ایس آئی آر کے خلاف اپوزیشن – راہل نے کہا، ووٹ چوری کو چھپانے کا عمل، اسٹالن نے بھی اٹھائے سوال

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے ایس آئی آر ووٹ چوری کو چھپانے اور اسے ادارہ جاتی بنانے کا عمل ہے۔ وہیں، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ ایس آئی آر کا فارم الجھن اور پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے، اور عجلت میں اس کو کرنےسے ووٹروں کا نام  ہٹنے کا خطرہ ہے۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے ایس آئی آر ووٹ چوری کو چھپانے اور اسے ادارہ جاتی بنانے کا عمل ہے۔ وہیں، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ ایس آئی آر کا فارم الجھن اور پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے، اور عجلت میں اس کو کرنےسے ووٹروں کا نام  ہٹنے کا خطرہ ہے۔

اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ ایس آئی آر ووٹ چوری کو چھپانے اور ادارہ جاتی بنانے کا طریقہ کار ہے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اتوار (9 نومبر) کو مدھیہ پردیش میں کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیاکی جانب سے ایس آئی آرووٹ چوری کو چھپانے اور اسے ادارہ جاتی بنانے کا طریقہ کار ہے۔

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار مل کر جمہوریت اور آئین پر حملہ کر رہے ہیں۔

وہیں، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ ایس آئی آر گنتی کا فارم الجھن اور پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے اور ووٹروں کانام  ہٹنے کا خطرہ ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،بہار اسمبلی انتخابات مدنظر انتخابی مہم کے لیےروانہ ہونے سے قبل مدھیہ پردیش میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا، ‘بنیادی مسئلہ ووٹ کی چوری ہے، اور ایس آئی آراسے چھپانے اور ادارہ جاتی بنانے کا طریقہ کار ہے۔ جمہوریت اور ( بی آر ) امبیڈکر کے آئین پر براہ راست حملہ کیا جا رہا ہے۔ مودی، امت شاہ، اور گیانیش جی مل کر ایسا کر رہے ہیں اور اس سے ملک  کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔’

گاندھی سنیچر (8 نومبر) کو مدھیہ پردیش  پہنچے اور یہاں کانگریس کی ضلع اکائی کے صدور کے لیے منعقد تربیتی کیمپ میں شرکت کی۔

الیکشن کمیشن نے 4 نومبر کو مدھیہ پردیش سمیت نو ریاستوں اور تین مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ایس آئی آر کا دوسرا مرحلہ شروع کیا ۔ اس نظرثانی میں 51 کروڑ ووٹرز شامل ہوں گے۔

اس عمل کا پہلا مرحلہ بہار میں کیا گیا تھا جس کے بعد ووٹر لسٹ سے 68 لاکھ سے زیادہ ناموں کو ہٹا دیا گیا ہے۔

کانگریس لیڈر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر سمیت مختلف ریاستوں میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ووٹ کی چوری ہوئی تھی۔

اور ثبوت سامنے آئیں گے

راہل گاندھی نے کہا، ‘کچھ دن پہلے، میں نے ہریانہ پر ایک پریزنٹیشن دیا تھا ، اور آپ نے واضح طور پر دیکھا کہ ووٹ چوری ہو رہی  ہے… 25 لاکھ ووٹ چوری ہوئی، آٹھ میں سے ایک ووٹ چوری ہوا ہے۔ ڈیٹا کو دیکھنے کے بعد میرا مانناہے کہ مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اور یہی بی جے پی اور الیکشن کمیشن کا نظام ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس ‘مزید ثبوت’ ہیں جو آہستہ آہستہ سامنے آئیں گے۔ گاندھی نے کہا، ‘ہمارے پاس مفصل معلومات ہیں۔ ہم اسے جاری کریں گے۔ ہم نے ابھی تک اس کا صرف ایک چھوٹا حصہ ہی ظاہر کیا ہے۔’

گاندھی نے یہ بھی کہا کہ انہیں تربیتی کیمپ سے اچھا ردعمل ملا ہے، جو کانگریس کی تنظیم سازی مہم (ریسٹرکچرنگ ڈرائیو) کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے جو کہ پارٹی کو بحال کرنے کے لیے کئی ریاستوں میں جاری ہے۔

ایس آئی آر فارم الجھن اور پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے: ایم کے اسٹالن

دریں اثنا، ڈی ایم کے کے صدر اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اتوار کو کہا کہ ووٹر لسٹ  کی نظرثانی کے لیے گنتی کے فارم میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے مانگی گئی تفصیلات بھی ووٹرز کو الجھن میں ڈال دیں گی ۔

ایس آئی آر فارم حاصل کرنے والے اسٹالن نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ رشتہ داروں کے بارے میں مانگی گئی معلومات والدین، بھائی، بہن، میاں بیوی یا بچوں کے بارے میں ہے یا نہیں۔

انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا،’کیا اس سوال پر کوئی وضاحت ہے؟ رشتہ داروں کے کالم میں انہوں نے ووٹر شناختی نمبر مانگے ہیں، تیسرے کالم میں، انہوں نے ایک بار پھر رشتہ داروں کے نام مانگے ہیں، کس کا نام لکھا جائے، رشتہ دار کا یا درخواست دہندہ کا؟  چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی الیکشن کمیشن کے ذریعے ووٹرز کے نام کاٹنے کا خطرہ ہے۔’

مانگی گئی تفصیلات کو ‘الجھن کا دفتر’ قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ ایس آئی آرسے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ عمل ریاستی سرکاری ملازمین کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا،’لیکن سچ یہ ہے کہ ایک سرکاری ملازم الیکشن کمیشن کے کنٹرول میں ہوگا اور ریاستی حکومت کو جوابدہ نہیں ہوگا ۔’

اسٹالن نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ ایس آئی آر کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں کیونکہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے ایک ایماندار اور شفاف ووٹر لسٹ ضروری ہے۔

انہوں نے کہا،’لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ اسے جلد بازی میں نہیں کیا جانا چاہیے۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے نشاندہی کی ہے کہ کس طرح حکمراں بی جے پی نے (مرکز میں) الیکشن کمیشن کی مدد سے ووٹر لسٹ میں  سنگین دھوکہ دہی کی ہے۔ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی بھی ایس آئی آر کے خلاف ہیں۔’

چیف منسٹر نے کہا کہ ڈی ایم کے ارکان  پارٹی قیادت کے نوٹس میں ایس آئی آر کے آغاز کے بعد سے درپیش مسائل کو لا رہے ہیں۔

انہوں نے پوچھا، بی ایل او(بوتھ لیول آفیسر) گھر گھر نہیں جا رہے ہیں، اور اگر جاتے بھی ہیں، تو وہ خاطر خواہ فارم نہیں لاتے۔ ایک ای آر او (الیکٹورل رجسٹریشن آفیسر) ایک انتخابی حلقے میں 300,000 سے زیادہ فارم کیسے تقسیم کر سکے گا اور اس عمل کو مکمل کرے گا؟’

اسٹالن نے کہا کہ اگرچہ الیکشن کمیشن کو مسودہ فہرست 7 دسمبر کو جاری کرنا تھا لیکن یہ غیر یقینی ہے کہ آیا وہ مقررہ وقت سے پہلے اس عمل کو مکمل کر پائے گا یا نہیں ۔

ڈی ایم کے ارکان سے چوکس رہنے کی اپیل کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، ‘جیسا کہ ڈی ایم کے اور اس کے اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ فہرست سے بہت سے ووٹروں کے نام ہٹائے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ بی ایل او اور پارٹیوں کے بی ایل اے (بوتھ لیول ایجنٹ) مل کر کام کریں گے، لیکن اس کے لیے ماحول ابھی تک سازگار نہیں ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 28 اکتوبر سے 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں  ملک گیر ایس آئی آر کا  اعلان کیا ہے ۔