
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کے استعفیٰ دینے کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی اہم وجہ ان کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی ناراضگی اور فوج کا دباؤ ہے۔

محمد یونس۔تصویر بہ شکریہ: ورلڈ اكنامك فورم/فلكر۔
نئی دہلی: بنگلہ دیش ان دنوں ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ ملک کی عبوری حکومت بحران سے دوچار ہے۔ عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس کے استعفیٰ دینے کی خبریں زور پکڑ رہی ہیں۔ساتھ ہی بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے محمد یونس پر دہشت گردوں کی مدد سے بنگلہ دیش میں اقتدار پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
حسینہ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں کہا ، ‘جب امریکہ سینٹ مارٹن جزیرہ چاہتا تھا، تو میرے والد راضی نہیں ہوئے تھے۔ انہیں اپنی جان قربان کرنی پڑی۔ اور یہی میرا مقدر تھا۔ کیونکہ میرے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ اقتدار میں میں بنے رہنے کے لیے ملک کو بیچ دیا جائے اور ملک کے عوام نے جنہوں نے بابائے قوم بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی اپیل پر لبیک کہا، ہتھیار اٹھا کر لڑے اور 30 لاکھ لوگوں کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانیں دیں۔ اس ملک کی ایک انچ زمین بھی کسی کو دینا کسی کی منشا نہیں ہو سکتی، لیکن آج یونس بنگلہ دیش کو امریکہ کو بیچ رہے ہیں۔’
حسینہ نے مزید الزام لگایا کہ یونس دہشت گردوں کی مدد سے حکومت چلا رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا، ‘انہوں نے دہشت گردوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کیا ہے… یہاں تک کہ ان دہشت گردوں کی مددسےجن پر مختلف بین الاقوامی فورمز پر پابندی عائد ہے، جن سے ہم نے بنگلہ دیش کے لوگوں کی حفاظت کی ہے۔ ہم نے صرف ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد سخت کارروائی کی۔ کئی لوگ گرفتار کیے گئے۔ اب جیلیں خالی ہیں۔ انہوں نے سب کو رہا کر دیا۔ اب بنگلہ دیش میں ان دہشت گردوں کی حکومت ہے۔’
منتخب حکومت ہی ملک میں سیاسی استحکام لا سکتی ہے، آرمی چیف
دریں اثنا،آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے بھی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام صرف ایک منتخب حکومت ہی لا سکتی ہے۔ انہوں نے اس سال دسمبر تک عام انتخابات کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی منتخب حکومت ہی ایسے فیصلے کر سکتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے اور اس نے عبوری حکومت سے حمایت واپس لینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے حوالے سے بتایا کہ بنگلہ دیش میں شدید سیاسی بحران کے درمیان عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے سنیچر (24 مئی) کو ایڈوائزری کونسل کا اچانک اجلاس بلایا تھا۔ یہ ملاقات پہلے سے طے نہیں تھی۔
میٹنگ میں انہوں نےاس بات پرناراضگی اور مایوسی کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت دیگر جماعتوں کے عدم تعاون اور رکاوٹوں کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہی ہے۔
غورطلب ہے کہ عوامی لیگ کو گزشتہ سال جولائی میں ایک زبردست تحریک کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد محمد یونس کی قیادت میں قائم ہونے والی اس عبوری حکومت کو اس تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں اور فوج کے ساتھ ساتھ تمام قومی اداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
اگست 2024 میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے کے بعد فوج نے بنگلہ دیش میں اقتدار سنبھال لیا تھا۔ آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے عبوری حکومت کا اعلان کیا تھااور اس کی سربراہی نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو دی گئی۔ لیکن اب خبریں آرہی ہیں کہ یونس اور آرمی چیف کی آپس میں نہیں بن رہی ہے۔
بنگلہ دیش میں امن و امان کا مسئلہ، ہندوؤں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ
شیخ حسینہ کی حکومت کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور ہندوؤں پر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے یونس حکومت سے ان کی اپنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ناراض نظر آئی۔ معاملہ اس وقت مزید بگڑ گیا، جب یونس نے آرمی چیف جنرل وقار کی غیر موجودگی میں خلیل الرحمان کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، یونس اور آرمی چیف جنرل وقار کے درمیان رخائن کاریڈور کے حوالے سے بھی تنازعہ ہے۔ محمد یونس پڑوسی ملک میانمار کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک راہداری بنانا چاہتے ہیں، جس کے ذریعے وہاں خوراک اور ادویات پہنچائی جا سکیں۔ لیکن آرمی چیف نے سیکورٹی کے نقطہ نظر سے اسے مسترد کرتے ہوئے اسے ‘بلڈ کاریڈور’ قرار دیا ہے۔
آرمی چیف کے مطابق، یہ راہداری بنگلہ دیش کی خودمختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ روہنگیا پناہ گزین اس راہداری کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ رخائن میں سرگرم اراکان آرمی کو اسلحہ اور رسد کی فراہمی کا راستہ بن سکتا ہے۔ اس سے اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوگا۔
غورطلب ہے کہ بنگلہ دیشی سیاست میں فوج نے ایک پیچیدہ کردار ادا کیا ہے۔ فوج نے ایک طویل عرصے تک اس ملک پر حکومت کی ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے دور میں فوج سیاست سے دور رہی، لیکن آرمی چیف نے انہیں اقتدار سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔