
سنبھل کے کھگگو سرائے میں ‘دریافت کیے گئے’ مندر کے قریب رہنے والے مسلم خاندان کے مطابق، انتظامیہ ان کے گھر کو گرانا چاہتی ہے، کیونکہ یہ مندر کی پری کرما (طواف) میں رکاوٹ ہے۔ متاثرہ خاندان کے احتجاج کرنے پر پولیس نے گھر کے مالک محمد متین کو 16 جنوری کو گرفتار کر لیا تھا۔

مندر سے متصل مکان (اوپر بائیں)، محمد متین (اوپر دائیں)، جامع مسجد سنبھل (نیچے)
نئی دہلی/سنبھل: سنبھل میں مسلم کمیونٹی کی پریشانیاں ختم ہونے کا نام نہیں لےرہی ہیں ۔ شہر کے مسلم اکثریتی محلے کھگو سرائے میں’سینکڑوں سال پرانے‘مندر کی ‘دریافت’ کے بعد انتظامیہ اس کے قریب رہنے والے ایک مسلم خاندان پر گھر خالی کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
خاندان کے مطابق، ضلع انتظامیہ ان کے گھر کو گرانا چاہتی ہے، کیونکہ یہ گھر ہندو عقیدت مندوں کو مندر کی پری کرما ( طواف) کرنے میں رکاوٹ بن رہاہے۔ مندر کے تین طرف گلیاں ہیں اور چوتھی طرف یعنی مندر کا پچھلا حصہ اس گھر سے متصل ہے۔
اس ڈرے ہوئے خاندان نے اپنے گھر کا ایک حصہ بھی فوراً توڑ دیا، لیکن انتظامیہ اتنے پر راضی نہیں ہے، وہ پورے گھر کو زمین بوس کرنا چاہتی تھی۔ جب یہ خاندان پورے گھر کو گرانے یا چھوڑنے پر راضی نہ ہوا تو پولیس نے گھر کے سربراہ محمد متین کو 16 جنوری کو علاقے میں امن وامان کو متاثرکرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔
تقریباً چالیس سالہ متین گاڑی چلاتے ہیں۔ 24 جنوری کو انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔

اوپری کھڑکی سے منسلک چھجے کو حال ہی میں خاندان نے توڑ دیا۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
مندر کی دریافت
گزشتہ سال 13 دسمبر کو سنبھل ضلع انتظامیہ نے شہر کے کھگگو سرائے محلے میں انسداد تجاوزات مہم کے دوران ‘برسوں سے بند’ پڑے ‘سینکڑوں سال پرانے’ شری کارتک مہادیو مندر (بھسم شنکر مندر) کو ‘دریافت’ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے بعد مندر کو پوجا کے لیے ‘دوبارہ کھول دیا گیا’۔
بتایا جاتا ہے کہ سال 2005 تک، ہندو آبادی مکمل طور پر اس علاقے سے نقل مکانی کر چکی تھی، جس کے بعد مندر میں صرف خاص مواقع پر پوجا کی جاتی تھی۔
مقامی لوگوں کے مطابق، مندر کی دریافت کے بعد پہلے ہفتے میں، ہندوتوا تنظیمیں لوگوں کو جمع کرتی رہیں اور انہیں پوجا کے لیے مندر میں لاتی رہیں۔ لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں نے ایک پجاری کو مقرر کیا ہے، جو مندر کی دیکھ بھال کرتا ہے اور شام کو اپنے گھر لوٹ جاتا ہے۔

مندر سے متصل مسلم خاندان کا گھر (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
محمد متین کی بیوی عظمیٰ پروین نے دی وائر کو بتایا،’مندر ملنے کے بعد ضلع انتظامیہ نے ہم پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے کہا گیا کہ اپنے گھر کی بالکونی کو گرا دیں، کیونکہ یہ ‘مندر کی زمین’ سے نکالا گیا ہے۔ انتظامیہ کے خوف سے ہم نے بالکونی توڑ دی، لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد سنبھل کی سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) وندنا مشرا نے ہمیں اپنے گھر کی دیوار کو توڑنے کو کہا، جو مندر سے متصل ہے۔ جب ہم اس پر راضی نہ ہوئے تو وہ کہنے لگیں کہ اب تمہیں اپنا پورا گھر گرانا پڑے گا۔ اور ہم پر گھر گرانے کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا۔’
‘جب ہم ضلعی انتظامیہ کے بار بار کہنے کے باوجود اپنا مکان گرانے پر راضی نہیں ہوئے تو پولیس نے جمعرات (16 جنوری) کو میرے شوہر کو تھانے بلایا اور پھر گرفتار کر لیا۔ پولیس کہہ رہی ہے کہ انہیں اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے علاقے کا امن خراب کیا اور ہندو عقیدت مندوں کو اس مندر میں پوجا کرنے سے روکتے ہیں،’ عظمیٰ کہتی ہیں۔
‘پولیس نے میرے شوہر کو ڈرانے دھمکانے کے لیے گرفتار کیا ہے تاکہ ہم اپنا گھر گرانے پر راضی ہو جائیں’،عظمیٰ کہتی ہیں۔
نخاسہ پولیس اسٹیشن نے محمد متین کا چالان بی این ایس ایس کی دفعہ 126، 135، 170 کے تحت کاٹا تھا۔ سنبھل کی ایس ڈی ایم وندنا مشرا نے دی وائر سے ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ‘ملزم مندر میں پوجا کرنے آنے والے عقیدت مندوں کو مندر میں داخل ہونے سے روکتے تھے اور انہیں پریشان کرتے تھے۔’
عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نے 2002 میں اپنی کمائی سے اس گھر کے لیے زمین خریدی تھی اور اس زمین کے کاغذات ان کے پاس ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘میرے شوہر کو یہ زمین اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں نہیں ملی، انہوں نے خود خریدی ہے۔’
انہوں نے بتایا کہ محمد متین نے یہ مکان گروی رکھ کر بینک سے قرض بھی لے رکھا ہے۔
‘اس گھر کے علاوہ ہماری کوئی جائیداد نہیں ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ میرے شوہر ڈرائیور ہیں۔ اگر ہم اس گھرکو گرا دیں گے تو کہاں جائیں گے؟’ عظمیٰ رونے لگتی ہیں۔
متین اور عظمیٰ کے تین بچے ہیں۔ سب سے بڑے بچے کی عمر 16 سال اور سب سے چھوٹے کی عمر 10 سال ہے۔

محمد متین
دی وائرنے وندنا مشرا سے خاندان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں سوال کیا، پیغامات بھیجے اور ضلع انتظامیہ کے کئی افسران کو ای میل بھی کیا۔ رپورٹ کی اشاعت تک انتظامیہ کا جواب نہیں آیا ہے۔ جواب موصول ہوتے ہی اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔
تھانہ نخاسہ کے ایس ایچ او نے بھی محمد متین کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ انتظامیہ کی جانب سے متاثرہ خاندان کو ان کا گھر گرانے کی دھمکی دینےکے حوالے سے انہوں نے کہا،’ مجھے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے، میرے تھانے کے اہلکاروں نے ایسی کوئی دھمکی نہیں دی ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ 13 دسمبر کو سنبھل انتظامیہ نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ نخاسہ پولیس اسٹیشن کے تحت آنے والے کھگگو سرائے محلے میں انہوں نے ایک ہندو مندر دریافت کیا ہے۔ ضلع انتظامیہ کے مطابق، 1978 کے فسادات کے بعد اس علاقے سے ہندو آبادی نے نقل مکانی کی تھی اور اس وقت سے مندر بند تھا۔
یہ دعویٰ سنبھل کے باشندوں کے لیے موضوع بحث بن گیا ہے۔ ‘یہ مندر کہاں چلا گیا تھاکہ انہوں نے اسے دریافت کیا؟ مندر برسوں سے وہیں ہے۔ ہندو آبادی کے محلے سے بتدریج نقل مکانی کے بعد، مندر کی دیکھ بھال کرنے یا وہاں پوجا کرنے کے لیے کوئی نہیں بچا تھا، اس لیے مندر کو بند کر دیا گیا تھا،‘ ایک مقامی شخص کا کہنا ہے۔
عظمیٰ کا کہنا ہے کہ اس محلے کے ایک پرانے ہندو خاندان کے پاس اس مندر کی چابی ہے۔ خاص مواقع پر خاندان کا کوئی فرد آتا ہے اور مندر کی صاف صفائی کرتا ہے۔
عظمیٰ کہتی ہیں،’ہمیں اس مندر سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور نہ ہی ہم نے اسے کبھی نقصان پہنچایا۔’
اس واقعہ کو سنبھل میں حالیہ تشدد کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 19 نومبر 2024کو شاہی جامع مسجد کے سروے کے لیے درخواست دائر کی گئی ، اسی دن عدالت نے سروے کی اجازت بھی دے دی اور رات کی تاریکی میں مسجد کا سروے بھی ہو گیا۔ 24 نومبر کو مسجد کے دوسرے سروے کے دوران ہونے والے تشدد میں پانچ افراد مارے گئے، کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس پیش رفت کے بعد جامع مسجد کے قریب ایک ‘ستیہ ورت’ پولیس چوکی تیزی سے تعمیر کی جا رہی ہے ۔ اس طرح اچانک سنبھل غیر مستحکم ہو گیا ہے۔

شاہی جامع مسجد کی طرف جانے والا راستہ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )
جوڈیشل انکوائری کمیشن کو لکھا خط
دریں اثنا 21 جنوری کو عظمیٰ نے سنبھل تشدد کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی تحقیقاتی کمیشن کو ایک خط لکھا ہے، جس میں اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی درخواست کی گئی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ 5 دسمبر 2000 کو متین نے رام سیوک نامی شخص سے ایک خستہ حال مکان خریدا اور اس جگہ پر نیا مکان بنایا اور اب وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ وہاں سکون سے رہ رہی تھیں۔ وہ باقاعدگی سے ہاؤس ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اس مکان پر پنجاب نیشنل بینک، سنبھل برانچ سے قرض بھی لے رکھا ہے۔ اس گھر کے کاغذات پنجاب نیشنل بینک کی سنبھل برانچ میں گروی رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ سنبھل ضلع انتظامیہ پچھلے کچھ دنوں سے ان کے اہل خانہ کو ہراساں کر رہی ہے۔ 7 جنوری کو سنبھل کی سب ڈیویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) ان کے گھر آئیں اور دو دن کے اندر اپنا مکان گرانے کو کہا اور دھمکی دی کہ ‘اگر تم نے اپنا مکان نہیں گرایا تو اسے بلڈوزر کا استعمال کرکے زبردستی گرا دیا جائے گا۔’

سنبھل تشدد کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کو عظمیٰ کا خط (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
انہوں نے مزید لکھا کہ متین کی گرفتاری دباؤ بنانے کے مقصد سے کی گئی اور انتظامی اہلکار اکثر ان کے گھر آکر دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ محمد متین کو ضمانت مل گئی ہے، لیکن ان کے اہل خانہ خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔
مندر ملنے کے بعد مقامی لوگوں کو ایک فائدہ ضرور ہوا ہے۔ دراصل مندر سے ملحقہ علاقے میں میلوں دور تک بجلی کے کھمبے نہیں تھے۔ لوگ بہت دور واقع کھمبوں سے تاریں کھینچتے تھے۔ لیکن مندر ملنے کے فوراً بعد وہاں بجلی کے نئے کھمبے لگا دیے گئے ہیں۔