
آپریشن سیندورکے بعد بیرون ملک بھیجے گئے کل جماعتی وفد میں شامل کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور نے کہا تھا کہ پہلی بار ہندوستان نے ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پار کرکے کارروائی کی۔ جب کانگریس نے اس پر تنقید کی تو مرکزی وزیر کرن رجیجو تھرور کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئے۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور، جو ایک آل پارٹی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، پاناما میں ہندوستانی برادری سے خطاب کر تے ہوئے۔تصویر: ایکس
نئی دہلی: مرکزی وزیر کرن رجیجو بدھ (28 مئی) کو اس وقت کانگریس لیڈر ششی تھرور کا بچاؤ کرتے نظرآئے جب ترواننت پورم کے ایم پی کو ایک بار پھر نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی حمایت کرنے پر اپنی ہی پارٹی – کانگریس کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار تنقید کی وجہ ان کا ہزاروں کلومیٹر دور پاناما میں دیا گیا بیان تھا۔
پاناما میں وہ پہلگام دہشت گردانہ حملے، آپریشن سیندور اور پاکستان کے ساتھ چار روزہ فوجی تنازعہ کے بعد ہندوستان کے اجتماعی عزم کو پہنچانے کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے بیرون ملک بھیجے گئے سات آل پارٹی وفدمیں سے ایک کی قیادت کر رہے تھے۔
پاناما میں ہندوستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے تھرور نے کہا، ‘حالیہ برسوں میں جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ پہلی بار ہندوستان نے ستمبر 2016 میں اڑی میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایل او سی (لائن آف کنٹرول) کی خلاف ورزی کی تھی ۔ یہ کچھ ایساتھا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔’
انہوں نے کہا، ‘کارگل جنگ کے دوران بھی ہم نے لائن آف کنٹرول کو عبور نہیں کیا تھا، لیکن ہم نے اڑی میں ایسا کیا۔ پھر پلوامہ میں حملہ ہوا۔ ہم نے نہ صرف لائن آف کنٹرول کو عبور کیا بلکہ ہم نے بین الاقوامی سرحد بھی عبور کی اور بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔ اس بار (آپریشن سیندور میں) ہم ان دونوں سے آگے نکل گئے۔ ہم نے نہ صرف لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پار کی، بلکہ ہم نے پاکستان کے پنجابی گڑھ میں حملہ کیا اور نو مقامات پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔’
کانگریس نے تنقید کی
کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ ادت راج، جو تھرور کے حالیہ بیانات پر باقاعدگی سے تنقید کر رہے ہیں،نے کہا کہ انہیں ‘بی جے پی کا سپر ترجمان’قرار دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا،’ کاش! میں وزیر اعظم مودی پر دباؤ ڈال کر آپ کو بی جے پی کا سپر ترجمان اعلان کروا سکتا، یہاں تک کہ آپ کے ہندوستان آنے سے پہلے ہی وزیر خارجہ اعلان کروا سکتا۔’
انہوں نے کہا، ‘آپ یہ کہہ کر کانگریس کی سنہری تاریخ کو کیسے بدنام کر سکتے ہیں کہ پی ایم مودی سے پہلے ہندوستان نے کبھی ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد کو عبور نہیں کیا۔ 1965 میں ہندوستانی فوج کئی مقامات سے پاکستان میں داخل ہوئی، جس نے لاہور سیکٹر میں پاکستانیوں کو پوری طرح حیران کر دیا تھا۔ 1971 میں ہندستان نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور یو پی اے حکومت کے دوران کئی سرجیکل اسٹرائیکس کی گئیں، لیکن سیاسی طور پر بھنانےکے لیے ڈھول نہیں پیٹا گیا۔ جس پارٹی نے آپ کو اتنا کچھ دیا، اس کے ساتھ آپ اتنے بے ایمان کیسے ہو سکتے ہیں؟’
اس کے بعد، کانگریس کے میڈیا اور پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پون کھیرا نے لاہور ضلع کے برکی میں ایک مقبوضہ پاکستانی پولیس اسٹیشن کے باہر کھڑے چوتھی سکھ رجمنٹ کے افسران کی تصویر پوسٹ کی اور تھرور کو ٹیگ کیا۔
انہوں نے ایکس پر لکھا ، ‘یہ تصویر برکی کی لڑائی کی ہے (جسے لاہور کی لڑائی، 1965 کے نام سےبھی جاناجاتا ہے)،جو 1965 کی ہندوستان-پاکستان جنگ کے دوران ایک اہم جنگ تھی، جو ہندوستانی انفنٹری یونٹس اور پاکستانی بکتر بند افواج کے درمیان لڑی گئی تھی۔ برکی لاہور کے جنوب-مشرق میں ایک گاؤں ہے، جو ہندوستان-پاکستان سرحد کے قریب ہے، لاہور کے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تقریباً 11 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جو بمباوالی-راوی-بیدیاں (بی آر بی) نہر پر ایک پل کے ذریعے شہر سے منسلک ہے۔’
بعد میں بدھ کو کھیڑا نے اکتوبر 2016 کے ایک مضمون کا لنک بھی پوسٹ کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر، جو اس وقت خارجہ سکریٹری تھے، نے پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا تھا کہ ماضی میں بھی سرحد پار سے حملے کیےگئےتھے۔
نیوز آرٹیکل کا ایک حصہ پوسٹ کرتے ہوئےکھیڑا نے کہا ،’ماضی میں بھی لائن آف کنٹرول کےپار پیشہ ورانہ طور پر ہدف بنا کر، محدود صلاحیت کے انسداد دہشت گردی آپریشن کیے گئے ہیں، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ حکومت نے اسے عام کیا ہے۔’
جئے شنکر نے اکتوبر 2016 میں خارجہ امور کی پارلیامانی کمیٹی کے سامنے یہ بات کہی تھی۔
اس کے بعد کھیڑا کی پوسٹ کا حوالہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور جنرل سکریٹری، میڈیا اور کمیونی کیشن انچارج جئے رام رمیش نے دیا۔
رمیش نے لکھا ، ‘اوہ، ہم کتنا پیچیدہ جال بنتے ہیں، جب ہم پہلی بار دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں…’
تھرور کو پاناما میں اپنے تبصروں کے لیے پارٹی کے ساتھیوں کی تنقید کا سامنا کر پڑ رہا ہے، جو بیرون ملک وفود کی تشکیل پر تنازعہ کے فوراً بعد شروع ہوا تھا۔ تھرور، جنہیں مودی حکومت نے سات وفود میں سے ایک کی قیادت کے لیے نامزد کیا تھا، کانگریس کی طرف سے اس وفد کا حصہ بننے کے لیے فراہم کردہ چار ناموں کی فہرست میں شامل نہیں تھے ۔
تاہم، تھرور نے حالیہ واقعات پر ملک کا نظریہ پیش کرنے کے لیے ایک آل پارٹی وفد کی قیادت کرنے کی دعوت کے لیے حکومت کا شکریہ ادا کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا۔
کانگریس کی طرف سے پیش کی گئی فہرست میں ان کا نام نہ ہونے کے باوجود، تھرور کو یہ دعوت اس وقت ملی جب ترواننت پورم کے ایم پی نے چند دن پہلے انٹرویو میں بی جے پی حکومت کے حق میں حمایتی تبصرہ کیا تھا۔ دی وائر کے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے آپریشن سیندور اور پاکستان کے ساتھ فوجی تنازعہ کے بعد حکومت کے اقدامات کی تعریف کی تھی۔ کانگریس نے تب کہا تھا کہ تھرور کے بیانات کو ان کی ذاتی رائے سمجھنا چاہیے۔
اس تنقید کے بعد کرن رجیجو نے ایکس پر کہا ، ‘کانگریس پارٹی کیا چاہتی ہے اور انہیں ملک کی کتنی پرواہ ہے؟ کیا ہندوستانی اراکین پارلیامنٹ کو غیر ممالک میں جاکر ہندوستان اور اس کے وزیر اعظم کے خلاف بات کرنی چاہیے؟ سیاسی طور پر فریسٹریشن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!’
قابل ذکر ہے کہ تھرور حال کے ہفتوں میں بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت میں اپنے کئی بیانات بالخصوص پہلگام دہشت گردانہ حملے اور ہندوستان کی فوجی کارروائی کے بعد تنازعات کے مرکز میں ہیں۔