
پاکستانی فوجی 12 مارچ کو کوئٹہ، پاکستان میں باغیوں کی طرف سے نشانہ بنائے گئے ٹرین سے سکیورٹی فورسز کے ذریعے بچائے گئے متاثرین اور بچے ہوئے افراد کی امداد کے لیے ریلوے سٹیشن پر پہنچے۔ (تصویر: اے پی/پی ٹی آئی)
نئی دہلی: حکام نے بدھ (12 مارچ) کو بتایا کہ جنوب -مغربی پاکستان میں ٹرین میں درجنوں یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا گیا ۔ یہ واقعہ بلوچستان کے شورش زدہ علاقے میں ایک ٹرین پر عسکریت پسندوں کے حملے کے ایک دن بعد پیش آیا۔
منگل (11 مارچ) کو جب بلوچ علیحدگی پسندوں نے حملہ کیا تو سرحدی صوبے میں جعفر ایکسپریس میں 450 کے قریب افراد سفر کر رہے تھے۔ پاکستانی فوج نے رات بھر اس حملے کی جوابی کارروائی کی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان احمد شریف چوہدری نے کہا، ‘آج ہم نے بڑی تعداد میں لوگوں کو رہا کیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں… حتمی آپریشن انتہائی احتیاط سے کیا گیا۔’
چودھری نے کہا کہ 21 یرغمالی اور 33 باغی مارے گئے۔ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کہا کہ اس نے تقریباً 50 یرغمالیوں کو ہلاک کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، ہلاک ہونے والے مسافروں میں سے کئی آف ڈیوٹی فوجی تھے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگتی نے کہا ،’لوگ بھی شہید ہوئے ہیں، تاہم تفصیلات بعد میں بتائیں گے۔’
سینکڑوں یرغمالیوں کو بازیاب کرایا گیا
پاکستانی فوج نے کہا کہ آپریشن اب ختم ہو چکا ہے۔ ایک فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 30 گھنٹے کی کارروائی میں 300 سے زائد یرغمالیوں کو آزاد کرایا گیا ہے۔
یہ حملہ منگل کو اس وقت ہوا جب درجنوں مسلح افراد نے علاقائی دارالحکومت کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا اور فائرنگ کی۔
بی ایل اے کے بندوق برداروں نے تمام مسافروں کو یرغمال بنا لیا اور دھمکی دی کہ اگر علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ کے ارکان کو جیل سے رہا نہ کیا گیا تو وہ انہیں قتل کر دیں گے۔
تاہم، پاکستانی حکومت نے بندوق برداروں کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر دیا اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے آپریشن شروع کیا۔
کچھ یرغمالیوں نے بتایا کہ بی ایل اے کے بندوق برداروں نے مسافروں پر فائرنگ کی۔
ایک یرغمال نے اے ایف پی کو بتایا،؛انہوں نے ہمیں باہر آنے کو کہا اور کہا کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جب تقریباً 185 لوگ باہر آئے تو انہوں نے لوگوں کو چن چن کر گولی مار دی۔’
رہائی پانے والےایک اوریرغمال نے بتایا کہ انہیں سکیورٹی تک پہنچنے کے لیےانہیں کئی گھنٹے تک پہاڑی علاقوں سے ہوکر گزرنا پڑا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا،’مجھے یہ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے کہ ہم کیسے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ یہ واقعی خوفناک تھا۔’
(یہ رپورٹ ڈی ڈبلیو میں شائع ہوئی ہے۔ )
(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
ہولی آ چلی ہے۔ اس کا پتہ تب چلا ، جب ہر طرف سے پولیس افسران اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے نفرت کا کیچڑ اور پتھر پھینکنا شروع کر دیا۔ بچپن سے میں دیکھتا آیا ہوں کہ ہولی بازوں کو رنگ لگانے یا ڈالنے سے خوشی نہیں ملتی۔کیچڑ اور پتھروں سے دوسروں کو زخمی کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ہولی میں جبر کا عنصر اسے دوسرے ہندو تہواروں سے الگ کرتا ہے۔
ہولی کے نام پرہڑدنگ کو جائزسمجھا جاتا ہے۔ ‘برا نہ مانوہولی ہے’ کہہ کر فحاشی اور تشدد کے لیے رعایتیں مانگی جاتی ہیں۔ دوسروں کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہولی کو ایسا موقع سمجھا جاتا رہا ہےجب اپنی جنسی کج روی کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور بدتمیزی اور تشدد کو برداشت کرنے میں نرمی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
ہولی کے اس مزاج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور ان کے حامی اپنی جانی پہچانی مسلم مخالف نفرت کا کیچڑ پھینک رہے ہیں۔ تاہم، اس کے لیے انہیں ہولی کے بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سال بھر، ہر روز کسی نہ کسی بہانے سے اپنی نفرت کے ساتھ حملے کرتے رہتے ہیں۔ یہ حملہ اس وقت شدت اختیار کر جاتا ہے جب کوئی بھی ہندو تہوار قریب آتا ہے۔ رام نومی ہو یا درگا پوجا، شیو راتری ہو یا دیوالی، مسلمانوں پر کسی نہ کسی بہانے لسانی اور جسمانی طور پر حملہ کیا جاتا ہے۔
اب اس معاملے میں ان کے اور سرکاری افسران کے درمیان مقابلہ آرائی ہے۔ سنبھل کے سرکل آفیسر انج چودھری نے کہا ، ‘جمعہ سال میں 52 بار آتا ہے، لیکن ہولی صرف ایک بار آتی ہے۔ جن لوگوں کو ہولی کے رنگوں سے دقت ہے، انہیں گھر کے اندر ہی رہنا چاہیے اور وہیں نماز ادا کرنی چاہیے۔’
یہ بات بغیر کسی تناظر کے کہی گئی۔ ہولی جمعہ کو پڑ رہی ہے۔ اس دن جمعہ کی بڑی نماز دوپہر کو ہوتی ہے۔ کیا سنبھل کے مسلمانوں میں سے کسی نے کہا تھا کہ نماز کے دوران ہولی بند کر دی جائے؟ کیا انتظامیہ سے ایسا کوئی مطالبہ کیا گیا تھا؟
اس کا جواب ہےنہیں۔ پھر ایک سرکاری اہلکار نے بغیر کسی سیاق و سباق کے ایسا بیان کیوں دیا؟
یہ افسرپچھلے دنوں سرکاری افسر سے زیادہ بی جے پی کارکن کی طرح کام کرتے نظر آئے ہیں۔ ہم نے چودھری کو ہی ایک جلوس میں گدا لے کر چلتے دیکھا تھا۔ پولیس افسران کانوڑیوں کے پاؤں دھوتے اور ان پر پھول نچھاور کرتے ہوئے تصویر کھنچواتے ہیں۔ سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ اور پولیس چیف نے گزشتہ دنوں مندروں کی دریافت اور تزئین و آرائش کو اپنا اہم کام بنالیا تھا۔
عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ حکام ایسے مواقع پر امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے کام کریں گے۔ اگر یہ عام وقت ہوتا تو انتظامی یا پولیس افسران ہولی سے پہلے عوامی اپیل کرتے کہ ہولی منانے والے دوسروں کا خیال رکھیں۔ انہیں ان لوگوں پر رنگ نہیں ڈالنا چاہیے، جن کو اس سے مسئلہ ہے۔ جمعہ کی نماز بھی پرامن طریقے سے ہونے دیں۔
اس کے بجائے اب کہا جا رہا ہے کہ ہڑدنگ تو ہو گی۔ جس کو پریشانی ہو وہ گھر میں رہے ۔ لیکن یہ بھی نہیں کہا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان گھرمیں رہیں۔ چودھری نے جمعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور اشارہ کیا کہ مسلمانوں کو ہولی کے رنگ سے اعتراض ہے۔ کچھ لوگوں نے ٹھیک کہا کہ اعتراض دوسروں کو بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ کو رنگوں سے الرجی ہو سکتی ہے، کچھ کو وہ پسند نہیں ہو سکتے۔ ضروری نہیں کہ یہ سب مسلمان ہوں۔ یہ بھی پوچھا کہ جو نہیں چاہتے انہیں رنگ لگانے کی ضد ہی کیوں؟ لیکن اب ایک نئی دلیل دی جا رہی ہے؛ ہولی منانے والوں کو کچھ بھی کرنے کا حق ہے، جنہیں اعتراض ہے، وہ گھر میں رہیں۔
چودھری کے بیان کے بعد قاعدے سے وزیر اعلیٰ کو ان کی تنبیہ کرنی چاہیے تھی۔ وہ نہیں ہونا تھا کیونکہ وزیر اعلیٰ بی جے پی کے ہیں۔ ہم بی جے پی سے ہم آہنگی اور تہذیب و شائستگی کی توقع نہیں کر سکتے۔ تو آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘ہولی سال میں ایک بار آتی ہے، لیکن جمعہ کی نماز ہر جمعہ کو پڑھی جاتی ہے۔ اس لیے جمعہ کی نماز ملتوی کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی یہ نماز پڑھنا چاہے تو گھر پر پڑھ سکتا ہے۔ ان کے لیے مسجد جانا ضروری نہیں ہے۔ یا اگر وہ مسجد جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں رنگوں سے دقت نہیں ہونی چاہیے۔’
وزیر اعلیٰ سے تحریک لےکریا اپنی ہی فرقہ پرستی سے مشتعل ہو کر ایک وزیر نے کہا کہ جو لوگ سفید ٹوپی پہنتے ہیں، انہیں ہولی کے دن ترپال اوڑھ کر جمعہ کی نماز کے لیے گھروں سے باہر نکلنا چاہیے۔ جو لوگ اس دن نماز پڑھنا چاہتے ہیں وہ ایسا کرکے ہی رنگوں سے بچ سکتے ہیں۔ ہولی کھیلنے والے نہیں جانتے کہ ان کا رنگ کہاں تک جائے گا۔ ترپال اوڑھ کر مسلمان اپنے آپ کو ہولی کے رنگوں سے بچا سکتے ہیں۔
آپ ان بیانات کو غور سے پڑھیے اور سنیے۔ ان کا انداز دیکھیے۔ ان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ٹپک رہی ہے۔ ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہ کام کوئی سڑک چلتا آدمی نہیں کر رہا ۔ سرکار کے لوگ کر رہے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ کے لوگ کر رہے ہیں۔ وہ کر رہے ہیں، جنہیں آئین کے حلف کے مطابق تمام شہریوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ لیکن وہ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اگر آپ محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو گھر کے اندر رہنا چاہیے۔
مسلم مخالف گھنونے پن میں مقابلہ کرتے ہوئے بلیا کی بی جے پی ایم ایل اے نے کہا کہ وہاں جو میڈیکل کالج بن رہا ہے اس میں مسلمانوں کے لیے الگ وارڈ بنایا جانا چاہیے۔ ہندو ان کے تھوک سے بچ جائیں گے۔
کیا نفرت کے اس پروپیگنڈے کو برداشت کیا جانا چاہیے؟ کیا یہ صرف باتیں ہیں اور کسی کو ان کے بارے میں برا نہیں لگنا چاہئے جیسا کہ ہولی کے دوران گالیوں کا برا نہیں مانتے ہیں؟ نفرت کے اس پرنالے کو بہنے دینے، بلکہ یا اس کی غلاظت میں نہانے کا ہمیں مزہ آ رہا ہے۔
آدتیہ ناتھ نے ‘انڈیا ٹوڈے’ کے پروگرام میں اپنی نفرت کا اظہار کیا تھا۔ وہاں بیٹھے اشرافیہ نے دانت دکھانے کے علاوہ کیا کیا؟ اس دوران ہم نے کتنے اداریے دیکھے۔ ہم سب نے ان تمام نفرت انگیز بیانات کو جائز تصورات کے طور پر قبول کیا۔ کسی نے نہیں کہا کہ یہ ناقابل برداشت ہے۔
مسلم دشمنی کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے کہ بنگال میں بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر نے دھمکی دی ہے کہ ان کی باری آئی تو تمام مسلم ایم ایل اے کو باہر پھینک دیا جائے گا۔ کیا یہ اداریوں کا موضوع نہیں ہونا چاہیے؟
ہمیں خاموشی سے اس نفرت کو پنپنے نہیں دینا چاہیے۔ نفرت، جس کا اظہار زبان سے ہوتا ہے، اپنے آپ میں تشدد ہے، لیکن اس کے ساتھ اور اس کے بعد براہ راست تشدد ہوتا ہے۔ اس نفرت انگیز پروپیگنڈے کی وجہ سے مسلمان آہستہ آہستہ عوامی مقامات سے دوری اختیار کرنے لگتے ہیں۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ کون سا ہندو اس نفرت پر یقین رکھتا ہے اور کون نہیں۔ تمام جگہیں ان کے لیے غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔
ان کا سمٹنا ہم سب کے لیے باعث شرم ہے۔ لیکن اگر ہم شرمناک چیز کو زیوربنالیں تو ہمیں کون بچا سکتا ہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
بہار کے بودھ گیا میں بودھ راہب بی ٹی ایم سی کے دفتر کے باہر غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال پر۔ (تمام تصویریں: اودھا راہا)
دنیا بھر سے بودھ مت کے پیروکار آل انڈیا بدھسٹ فورم (اے آئی بی ایف ) کی قیادت میں بودھ مت کے مرکز بودھ گیا میں احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں، جہاں گوتم بدھ کو نروان حاصل ہوا تھا۔
بہار کے اس مذہبی قصبے میں گزشتہ ماہ 12 فروری سے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال جاری ہے۔ یہاں ڈاکٹر، زائرین اور سیاح آتے جاتے رہے، لیکن مہابودھی مہاوہار کے گیٹ کے باہر بدھ راہبوں اور راہباؤں کا اپنے حقوق کے لیے یہ مظاہرہ خاموشی سے جاری رہا۔
حال ہی میں بہار پولیس نے آدھی رات کو 25 راہبوں کو حراست میں لیا، جن میں سے زیادہ تر اپواس (روزہ) کر رہے تھے۔ نتیجے کے طور پر، احتجاج کی جگہ کو اب مہابودھی مہاوہار سے دو کلومیٹر آگے دوموہان روڈ پر منتقل کرنا پڑا، جو پٹنہ کو ہائی وے سے جوڑتا ہے۔
اس حوالے سے دنیا بھر میں شدید غصہ دیکھنے کو مل رہاہے، کیوں کہ یہ پیش رفت اچانک لوگوں کے سامنے آئی۔ اس سے قبل احتجاج کرنے والے بدھ راہب اور اعلیٰ عہدے داروں کے درمیان بات چیت جاری تھی،جس سے مظاہرین کو امید تھی کہ شاید سب کچھ صحیح سمت میں جا رہا ہے۔
اس حوالے سے اے آئی بی ایف کے جنرل سکریٹری آکاش لاما نے کہا، ‘ہمیں اپنے احتجاج کا 17 واں دن میڈیکل کالج میں گزارنا پڑا۔’
وہیں، اے آئی بی ایف کے صدر جمبو لاما نے کہا، ‘ہم دراصل امن پسند لوگ ہیں، لیکن اب ہم سڑکوں پر نکل کر یہ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں!’
واضح ہوکہ مہابودھی مہاویر کمپلیکس ، جس کے باہر راہب اور راہبائیں احتجاج کر رہے ہیں، وہاں ایک بودھی درخت ہے۔ یہ نہ صرف ایک تاریخی یا مذہبی یادگار ہے بلکہ بودھ مت کے ماننے والوں کے لیے سب سے زیادہ قابل احترام جگہ بھی ہے۔
مہابودھی کمپلیکس کے اندر موجودہ بودھی درخت چوتھی نسل کا درخت ہے۔ بودھی درخت کو تباہ کرنے کی ماضی میں بہت سی کوششیں کی گئی تھیں،تاکہ اس کی روحانی اہمیت کو ختم کیا جاسکے۔یہ حملے خاص طور پر برہمنوں یا اعلیٰ ذات کے حکمرانوں کی طرف سے کیے گئے۔
مہابودھی مکتی موومنٹ کا بنیادی مقصد بودھ مت کے تقدس کے تحفظ کے لیے بودھ گیا مندر ایکٹ 1949 کو منسوخ کرانا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مہابودھی مہاوہار کے مقدس احاطے صرف بودھ مت کے اختیارمیں رہیں۔
بودھ گیا مندر ایکٹ اور اس کے نتائج
بودھ گیا مندر ایکٹ 1949 ایک ایسا قانون ہے جو غیر بودھوں کو مہابودھی مہاویرمندر کا کنٹرول سنبھالنے کی اجازت دیتا ہے، جو بودھ مت کا سب سے مقدس مقام ہے جہاں سال بھر ہزاروں بین الاقوامی زائرین اورسیاح آتے ہیں۔
اس ایکٹ کے بعد تشکیل دی گئی بودھ گیا مندر مینجمنٹ کمیٹی (بی ٹی ایم سی) میں ہندو اور بودھ دونوں برادریوں کے ارکان شامل تھے، جن میں سے زیادہ تر اعلی ذات کے برہمن تھے۔ کمیٹی کے نو ارکان میں سے صرف چار بودھ ہیں، چار ہندو ہیں، جبکہ چیئرمین، جو گیا ضلع مجسٹریٹ ہیں، وہ بھی ہندو ہیں۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے جمبو لاما نے کہا، ‘پہلے ایک شق تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈی ایم کو ہمیشہ ہندو ہونا چاہیے، لیکن بعد میں 2012 میں اس شق کو ہٹا دیا گیا۔ اس کے باوجود بی ٹی ایم سی میں کمیٹی کے زیادہ تر ارکان غیر بودھ مت کےہیں اور باقی چار بودھ اختیارات کے بغیر محض خانہ پُری کے لیے ہیں۔’
اے آئی بی ایف کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی ‘برہمنی نظام کے اثر ہے’۔ اسے بودھ کی تعلیمات کو زیادہ وسیع اور قابل رسائی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، بجائے اس کےکہ مہاویر کمپلیکس کے اندر غیر بودھ مت کے طریقوں اور رسومات کو مسلط کیا جائے۔ اس سے اس جگہ کے تقدس کی توہین ہوتی ہے اور بودھ مت کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
بدھ راہبوں کی غیرمعینہ بھوک ہڑتال۔
کمیٹی کے مطابق، ان میں سے زیادہ تر رسومات خود بدھا کی تعلیمات سے متصادم ہیں – جیسے متنازعہ شیو لنگم علامتوں کی تنصیب، منتروں کے ساتھ ہندو رسومات ادا کرنا، ہندو دیوتاؤں کی طرح بودھ کی مورتیوں کی پوجا کرنا، ریشمی لباس اور چمکدار رنگوں سے سجانا، مہاتما بدھ کو ایک معلم کے بجائے اوتار کے طور پر پوجا کرنا۔
جمبو لاما کہتے ہیں،’کمیٹی کے اراکین سب کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مہابودھی کمپلیکس کے اندر ہمیشہ سے ایک شیولنگ موجود رہاہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے! 30 سال پہلے بھی ایسی کوئی علامت نہیں تھی، جب 1996 میں جاپانی بدھ راہب سورائی ساسائی یہاں تشریف لائے تھے اور وہ مہابودھی مہاوہار کے بتدریج برہمنائزیشن کی نشاندہی کرنے والے پہلے لوگوں میں شامل تھے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘تاریخی درستگی کے لیے ہم ہندوستان کے بارے میں چینی سیاح اور عالم ہیوین سانگ کی تحریریں بھی پڑھ سکتے ہیں، جب وہ 629 عیسوی میں ہندوستان آئے تھے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ مہابودھی کمپلیکس کے اندر اولوکیتیشورا کی پتھر کی مورتی کے علاوہ کسی اور مذہب کا کوئی نشان نہیں تھا۔’
بودھ کے بارے میں پہلے ہی بہت سے متھ موجود ہیں، جن میں سے ایک مشہور یہ ہے کہ وہ وشنو کے اوتار ہیں، جو بودھ مت کی منفرد شناخت کو چھین لیتا ہے۔ بودھ مت کے ساتھ ہندو نظریات کا یہ اختلاط اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ بودھ کی اصل تعلیمات کو تقریباً فراموش کر دیا گیا ہے۔ اور یہ اتفاقی طور پر نہیں ہوا، یہ کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے۔
بودھ گیا مندر ایکٹ، 1949 کے نفاذ سے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 25، 26، 29 اور 30 ، جو مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، کی مزید خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ہندوستان میں اقلیت ہونے کے باوجود بودھ مت کے پیروکار اپنے مقدس مقامات کے مینجمنٹ کے حق سے محروم ہیں۔
واضح ہو کہ اس تناظر میں قانونی کنٹرول کا مطلب پیسے کا کنٹرول بھی ہے۔
جمبو لاما بتاتے ہیں، ‘یہ کسی فلسفیانہ یا روحانی چیز کے بارے میں نہیں ہے، یہ سب پیسے کے بارے میں ہے۔ اتنے پیسے چندہ خانے میں آتے ہیں اور وہ سب اس سے چپکے رہتے ہیں، کوئی سکیورٹی نہیں، کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔ اگر پیسہ شامل نہ ہوتا تو یہ لوگ بہت پہلے چلے جاتے۔’
تیس ہزار سے زیادہ بودھ مت کے پیروکاروں نے پٹیشن پر دستخط کیے
تیس ہزار سے زیادہ دستخط اور 500 سے زیادہ عالمی بودھ تنظیموں کی حمایت کے ساتھ اے آئی بی ایف نے پہلے ہی بہار حکومت کو ایک میمورنڈم پیش کیاتھا، جس میں بودھ گیا مندر ایکٹ 1949 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
بی ٹی ایم سی ملازمین نے بھی اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مہابودھی مندر پر بودھ مت کے کنٹرول کا مطالبہ کرنے والی یکجہتی کی ایک بین الاقوامی پٹیشن پر 5000 سے زیادہ دستخط ہو چکے ہیں، جس سے یہ عالمی تشویش کا موضوع بن گیا ہے۔
آکاش لاما کہتے ہیں، ‘کچھ لوگ آتے ہیں اور ہماری تصویریں اور انٹرویو لیتے ہیں، لیکن مرکزی دھارے کے میڈیا سے زیادہ نہیں، شاید اس لیے کہ ان سب میں برہمن یا اعلیٰ ذات کے ہندو بڑے عہدوں پر ہیں۔ ابھی تک بہت کم علاقائی بہوجن میڈیا نے ہمیں کور کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ سامعین تک پہنچیں گے اور بودھ گیا میں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں مزید بیداری پھیلائیں گے۔’
آکاش لاما پوچھتے ہیں، ‘ہر مذہب کی اپنی جگہ ہوتی ہے اور اس کے اپنے لوگ اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں، کیا ہم کچھ زیادہ مانگ رہے ہیں؟’
اے آئی بی ایف کے مطالبات کے ساتھ انہوں نے بودھ گیا مہابودھی مہاوہار چیتیہ ٹرسٹ بنانے کی تجویز پیش کی ہے، جس کا مقصد بودھ گیا کے مقدس ورثے کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔
ان کے مطابق، ٹرسٹ کا مینجمنٹ مکمل طور پر بودھ مت کے ماننے والوں کے پاس ہونا چاہیے۔ انتظامیہ، سیکورٹی اور دھمم کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے وہاں صرف بودھ عملے کو ہی تعینات کیا جائے، سخت نظم و ضبط اور بودھ اقدار کی پابندی کو یقینی بنایا جائے اور مہابودھی کے تقدس کا احترام کیا جائے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر نیا ٹرسٹ قائم ہوتا ہے، تو یہ صرف بودھ کی تعلیمات کے لیے وقف مرکز بنائے گا،جس میں راہب کی تربیت، سماجی بہبود کی خدمات، دھمم کی تعلیم اور مراقبہ کے پروگرام شامل ہوں گے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)
شاہی جامع مسجد کی طرف جانے والا راستہ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے بدھ (12 مارچ) کو آخر کار آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو ہدایت دی کہ رمضان کے مہینے میں سنبھل میں واقع مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد کی سفیدی کروائی جائے، جیسا کہ پہلے سے ہی روایت چلی آ رہی ہے۔
قبل ازیں، اے ایس آئی نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مسجد کو سفیدی کی ضرورت نہیں ہے، لیکن وہ عدالت میں اس کی کوئی معقول وجہ بتانے میں ناکام رہا۔ ایسے میں عدالت کی ہدایت کے بعدسنبھل مسجد کی منتظمہ کمیٹی کو راحت ملی ہے، جو 2 مارچ سے شروع ہونے والے رمضان کے لیے عمارت کے بیرونی حصے کی سفیدی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
معلوم ہو کہ اس نئے رنگ و روغن کے اخراجات مسجد کی منتظمہ کمیٹی برداشت کرے گی۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس روہت رنجن اگروال نے کہا، ‘یہ عدالت محسوس کرتی ہے کہ اے ایس آئی کی جانب سے رمضان کے مقدس مہینے میں مسجد کے باہر سفیدی کرنے سے انکار کرنے پر کوئی مناسب جواب نہیں دیا گیا ہے۔ یہ عدالت اے ایس آئی کو یادگار کے ان تمام حصوں کو سفیدی کرنے کی ہدایت کرتی ہے جن میں دراڑیں دکھائی دے رہی ہیں اور انہیں سفیدی کی ضرورت ہے۔’
واضح ہو کہ اے ایس آئی نے معائنہ رپورٹ اور حلف نامے کے توسط سے کہا تھا کہ مسجد کو سفیدی کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے تازہ حلف نامے میں اے ایس آئی نے کہا کہ مسجد کی منتظمہ کمیٹی کئی سالوں سے یادگار کے بیرونی حصے کی سفیدی اور پینٹنگ کر رہی تھی، جس کے نتیجے میں اس پر پینٹ کی کئی تہیں پڑ گئی ہیں۔’
اس کے ساتھ ہی اے ایس آئی نے یہ بھی کہا کہ مسجد کی دیواروں کو پہلے ہی آرائشی لائٹس لٹکانے کے لیے استعمال ہونے والے بھاری کیلوں سے نقصان پہنچا ہے۔
تاہم، اے ایس آئی نے ان باتوں سے پہلو تہی کرلیاجن میں اسے یہ بتانا تھا کہ وہ مسجد کے بیرونی حصے کی سفیدی سے انکار کیوں کر رہا ہے، جبکہ تصویروں سے واضح ہے کہ اسے دوبارہ سفیدی کی ضرورت ہے۔
اس جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے جسٹس اگروال نے کہا، ‘اے ایس آئی کو مسجد کمیٹی کی جانب سے دائر کردہ ملحقہ پر جواب داخل کرنا تھا جس میں متنازعہ عمارت کے بیرونی حصے کی تصویریں دکھائی گئی تھیں، جس کو سفید کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن اب داخل کردہ حلف نامہ میں مذکورہ حقائق کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے کہ اے ایس آئی اس سے انکار کیوں کر رہا ہے۔’
عدالت نے اے ایس آئی کو سفیدی کا کام شروع کرنے اور ایک ہفتے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
جسٹس اگروال نے مزید کہا کہ دیواروں پر اضافی لائٹس لگانے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ اس سے عمارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، مسجد کے بیرونی حصے کو روشن کرنے کے لیے فوکس لائٹس یا ایل ای ڈی لائٹس کی شکل میں بیرونی لائٹس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
قبل ازیں، 27 فروری کو عدالت میں پیش کی گئی اپنی ابتدائی رپورٹ میں اے ایس آئی نے کہا تھا کہ مغلیہ دور کی شاہی جامع مسجد مجموعی طور پر ‘اچھی حالت’ میں ہے اور اسے نئے رنگ و روغن کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ عمارت کے بیرونی حصے کا پینٹ اکھڑ گیا ہے اور کچھ جگہوں پر ‘نقصان کے کچھ نشانات’ بھی نظر آتے ہیں۔
معلوم ہو کہ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں معائنہ کا حکم اس وقت دیا تھا جب مرکزی طور پر محفوظ مسجد کی انتظامی کمیٹی نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ رمضان کے دوران مسجد میں دیکھ بھال، صفائی، سفیدی اور روشنی کے انتظامات سے متعلق کام کی اجازت دی جائے۔
اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں، جس کی ایک کاپی دی وائر کے پاس ہے، کہا تھا کہ مسجد کی انتظامی کمیٹی نے ماضی میں کئی مرمت اور بحالی کے کام کیے ہیں، جس کے نتیجے میں تاریخی عمارت میں ‘ تبدیلیاں’ ہوئی ہیں۔ مسجد کا فرش مکمل طور پر ٹائلوں اور پتھروں سے بدل دیا گیا ہے۔ اے ایس آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسجد کے اندرونی حصوں کو سنہرے، سرخ، سبز اور پیلے رنگ جیسے جلی رنگوں میں تامچینی پینٹ کی موٹی تہوں سے پینٹ کیا گیا ہے، جس سے عمارت کی اصل سطح چھپ گئی ہے۔
اے ایس آئی کی رپورٹ کے جواب میں مسجد کمیٹی نے کہا کہ اس نے اپنی پہلے کی درخواست میں مرمت کے کام کی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ مسجد کمیٹی کی طرف سے صرف آرائشی لائٹس اور سفیدی کی درخواست تھی۔
جامع مسجد جسے اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں ‘اچھی حالت’ میں بتایا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)
مسجد کمیٹی نے کہا، ‘اے ایس آئی کی رپورٹ نے ایک سادہ مسئلے کو مرمت کے کام کی طرف موڑ کر پیچیدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ‘بیرونی لوگوں کے اثر میں کیا گیا ہے’، جس میں ضلع انتظامیہ کے اہلکار بھی شامل ہیں ، جو 27 فروری کو اے ایس آئی کے معائنہ کے دوران غیر مجاز طور پر موجود تھے۔
اے ایس آئی کی رپورٹ میں سفیدی، روشنی اور آرائشی لائٹس کی تنصیب کے مسائل کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ پوری رپورٹ بنیادی طور پر مرمت کے کام کے بارے میں ہے اور کچھ بیرونی وجوہات کی بناء پر وہائٹ واشنگ اور لائٹنگ کے معاملے کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے۔
مسجد کمیٹی نے صرف یہ مطالبہ کیا تھا کہ مسجد کے تمام کونوں سے بیرونی دیواروں، گنبدوں اور میناروں پر وہائٹ واش اور صاف صفائی کاکام کیا جائے جیسا کہ گزشتہ برسوں میں رمضان سے پہلے کیا جاتا رہا ہے۔
مسجد کمیٹی نے کہا کہ مسجد کے اندرونی حصوں میں تامچینی پینٹنگز اور فرش کی مرمت اسے آنے والے سالوں تک محفوظ رکھنے کے لیے کی گئی تھی۔ اصل عمارت میں کسی بھی جگہ پر ‘کسی قسم کی کوئی تبدیلی’ نہیں کی گئی تھی۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی نے اے ایس آئی کی رپورٹ پر کئی اعتراضات اٹھائے۔
عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں مسجد کمیٹی نے کہا کہ رپورٹ میں مذکور متعدد تبدیلیوں اور اضافے کے الزامات مکمل طور پر من گھڑت ہیں۔
مسجد کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ اے ایس آئی نے جان بوجھ کر مسجد کے اہم اور ضروری خدشات کو نظر انداز کیا، جن میں سفیدی، اضافی لائٹس کی تنصیب اور آرائشی لائٹس شامل تھیں۔ ایسے میں رمضان المبارک کا ایک تہائی مہینہ گزر چکا ہے۔
مسجد کمیٹی نے کہا، ‘یہ واضح طور پر ایک اہم اور فوری مسئلہ کو کمزور کرنے کے لیے جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔’
اس سلسلے میں 10 مارچ کو اے ایس آئی نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ اگرچہ عمارت کے بیرونی حصے پر کچھ کرسٹ نظر آرہی ہے، لیکن حتمی فیصلہ اے ایس آئی کے تحفظ اور سائنس ونگ کی مدد سے مناسب سروے کے بعد ہی لیا جاسکتا ہے۔ اے ایس آئی نے اپنی سابقہ پوزیشن کو دہرایا اور کہا کہ اسے کسی سفیدی کی ضرورت نہیں ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )
تصویر: شروتی شرما/ دی وائر ۔
نئی دہلی: دی وائر نے اپنی پچھلی رپورٹ میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس)، نئی دہلی کے ذریعے سرجیکل دستانے کی خریداری میں بے قاعدگیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ وزارت صحت نے پندرہ مہینوں میں ایمس کے ڈائریکٹر کو دو بار خط لکھ کر اعلیٰ شرحوں پر کی جانے والی اس خریداری کے حوالے سے وضاحت طلب کی تھی، لیکن ملک کے اہم میڈیکل انسٹی ٹیوٹ نے وزارت کو جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔
اس رپورٹ میں ایک ایسے واقعہ کا جائزہ لیا گیا ہے، جہاں ایمس کے جئے پرکاش نارائن اپیکس ٹراما سینٹر نے حکومت کو تقریباً 50 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا، ایمس کے ایک سینئر اہلکار پر رشوت مانگنے اور ‘انتقام’کے جذبے سےکام کرنے کے الزام لگے، لیکن اس بار بھی ایمس نے وزارت صحت کے نوٹس کا جواب نہیں دیا۔
یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا، جب انسٹی ٹیوٹ نے لانڈری سروس فرم اسپارکل ایسوسی ایٹ کو ادائیگی میں تاخیر کی، جس کے نتیجے میں ایک طویل قانونی جنگ چلی ، معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ لیکن ایمس کو ہر قدم پر ہار کا سامنا کرنا پڑا، اور آخر کار جنوری 2024 میں، ایمس کو نہ صرف تمام بلوں کی مکمل ادائیگی کرنی پڑی، بلکہ 4629003 روپے کا سود اور عدالتی کارروائی کے اخراجات کے طور پرکمپنی کو 167493 روپے بھی دینے پڑے۔
جب معاملہ پہلے ثالث بنچ کے پاس گیا تو اس نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا اور لکھا کہ ‘ایسا لگتا ہے’ کہ کمپنی کی رقم روکنے کی اصل وجہ ‘انتقام’ کا جذبہ ہے۔ ثالث سریندر ایم متل ٹراما سینٹر کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر امت لٹھوال کا حوالہ دے رہے تھے جنہوں نے اس ادائیگی کو روکنے کا حکم دیا تھا۔
تصویر: شروتی شرما/ دی وائر ۔
غور کریں کہ اسپارکل ایسوسی ایٹ اور ٹراما سینٹر کے درمیان طویل قانونی جنگ کے باوجود یہ فرم اب بھی ایمس میں لانڈری کی خدمات فراہم کر رہی ہے۔
ایمس انتقام کے جذبےسے متاثر تھا؟
قابل ذکر ہے کہ 15 فروری 2016 کو ٹراما سینٹر نےاسپارکل ایسوسی ایٹ کے ساتھ 1 نومبر 2015 سے 31 اکتوبر 2017 کی مدت کے لیے لانڈری کی خدمات کے لیے معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ پہلے ڈیڑھ سال تک ٹھیک چلا ۔ جون 2017 میں، ایمس کے ڈاکٹر امت لٹھوال کو ٹراما سینٹر میں ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد سینٹر نے اپریل 2017 سے اکتوبر 2017 تک اسپارکل ایسوسی ایٹ کے بلوں کی ادائیگی یہ کہتے ہوئے روک دی کہ فرم ٹھیک سے کام نہیں کر رہی ہے اور اس نے معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔
چار (4 ) اگست 2017 کو ٹراما سینٹر نے اسپارکل ایسوسی ایٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ معاہدے کی خلاف ورزی پر اس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
جب ٹراما سینٹر کمپنی کے جواب سے مطمئن نہ ہوا تو ہسپتال نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی تحقیقات کے دوران اسپارکل ایسوسی ایٹ کی خدمات میں بے ضابطگیاں پائیں اور 9 اکتوبر کو دوسرا شو کاز نوٹس جاری کیا۔
کمپنی نے 17 اکتوبر کو اس نوٹس کا جواب دیا، ہسپتال ایک بار پھر سے مطمئن نہیں ہوا اور 26 اکتوبر کو ذاتی سماعت کے بعد، کمیٹی نے اسپارکل ایسوسی ایٹ پر یکم نومبر 2017 سے 5 سال کے لیےایمس کے جاری کردہ ٹینڈرز میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔ اس کے علاوہ کمپنی کی طرف سے جمع کرائی گئی ساڑھے 4 لاکھ روپے کی سکیورٹی ڈپازٹ بھی ضبط کر لی گئی۔
جب اسپارکل ایسوسی ایٹس نے اس کے خلاف ہائی کورٹ کا رخ کیا تو عدالت نے ٹینڈرز میں اس کی شرکت پر پابندی کے فیصلے پر اگلے احکامات تک روک لگا دی اور 25 فروری 2019 کے اپنے حکم میں دونوں فریقوں کو دہلی انٹرنیشنل ثالثی مرکز (ڈی آئی اے سی) سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
اپنے فیصلے میں ڈی آئی اے سی کے ثالث سریندر ایم متل نے ڈاکٹر لٹھوال پر سنگین سوالات اٹھائے۔
بارہ مارچ 2020 کو اپنے فیصلے میں انہوں نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کیس کی ‘جڑ’ وہ ‘ویجیلنس شکایت’ تھی جو اسپارکل ایسوسی ایٹ نے ڈاکٹر لٹھوال کے خلاف 2016 میں دائر کی تھی۔ متل نے مزید کہا کہ ‘اصولوں کی مبینہ عدم تعمیل’ یعنی ٹھیک سے کام نہ کرنے کا دعویٰ ایمس نے ‘بدلہ لینے کے لیے’ کیا گیا تھا۔ متل نے اس بات پر زور دیا کہ ‘معاہدہ 24 مہینوں کے لیے تھا… پہلے 21 مہینوں تک سب کچھ ٹھیک تھا لیکن ڈاکٹر لٹھوال کے ٹراما سینٹر میں شامل ہونے کے بعد… وجہ بتاؤ نوٹس جاری’ہو گیا۔
ثالث نے کہا کہ چونکہ اسپارکل ایسوسی ایٹ نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تھی، اس لیے ان کی خدمات کے لیے 4252505 روپے کی رقم کے ساتھ 15 فیصد سالانہ سود یعنی 4629003 روپے ایمس کے ذریعے فرم کو دیے جائیں گے۔ ثالث نے کمپنی کو 12 فیصد سود کے ساتھ 450000 روپے کی سکیورٹی ڈپازٹ واپس کرنے کی بھی ہدایت کی، ساتھ ہی عدالتی کارروائی کے دوران خرچ ہوئی رقم کے عوض میں ایمس سے بھی کہا کہ وہ کمپنی کو 167493 روپے کی اضافی رقم ادا کرے ۔
ہسپتال کی جانب سے اسپارکل ایسوسی ایٹ کو ٹینڈر میں حصہ لینے سے روکنے کے بارے میں ثالث نے کہا کہ یہ سراسر غیر منصفانہ اور بدنیتی پر مبنی ہے۔
ڈی آئی اے سی کے فیصلے کے بعد ٹراما سینٹر نے ساکیت، دہلی میں ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا۔ ایمس نے عدالت میں دلیل دی کہ انہوں نے اسپارکل ایسوسی ایٹ کی خدمات میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی داخلی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے ان خدمات میں کئی جگہوں پر بے ضابطگیاں پائی تھیں۔ کمیٹی نے سروس میں بے ضابطگیوں اور ایمس کی مشینری کو نقصان پہنچانے کےلیے 1849000 روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
ساکیت عدالت نے اس دلیل کو قبول نہیں کیا اور ڈی آئی اے سی کے فیصلے سے اتفاق کیا اور 18 اپریل 2022 کو ایمس کو ادائیگی کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ ایمس نے اسپارکل ایسوسی ایٹس کو معاہدے کے دوران کسی بھی مشین کے نقصان کے بارے میں مطلع نہیں کیا تھا، اس لیے وہ کوئی جرمانہ نہیں لگا سکتا۔
ساکیت کورٹ میں شکست کے بعد ایمس نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
ایک اگست 2023 کے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے کہا کہ جب تک ثالث کا فیصلہ غیر قانونی نہیں پایا جاتا، اس فیصلے میں کسی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ایمس سپریم کورٹ گیا، جس نے 8 اپریل 2024 کو ہائی کورٹ کے حکم میں مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے درخواست کو خارج کر دیا۔
اس طرح ایمس نے اسپارکل ایسوسی ایٹ کو کل 9331507 روپے ادا کیے۔
اس پورے معاملےکے دوران اسپارکل ایسوسی ایٹ ہسپتال کو لانڈری کی خدمات فراہم کرتا رہا۔
ایمس کے فٹ پاتھ پر لاتعداد مریض اور ان کے رشتہ دار ہفتوں گزار دیتے ہیں۔ (تصویر: وپل کمار/ دی وائر)
ایمس نے رشوت مانگی؟
اس قانونی جنگ کے درمیان ایمس کے ایک اہلکار ڈاکٹر امت لٹھوال کا نام سامنے آیا۔
اسپارکل ایسوسی ایٹ نے ساکیت عدالت کو بتایا تھا کہ لٹھوال نے انتقام کے جذبےکی وجہ سے ان کی ادائیگی روک دی تھی کیونکہ کمپنی نے جنوری 2016 میں ان کے خلاف ‘رشوت’ کا مطالبہ کرنے پر ‘ویجیلنس شکایت’ درج کرائی تھی۔
اسپارکل ایسوسی ایٹ کے مطابق، اس وقت بھی وہ ایمس میں لانڈری کی خدمات فراہم کر رہی تھی۔ فرم نے عدالت میں دلیل دی کہ ‘اس شکایت کا بدلہ لینے کے لیے لٹھوال نے اس کی ادائیگی روک دی اور تحقیقات کا حکم دیا۔’
جب دی وائر نے لٹھوال سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں ان الزامات کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ ‘مجھے اس کا علم اس وقت ہوا جب اسپارکل ایسوسی ایٹ نے عدالت کے سامنے اس کا ذکر کیا’۔
انہوں نے کسی ذاتی دشمنی سے بھی انکار کیا۔ ‘میں نے اسپارکل ایسوسی ایٹ کی خدمات میں بے ضابطگیاں دیکھیں، جس کے بعد میں نے تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کو کہا، جس کے بعد وہی فیصلے کیے گئے جو کمیٹی کی تحقیقات میں سامنے آئے تھے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ میں نے یہ سب کچھ ذاتی دشمنی کی بنا پر کیا۔ مجھے 2016 میں کمپنی کی طرف سے میرے خلاف دائر کی گئی ویجیلنس شکایت کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ مجھے اس شکایت کے بارے میں ثالث کے فیصلے کے بعد معلوم ہوا،‘انہوں نے کہا۔
ثالثی کے فیصلے میں اپنا نام سامنے آنے پر لٹھوال کہتے ہیں، ‘میں نے قواعد کے خلاف کوئی کام نہیں کیا، تمام فیصلے کمیٹی کے مشورے کی بنیاد پر کیے گئے۔’
اسپارکل ایسوسی ایٹ کو ادائیگی روکنے کے الزام پر وہ کہتے ہیں، ‘میں ادائیگی میں تاخیر کا ذمہ دار نہیں تھا۔ ادائیگی کی فائلیں لانڈری سروس کے انچارج افسر کی سطح پر زیر التوا تھیں۔ ہمیں اس کا علم اس وقت ہوا جب فرم نے ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ادائیگی زیر التواء ہے۔ پھر میں نے انچارج افسر کو خط لکھا کہ ادائیگی کو التوا میں رکھنے سے ہمارے لیے قانونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، اس لیے فرم کی خدمت میں کوتاہیوں کے لیے جو بھی رقم کاٹی جائے، اسے کاٹ لیا جائے اور پھر ادائیگی کا عمل شروع کیا جائے۔ ‘
مشینوں کو نقصان پہنچانے پر فرم پر لگائے گئے جرمانے کے بارے میں،؎ وہ کہتے ہیں کہ ایمس نے مشینوں کی مرمت کے لیے تقریباً 10 لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ لٹھوال کہتے ہیں، ‘معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ اگر کوئی مشین خراب ہو جاتی ہے تو فرم کو اس کا خرچہ ادا کرنا پڑے گا۔’
ظاہر ہے یہ کسی ایک ڈاکٹر یا افسر کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر اتنی طویل قانونی لڑائی کے ہر قدم پر ایمس کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے تو سوال ایمس کی انتظامیہ پر ہے۔ لیکن وزارت صحت کی جانب سے ایمس کے ڈائریکٹر کو نوٹس بھیجے کافی وقت ہو گیا ہے، اس پر کوئی کارروائی کرنا تو دور کی بات، انہوں نے اس کا جواب تک نہیں دیا۔
اس نوٹس پر ایمس کے ڈائریکٹر کی خاموشی پر لٹھوال کا کہنا ہے کہ ‘یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے’، اور خود ڈائریکٹر اور ان کے میڈیا ڈپارٹمنٹ نے کئی بار رابطہ کرنے کے بعد بھی کوئی جواب دینے سے انکار کر دیا۔