بہار انتخابات پر نظر- مرکز کی ذات پر مبنی مردم شماری کو منظوری، لیکن ڈیڈ لائن طے نہیں

بہار انتخابات سے پہلے مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ 2024 کی انتخابی مہم میں بی جے پی کے اس موقف کے بالکل برعکس ہے، جب اس نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ایسا قدم قرار دیا تھا جس سے سماج تقسیم ہو گا۔ تاہم، حکومت نے مردم شماری یا متعلقہ ذات پر مبنی  مردم شماری کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی ہے۔

بہار انتخابات سے پہلے مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ 2024 کی انتخابی مہم میں بی جے پی کے اس موقف کے بالکل برعکس ہے، جب اس نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ایسا قدم قرار دیا تھا جس سے سماج تقسیم ہو گا۔ تاہم، حکومت نے مردم شماری یا متعلقہ ذات پر مبنی  مردم شماری کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی ہے۔

وزیر ٹیلی کام اشونی ویشنو۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

وزیر ٹیلی کام اشونی ویشنو۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی:بہار انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے بدھ (30 اپریل) کو اعلان کیا کہ دس سالہ مردم شماری کے ساتھ ذات پر مبنی مردم شماری بھی کرائی جائے گی۔

مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات اشونی ویشنو نے کابینہ کی بریفنگ میں یہ اعلان کیا۔ تاہم، انہوں نے اس بارے میں کوئی ٹائم فریم نہیں بتایا کہ دس سالہ مردم شماری یا متعلقہ ذات کی مردم شماری کب کرائی جائے گی۔

آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی تھی اور 2021 کی مردم شماری جو کہ وبائی امراض کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی تھی، ابھی تک نہیں کرائی گئی ہے۔

ویشنو نے کہا، ‘وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں کابینہ کمیٹی برائے سیاسی امور (سی سی پی اے) نے آج یعنی 30 اپریل 2025 کو فیصلہ کیا ہے کہ آنے والی مردم شماری میں ذات پر مبنی مردم شماری کو شامل کیا جانا چاہیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری حکومت معاشرے اور ملک کی اقدار اور مفادات کے لیے پرعزم ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی  ہماری حکومت نے بھی سماج کے معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کے لیے 10فیصد ریزرویشن متعارف کرایا تھا، جس کی وجہ سے کسی طبقے پر کوئی دباؤ نہیں پڑا۔’

ذات پر مبنی مردم شماری اپوزیشن جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران یہ ایک اہم ایشو تھا۔

بدھ کو اعلان کرتے ہوئے ویشنو نےانڈیا الائنس پر ذات پر مبنی مردم شماری کو ‘سیاسی ٹول’ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ کانگریس کی حکومتوں نے ‘ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔’

ویشنو نے کہا، ‘کانگریس حکومتوں نے ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک ہونے والی تمام مردم شماری میں ذات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ 2010 میں آنجہانی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے لوک سبھا میں یقین دہانی کرائی تھی کہ ذات پر مبنی مردم شماری پر کابینہ میں غور کیا جائے گا۔ اس پر غور کرنے کے لیے وزراء کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے اس کی سفارش کی تھی۔ اس کے باوجود کانگریس حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے بجائے صرف ذات کا سروے کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس سروے کو سماجی و اقتصادی ذات کی مردم شماری (ایس ای سی سی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کو صرف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔’

وزیرموصوف نے کہا کہ مردم شماری آئین کے تحت ایک یونین کا موضوع ہے اور جب کہ کچھ ریاستوں نے اس طرح کے ذات پر مبنی سروے ‘بہتر’  طریقے سے کیے ہیں،  وہیں دوسروں نے اسے ‘غیر شفاف’طریقے سے کیا ہے۔

اگرچہ ویشنو نے کسی ریاست کا نام نہیں لیا، لیکن انہوں  نے بہار کے سروے کا حوالہ دیا جو نومبر 2023 میں کرایا گیا تھا، جب نتیش کمار کی قیادت والی جے ڈی (یو) عام انتخابات سے قبل قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) میں واپس آنے سے پہلے انڈیا الائنس کا حصہ تھی۔

کانگریس مقتدرہ تلنگانہ میں بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے، جبکہ کرناٹک میں سدرامیا حکومت نے 10 سال پرانے ذات کے سروے کو تسلیم کر لیا ہے۔

ویشنو نے کہا، ‘ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 246 کے مطابق، مردم شماری کا موضوع 7ویں شیڈول میں یونین لسٹ میں 69 کے طور پر درج ہے۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق مردم شماری ایک یونین کا موضوع ہے۔ کچھ ریاستوں نے ذاتوں کی گنتی کے لیے سروے کرائے ہیں۔ کچھ ریاستوں نے اسےبخوبی انجام دیا ہے جبکہ کچھ دیگر نے خالص سیاسی نقطہ نظر سے اس طرح کے سروے غیر شفاف طریقے سے کئے ہیں۔ اس طرح کے سروے نے معاشرے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔’

ویشنو نے کہا کہ سی سی پی اے نے فیصلہ کیا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری شفاف طریقے سے کی جانی چاہیے تاکہ معاشرے کے’سماجی تانے بانے’ کو نقصان نہ پہنچے۔

انہوں نے کہا، ‘ان تمام حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ سیاست کی وجہ سے ہمارا سماجی تانا بانا متاثر نہ ہو، مردم شماری میں ذات پات کی گنتی کو سروے کے بجائے شفاف طریقے سے شامل کیا جانا چاہیے۔ اس سے ہمارے معاشرے کا سماجی اور معاشی ڈھانچہ مضبوط ہوگا اور قوم ترقی کرتی رہے گی۔’

امت شاہ نے فیصلے کو تاریخی قرار دیا

ایک بیان میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس اقدام کو ‘تاریخی’ قرار دیا، لیکن اس کے نفاذ کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔

شاہ نے کہا کہ یہ قدم سماجی مساوات کے تئیں مضبوط وابستگی کا پیغام ہے اور آئندہ مردم شماری میں ذات کو شامل کرنے کا فیصلہ کرکے ہر طبقہ کو حق دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے کئی دہائیوں تک ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس پر سیاست کی۔ یہ فیصلہ تمام معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ طبقات کو بااختیار بنائے گا، شمولیت کو فروغ دے گا اور پسماندہ افراد کی ترقی کے لیے نئی راہیں ہموار کرے گا۔’

بہار انتخابات پر نظر!

قابل ذکر ہے کہ ویشنو کا یہ اعلان اس سال کے آخر میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل آیا ہے۔

معلوم ہو کہ جنتا دل (یونائیٹڈ) کے ذریعے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ساتھ مل کر 2023 کی بہار میں  ذات پر مبنی مردم شماری نے ریاست میں سیاسی طوفان کھڑا کردیا تھا۔

بہار حکومت نے 2 اکتوبر 2023 کو ذات کے سروے کے اعداد و شمار جاری کیے تھے، جس کے مطابق، دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) ریاست کی کل آبادی کا 63 فیصد ہیں، جن میں انتہائی پسماندہ طبقات (ای بی سی) سب سے بڑا حصہ (36فیصد) ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بہار کی کل آبادی 13 کروڑ سے زیادہ ہے، جس میں پسماندہ طبقہ 27.13 فیصد، انتہائی پسماندہ طبقہ 36.01 فیصد اور جنرل 15.52 فیصد ہے۔

جے ڈی (یو) – آر جے ڈی حکومت نے ریاستی اسمبلی میں ریزرویشن پر سپریم کورٹ کی مقرر کردہ 50 فیصدکی حد  کو توڑنے  کے لیے اہم ترامیم منظور کیں۔ یہ ترامیم بہار میں ذات پر مبنی سروے کے بعد کی گئی ہیں، جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہار کی 65فیصد آبادی ان چار پسماندہ گروہوں سے تعلق رکھتی ہے، لیکن سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ان کی نمائندگی انتہائی کم ہے۔

جون 2024 میں پٹنہ ہائی کورٹ نے ریزرویشن کی زیادہ سے زیادہ حد کی خلاف ورزی کرنے کے بہار حکومت کے فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کیس کی سماعت اب سپریم کورٹ میں چل رہی ہے ۔

بہارانتخابات سے قبل مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ 2024 کی انتخابی مہم میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس موقف کے بالکل برعکس ہے، جب اس نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ایسا قدم قرار دیا تھا جو معاشرے کو تقسیم کرے گا ۔ اس وقت بی جے پی کی بہار یونٹ نے اسمبلی میں نتیش کمار حکومت کی مکمل حمایت کی تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)