بہار: اپوزیشن سے این ڈی اے کے کھاتے میں آئیں 75 سیٹوں پر جیت کے فرق سے زیادہ نام ایس آئی آر میں ہٹائے گئے

بہار کی 243 سیٹوں میں سے 202 سیٹیں جیتنے والی این ڈی اے  کی برتری اس بار ان علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملی،جنہیں پہلے اپوزیشن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق 174 سیٹوں پر جیت کا مارجن ایس آئی آرکے دوران ہٹائے گئے ووٹروں کے ناموں کی تعداد سے کم تھا۔

بہار کی 243 سیٹوں میں سے 202 سیٹیں جیتنے والی این ڈی اے  کی برتری اس بار ان علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملی،جنہیں پہلے اپوزیشن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق 174 سیٹوں پر جیت کا مارجن ایس آئی آرکے دوران ہٹائے گئے ووٹروں کے ناموں کی تعداد سے کم تھا۔

مہاگٹھ بندھن کی عبرتناک شکست کے بعد ایس آئی آر کا عمل ایک بار پھر سوالوں کے دائرے میں۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: بہار اسمبلی انتخابات 2025 میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی زبردست جیت اورمہاگٹھ بندھن کی کراری شکست نے ایک بار پھر ایس آئی آرکے عمل کو سوالوں کے دائرے میں لا دیا ہے۔

دی کوئنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ریاست کی 243 میں سے 202 سیٹوں پر جیتنے والی این ڈی اے  کی برتری ان اضلاع میں بھی دیکھنے کو ملی، جنہیں پہلے اپوزیشن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

انتخابی اعداد و شمار پر قریب سے نظر ڈالیں ، تو ایک چونکا دینے والا پیٹرن سامنے آتا ہے؛ 174 نشستوں پر جیت کا مارجن ایس آئی آرکے دوران ووٹر لسٹ سے حذف کیے گئے ناموں کی تعداد سے کم تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ 91 سیٹوں پر  2020 اور 2025 کے انتخابات کے درمیان پارٹی کی پوزیشن تبدیل ہوگئی ہے۔ اس  باراسمبلی الیکشن میں این ڈی اے نےیہاں سے 75 سیٹوں پر جیت درج کی، جبکہ مہاگٹھ بندھن کو صرف 15 سیٹ پر جیت ملی اور ایک سیٹ چھوٹی پارٹی کےکھاتے میں گئی۔

وہیں، اگر ہم 2020 کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو ان 91 میں سے مہاگٹھ بندھن کے پاس 71 سیٹیں تھیں اور این ڈی اے کے پاس صرف 14 سیٹیں، جو اس بار کے الیکشن میں حیران کن طور پر بڑھ کر 75 ہو گئی ہیں۔

اسے کچھ نشستوں کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے؛

کرہانی (مظفر پور) – بی جے پی کی برتری

بی جے پی نے 2025 میں کرہانی سیٹ صرف 616 ووٹوں کے فرق سے جیتی ہے، جبکہ اس حلقے میں ووٹر لسٹ سے 24000 سے زیادہ نام حذف کیے گئے ہیں۔

کُرہانی سیٹ پہلے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے پاس تھی، اس بار ان سے چھن گئی ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ایک کم مارجن والی سیٹ این ڈی اے کے کھاتے میں چلی گئی۔

سندیش (بھوجپور) – جے ڈی یو کی برتری

جنتا دل (یونائیٹڈ) (جے ڈی یو) نے سندیش سیٹ پرصرف 27 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی،جبکہ یہاں  25,682 رائے دہندگان ووٹر لسٹ سے ہٹائے گئے ہیں۔ یہ سیٹ 2020 میں آر جے ڈی کے پاس تھی، لیکن اس انتخاب میں سب سے کم فرق  کے ساتھ جیت والی سیٹ میں سے ایک اب جے ڈی یو کے پاس چلی گئی ہے۔

مٹیہانی (بیگوسرائے) – آر جے ڈی کی برتری

آر جے ڈی نےمٹیہانی سیٹ پر 5,290 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، لیکن ووٹر لسٹ سے 33,700 سے زیادہ ووٹروں کو ہٹا دیا گیا۔ 2020 میں یہ سیٹ لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) کے پاس تھی۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ مہاگٹھ بندھن کو بھی کچھ سیٹوں پر فائدہ ہوا، حالانکہ یہ یہ این ڈی اے کے مقابلے کافی کم ہے۔

غور طلب ہے کہ این ڈی اے کی جیت 2020 اور 2025 کے درمیان 100 سیٹوں پر جیت کی وجہ سےممکن ہوئی۔ تاہم، ان میں سے 75 سیٹیں ایسی بھی تھیں جہاں حذف شدہ ووٹر لسٹوں کی تعداد این ڈی اے کی جیت کے مارجن سے زیادہ تھی۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایس آئی آر کے دوران ووٹر لسٹ سے ہٹائے گئے ناموں نے ان سیٹوں پر این ڈی اے کو سبقت دلائی۔

کیرالہ کانگریس نے بھی اس سلسلے میں سوال اٹھائے ہیں ۔

کیرالہ کانگریس نے دعویٰ کیا ہے کہ 202 میں سے 128 سیٹوں پر این ڈی اے کی جیت ایس آئی آر کے دوران مبینہ ووٹروں کو حذف کرنے کا نتیجہ ہے۔ پارٹی کا الزام ہے کہ ہزاروں حقیقی ووٹروں کو من مانی طور پر ہٹا دیا گیا ، اور یہی ‘دھاندلی’ این ڈی اے کی زبردست جیت کی اصل وجہ بنی۔

کیرالہ کانگریس کا دعویٰ ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کے ذریعہ جاری کردہ ووٹروں کو حذف کرنے کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا اور اس کا موازنہ ہر سیٹ کے جیتنے والے مارجن سے کیا۔ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ایس آئی آر کے عمل میں ووٹرز کو من مانی طور پر ہٹا دیا گیا ۔

کیرالہ کانگریس نے الزام لگایا کہ ایس آئی آر کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کرنا بتایا گیا تھا۔ تاہم، جاری کردہ اعداد و شمار میں کسی ایک غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت نہیں کی گئی، نہ ہی بنگلہ دیش، میانمار یا نیپال سے۔

پارٹی کے مطابق، اصل میں غریب اور کمزور طبقے کےووٹروں  کو ہٹا کر الیکشن کو مینج کیا گیا ۔ پارٹی نے پی ایم مودی کے ‘جمہوریت کی ماں’ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ‘گیم پلان’ نہیں سمجھا گیا، تو بی جے پی ایک ایک کرکے تمام شہریوں کو ووٹر لسٹ سے نکال دے گی اور ان کی جگہ فرضی نام ڈال دے گی۔

ایس آئی آر پر تنازعہ کیوں ہے؟

غور طلب ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) نے بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل ایس آئی آر کا اعلان کیا تھا۔ کمیشن نے کہا تھا کہ اس کا مقصد ووٹر لسٹوں سے ڈپلیکیٹ اندراجات، مردہ ووٹرز، منتقل شدہ ووٹرز اور دیگر غلطیوں کو  ہٹاناہے۔

تاہم، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے گروپوں کی طرف سے بھی اس عمل پر کڑی تنقید کی گئی۔

کچھ اضلاع میں غیرمعمولی طور پر بڑی تعداد میں نام ووٹر لسٹ سے نکالے گئے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ حقیقی ووٹرز، خاص طور پر کمزور یا پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کو بغیر کسی تصدیق کے ہٹایا گیا۔

تاہم، الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے اس عمل کو معمول اور ضابطہ قرار دیا ہے۔

ایسے میں ایس آئی آرنے ان انتخابات پر براہ راست اثر ڈالا یا نہیں اس پر یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ بہت سے عوامل انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، جیسے کہ امیدواروں کا انتخاب، مقامی  طور پر کاسٹ ایکویشن، اتحادی ریاضی، حکومت مخالف جذبات، بوتھ لیول پر مینجمنٹ اور علاقائی رجحانات وغیرہ۔

اس کے علاوہ ڈیٹاسیٹ صرف سرکاری طور پر شائع شدہ حذف کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ان حذف شدہ ووٹرز نے 2020 میں ووٹ دیا تھا، یا وہ ڈپلیکیٹ اندراجات تھے، یا انہوں نے واقعی اپنی رہائش گاہ تبدیل کی۔ لہذا، اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ بہار کے انتخابی نتائج میں ہوا بڑا الٹ پھیر نمایاں جھول کا نتیجہ تھا۔