسٹ کو ردکرتے ہوئے ہر شہری کو اپنا نام ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے نئے سرے سے درخواست دینا ہو گی، خواہ اس کا نام پہلے سے ہی لسٹ میں کیوں نہ  ہو۔ بی جے پی-آر ایس ایس اور این ڈی اے آئین اور جمہوریت کو کمزور کیوں کرنا  چاہ  رہے ہیں؟’

تیجسوی نے ایک اور پوسٹ میں لکھا ہے، ‘وزیر اعظم نریندر مودی نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ بہار کی پوری ووٹر لسٹ کو رد کرے اور صرف 25 دنوں میں 1987 سے پہلے کے کاغذی ثبوت کے ساتھ نئی ووٹر لسٹ تیار کرے۔ انتخابی شکست کے گھبراہٹ میں یہ لوگ اب بہار اور بہاریوں سے ووٹ کا حق چھیننے کی سازش کر رہے ہیں۔ خصوصی نظر ثانی کے نام پر یہ آپ کا ووٹ کاٹیں گے تاکہ ووٹر شناختی کارڈ نہ بن سکے۔ پھر یہ آپ کو راشن، پنشن، ریزرویشن، اسکالرشپ اور دیگر اسکیموں سے محروم کر دیں گے۔’

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے پورے عمل کو ‘خفیہ این آر سی’ قرار دیتے ہوئے کہا، ‘الیکشن کمیشن بہار میں خفیہ طریقے سے این آر سی کو نافذ کر رہا ہے۔ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کروانے کے لیے اب ہر شہری کو دستاویزوں کے ذریعے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ کب اور کہاں پیدا ہوئے تھےاور یہ بھی کہ ان کے والدین کب اور کہاں پیدا ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ قابل اعتماد اندازوں کے مطابق، صرف تین چوتھائی پیدائشیں ہی رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ زیادہ تر سرکاری دستاویزات میں بڑی غلطیاں ہوتی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ سیمانچل علاقے کے لوگ سب سے غریب ہیں۔ وہ دن میں دو وقت کا کھانا بھی مشکل سے کھا پاتے ہیں۔ ایسے میں ان سے اپنے والدین کی دستاویزوں کی توقع رکھنا ایک سفاک مذاق ہے۔ اس عمل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بہار کے غریب لوگوں کی ایک بڑی تعداد ووٹر لسٹ سے خارج ہو جائے گی۔ ووٹر لسٹ میں اپنا نام شامل کرنا ہر ہندوستانی کا آئینی حق ہے۔ سپریم کورٹ نے 1995 میں ہی ایسے من مانی عمل پر سخت سوالات اٹھائے تھے۔ الیکشن کے اتنے قریب ایسی کارروائی کرنے سے الیکشن کمیشن پر لوگوں کا اعتماد کمزور ہوگا۔’

سی پی آئی-ایم ایل ایل نے اس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے، ‘اس اسپیشل انٹینسو ریویژن کی نوعیت اور پیمانہ آسام میں کیے گئےاین آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) سے ملتا جلتا ہے۔ آسام میں اس عمل کو مکمل ہونے میں چھ سال لگ گئے اور اب تک آسام حکومت اسے شہریوں کی حتمی فہرست کے طور پر ماننے کو تیار نہیں ہے۔ آسام کی آبادی 3.3 کروڑ تھی، جبکہ بہار میں الیکشن کمیشن صرف ایک مہینے میں تقریباً 8 کروڑ ووٹروں کو کور کرنا چاہتا ہے – وہ بھی جولائی کے مہینے میں، جو بہار میں مانسون اور زراعت کا مصروف سیزن ہے۔’

خط میں مزید لکھا گیا ہے، ‘یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ بہار کے لاکھوں ووٹر ریاست سے باہر کام کرتے ہیں۔ بہار میں اس طرح کی نظر ثانی آخری بار 2002 میں کی گئی تھی، جب وہاں کوئی الیکشن نہیں ہونا تھا اور ووٹروں کی تعداد بھی صرف 5 کروڑ کے قریب تھی۔ ہماری پارٹی بہار میں بے زمین غریبوں کے حق رائے دہی کے لیے سب سے زیادہ سرگرمی سے لڑ رہی ہے، اور ہمیں خدشہ ہے کہ انتخابات سے عین قبل اتنے مختصر وقت کے فریم میں کی گئی یہ خصوصی نظرثانی پورے انتخابی عمل کو افراتفری میں ڈال دے گی، اور بڑے پیمانے پر غلطیاں اور ناموں کو حذف کرنے کے واقعات ہوں گے۔ اس لیے ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ناقابل عمل منصوبے کو فوری طور پر واپس لیں اور ووٹر لسٹ کو معمول کے مطابق اپڈیٹ کریں۔’

ماہرین کا تجزیہ: قانونی خامیاں اور عملی مسائل

انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیم اے ڈی آر کے شریک بانی پروفیسر جگدیپ چھوکر نے دی وائر میں لکھے ایک تجزیاتی مضمون میں الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر کئی سوالات اٹھائے ہیں؛

پہلا؛ 21 سال بعد اچانک نظرثانی کیوں؟

کمیشن نے 2003 کے بعد پہلی بار بہار میں مکمل جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چھوکر نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا پچھلی دو دہائیوں میں اربنائزیشن ، نقل مکانی یا فرضی ناموں کا مسئلہ اچانک سنگین ہو گیا ہے؟ اگر یہ مسائل برقرار تھے تو 21 سال تک کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟

دوسرا؛کارروائی کے لیے وقت کی حد ناقابل عمل ہے۔

پچیس جون سے شروع ہونے اور 30 ​​ستمبر کو حتمی فہرست شائع کرنے کے عمل میں کئی مراحل شامل ہیں جیسے گھر گھر جا کر فارم دو بار پُر کرنا، جانچ پڑتال، ڈرافٹ رول شائع کرنا، اعتراضات کو حل کرنا وغیرہ۔ چھوکر اسے انتہائی پرجوش اور غیر حقیقت پسندانہ مانتے ہیں — خاص طور پر بہار جیسی ریاست میں جہاں تعلیم کی شرح،بجلی کی فراہمی اورنقل مکانی جیسے مسائل ہیں۔

تیسرا؛ شہریت ثابت کرنے کا جواز اور اثر

الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق 2003 کے بعد ووٹر لسٹ میں شامل ہونے والوں کو اپنی شہریت ثابت کرنا ہوگی۔ چھوکر نے سوال اٹھاتے ہیں-

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ووٹ اور اب تک کے انتخابی نتائج غلط اور غیرقانونی ہیں؟

کیا یہ ناموں کو حذف کرنے کے قانونی عمل پر عمل کیے بغیر ووٹروں کے حقوق چھیننا نہیں ہے؟

کیا یہ نام حذف کرنے کے طریقہ کار کے اصول 21اے کی خلاف ورزی نہیں ہے، جو منصفانہ سماعت کا موقع دینے کی بات کرتا ہے؟

چوتھا؛ کاغذ نہیں دکھائیں گے کی گونج

چھوکر نے آخر میں کہا کہ شہریت کے ثبوت کے لیے والدین تک  کےدستاویزمانگنا براہ راست سی اے اے-این آر سی تنازعہ کی یاد دلاتا ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج ہوا تھا۔ وہ سوال کرتے ہیں – کیا یہ ووٹر لسٹ میں اصلاح ہے، یا خفیہ این آر سی؟

کیا الیکشن کمیشن شفاف ہے؟

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا، تاہم پروفیسر چھوکر اسے شفافیت کا سراب قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، شہریوں کی ذاتی دستاویز ای سی آئی این ای ٹی پورٹل پر اپلوڈ کیے جائیں گے لیکن انہیں صرف انتخابی اہلکار ہی دیکھ سکیں گے، یہ کیسی ‘شفافیت’ ہے؟

اسپیشل رویژن، شہریت ثابت کرنے کی شرط، مانسون کا چیلنج، دیہی علاقوں کی عملی رکاوٹیں، اور سیاسی الزام تراشیاں – ان سب کے درمیان یہ واضح ہے کہ بہار کے ووٹر لسٹ کے حوالے سے صرف انتظامی بحران نہیں ہے بلکہ آئینی اور جمہوری بحران بھی ہے۔

چھوکر کو خدشہ ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کیا جائے گا بلکہ اس سے ملک بھر میں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر بھی سنگین سوالات اٹھیں گے۔

پہلے شہریت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں تھی

پچھلی بار جب ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن’ کیا گیا تھا، تب بوتھ لیول آفیسر گھر گھر جا کر خاندان کے سربراہ سے ‘کاؤنٹنگ پیڈ’ کے ذریعے تفصیلات بھرواتے تھے۔

لیکن اس بار، ہر موجودہ ووٹر کو انفرادی طور پر ایک گنتی فارم بھرنا ہوگا۔ جو ووٹریکم جنوری 2003 کے بعد انتخابی فہرستوں میں شامل کیے گئے ہیں، انہیں  اس کے علاوہ  اپنی شہریت کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔ (وہ لوگ جو اس کٹ آف تاریخ سے پہلے ووٹر لسٹ میں شامل تھے وہ شہری مانےجائیں گے۔)

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘الیکشن کمیشن کا فارم 6، جو نئے ووٹروں کو رجسٹر کرتا ہے، اس میں اب تک صرف اس اعلان کی ضرورت تھی کہ درخواست گزار ہندوستانی شہری ہے – کسی دستاویزی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی (صرف عمر اور پتہ کا ثبوت درکار تھا)۔ لیکن اس بار بہار میں جاری اس خصوصی نظر ثانی کے لیے ایک نیا اعلان شامل کیا گیا ہے، جس میں شہریت کے دستاویزی ثبوت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔’

الیکشن کمیشن کے حکم میں کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، کاسٹ سرٹیفکیٹ (ایس سی/ایس ٹی) جیسے دستاویزات کے علاوہ اگر کسی شخص کے والدین کا نام بہار کی ووٹر لسٹ میں یکم جنوری 2003 کو درج ہے تو اسے بھی دستاویز سمجھا جائے گا۔

اگرچہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ کتنے لوگوں کو شہریت کا ثبوت فراہم کرنا پڑے گا، لیکن ایک اندازے کے مطابق 2003 سے اب تک تقریباً 3 کروڑ ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ میں شامل کیے جا چکے ہیں۔

بتادیں کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ووٹر لسٹ کا اسپیشل انٹینسو رویژن بالآخر تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کیا جائے گا۔ یہ سلسلہ بہار سے شروع ہوا ہے، جہاں نومبر سے پہلے اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ یہ عمل بدھ (25 جون) سے شروع ہوا ہے اور 30 ​​ستمبر کو حتمی ووٹر لسٹ کی اشاعت کے ساتھ ختم ہوگا۔

اسپیشل انٹینسیو ریویژن کیا ہے؟

اس عمل کے تحت  بوتھ لیول آفیسرز(بی ایل او) گھر گھر جا کر چیک کریں گے ۔ وہ ووٹروں کو ایک انیومریشن فارم دیں گے، جسے موقع پر پُر کرکے بی ایل او کو واپس کرنا ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اس مہم کے لیے کچھ رہنما اصول مرتب کیے ہیں: اگر کوئی گھر بند پایا جاتا ہے، تو بی ایل او فارم کو دروازے کے نیچے ڈال دے گا اور کم از کم تین بار فارم لینے کے لیے واپس آئے گا۔

ووٹر اس فارم کو آن لائن بھی جمع کراسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد بی ایل او کی طرف سے فزیکل تصدیق کی جائے گی۔

بہار میں تقریباً 7.73 کروڑ ووٹر ہیں۔ گنتی فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ 26 جولائی ہے۔

ڈرافٹ ووٹر لسٹ یکم اگست کو شائع کی جائے گی۔اس کے بعد ووٹر یکم ستمبر تک دعوے اور اعتراضات دائر کرا سکیں گے۔ حتمی ووٹر لسٹ 30 ستمبر کو جاری کیے جانے کا امکان ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ مقررہ وقت تک فارم جمع نہیں کراتے ہیں ان کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جا سکتے ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن نے واضح ہدایات نہیں دی ہیں کہ جن شہریوں کے پاس مطلوبہ دستاویزات نہیں ہیں ان کی تصدیق کا عمل کس طرح انجام دیا جائے گا۔

شہریت ایکٹ 1955 کی دفعات کے مطابق گنتی کے فارم میں عمر کے تین گروپ تجویز کیے گئے ہیں۔

یکم جولائی 1987 سے پہلے ہندوستان میں پیدا ہونے والے افراد کو اپنی ‘تاریخ پیدائش اور/یا جائے پیدائش’ کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔

یکم جولائی 1987 اور 12 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کو اپنے ثبوتوں کے ساتھ کم از کم والدین میں سے کسی ایک کی تاریخ پیدائش اور/یا جائے پیدائش کا ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی۔

دو دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اور والدین دونوں کی تاریخ پیدائش اور/یا جائے پیدائش کا ثبوت پیش کریں۔

فارم میں لکھا گیاہے، ‘اگر والدین میں سے کوئی بھی ہندوستانی شہری نہیں ہے، تو اپنی پیدائش کے وقت ان کے درست پاسپورٹ اور ویزا کی ایک کاپی فراہم کریں۔’

اس کے ساتھ ہی اگر کسی شخص کا نام ووٹر لسٹ میں یکم جنوری 2003 یا اس سے پہلے درج ہے تو اسے بھی ثبوت کے طور پر قبول کیا جائے گا، کیونکہ بہار میں آخری خصوصی نظر ثانی 2003 میں کی گئی تھی۔

فارم میں بیرون ملک پیدا ہونے والے شہریوں اور نیچرلائزڈ شہریوں کے لیے بھی الگ الگ زمرے ہیں۔

تاہم، الیکشن کمیشن نے اس بارے میں کوئی واضح ہدایات نہیں دی ہیں کہ لاوارث بچوں یا یتیم بچوں اور جن کے پاس اپنے والدین کی دستاویزات نہیں ہیں، ان کے معاملے میں کیا کیا جائے گا۔

Next Article

بیانیہ، بیداری اور فیصلے: استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی

 مسلم دنیا میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔

اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم کے اجلاس کی ایک تصویر، فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم کے اجلاس کی ایک تصویر، فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

بیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ ہندوستان کے دور میں مرحوم احمد شاہ پطرس بخاری اپنے ایک طنزیہ مضمون ’مرید پور کا پیر‘ میں رقمطراز ہیں کہ جس شہر میں وہ مقیم تھے، وہیں کانگریس والوں نے اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی اور جب ایسا جلسہ بغل میں ہو رہا ہوں، تو کون متقی وہاں جانے سے گریز کرے۔

یہی صورتحال کم و بیش حال ہی میں مجھے پیش آئی۔ معلوم ہوا کہ ترکیہ کے عروس البلاد استنبول میں ستاون اراکین پر مشتمل اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزرائے  خارجہ کا اکیاون واں اجلاس منعقد ہو نے والا ہے۔ اب ترکیہ میں مقیم  کون صحافی اس موقع کو ضائع ہونے دیتا۔

ایک تو خطے کی صورتحال ایران- اسرائیل جنگ، غزہ کی صورتحال، دوسرا اس کانفرنس کے دوران افریقی ملک برکانو فاسو کے وفد سے ملاقات کی لالچ تھی، جس کے صدر ابراہیم ترورے نے  استعماری طاقتوں کے خلاف افریقی ممالک کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔

میں نے اس کانفرنس کےلیے رجسٹر کرکے انقرہ سے استنبول کی راہ لی۔ بتایا گیا کہ حکومت ترکیہ سے ایکرڈیٹڈ صحافی ہونے کا ناطے کانفرنس کےلیے رجسٹر کرنا بس ایک رسمی کاروائی ہے۔

ترکیہ کے شہر استنبول کی داد دینی پڑے گی کہ شہر میں ستاون وزرائے خارجہ اور ان کے وفود کی موجودگی کے باوجود کہیں ٹریفک میں خلل تھا نہ معمولات زندگی میں رخنہ ڈالا گیا تھا ۔ کانفرنس بلڈنگ تک  معلوم ہی نہیں پڑا، کہ شہر میں اتنی بڑی تعداد میں وی وی آئی پییز جمع ہیں ۔

کوئی سڑک بند، نہ پولیس کے دستے نظر آرہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بس ایک یا دو غیر ملکی سربراہان کی آمد پر تو نئی دہلی میں  کئی اہم شاہراہیں بند ہو جاتی ہیں۔جن سے میلوں دور تک ٹریفک جام لگتا تھا۔ اسلام آباد میں پچھلے سال شنگھائی تعان تنظیم کے اجلاس کے وقت تو پورا شہر ہی بند کردیا گیا تھا۔

حتیٰ کہ شہر کے نواح میں کانفرنس ہال سے میلوں دور شادی ہالوں تک کو بند رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ چونکہ استنبول میں آئے دن غیر ملکی مہمانوں کے آنے کا تانتا بندھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے بھی شاید یہ ایک روٹین سا بن گیا ہے۔ پھر اسی کانفرنس بلڈنگ کے پاس ہی ایک نیم دائرہ میں ہوٹلوں کی ایک قطار تھی۔ وفود کے اکثر اراکین کو پیدل ہی ہوٹل سے کانفرنس ہال تک آتے دیکھا۔

خیر کانفرنس کے استقبالیہ پر معلوم ہوا کہ میرا نام لسٹ میں موجود ہی نہیں تھا۔ وجہ بتانے کےلیے کوئی موجود نہیں تھا۔ دو گھنٹہ منت سماجت کرنے اور یہ دہائی دینے کے بعد کہ میں انقرہ سے بس اسی کانفرنس کو کور کرنے کےلیے چلا ہوں اور ہوٹل میں مقیم ہوں، تو اسکارٹ کرکےمجھے پریس گیلری میں لے جایا گیا، جو اسٹیج سے کافی دور اوپر کی منزل میں تھی۔

بتایا گیا کہ صرف افتتاحی سیشن ہی پریس کےلیے اوپن ہے۔ترک افسران بار بار معذرت اور پشیمانی کا ٓاظہار  کررہے تھے کہ رجسٹریشن کے باوجود او آئی سی کے سکریٹریٹ کے اجازت نامے کی لسٹ میں میرا نام نہیں تھا۔ معلوم ہو اکہ میرا ہندوستانی پاسپورٹ اور شہریت دیکھ کر آو آئی سی سکریٹریٹ نے میرا نام لسٹ میں شامل نہیں کیا تھا۔ ان کو ہدایت تھی کہ ہندوستانی اور اسرائیلی صحافیوں کو اس کانفرنس تک رسائی نہیں دینی ہے۔

 افتتاحی سیشن ، جس کو ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خطاب کیا، کے بعد صحافیوں کو دوسری بلڈنگ میں میڈیا سینٹر لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ اب کانفرنس کے جائے وقو ع تک ان کی رسائی بند ہے۔ یہ ایک نیا ٹرینڈ ہے۔

پچھلے تیس برسوں سے سارک سربراہ یا وزرائے خارجہ کانفرنس، ناوابستہ ممالک کا اجلاس،برکس، شنگھائی تعاون تنظیم، افریقہ چوٹی اجلاس یا اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق وغیرہ ایسی ان گنت کانفرنسیں کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس میں ایک یا دو سیشن آن ریکارڈ میڈیا کےلیے کھول دیے جاتےتھے، مگر پھر صحافی وہیں بلڈنگ کے آس پاس یا لابی وغیر میں ہی گھومتے پھرتے تھے۔

باہر سے آئے مہمان بھی ناشتہ، لنچ کے وقت ان سے ملنے اور اس ملک کے متعلق جاننے کے خواہشمند ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ دہلی میں افریقہ سمٹ کے موقع پر ایک افریقی ملک کے وزیر  بہار کے صوبائی انتخابات کے بارے میں جاننے کےلیے بیتاب تھے۔

اس طرح جب صحافیوں کا کانفرنس کے مندوبین کے ساتھ تعامل ہوتا تھا، تو خبرو ں کے حصول کے علاوہ ان کے شعور اور عالمی امور کی سوجھ بوجھ  میں اضافہ ہوجاتا تھا اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی۔ یہ تعامل چونکہ غیر رسمی ہوتا تھا ، مندوبین بھی کھل کر اپنی علمی مہارت شئیر کرتے تھے۔

صحافیوں کےلیے یہ اب ایک سنجیدہ معاملہ بن چکا ہے۔پوری دنیا میں مسند حکومت پر برا جمان افراد کو لگتا ہے کہ اب ان کو میڈیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سوشل میڈیا نے ان کی رسائی پبلک تک براہ راست کر دی ہے۔  اس لیے میڈیا کو اب رسمی یا غیر رسمی رسائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اب صحافیوں کی موجودہ جنریشن کو علمی مہارت یا تجزیہ کاری کا تجربہ حاصل ہو تو کیسے ہو۔ اس میں صحافی خود بھی قصوروار ہیں۔ الکٹرانک میڈیا کے آنے سے بس مائک اور کیمرہ رپورٹروں کو کسی مندوب کے آگے کرکے بریکنگ نیوز لانی ہوتی ہے۔ اس پر خاصے جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ اس وجہ سے بھی رسائی بند کر دی گئی۔

ارباب اقتدار اور صحافیوں کو اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انفارمیشن حاصل کرنے کےلیے ایک غیر رسمی بریفنگ  اور انٹر ایکشن کا ہونا ضروری  ہے، جو بعد میں مضامین یا ایڈیٹوریل میں جھلکتا ہے۔ ورنہ وہی حال ہوگا، جس کا مظاہرہ حال کی ہندوستان-پاکستان جنگ میں ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینل کر چکے ہیں۔

خیر اس کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام کے بعد ہی امریکہ نے ایران پر حملہ کرکے اس کی نوعیت ہی بدل دی۔ اگلے روز ایرانی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اپنا دورہ ادھورا ہی چھوڑ کر صلاح و مشورہ کےلیے ماسکو چلے گئے۔ چونکہ شام کی جنگ میں ایران نے روس کی خاصی مدد کی تھی اور مشرق وسطیٰ میں ایک عرصے کے بعد روس کو قدم جمانے اور بحری اڈہ قائم کرنے میں مدد کی تھی، اس لیے امید تھی کہ روس اس احسان  کا کچھ بدلہ تو ضرور چکائے گا۔

اس کانفرنس کے دوران احساس ہوا کہ پاکستان، سعودی عرب اسلامی ملک کی لیڈرشپ کے کردار میں واپسی کر رہے ہیں۔کئی دہائی قبل ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہو گئی تھی کہ اسلامی ممالک کی سربراہی دھیرے دھیرے  پاکستان اور سعودی عرب کے ہاتھوں سے نکل کر ترکیہ اور ایران کے پاس چلی گئی تھی۔

جب سے او آئی سی کا قیام عمل میں آیا، تب سے ہی پاکستان میں وزارت خارجہ کی نکیل چونکہ ذولفقار علی بھٹو سے لےکر شاہ محمود قریشی بشمول صاحب زادہ یعقوب خان وغیر جیسے زیرک اور انگریزی جاننے والے افراد کے ہاتھوں میں ہوتی تھی، اس لیے کانفرنس کا ایجنڈہ اور اعلامیہ اکثر وہی ڈرافٹ کرتے تھے۔

سعودی عرب میں اس تنظیم کا سکریٹریٹ تھا اور مالی طور پر سب سے زیادہ بار وہی اٹھاتا تھا۔ اس لیے ان دو ممالک کا رتبہ اسلامی تنظیم میں وہی تھا، جو اقوام متحدہ میں امریکہ اور سویت یونین کا ہوتا تھا۔ مگر تین دہائی قبل ہی آہستہ آہستہ پاکستان اس تنظیم کےلیے غیر متعلق ہوتا گیا اور یہ سیٹ ترکیہ کے پاس آتی گئی، جو اب خاصا فعال ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایردوان کی حکومت آنے کے بعد یہ رول کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا۔

 سعودی عرب خو د ہی لیڈرشپ رول سے پیچھے ہٹتا گیا، جس کا خاطر خواہ فائدہ قطر، متحدہ امارات، ملیشیا اور ایران کو حاصل ہوا۔ نظریاتی وجوہات کی بناکر ایران کا رول محدود ہی رہا۔ مگر اس نے لیڈرشپ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

موجودہ حالات میں خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ محدود جنگ میں ہارڈ پاور کا استعمال کرکے پاکستان کے لیے لیڈرشپ کا رول پھر استوار ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کی وجہ سے ایران کا بھی پیمانہ بھاری ہو گیا ہے۔

اس کانفرنس میں محسوس ہوا کہ سعودی عرب لیڈرشپ کے حصول کےلیے واپسی کر رہا ہے۔ مصر بھی ایک بار لیڈرشپ رول میں تھا، مگر وہ پھر پوری طرح غیر متعلق ہوگیا ہے۔عرب ممالک میں قطر اور افریقی ممالک میں برکینو فاسو اس بار بہت ہی سرگرم تھے۔

کانفرنس کے دوسرے دن جب خاصی تگ و دو کے بعد اعلامیہ جاری ہوا، تو مایوس کن بات یہ تھی کہ اس میں ایران پر اسرائیل کے حملوں کا تو ذکر تھا، مگر امریکہ کا کہیں نام شامل نہیں تھا۔

فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

 ستاون ممالک میں کوئی بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ پاکستان کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ایردوان کو بریف کرنے پہنچ گئے تھے، انہوں نے بھی افتتاحی سیشن میں شرکت کی۔

ایک اہم انکشاف یہ تھا کہ مسلم دنیا میں اب یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔

اس کانفرنس میں استنبول میں ہی ایک میڈیا فوم کے قیام کو منظوری دی گئی۔ اس کا خاکہ ایک دہائی قبل دیا گیا تھا، مگر ابھی بھی اس کا قیام باقی تھا۔ بتایا گیا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف یہ ایک مؤثر فورم کا کام کرےگا اور مسلم دنیا کےلیے بیانہ وضع کرنے کا بھی کام کرےگا۔

 ایک ایسے عہد میں جب تاثرات کی جنگ سفارتی میدانوں سے پہلے ڈیجیٹل دنیا میں لڑی جاتی ہے، مسلم دنیا کے لیے اپنی کہانی خود سنانا — بغیر مسخ، تعصب یا بیرونی مفروضات کے — نہ صرف ثقافتی ضرورت ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔

فورم کے تحت تربیتی پروگراموں کا آغاز، کردار کشی پر فوری ردعمل کے نظام، اور عوامی نشریاتی اداروں و میڈیا ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فروغ متوقع ہے۔

ایسے وقت میں جب ایک وائرل کلپ یا جھوٹی خبر بین الاقوامی پالیسی کو کمزور کر سکتی ہے یا نفرت انگیزی کو ہوا دے سکتی ہے، تو یہ پہل علامتی نہیں بلکہ ایک تزویراتی ضرورت بن چکی ہے۔

اسلاموفوبیا سے نمٹنے کی حکمت عملی کے طور پر شفارش کی گئی کہ اشتعال انگیز تقاریر کو قابل سزا جرم بنانا اور مذہبی تعصب کے خلاف تعلیمی اصلاحات کرنا اور اقوام متحدہ کی شراکت سے ایسے عالمی نظام کی تشکیل کرنا، جو مذہبی امتیاز کی تفتیش اور نگرانی کرکے اس پر فوری کاروائی بھی کرے۔ جس بھی ملک سے کوئی شہری اس ادراہ کے پاس امتیاز کی شکایت کرے، تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔

اگر یہ اقدامات عملی شکل اختیار کر لیں تو یہ بین الاقوامی قانون میں مذہبی رواداری سے متعلق اسلامی دنیا کا پہلا بامعنی کردار ہو گا۔

دہائیوں سے اسلامی ممالک تعصب اور نفرت کی نشاندہی کرتے رہے ہیں، اب وہ ان کا تدارک پیش کر رہے ہیں — ایک ایسی پیش رفت جسے مغربی جمہوریتیں نظرانداز نہیں کر سکتیں۔

اعلامیہ میں ایک حیران کن چیز یہ دیکھنے کو ملی  کہ جہاں برما کے روہنگیا وغیر کا تذکرہ کیا گیا تھا، اس میں چین کےشین جیانگ یا چینی ترکستان کے اویغور آبادی کا تذکرہ نہیں تھا۔

 چونکہ یہ اجلاس ہی استنبول میں منعقد ہو رہا تھا، جہاں جلا وطن ایغور آبادی آچھی خاصی ہے، تو ان کا ذکر نہ کرنا عجیب ہی لگا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے اعلامیوں میں جب ایغور آبادی کا تذکرہ ہوتا تھا تو چین اس پر سیخ و پا ہوتا تھا، جیسے ہندوستان کشمیر کے ذکر پر اسلامی تنظم کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔

 چند برس قبل چین نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ جدہ میں او آئی سی سکریٹریٹ کےلیے ایک خصوصی سفیر کا تقرر کیا۔ جس کی وجہ سے اس کو اسلامی تنظیم کے اندر رسائی حاصل ہوئی اور اس نے تنظیم کو آفر دی کہ وہ ہر سال اسلامی ممالک کے وفد کو شین جیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دیں گے اور اگر وہاں عوام کی بہبودی کےلیے ان کو کوئی سفارش کرنی ہو، تو براہ راست اسلامی تنظیم میں متعین چینی سفیر کو دیا کریں۔

اس کے بعد اعلامیہ میں ایغور آبادی کا ذکر آنا بند ہوگیا۔ یہ شاید ہندوستان کےلیے بھی ایک سبق ہے۔ بجائے اسلامی تعاون تنظیم کے اعلامیوں کو ہدف تنقید بنانے کے، انٹرایکشن کا ماحول ترتیب دینے کی کوشش کرے۔

 اسی کانفرنس کے دوران او آئی سی سکریٹریٹ نے چین کی وزارتِ تعلیم کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ جس کا مقصد وظائف، تعلیمی تبادلے اور مشترکہ تحقیق کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ جہاں او آئی سی عشروں سے مغربی اداروں سے منسلک رہی ہے، وہاں یہ شراکت ایک نئی جہت کی طرف اشارہ ہے — ترقی کے ایسے ماڈلز تیار کیے جائیں گے جو مغربی امداد کی شرائط سے آزاد ہوں گے۔

او آئی سی  ممالک کے لیے یہ ایک نایاب موقع ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو تعلیم، سائنس اور تحقیق کے میدان میں مغربی انحصار سے باہر نکلنے کے راستے فراہم کرے۔ چینی سفیر چانگ ہوا نے اس معاہدے کو دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات میں’اہم سنگِ میل’ قرار دیا اور تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، اور دیگر مشترکہ شعبوں میں مزید تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔

اسلامی دنیا میں اعلیٰ تعلیم، سائنسی تحقیق، علمی تبادلہ اور ادارہ جاتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اسٹریٹجک فریم ورک قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔جس میں بیس سے زائد ترک اعلیٰ تعلمی ادراے شامل ہوں گے۔

 اس کے ذریعے مشترکہ تحقیق، تربیتی پروگرام، اور رکن ممالک کی جامعات کے درمیان نیٹ ورکنگ کو تقویت ملے گی۔

اسی طرح او آئی سی مرکز برائے پولیس تعاون کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس میں ابتدا میں سات رکن، ترکیہ ، قطر، موریتانیا، بینین، گنی بساؤ، گیمبیا اور لیبیا شامل ہوں گے۔ یہ مسلم ممالک میں داخلی استحکام اور بین الاقوامی قانون نافذ کرنے کےلئے طریقہ کار وضع کرے گا۔

یہ مرکز ایک رضاکارانہ ماہر ادارے کے طور پر تربیت، انٹلی جنس شیئرنگ اور سرحد پار تعاون کو فروغ دے گا۔ دہشت گردی، سائبر جرائم اور انتہا پسندی جیسے چیلنجز کے لیے مشترکہ ردعمل کی ضرورت ہے، اور اگر اس مرکز کو وسعت دی جائے تو مسلم ممالک مغربی سکیورٹی سانچوں اور ٹکنالوجی پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔

اگر ان تمام اعلانات کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ او آئی سی کے نقطۂ نظر میں ایک خاموش لیکن فیصلہ کن تبدیلی کی نشان دہی کرتے ہیں۔

صدر ایردوان نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ مسلم دنیا کو صرف ردعمل دینے والا نہیں، بلکہ رہنمائی فراہم کرنے والا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس قیادت کا اندازہ تقریروں یا پریس ریلیز سے نہیں، بلکہ اُن اداروں، مراکز اور معاہدوں کے عملی اطلاق سے ہو گا جن کا  اعلان کیا گیا۔

استنبول کا یہ اجلاس ممکن ہے ایک ایسے لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے، جب او آئی سی نے ایک اخلاقی آواز سے بڑھ کر ایک منظم قوت بننے کی طرف پہلا قدم اٹھایا ۔ایک ایسا قدم جو محض ردعمل پر مبنی نہیں بلکہ بھرپور اقدامات کی طرف گامزن ہے۔

مگر اعلامیے کافی نہیں؛ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم اپنی آبادیاتی قوت کو ادارہ جاتی طاقت میں تبدیل کرے۔

ایران پر اسرائیل کے حملے کے حوالے سے وزرائے خارجہ نے ایک کھلے مینڈیٹ والے رابطہ گروپ کے قیام پر اتفاق کیا، جو دنیا کی بڑی طاقتوں سے رابطہ قائم کر کے کشیدگی میں کمی، اور اسرائیلی جارحیت کے احتساب کے لیے اقدامات کرے گا۔

اسرائیل کی ‘عدم استحکام پھیلانے والی پالیسیوں’ کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے خطرناک انسانی، معاشی اور ماحولیاتی نتائج پوری دنیا کو متاثر کریں گے۔

وزرائے خارجہ نے ان کوششوں کی مذمت کی جو اسرائیلی حکام کی جانب سے القدس الشریف کی تہذیبی شناخت کو مسخ کرنے اور مسجد اقصیٰ کی قانونی و تاریخی حیثیت بدلنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

اعلامیے میں اردن کی ہاشمی حکومت کی کوششوں کو سراہا گیا، جو یروشلم میں اسلامی و مسیحی مقدس مقامات کی متولی ہے۔ بیت المال القدس ایجنسی اور القدس کمیٹی کے کردار کی بھی تعریف کی گئی۔

او آئی سی نے یونیسکو کی ان قراردادوں کا خیرمقدم کیا جن میں مسجد اقصیٰ کو اسلامی عبادت گاہ قرار دیا گیا اور اردن کی انتظامی بالادستی کو تسلیم کیا گیا۔

ایردوان نے کہا کہ اسلامی تنظیم کے رکن ممالک کو صرف اپنے ہی مسائل کا حل نہیں نکالنا، بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کی آواز بھی بننا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم اقلیتیں، او آئی سی اور باقی دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہیں۔

 ان کا اشارہ مغربی اور دیگر ممالک میں مسلم اقلیت کی طرف تھا، جو ایک پل کا کام کرسکتے ہیں اور ان ممالک میں تنظیم کےلیے ایک اثاثہ ہیں۔ بدلے میں ان کی مفادات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے فلسطینی دھڑوں کے مابین اختلافات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛

یہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا فلسطین کی حمایت میں متحد ہے مگر ہمارے بھائی آپس میں تقسیم کا شکار ہیں۔

وحدتِ امت پر زور دیتے ہوئے ایردوان نے کہا؛

 استنبول سے لے کر القدس تک، ترکوں سے لے کر کردوں تک، سنیوں سے لے کر شیعوں تک — ہمارا قبلہ ایک ہے، تو ہمارا مقدر بھی مشترک ہے۔

ایک اہم پیش رفت میں، او آئی سی نے اقوامِ متحدہ میں مشترکہ سفارتی اقدام شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسرائیل کے جوہری پروگرا م کو دنیا کے سامنے کھولنے اور اس کو جوہری عدم پھیلاو کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کروانا ہے۔

یہ فیصلہ ایک بند کمرہ اجلاس میں کیا گیا، جو ایران کی درخواست پر منعقد ہوا۔ اس میں اسرائیل کو اپنے خفیہ جوہری ہتھیاروں کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی(آئی اے ای اے) کے تحت مکمل معائنہ کے لیے پیش کرنے پر مجبور کرنے کے لیے عالمی کوششیں تیز کرنے کا عزم کیا گیا۔

ایردوان نے مغربی طاقتوں پر دوہرے معیار برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا؛

 ایران جیسے این پی ٹی پر دستخط کنندہ ممالک پر دباؤ ڈالنے والے یہ کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف اس معاہدے سے باہر ہے، بلکہ معائنے کو بھی رد کرتا ہے؟

لگتا ہے کہ استنبول میں منعقدہ یہ اجلاس صرف تقاریر یا قراردادوں تک محدود نہیں رہا۔ اس نے امتِ مسلمہ کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا — ایسا راستہ جو جوہری توازن کی بحالی، مظلوموں کے دفاع، اور عالمی انصاف کے قیام پر مبنی ہے۔

آنے والے دن اور ہفتے اس بات کا امتحان ہوں گے کہ اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم صرف آواز بنے گی یا  اپنے کسی اعلان پرعمل بھی کرے گی۔

Next Article

جب علی خامنہ ای نے ہندوستانی صحافی سے کہا: ایرانی انقلاب کی غلط تصویر پیش کی جاتی ہے

اس نایاب انٹرویو میں ایران کے اس وقت کے صدر علی خامنہ ای نے ہندوستانی مسلمانوں کے خدشات، مغربی میڈیا کے رویے، ایران کی خارجہ پالیسی، کردوں کے مطالبات اور فرانس جیسے ممالک کے کردار پر کھل کر بات کی ہے۔ یہ بات چیت اسلامی انقلاب کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ایک کمیاب دستاویز ہے۔

تصویر بہ شکریہ:خامنہ ای ڈاٹ آئی آر


سال1979کے ایرانی انقلاب کے چند سال بعد جب اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے سامنے اپنی شناخت قائم کر رہا تھااور سمت طے کر رہا تھا، معروف ہندوستانی ادیبہ اور صحافی ناصرہ شرما نے اس وقت کے ایرانی صدر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا تھا۔ یہ بات چیت نہ صرف ہندوستان اور ایران کے تعلقات کے بارے میں ایک اہم اور تاریخی حوالہ ہے بلکہ اسلامی انقلاب، آزادی صحافت، کردوں کے مسئلے اور مغربی طاقتوں کے کردار جیسے پیچیدہ سوالوں کے ضمن میں بھی اس کی غیر معمولی اہمیت  ہے۔

لہذا،آج جب ایران کے بارے میں ایک بار پھر دنیا بھر میں بحث چھڑ گئی ہے، یہ تاریخی انٹرویو نئی روشنی ڈالتا ہے ۔


♦♦♦

ایرانی انقلاب ہندوستان کے 12 کروڑ مسلمانوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ وہ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اس وقت وہ لاتعداد قتل اور نوجوانوں کی پھانسی سے فکرمند ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج ایران میں کیا ہو رہا ہے؟

ہمارے حقیقی  مسائل کو کوئی نہیں سمجھتا۔ ہندوستان کے مسلمان اس قلیل مدت میں ہوئے انقلاب کے دوران ہماری حصولیابیوں سے ناواقف ہیں۔ میڈیا ہر جگہ ادھوری خبریں دیتا ہے، چاہے وہ ہندوستان ہو یا دنیا کا کوئی اور حصہ۔ پریس پھانسیوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور سچائی کو چھپاتا ہے۔ ہمارے مقاصد کو غلط طریقےسے پیش کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں، میں ہندوستان گیا تھا اور وہاں کے لوگوں سے بات کی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہمارے انقلاب سے خوش ہیں۔ انہیں ایران میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں درست معلومات کی ضرورت ہے۔ اگر کچھ لوگ ان پھانسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو میرے خیال میں ان کے پاس مکمل معلومات نہیں ہیں۔ جب دوسرے لوگ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں تو کوئی بھی خاموش کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ بیرونی طاقتوں نے ہمارے انقلاب کے خلاف سازش کی ہے اور وہ اقتدار کو براہ راست یابلاواسطہ  دھمکی دے رہے ہیں۔

انہوں نے ایران میں اسلام مخالف جذبات کو پھیلایا ہے۔ تاہم، اسلامی جمہوریہ نے متعدد لوگوں کو معاف کیا ہے اور انہیں اسلامی اخلاق سکھایا ہے اور انہیں اسلامی روحانیت سے متاثر کیا ہے۔ ٹیلی ویژن پروگرام ایسی مثالیں دکھاتے ہیں، جہاں لوگوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لوگوں کو مارتے ہیں، بسیں جلاتے ہیں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور مسلح مظاہرے کرتے ہیں۔ وہ مجرم ہیں اور انہیں اسلامی قانون کے تحت پھانسی دی جانی چاہیے۔ حال ہی میں ایسے عناصر کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں ملک کمزور ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان اور دیگر جگہوں پر ہمارے دوست ہماری مذمت نہیں کریں گے اگر ان کے پاس تمام حقائق ہوں۔

میری سمجھ میں ایران کی خارجہ پالیسی بہت سے تجربات اور واقعات کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر، ابوالحسن بنی- صدر (1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد پہلے صدر جو 1981 میں فرانس چلے گئے) کےپیرس آنے سے پہلے، فرانس اگر دوست نہیں تھا، تو دشمن ملک بھی نہیں تھا۔ ایران کی خارجہ پالیسی کو عموماً کمزور اور تغیر پذیرماناجاتا ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی یقینی طور پر کمزور نہیں ہے، حالانکہ ہماری سفارتی سرگرمیاں جتنی ہونی چاہیے، اتنی نہیں ہیں۔ ہماری ترجیحات واضح ہیں، اور ہم نے دنیا کو گروہوں میں تقسیم کیا ہے – برادر ممالک، دوست ممالک، غیر جانبدار ممالک اور دشمن ممالک۔ دشمن ممالک وہ ہیں جو ہم پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کے خلاف ہیں۔ باقی یا تو برادرانہ، دوستانہ یا غیر جانبدار ہیں۔ آپ نے فرانس کا ذکر کیا۔ بنی-صدر کے وہاں پناہ لینے سے پہلے ہی فرانس نے ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ یہ نہ تو ہمارا دوست تھا اور نہ ہی غیر جانبدار، لیکن ہمارے خلاف پابندیاں لگانے والے بڑے یورپی ممالک میں پہلا ملک تھا۔ فرانس کے بارے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ نہیں ہے، خاص طور پر ہمارے معزز امام کے وہاں قیام کی خوبصورت یادوں کے پیش نظر۔ لیکن فرانس نے بارہا اپنے انقلاب مخالف اور ایران مخالف ارادوں کو ثابت کیا ہے۔ اس نے سامان اور فوجی ساز و سامان فراہم نہیں کیا ہے۔ اس نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ اس لیے یہ ملک ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔ فرانس نے ہمارے ملک کے سیاسی حتیٰ کہ غیر سیاسی مجرموں کو بھی پناہ دی ہے۔ اس نے ہمارے دشمن عراق کو ہتھیار بھی فراہم کیے ہیں۔ ان دنوں ایرانی فضائیہ فرانسیسی میراج طیاروں کو مار گرا رہی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دشمن صرف وہ ملک ہے جو ہم پر براہ راست حملہ کرتا ہے؟ نہیں، حملہ صرف ایک ‘مسلح حملہ’ نہیں ہوتا، بلکہ یہ سیاسی حملہ، اقتصادی حملہ یا کچھ بھی ہو سکتا ہے جو حقیقت میں ایران کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ فرانس ہمارا دشمن ہے۔

زیادہ تر ممالک دوستانہ ہیں۔ ایران اور ہندوستان دو عظیم ممالک ہیں جو دوستانہ تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان نے ہماری کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی ہمیں کسی مدد کی امید ہے، چاہے وہ سیاسی ہو یا کوئی اور، پھر بھی ہماری دوستی گہری ہے۔

فرانس نے ایرانی مخالفین کا ایک مرکز بنا رکھا ہے، یہاں تک کہ شاہی خاندانوں کی ایک انجمن بھی، لیکن فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو ایران میں آزادانہ کام کرنے کی اجازت ہے، جبکہ دیگر ایجنسیوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ یہ متضاد صورتحال کیوں ہے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں نیوز ایجنسیاں خود مختار ہیں۔ ہمارے یہاں دنیا بھر کی خبر رساں ایجنسیاں کام کرتی ہیں، جن میں اے ایف پی بھی شامل ہے۔ کچھ ایجنسیاں خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے مطابق خبریں پیش کرتی ہیں۔ ہم ان تمام ایجنسیوں کو کام کرنے دیتے ہیں۔ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں آزادی کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں بعض ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر سخت موقف اختیار کرنا پڑتا ہے، مثال کے طور پر ہم نے ایک امریکی صحافی کو یہ ظاہر کرنے کے لیے ملک سے نکال دیا کہ ہم ملک دشمن سرگرمیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔

کردستان اور دیگر اقلیتی علاقوں کے مسئلے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا انہیں خود مختاری دی جائے گی؟

یہ کرد نہیں، بلکہ امریکہ ہے جو خود مختاری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کرد صرف روزگار، روٹی اور اچھی زندگی چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے کرد، ترک، بلوچ اور فارسی سب ایک ہیں۔ ہماری حکومت سب کے لیے خوشحالی اور خوشی لانے کے لیے پرعزم ہے، خواہ ان کی ذات، مذہب یا نسل کچھ بھی ہو۔ ہم سب کے لیے روٹی، فلاح، مکمل روزگار، مکان اور ان کی اخلاقی اور روحانی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو کردوں کے لیڈر کہتے تھے اور خود مختاری چاہتے تھے انہیں کردوں نے خود ہی نکال دیا ہے۔ آج تمام کرد شہر جمہوری اسلامی کے کنٹرول میں ہیں، اور کرد خود ان ملک دشمن عناصر کے خلاف لڑ رہے ہیں جو غاروں اور سڑکوں کے کنارے چھپ کر لوگوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے مفید انسانی وسائل میں سے ایک ‘ پیشمرگان کرد مسلمان ‘ ہے۔ وہ ان لوگوں کے خلاف لڑتے ہیں جو بین الاقوامی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور حقیقی کرد نہیں ہیں۔

ایران علیحدگی پسند تحریکوں سے نبرد آزما ہے اور اس بات کا خطرہ ہے کہ ملک متحد نہ رہے۔ افواہیں ہیں کہ اس میں سوویت یونین کا ہاتھ ہے؟

ہم اصل دشمن کو جانتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہےکہ اس میں مغربی اور امریکی ہاتھ زیادہ نظر آتا ہے۔ وہ کسی حد تک عراق اور دیگر کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ہم الرٹ ہیں اور ان سےاپنی قوم کی حفاظت کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انقلاب مخالف عناصر ایران سے باہر بہت سرگرم ہیں اور سامراجیوں کی واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایران میں انقلابی ترقی پسند عناصر کو روزانہ پھانسی دی جا رہی ہے۔ اس طرح ملک سامراج کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کی طاقت کھو رہا ہے۔ آپ کا اندازہ کیا ہے؟

میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ آپ اپنے آپ کو انقلابی کہنے والوں کو انقلاب مخالف سمجھتے ہیں۔ پرانے ساواکی (ایران کے شاہی ریاست کی خفیہ پولیس) اور وہ لوگ جنہوں نے ان کے خلاف لڑائی لڑی  اور اب جمہوری اسلامی کے خلاف بھی وہی کر رہے ہیں، دونوں ہی انقلاب مخالف ہیں۔ ہم ان لوگوں کو انقلابی سمجھتے ہیں جو دراصل انقلابی ہیں اور ان کا انقلاب مخالفوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن کے کردستان کے جنگجوؤں سے روابط ہیں اور جو فرانس جیسے ممالک میں بھاگ گئے ہیں ان کو آپ ایران مخالف سمجھتے ہیں۔

ایک محقق کی حیثیت سے میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ رائلسٹ  مختلف شکلوں میں انتشار پھیلاتے ہیں، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی مارکسزم کے نام پر، اور مجاہدین اور کمیونسٹوں (گوریلوں) جیسے لوگوں کو بدنام کرتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ خواہ ایک پاسدار مارا جائے یا ایک مجاہد ، میں اسے ایران کا نقصان سمجھتی ہوں۔

آپ محقق ہیں، مجھے بتائیں کیا مسعود رجوی رائلسٹ ہیں؟ اگر وہ ایک رائلسٹ ہیں تو آپ کا سوال درست ہے اور اگر وہ ان انقلابی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کئی سال جیل میں گزارے اور آج کردستان کے جاگیرداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں،سعودی عرب سے پیسے لےرہے ہیں اور فرانس جیسے ملک میں پناہ لے رہے ہیں تو یقین مانیں کہ صرف رائلسٹ ہی انقلاب مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو آج اسلامی انقلاب کے خلاف برسر پیکار ہیں، چاہے وہ آج کا مسعود رجوی ہویا کل کا علی امیری،بختیار اور اویسی،  ان کے نام اور لقب پر مت جائیے۔ یہ انقلاب کے دشمن ہیں۔

(ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)

Next Article

ظہران ممدانی کی جیت پر ڈونالڈ ٹرمپ کا تلخ تبصرہ، انہیں ’سو فیصد کمیونسٹ پاگل‘ کہا

نیویارک میئر الیکشن کی ڈیموکریٹک پرائمری میں ظہران ممدانی کی جیت نے امریکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ٹرمپ نے انہیں ‘کمیونسٹ پاگل’ کہا ہے تو برنی سینڈرز نے ان کی تعریف کی ہے۔ نیویارک سٹی کے مرکزی میئر کے انتخابات (عام انتخابات) نومبر 2025 میں ہونے والے ہیں۔

ظہران ممدانی اور ڈونالڈ ٹرمپ (فوٹو: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: نیویارک کے میئر کے عہدے کے لیے ڈیموکریٹک پرائمری  میں ظہران ممدانی نے کامیابی حاصل کی ہے، یعنی ممدانی اب ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نیویارک کے میئر کے انتخاب کے لیے امیدوار بن گئے ہیں۔ جمعرات (26 جون) کو ممدانی کی جیت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی اب تمام حدیں پار کر چکی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر پوسٹ کرتے ہوئے ٹرمپ نے ممدانی کو ‘سوفیصد کمیونسٹ پاگل’ کہا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ میئر بننے  کی سمت میں ان کا اقدام’مضحکہ خیز’ہے۔

ٹرمپ کی پوسٹ میں ممدانی کے بارے میں یہ بھی کہا گیاہے؛

اس کا چہرہ بے حد خراب ہے، آواز اچھی نہیں ہے، دماغ بھی تیز نہیں ہے، اس کے ساتھ اے او سی+3 (الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور اس کے ترقی پسند اتحادی) جیسے احمق لوگ  کھڑے ہیں۔

ظہران ممدانی ہندوستانی نژاد فلمساز میرا نائر کے بیٹے ہیں۔ وہ ایک 33 سالہ سوشلسٹ ہیں، اور انہیں ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ(ڈی ایس اے) پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔

نیویارک کے میئر کے عہدے کے لیے ان کی امیدواری کو ڈیموکریٹک پارٹی کے مستقبل کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

نیویارک سٹی کے عام انتخابات نومبر 2025 میں ہوں گے۔ اگر ممدانی یہ انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ نیویارک شہر کے پہلے مسلمان میئر بن جائیں گے۔ اب وہ اس عہدے کے قریب ہیں اور ان کے حریف نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کوومو پہلے ہی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔

ڈیموکریٹک پرائمری جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں ممدانی نے حامیوں سے کہا، ‘آج رات ہم نے تاریخ رقم کی۔’ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی تنقید کے بعد ممدانی نے طنزیہ انداز میں لکھا، ‘ہاں، یہ ہماری ملکی تاریخ کا ایک بڑا لمحہ ہے!’

یوگانڈا میں پیدا ہونے والے ظہران ممدانی نیویارک کی اسٹیٹ اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ اکثر اسرائیل اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر تنقید کرتے رہے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

ممدانی کے سب سے بڑے حریف 67 سال کے اینڈریو کوومو ہیں جو نیویارک کے سابق گورنر رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس کافی وسائل اور مقبولیت تھی، لیکن ان کی امیج پر 4 سال پرانے جنسی ہراسانی کے الزامات کا سایہ تھا۔ نیویارک کے میئر کے عہدے کا انتخاب ان کی واپسی کی کوشش تھی۔

تاہم، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 95فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد کوومو کو صرف 36فیصد ووٹ ملے جبکہ ممدانی کو 43فیصد ووٹ ملے۔ اس کے بعد کوومو نے کہا کہ انہوں نے اپنے حریف کو فون کرکے شکست قبول کرلی ہے۔

ممدانی کی جیت پر پارٹ کا ردعمل

جہاں ظہران ممدانی کی امیدواری کو بہت سے لوگوں نے سراہا ہے، وہیں ڈیموکریٹک پرائمری میں ان کی جیت نے پارٹی کے اندر کچھ دراڑیں بھی کھول دی ہیں۔

سابق صدر براک اوباما کے دور میں وزیر خزانہ رہے لارنس سمرز نے ممدانی کی جیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ملک کے مستقبل کے بارے میں سخت تشویش میں مبتکا ہوں۔’

تاہم، ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی رہنما ممدانی کی تعریف  بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے نیویارک میں رہنے کے اخراجات کو کم کرنے کو اپنی مہم کا اہم مسئلہ بنایا تھا۔ سینیٹر برنی سینڈرز نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا؛

کئی معنوں میں ممدانی کی مہم یہ ظاہر کرتی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو کس سمت جانا چاہیے – ارب پتیوں کی فکر چھوڑ کر عام محنت کشن  لوگوں کی فکر کرنی چاہیے۔

سینڈرز نے پارٹی کے اندر ممدانی پر تنقید کرنے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ریپبلکن  پارٹی کو متنبہ کیا کہ ظہران ممدانی ان کے لیے’سب سے بڑا درد سر’ بن سکتے ہیں۔