اتر پردیش حکومت کا نیا نشانہ: سنبھل کی شاہی مسجد کا خشک کنواں

فسادات اور دہشت سے گزرنے کے بعد سنبھل کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے - ایک کنویں کو لےکرقانونی لڑائی۔ انتظامیہ شاہی جامع مسجد سے ملحقہ کنویں پر اپنا دعویٰ کر رہی ہے، جبکہ مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ کنواں ان کے احاطے کا حصہ ہے اور اس کا پانی مسجد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

فسادات اور دہشت سے گزرنے کے بعد سنبھل کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے – ایک کنویں کو لےکرقانونی لڑائی۔ انتظامیہ شاہی جامع مسجد سے ملحقہ کنویں پر اپنا دعویٰ کر رہی ہے، جبکہ مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ کنواں ان کے احاطے کا حصہ ہے اور اس کا پانی مسجد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

'دھرنی وراہ کوپ'  پر بنائی گئی پولیس چوکی(بائیں)، سنبھل میں جامع مسجد کا داخلی دروازہ(دائیں) (تمام تصویریں: شروتی شرما/ دی وائر )

‘دھرنی وراہ کوپ’  پر بنائی گئی پولیس چوکی(بائیں)، سنبھل میں جامع مسجد کا داخلی دروازہ(دائیں) (تمام تصویریں: شروتی شرما/ دی وائر )

نئی دہلی: گزشتہ کئی مہینوں سے تنازعات میں گھری اتر پردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد کو اب ایک نئے تنازعہ کا سامنا ہے۔ اس بار تنازعہ کے مرکز میں کنواں ہے۔

مسجد سے متصل ’دھرانی وراہ کوپ‘ کنویں کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے۔ ضلع انتظامیہ ایک سرکاری اسکیم کے تحت اس کی تجدید کرنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعے کنویں پر مسجد کا دعویٰ کمزور کرنا چاہتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ جگہ سرکاری زمین پر واقع ہے اور اس کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وہیں،مسجد کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ کنواں مسجد احاطے کا ایک حصہ ہے اور طویل عرصے سے ان کی مذہبی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کنواں تقریباً خشک ہو چکا ہے۔ یہ کنواں اوپر سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور اس کے ایک حصے پر پولیس چوکی بھی ہے۔ مسجد کمیٹی نے اس کنویں میں ایک بورویل لگایا ہے جو تھوڑا بہت پانی کھینچ لیتا ہے۔ یہ پانی مسجد میں آنے اور جانے والے مسلمانوں کے استعمال میں آتا ہے۔  اتر پردیش حکومت خشک کنویں کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں لڑائی  لڑ رہی ہے۔

کیا ہےدھرنی وراہ کوپ کے حوالے سے تنازعہ؟

سنبھل کے کنویں کا معاملہ پچھلے کچھ مہینوں سے سرخیوں میں ہے۔ ضلع انتظامیہ کے مطابق سنبھل میں مذہبی اہمیت کے حامل 19 پرانے کنویں ہیں، جنہیں وہ دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے۔  ان 19 کنوؤں میں سے 14 کی بحالی کے لیے 1.23 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ ان میں سے 20.56 لاکھ روپے کی لاگت سے ‘چترمکھ کوپ’ کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔

دھرنی وراہ  کوپ انہی  19 کنوؤں میں سے ایک ہے۔

جامع مسجد سے متصل کنواں جسے ضلع انتظامیہ 'دھرنی وراہ  کوپ' کہتی ہے۔

جامع مسجد سے متصل کنواں جسے ضلع انتظامیہ ‘دھرنی وراہ  کوپ’ کہتی ہے۔

مسجد کمیٹی نے جنوری کے مہینے میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مقامی انتظامیہ نے کنویں کو ہندو مذہبی مقام قرار دیتے ہوئے نوٹس جاری کیا تھا اور ہندوؤں کو وہاں پوجا کرنے کی اجازت دی تھی۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ یہ کنواں مسجد کے دروازے پر واقع ہے اور اسے مسجد سے متعلق مذہبی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کمیٹی نے دلیل دی تھی کہ اگر اس جگہ پر پوجا پاٹھ کی اجازت دی گئی تو اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو سکتی ہے۔

دس جنوری کو چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے ریاست کو مقامی انتظامیہ کے اس نوٹس پر کوئی کارروائی کرنے سے روکنے کی ہدایت دیتے ہوئے پوری صورتحال پر رپورٹ طلب کی تھی۔

حکومت کیا کہتی ہے

گزشتہ 29 اپریل کو عدالت میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا کہ دھرنی وراہ  کوپ مسجد کے احاطے کے باہر واقع ہے اور اس کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت نے کہا کہ یہ کنواں 1978 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور اب اسے رین واٹر ہارویسٹنگ اسکیم کے تحت بحال کرنے کا منصوبہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کنواں عوامی ہے، وہاں ایک پولیس چوکی بنی ہوئی  ہے، اور یہ میونسپلٹی کی ملکیت ہے۔

مسجد کمیٹی نے عدالت میں کیا کہا

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، مسجد کمیٹی کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے 29 اپریل کوسپریم کورٹ کو بتایا کہ یہ کنواں جزوی طور پر مسجد کی حدود میں آتا ہے اور اسے مذہبی رسومات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ اس کنویں کو عوام کے استعمال کے لیے کھولنے سے مذہبی جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا،’یہ کنواں اوپر سے سیمنٹ سے ڈھکا ہوا ہے، اسے کبھی اوپر سے نہیں کھولا گیا، اور اس کا ایک حصہ مسجد کے اندر  واقع ہے۔ ہم اس کنویں سے پانی نکالتے رہے ہیں، ہم اسے کافی عرصے سے استعمال کر رہے ہیں۔’

عدالت نے 29 اپریل کے اپنے حکم نامے میں فی الحال کنویں کی صورتحال کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اور مسجد کمیٹی کو دو ہفتوں میں اپنا جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔

مسجد سے متصل کنواں اور ہندوؤں کی پوجا

سنبھل 24 نومبر کے تشدد کے بعد سے سرخیوں میں ہے ۔ تمام مذہبی مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے۔ کبھی شاہی جامع مسجد کی سفیدی کا مسئلہ ہو ، کبھی مسجد سے ملحقہ زمین پر پولیس چوکی کی تعمیر کا مسئلہ یا  پھرشہر کے مسلم اکثریتی علاقے میں مبینہ طور پر مندر کی دریافت کا معاملہ ۔

سنبھل میں، جہاں لوگ اس کشیدگی کے درمیان رہ رہے ہیں، انتظامیہ اب ہندوؤں کو مسجد سے متصل کنویں میں لانا چاہتی ہے۔ جبکہ اس علاقے میں شاید ہی کوئی ہندو خاندان رہتا ہے۔

‘عدالت سے رجوع کیا تاکہ مذہبی ہم آہنگی خراب نہ ہو’

مسجد کمیٹی کے وکیل قاسم جمال کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی بھی اس کنویں کے ہندو مذہبی مقام کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ ‘اس کنویں پر ہندوؤں کوپوجا کرنے کی اجازت دینے کا مسئلہ پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔ یہ پورا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے سنبھل میں ایک مذہبی اہمیت کے کنویں کے ہونے کی بات کہی،  تو اس کنویں کوبھی اس میں شامل کر لیا گیا۔’

عدالت نے مسجد کے فریق سے دو ہفتوں میں جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔