
بہار میں متعدد پسماندہ برادریاں ہیں،جن کی آبادی اچھی خاصی ہے۔لیکن ان میں مناسب سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ یہ برادریاں درج فہرست ذات کا درجہ اور ریزرویشن حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ کانگریس اس دلت مرکوز سیاست کا محور بننا چاہتی ہے۔ کانگریس نے روی داس برادری کے لیڈر کو ریاستی صدر بھی بنایا ہے۔ لیکن کیا یہ وہ ان بکھری ہوئی برادریوں کو متحد کر پائے گی؟

دو تین دہائیوں کے بعد کانگریس بہار میں اس بار اپنے آپ کو ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: بہار کانگریس)
گزشتہ 24ستمبر کو 63 سال بعد بہار میں کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کا اجلاس منعقد ہوا۔ آئندہ بہار اسمبلی انتخابات کے پیش نظر پٹنہ میں میٹنگ کا انعقاد اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ کانگریس بہار کو لے کر سنجیدہ ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق، کانگریس کو بہار میں نتیش اور بی جے پی کی 20 سالہ حکمرانی کے خلاف اقتدار مخالف فائدہ ملنے کی توقع ہے۔
پارٹی کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے دعویٰ کیا ہے کہ جس طرح تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات سے دو ماہ قبل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تھا اور وہاں کانگریس کی حکومت بنی تھی ،اسی طرح اب پٹنہ اجلاس کے بعد بہار میں مہا گٹھ بندھن کی حکومت بنے گی۔ میٹنگ میں مودی اور نتیش کمار حکومتوں کے خلاف بدعنوانی، ووٹ چوری اور ناکام خارجہ پالیسی کو لے کر قراردادیں منظور کی گئیں۔ ان سیاسی مسائل کے علاوہ کانگریس پارٹی اپنی تنظیم اور سماجی بنیاد کو بھی نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
دو تین دہائیوں کے بعد کانگریس پارٹی بہار میں اپنے آپ کو نئےانداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اشوک چودھری اور 1985ڈمر لال بیٹھا کے بعد روی داس کمیونٹی سے آنے والے راجیش رام بہار کانگریس کی تاریخ کے پہلے لیڈر ہیں، جنہیں پارٹی کی قیادت دی گئی ہے۔ جگجیون رام کے بعد بہار میں کوئی بھی بڑا روی داس لیڈر کانگریس پارٹی میں قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، اوریہی وجہ ہے کہ روی داس برادری کے لوگ بتدریج مایاوتی کے آنےکے بعد بی ایس پی میں شامل ہو گئے۔
بہار میں مشرقی اتر پردیش سے متصل اضلاع میں روی داس کی اکثریت ہے، جیسے کہ ساسارام، سیوان، گوپال گنج، مغربی چمپارن اور بکسر وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ 1990 کی دہائی کے آخر اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں، جب مایاوتی اتر پردیش میں مضبوط ہوئیں، توبہار میں بھی بی ایس پی کے ایم ایل اے منتخب ہونے لگے تھے۔
سال 1995کے بہار اسمبلی انتخابات میں مایاوتی کے دو امیدوار جیتے تھے، جو 2000 میں بڑھ کر پانچ ہو گئے۔ اکتوبر 2005 میں جب نتیش کمار نے حکومت بنائی، تب بھی بی ایس پی کے پاس چار ایم ایل اے تھے۔ اس طرح جیسے جیسے بہار میں کانگریس اور آر جے ڈی کمزور ہوئی، بی ایس پی مضبوط ہوئی۔ تاہم، جب نتیش کمار نے بہار میں مہادلت کارڈ کھیلا تو بی ایس پی 2010 اور 2015 کےانتخابات میں ایک بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی۔ اس دوران بی ایس پی آہستہ آہستہ اتر پردیش میں بھی ختم ہونے لگی۔
پان برادری کی طرف سے ریزرویشن کا مطالبہ
بہار کی تین سب سے بڑی دلت ذاتوں میں 5.31فیصد والے پاسوان ہیں اور 3.09فیصد والےمسہرکے پاس اپنا لیڈر اور پارٹی ہے، لیکن روی داس، جو آبادی کا 5.25فیصد ہیں، کے پاس نہ کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی پارٹی۔ بہار میں ایسی بہت سی دوسری ذاتیں ہیں جن کی اچھی خاصی آبادی ہے لیکن نہ کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی پارٹی۔ بہار کانگریس ان لیڈروں اور بے جماعت ذاتوں کی نمائندگی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں راجیش رام کو بہار کانگریس کا ریاستی صدر مقرر بنانا اور آئی پی گپتا جیسے پان لیڈر کو آگے لانا اور کنہیا کمار کے سہارےتمام پارٹیوں سے مایوس ہوچکےبھومیہاروں میں کے درمیان تھوڑی بہت ساکھ پانے کی سیاسی کوشش ۔

کانگریس رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی بہار کانگریس صدر راجیش رام کے ساتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: بہار کانگریس)
پان ذات کو ملک کے مختلف حصوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ بہار اور مشرقی اتر پردیش میں، پان برادری کو تانتی، تتما، تتوان، سواسی اور پنار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی اتر پردیش میں، انہیں کوری کے نام سے جانا جاتا ہے اور اتراکھنڈ میں، انہیں کولی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد، صرف پان اور پنار کو درج فہرست ذات کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، اور سواسی کو بعد میں شامل کیا گیا تھا، لیکن تانتی، تتما اور کوری کو آج تک شامل نہیں کیا گیا ہے۔
آئی پی گپتا کا تعلق تانتی (پان) برادری سے ہے۔ ان کی قیادت میں چلنے والی پان تحریک کا بنیادی مسئلہ تانتی، تتما اور کوری ذاتوں کو پان ذات کی ذیلی ذاتوں کے طور پر شامل کرنا ہے تاکہ انہیں بھی درج فہرست ذاتوں میں شامل کیا جا سکے۔ آئی پی گپتا 2019 سے کانگریس پارٹی کے سرگرم رکن تھے اور 2020 میں ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود سکندرا اسمبلی حلقہ سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔ الیکشن ہارنے کے بعد آئی پی گپتا آل انڈیا پان فیڈریشن کے قومی صدر کے طور پر پچھلے تین سالوں سے پان تحریک کے لیے کام کر رہے ہیں۔
آئی پی گپتا کی پان برادری ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے نتیش کمار کی روایتی حامی رہی تھی، کیونکہ نتیش کمار کی کوششوں کے نتیجے میں 2015 میں بہار کی درج فہرست ذاتوں میں تانتی-تتما برادری کو شامل کیا گیا تھا۔ تاہم، گزشتہ سال، سپریم کورٹ نے بہار حکومت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تانتی-تتما کو درج فہرست ذات میں شامل کرنے کا جو عمل تھا وہ غیر آئینی تھا۔ کیوں کہ درج فہرست ذات فہرست میں تبدیلی کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو مقننہ سے ایک بل پاس کرنا ہوگا اور اسے پارلیامنٹ کو بھیجنا ہوگا، جہاں پارلیامان اس فیصلے پرحتمی فیصلہ لیتے ہیں۔ تاہم، بہار حکومت نے پارلیامنٹ کو بتائے بغیر تانتی-تتما برادریوں کو شیڈول کاسٹ سرٹیفکیٹ جاری کرنا شروع کر دیا۔ اس پورے عمل نے تانتی-تتما برادری کو مشتعل کیا اور اسی تحریک سے آئی پی گپتا اور پان ریزرویشن تحریک شروع ہوئی، جس کے تحت 13 اپریل 2025 کو گاندھی میدان میں ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہوا، اور بہار کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے۔
اس تحریک کے آغاز سے ہی کانگریس پان ریزرویشن تحریک، ان کے مطالبات اور ان کے لیڈر آئی پی گپتا کی حمایت کر رہی ہے تاکہ ان ووٹوں کو این ڈی اے سے الگ کیا جا سکے جو روایتی طور پر این ڈی اے کے ووٹر تھے اور کانگریس کے ساتھ سب سے زیادہ آرام محسوس کر سکتے تھے۔
پسماندہ ذاتوں میں سیاسی طاقت کا فقدان
بہار میں کئی دوسری ذاتیں بھی ہیں جن کی آبادی اچھی خاصی ہے، لیکن ان میں مناسب سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مکیش سہنی اپنی وی آئی پی (وکاس شیل انسان پارٹی) کے ذریعے گزشتہ ایک دہائی سے ملاح برادری کے لیے سیاسی نمائندگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی ذات کو درج فہرست ذاتوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کانگریس اس دلت مرکوز سیاست کا محور بننا چاہتی ہے۔مستقبل میں کانگریس دیگر دلت پسماندہ ذاتوں کو شامل کر سکتی ہے، جنہیں مناسب سیاسی نمائندگی نہیں ملی ہے۔ مثال کے طور پر، پاسی ذات، جن کا پیشہ تاڑی اتارنا اور بیچنا ہے۔ شراب پر پابندی کے بعد یہ بہار میں ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن گیا ہے، لیکن بہار میں پاسی ذات کا کوئی سیاسی چہرہ نہیں بن پایا ہے۔ بہار میں پاسی برادری کے سب سے بڑے لیڈر جے ڈی یو کے اشوک چودھری نے اپنی پوری زندگی میں ذات کی سیاست میں شاذ و نادر ہی حصہ لیا ہے۔ اسی طرح دھوبی برادری سے تعلق رکھنے والے ڈمرا لال بیٹھا کبھی بہار کانگریس کا چہرہ تھے، لیکن آج بہار میں شیام رجک کے علاوہ کوئی بااثر لیڈر نہیں ہے، وہ شیام رجک جو کبھی آر جے ڈی اور کبھی جے ڈی یو میں جاتے ہیں۔ شیام رجک کی بہار کی سیاست میں سیاسی موجودگی توہے، لیکن ذات پر مبنی کوئی شناخت نہیں ہے۔
ان سب کے درمیان کانگریس شایدتانتی تتما کو ملاح یا روی داس سےزیادہ اہمیت اس لیے بھی دینا چاہے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ روی داس یا ملاح کو متحد کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا کہ تانتی تتما کو متحد کرنا، جن کے آگے ریزرویشن کی تھالی پروس کرچھین لی گئی۔ کوئی اور ذات این ڈی اے کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتی جتنا تانتی-پان ذات ، کیونکہ تانتی برادری نے گزشتہ ایک دہائی سے متفقہ طور پر نتیش کمار اور این ڈی اے کی حمایت کی ہے۔
لیکن کانگریس کے لیے سب سے بڑا چیلنج کانگریس اور گرینڈ الائنس کے اندر روی داس برادری کو متحد کرنا ہوگا۔ راجیش رام، جنہیں بہار کانگریس کا ریاستی صدر مقرر کیا گیا ہے، کوئی اہم اور معروف سیاسی شخصیت نہیں ہیں۔ بہار میں روی داس برادری کا ووٹ سب سے زیادہ بکھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں پٹنہ میں کانگریس سی ڈبلیو سی میٹنگ کا اثر آنے والا وقت میں ہی پتہ چلے گا۔
(راجن جھا اے آر ایس ڈی کالج، دہلی یونیورسٹی میں پالیٹکل سائنس پڑھاتے ہیں۔ سنجیو کمار نیوز ہنٹرز کے ایڈیٹر ہیں۔)