یوپی: جوڈیشل کمیشن کے سامنے گواہی سے پہلے سنبھل مسجد کے صدر کو گرفتار کیا گیا

پولیس نے 23 مارچ کو سنبھل کی شاہی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی کے صدر ظفر علی کو نومبر 2024 میں ہوئے تشدد کی مبینہ سازش کے سلسلے میں گرفتار کیا ہے۔ علی کے بھائی نے الزام لگایا کہ پولیس نے انہیں جوڈیشل کمیشن کے سامنے بیان دینے سے روکنے کے لیے گرفتار کیا ہے۔

پولیس نے 23 مارچ کو سنبھل کی شاہی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی کے صدر ظفر علی کو نومبر 2024 میں ہوئے تشدد کی مبینہ سازش کے سلسلے میں گرفتار کیا ہے۔ علی کے بھائی نے الزام لگایا کہ پولیس نے انہیں جوڈیشل کمیشن کے سامنے بیان دینے سے روکنے کے لیے گرفتار کیا ہے۔

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی ایک ٹیم 13 مارچ 2025 کو سنبھل کی شاہی مسجد میں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی ایک ٹیم 13 مارچ 2025 کو سنبھل کی شاہی مسجد میں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سنبھل کی شاہی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی کے صدر  ظفر علی کو گزشتہ سال نومبر میں مسجد کے متنازعہ سروے کے دوران پھوٹنے والے تشدد کے پیچھے مبینہ مجرمانہ سازش سے متعلق ایک معاملے میں اتوار (23 مارچ) کوگرفتار کیا گیا ہے۔

علی کے قریبی ذرائع – جو خود ایک وکیل ہیں- نے الزام لگایا کہ علی کو 24 نومبر 2024 کے پرتشدد واقعہ  کے ٹھیک چار ماہ بعد  23 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا – تاکہ انہیں لکھنؤ میںجوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہونے اور گواہی دینے سے روکا جا سکے۔ گرفتاری سے قبل علی کو پولیس نے مسلسل دو دن پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔

علی کے بھائی طاہر علی نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس نے انہیںجوڈیشل کمیشن کے سامنے بیان دینے سے روکنے کے لیے گرفتار کیا، جس نے انہیں سمن جاری کیا تھا۔

‘پولیس نہیں چاہتی کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے اپنا بیان دے’

طاہر علی نے کہا، ‘پولیس نہیں چاہتی کہ وہ کمیشن کے سامنے اپنا بیان دیں۔ پولیس نے یہ غیر آئینی فعل انہیں جوڈیشل کمیشن کے سامنے اپیل کرنے سے روکنے کے لیے کیا۔’

ظفر علی کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن بشنوئی نے کہا کہ علی کو ‘مجرمانہ سازش’ کے تحت درج ایف آئی آر کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

سماج وادی پارٹی کے سنبھل کے ایم پی ضیاء الرحمان برق پر اسی ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے واقعے سے چند دن پہلے ایک تقریر کے ذریعے ہجوم کو اکسایا تھا، جس کے فوراً بعد انتظامیہ نے، عدالت کے مقرر کردہ ایڈوکیٹ کمشنر کی قیادت میں، مقامی سول جج کی ہدایت پر مسجد کا عجلت میں سروے کیا تھا۔

ایس پی ایم ایل اے اقبال محمود کے بیٹے سہیل اقبال پر بھی ہجوم کو اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا۔

واضح ہو کہ عدالت نے 19 نومبر 2024 کو کچھ ہندو کارکنوں کی جانب سے دائر درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہنشاہ بابر کے زمانے میں تعمیر کیا گیا اسلامی مذہبی مقام دراصل بھگوان وشنو کے اوتار کلکی کے لیے وقف ایک اہم  ہندو مندر تھا۔

علی کا نام ایف آئی آر میں نہیں تھا اور اب تک انہیں مشتبہ یا ملزم کے طور پر نامزد نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ  نومبر کے واقعے کے ایک دن بعد انہیں پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا، کیوں کہ  انہوں نے عوامی طور پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے پولیس والوں کو ہجوم پر فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ تشدد میں پانچ مسلمان مارے گئے تھے۔

ان کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان پر گولی چلائی، انتظامیہ نے  الزام کی تردید کی اور کہا کہ پولیس نے کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے صرف آنسو گیس، لاٹھی چارج اور ربڑ کی پیلٹ گن کا استعمال کیا۔

اتوار کو جب پولیس انہیں  لے جا رہی تھی ، تب علی نے اپنا باغیانہ رخ برقرار رکھا۔ انہوں  نے کہا کہ انہیں جھوٹا پھنسایا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے ‘پولیس کی پول کھول دی تھی۔’

پولیس کی گاڑی میں لے جانے کے دوران علی نے میڈیا والوں سے کہا، ‘وہی لوگ تھے جنہوں نے ان لڑکوں مارا۔ انہوں نے لڑکوں کو قتل کر دیا۔’

پولیس نے تشدد کے معاملے میں ایم پی برق کے خلاف سازش کے لیے درج کی گئی اصل ایف آئی آر میں فسادات، مہلک ہتھیاروں سے لیس ہو کر دنگا کرنا، رضاکارانہ طور پر سرکاری ملازمین کے عوامی کاموں کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنا، سرکاری ملازم کو ڈیوٹی سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ طاقت کا استعمال کرنا، مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا، شرارت، قانون شکنی اور بی این ایس کی دیگر دفعات کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔

ایف آئی آر میں پبلک پراپرٹی ڈیمیج پریوینشن ایکٹ کی متعلقہ دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ان تمام الزامات میں سات سال سے کم قید کی سزا ہے، جس میں ملزم کو ضمانت مل سکتی ہے۔

ایم پی برق کو جنوری میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا تھا، تاہم، عدالت نے ان کے خلاف ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

علی کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے، سنبھل ضلع کے پولیس سربراہ بشنوئی نے ان کے خلاف بی این ایس کی دو اضافی دفعہ (230 اور 231) کا حوالہ دیا۔ یہ دونوں دفعات کسی کو موت یا عمر قید کی سزا دینے کےساتھ قصوروار ٹھہرانے کے ارادے سے جھوٹے ثبوت دینے یا گھڑنے سے متعلق ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ دونوں دفعات سات سال سے زیادہ کی سزا کا اہتمام کرتے ہیں۔

علی کی گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے اضافی الزامات عائد کیے گئے

علی سے وابستہ ایک وکیل نے کہا کہ چونکہ ایم پی برق کو پہلے ہی اصل ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات کی وجہ سے گرفتاری سے تحفظ حاصل تھا، اس لیے علی کی گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے اضافی الزامات عائد کیے گئے ۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں سیشن جج سے ضمانت لینی ہوگی۔

وکیل نے کہا، ‘برق کو ہائی کورٹ سے راحت مل گئی۔ اس سے معاملےمیں کارروائی کا و ہی سبب بنتا۔ چنانچہ انہوں نے مزید دو دفعات  جوڑ دیں۔’

پولیس نے ابھی تک یہ انکشاف نہیں کیا ہے کہ سازش میں ظفر علی کا مبینہ کردار کیا تھا۔

علی کے ساتھی اس کی گرفتاری سے حیران ہیں۔ وکیل عامر حسین نے کہا کہ علی نے تشدد کے ایک دن بعد پریس کانفرنس کی تھی، اس سے پہلے نہیں، جس میں انہوں نے پولیس پر ہجوم پر فائرنگ کرنے کا الزام لگایا تھا۔

حسین نے کہا، ‘یہ (پریس کانفرنس) انتظامیہ کے مکمل علم میں تھی، جس نے انہیں ایک ہیلمٹ بھی  دستیاب کرایا ۔’

علی کے قریبی ایک اور وکیل نے حیرت کا اظہار کیا کہ پولیس نے علی پر کس بنیاد پر الزام عائد کیا کیونکہ 25 نومبر کے بعد کوئی اضافی تشدد نہیں ہوا۔

علی نے 25 نومبر کومیڈیا سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے پولیس کو فائرنگ کرتے دیکھا۔ علی نے کہا تھا، ‘میں نے دیکھا کہ پولیس گولیاں چلا رہی تھی۔ یہ میرے سامنے ہوا۔ میری موجودگی میں لوگوں کی طرف سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی۔’

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ پولیس اہلکار کے پاس دیسی ہتھیارتھے اور انہوں نے مسجد کے قریب کھڑی ان کی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ  کی اور آگ لگا دی۔ سنبھل پولیس اور انتظامیہ نے ان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں ‘سیاسی طور پر محرک’ اور ‘گمراہ کن’ قرار دیا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)