بہار نے بدل دی سیاست، کیا اب خواتین کا مستقبل بھی بدلے گا؟

بہار کی خواتین اب صرف غیر جانبدار ووٹر نہیں، بلکہ انتخابات میں فیصلہ کن قوت بن چکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نئی حکومت ان خواتین کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لا پائے گی، جن کے بھروسے وہ اقتدار تک پہنچی ہے۔

بہار کی خواتین اب صرف غیر جانبدار ووٹر نہیں، بلکہ انتخابات میں فیصلہ کن قوت بن چکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نئی حکومت ان خواتین کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لا پائے گی، جن کے بھروسے وہ اقتدار تک پہنچی ہے۔

این ڈی اے حکومت کو اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ خواتین کے ووٹ صرف اقتدار حاصل کرنے کاوسیلہ نہیں ہیں، بلکہ ایک حقیقی طاقت ہیں جو پالیسی کی سمت تشکیل دیتی ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/نتیش کمار)

بہار کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کی زبردست جیت نے ریاست کی سیاست میں ایک نیا سماجی مساوات قائم کر دیا ہے — نیاایم وائی، یعنی مہیلا + یووا۔ یہ اتحاد محض انتخابی حکمت عملی نہیں تھا۔ یہ اس بدلتی ہوئی سماجی خواہش کی عکاس ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بہار کی خواتین اب صرف ووٹر نہیں ہیں بلکہ انتخابات میں فیصلہ کن قوت  ہیں۔

لیکن جب تقریبات ختم ہوتی ہیں تو سیاست کا مشکل دور شروع ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نئی حکومت ان خواتین کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو سکے گی، جن کے بھروسے وہ اقتدار تک پہنچی ہے؟

کام  بڑھاہے،کمائی نہیں

متواتر لیبر فورس سروے(پی ایل ایف ایس)جیسےقومی سروے بتاتے ہیں کہ بہار میں خواتین کی افرادی قوت کی شرکت میں پچھلے کچھ سالوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، 2017-18 میں یہ تعدادتقریباً 4فیصد سے بڑھ کر 2023-24 میں تقریباً 30فیصد ہو گئی ہے۔

یہ تبدیلی حوصلہ افزا نظر آتی ہے، لیکن اس کے اندر کی سچائی اتنی ہی تلخ اور کڑوی ہے۔


دیہی بہار میں 85فیصد کام کرنے والی خواتین اپنا روزگار کر رہی ہیں – زیادہ تر فیملی ہیلپرز ہیں، یعنی وہ جو کسی خاندانی کاروبار، کھیتی یا انٹرپرائز میں بغیرکسی ادائیگی کے کام کرتی ہیں اور اسی خاندان یا گھر میں رہتی ہیں۔

شہروں میں بھی ان-پیڈہیلپرز(یعنی بغیر معاوضہ کے گھروں میں کام کرنے والوں) کی حصہ داری  3فیصد سے بڑھ کر 29 فیصد ہو گئی ہے ۔

اس کے برعکس، معاوضہ کے ساتھ کام میں مسلسل کمی آرہی ہے۔


اس کا مطلب واضح ہے- خواتین کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت معاشی طاقت میں تبدیل نہیں ہو رہی ہے۔ وہ کام  توکر رہی ہیں، لیکن ان کی نہ تو کوئی مقررہ آمدنی ہے اور نہ ہی سماجی تحفظ۔

تعلیم: بہار کی سب سے بڑی رکاوٹ

اگر خواتین کو سرکاری نوکریوں میں 35 فیصد ریزرویشن سے فائدہ اٹھانا ہے- جو بہار سرکار نے وعدے کے طور پر دیا ہے- تو تعلیم کلیدی ضرورت ہے۔ لیکن حقیقی تصویر اب بھی خوفناک ہے۔ پی ایل ایف ایس 2023-24 کے مطابق؛


دیہی خواتین  میں 45 فیصد اب بھی ناخواندہ ہیں۔

شہری خواتین میں بھی 27 فیصد ناخواندہ ہیں۔

گریجویٹ خواتین دیہی علاقوں میں صرف 3.1فیصد اور شہروں میں 13.4فیصد ہیں۔


اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی کمی کے ساتھ ساتھ مضامین کا انتخاب بھی ایک چیلنج ہے۔

بہار میں لڑکیاں ایس ٹی ای ایم(سائنس، ٹکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ) جیسے مضامین سے دور ہو رہی ہیں — وہ مضامین جو مسابقتی امتحانات اور سرکاری ملازمتوں کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اہل خواتین ہی کم ہوں گی تو ریزرویشن کس کو ملے گا؟

وقت کی سب سے بڑی کسوٹی: ان-پیڈ کیئر ورک

خواتین کے کام نہ  کر پانے کی سب سے بڑی وجہ ملازمتوں کی کمی نہیں بلکہ وقت کی کمی ہے، خاص طور پران-پیڈ کیئر ورک- جیسے بچوں کی دیکھ بھال،بزرگوں کی خدمت، گھر کی صفائی، کھانا بنانا، وغیرہ ۔

ٹائم یوزسروے 2024 سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں خواتین مردوں کے مقابلے روزانہ پانچ گھنٹے زیادہ گھریلو اور دیکھ بھال کے کاموں میں خرچ کرتی ہیں۔ اس وجہ سے؛


ستر (70)فیصد خواتین باہر کام نہیں کر پاتی ہیں۔

چائلڈ کیئر اورایلڈرلی کیئر جیسی سہولیات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔

محفوظ نقل و حمل کی کمی ملازمت کے اختیارات کو مزید محدود کرتی ہے۔


ریزرویشن نوکری  تک لے جاسکتی ہے، لیکن نوکری کرنے کے لیے وقت اور سہولیات چاہیے، جو خواتین کو نہیں مل رہی ہیں۔

نئی حکومت کیا کر سکتی ہے ؟

اس بار بہار کے ووٹروں نے صرف حکومت کا انتخاب نہیں کیا۔ انہوں نے تبدیلی کی امید کا انتخاب کیا ہے۔ اگر نئی حکومت اس توقع پر پورا اترنا چاہتی ہے تو اسے تین محاذوں پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا؛

تعلیم اور ہنر یا اسکل بڑھانے میں بڑی سرمایہ کاری


لڑکیوں کے لیےایس ٹی ای ایم اور مسابقتی امتحان کی کوچنگ

ڈگری سے آگےمختلف مہارتوں ، جیسے ڈیجیٹل، اکاؤنٹنگ اورانگریزی بولنے میں سرمایہ کاری ۔


خواتین پر بلا معاوضہ کام کے بوجھ کو کم کرنا


پنچایت کی سطح پر بچوں کی دیکھ بھال کے انتظامات یا کریچ یا ڈے کیئر سینٹر

رات کے وقت بھی خواتین کے لیے محفوظ اور قابل رسائی پبلک ٹرانسپورٹ

ورکنگ ویمن ہاسٹلز اور ٹرانزٹ ہاسٹلز


نوکری کا وعدہ نہیں بلکہ اس تک رسائی کا حق


ریزرویشن اسی وقت معنی خیز ہو گاجب

اہل خواتین امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہو،

بھرتی کا عمل شفاف ہو،

اور تقرری کے بعد خواتین کو کام کی جگہ پر تحفظ اور مساوی مواقع ملے۔


بہار کی سیاست کا اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے

اس بات سے قطع نظر کہ این ڈی اے کی جیت کے ذمہ دار کون سے عوامل ہیں، سچائی یہ ہے کہ بہار کی خواتین اب صرف تعداد نہیں ہیں، بلکہ فیصلہ کن قوت ہیں۔ وہ کسی نعرے، منصوبے یا وعدے سے نہیں بلکہ نتائج سے متاثر ہوتی ہیں۔

اس لیے بہار کی آدھی آبادی کا اعتماد حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔ اگر یہ حکومت واقعی ‘نئے ایم وائی’ کو عزت دینا چاہتی ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ خواتین کے ووٹ صرف اقتدار کا وسیلہ نہیں ہیں، بلکہ پالیسی کی سمت بنانے کی ایک حقیقی قوت ہیں۔

(جیوتی ٹھاکر نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ (این سی اے ای آر) میں ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں،جن کا ان کے ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہے)