مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستانی میڈیا کی حالت تشویشناک: رپورٹ

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2025 میں ہندوستان کو 151 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی رپورٹ میں میڈیا پرحکومت اور کارپوریٹ دباؤ، گودی میڈیا میں اضافہ، صحافیوں کے قتل اور کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے جیسے مسائل پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2025 میں ہندوستان کو 151 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی رپورٹ میں میڈیا پرحکومت اور کارپوریٹ دباؤ، گودی میڈیا میں اضافہ، صحافیوں کے قتل اور کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے جیسے مسائل پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

 (علامتی تصویر: دی وائر)

(علامتی تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس-2025 میں 180 ممالک کی فہرست میں ہندوستان کو 151 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ 2024 میں ہندوستان  159 ویں نمبر پر تھا۔

یہ رپورٹ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم آر ایس ایف- رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز تیار کرتی ہے۔

ہندوستان کی رینکنگ میں پچھلے سال کے مقابلے قدرے بہتری آئی ہے۔ لیکن اس معمولی پیش رفت کی کوئی خاص وجہ نہیں بتائی گئی۔ نیپال اور مالدیپ اس سے بہتر زمرے میں ہیں۔

وہیں، ہندوستان جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک کے ساتھ، ‘انتہائی سنگین’ زمرے میں سب سے نچلے پائیدان پر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اڈانی گروپ کے ذریعے این ڈی ٹی وی  کا حصول ‘مین اسٹریم میڈیا میں تنوع کے خاتمے کا اشارہ ہے۔’

رپورٹ میں ہندوستان کے بارے میں کیا لکھا ہے؟

ہندوستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے  رپورٹ میں کہا گیاہے،’ہندوستان کا میڈیا 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ‘اَن آفیشیل ایمرجنسی’ کی حالت میں ہے۔ مودی نے اپنی پارٹی بی جے پی اور میڈیا پر راج کرنے والے بڑے خاندانوں کے بیچ ایک قابل ذکر قربت بنالی ہے۔

ریلائنس انڈسٹریزگروپ  کے مالک مکیش امبانی، جو وزیر اعظم کے قریبی دوست ہیں، 70 سے زیادہ میڈیا ہاؤسز کے مالک ہیں، جنہیں کم از کم 80 کروڑ ہندوستانی دیکھتے ہیں۔ 2022 کے اواخر میں گوتم اڈانی کےذریعے این ڈی ٹی وی  کا حصول مین اسٹریم میڈیا میں تنوع کے خاتمے کا اشارہ تھا۔ اڈانی کو بھی مودی کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘حالیہ برسوں میں ‘گودی میڈیا’ میں اضافے کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے – یعنی وہ میڈیا ادارے جو بی جے پی کے حامی پروپیگنڈے کو خبروں کے ساتھ ملا کر دکھاتے ہیں۔ہندوستان میں ایک متنوع پریس ماڈل کو دباؤ اور اثر و رسوخ کے ذریعے چیلنج کیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم پریس کانفرنس نہیں کرتے، وہ صرف ان صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہیں جو ان کے موافق  ہوتے ہیں، اور جو تنقیدی رویہ رکھتے ہوں، ان  کے ساتھ وہ انتہائی تنقیدی رویہ اپناتے ہیں۔ حکومت پر کڑی تنقید کرنے والے صحافیوں کو بی جے پی کے حمایت یافتہ ٹرولوں کی سوشل میڈیا ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’

رپورٹ میں کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے؛ ‘کانگریس اور دیگر علاقائی پارٹیاں بھی صحافیوں کو ڈرانے اور انتقامی کارروائیوں کے لیے قانونی دفعات کا  استعمال کرتی رہی ہیں۔

مودی حکومت نے کئی نئے قوانین متعارف کروائے ہیں جو حکومت کو میڈیا کو کنٹرول کرنے، خبروں کو سینسر کرنے اور ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے غیرمعمولی اختیارات دیتے ہیں-جیسے ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ-2023، ڈرافٹ براڈکاسٹنگ سروسز (ریگولیشن) بل، 2023، اور ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023۔’

ہندوستان سے نیچےآنے والےممالک جو ون پارٹی رول یاتاناشاہی والے ممالک ہیں، ان میں شمالی کوریا (179)، چین (178)، ویتنام (173)، اور میانمار (169) شامل ہیں۔

ہندوستان میں صحافیوں کی حالت

صحافیوں کے تحفظ کے بارے میں بات کرتے ہوئےآر ایس ایف نے کہا ، ‘ہر سال اوسطاً دو سے تین صحافی اپنے کام کی وجہ سے مارے جاتے ہیں، جس کے باعث ہندوستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں میڈیا کے لیے کام کرنا انتہائی خطرناک ہے۔’

اس میں مزید لکھا گیا،’حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو باقاعدگی سےآن لائن ہراسانی، دھمکی، جسمانی حملے، مجرمانہ قانونی کارروائیوں اور من مانی گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’

کشمیر کے صحافیوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے،’یہ صورتحال ان صحافیوں کے لیے اور بھی تشویشناک ہے جو ماحولیاتی مسائل یا کشمیر پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، اور کچھ کو نام نہاد ‘عارضی’ حراست میں سالوں رکھا جاتا ہے۔’

ہندوستان میں خبریں نشر کرنے والوں کی تعداد

ہندوستان کی 1.4ارب آبادی میں سے 21 کروڑ گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ اور 900 نجی ٹی وی چینل ہیں، جن میں سے نصف خبروں کی نشریات کے لیے ہیں ۔

آرایس ایف کے مطابق، ہندوستان میں 20 سے زیادہ زبانوں میں تقریباً 140000 پبلشرز ہیں، جن میں تقریباً 20000 روزنامے شامل ہیں۔ ان سب کی مجموعی نشریاتی تعداد39 کروڑ سے زیادہ ہے۔

نئی نسل اب سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن خبریں دیکھنے کو ترجیح دیتی ہے اور یہ میڈیم اب پرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ کر خبروں کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔