دہلی دنگوں کے معاملے میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار عمر خالد نے اپنی بہن کی شادی کے پیش نظر دو ہفتے کے لیے عبوری ضمانت مانگی تھی۔ عدالت نے انہیں 23 سے 30 دسمبر تک کے لیے ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس میں مزید توسیع کا مطالبہ نہ کریں۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے سوموار کو شمال–مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں گرفتار جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد کو اپنی بہن کی شادی کے لیے ایک ہفتے کی عبوری ضمانت دی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے خالد کو 23 سے 30 دسمبر تک کے لیے ضمانت دی ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈرخالد نے اپنی بہن کی شادی کے لیے دو ہفتوں کی عبوری ضمانت کی عرضی دائر کی تھی۔ اس کے بعد عدالت نے دہلی پولیس سے عرضی پر جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔
پچھلی سماعت میں پولیس نے یہ کہتے ہوئے عرضی کی مخالفت کی تھی کہ خالد کی رہائی سے’معاشرے میں خلفشار’ ہو سکتا ہے اور وہ ‘گواہوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں’۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت نے اب خالد کو اپنی عبوری ضمانت کی مدت مکمل ہونے پر عدالت کے سامنے خودسپردگی کرنے کی ہدایت دی ہے اور خصوصی طور پر کہا ہے کہ وہ ضمانت میں مزید توسیع کا مطالبہ نہ کریں۔
قابل ذکر ہے کہ اس ماہ کے شروع میں دہلی کی ایک عدالت نے عمر خالد اور کارکن خالد سیفی کو 2020 کے فسادات سے متعلق ایک کیس میں بری کر دیا تھا۔
تاہم، اس سے قبل 18 اکتوبر کو دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سدھارتھ مردول اور جسٹس رجنیش بھٹناگر کی بنچ نے خالد کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خالد اس معاملے کے دیگر شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور ان کے خلاف الزامات پہلی نظر میں درست ہیں۔
خالد، شرجیل امام اور کئی دیگر کے خلاف یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان سبھی پر فروری 2020 کے فسادات کے مبینہ ‘سازشی’ ہونے کا الزام ہے۔ ان فسادات میں 53 لوگوں کی موت ہو گئی تھی، جبکہ 700 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔
خالد کے علاوہ کارکن خالد سیفی، جے این یو کی طالبات نتاشا ناروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر، عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سابق کونسلر طاہر حسین اور دیگر کئی افراد کے خلاف سخت قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
غورطلب ہے کہ خالد 14 ستمبر 2020 کو گرفتاری کے بعد سے جیل میں ہیں۔ خالد کو نچلی عدالت نے 23 مارچ کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ خالد نے اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اس کے بعد مہینوں کی سماعت میں ہائی کورٹ کے تبصرے سرخیوں میں رہے، جو کہ خالد کے ذریعے امراوتی میں کی گئی ان کی تقریر کے بارے میں تھے، جسے دہلی پولیس نے فسادات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، جس کے دوران خالد دہلی میں نہیں تھے۔
خالد کی تقریر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور ہندو مہاسبھا پر آزادی کی جد وجہد کے دوران ‘برطانوی ایجنٹ’ ہونے کی بات کا ذکرکرتے ہوئےدہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ،اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صرف ایک برادری انگریزوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔
جسٹس سدھارتھ مرڈول اور رجنیش بھٹناگر کی اس بنچ نے زور دے کر کہا کہ’ناخوشگوار، نفرت انگیز، جارحانہ (بیان) پہلی نظر میں قابل قبول نہیں ہیں۔
لگاتار سماعتوں میں تقریر پر تنقید کرنے کے بعد دہلی ہائی کورٹ کی بنچ نے 30 مئی کو کہا تھا کہ تقریر اگرچہ جارحانہ تھی، لیکن یہ ‘دہشت گردانہ کارروائی’ نہیں تھی۔
بتادیں کہ خالد کی لمبے عرصے تک قید پر عالمی اداروں، حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے مفکرین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)