سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے قریب کنویں کی کھدائی، مقامی لوگوں کا اسے غیر قانونی طور پر ڈھکنے کا دعویٰ: رپورٹ

سنبھل پولیس نے بتایا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کو کنویں کی کھدائی شروع کی ہے۔ یہ کنواں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب ہے۔

سنبھل پولیس نے بتایا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کو کنویں کی کھدائی شروع کی ہے۔ یہ کنواں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب ہے۔

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے باہر تعینات پولیس(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے باہر تعینات پولیس(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

نئی دہلی: سنبھل انتظامیہ نے ضلع ہیڈکوارٹر میں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب مبینہ طور پرایک کنویں کی کھدائی  شروع کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، سنبھل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شریش چندر نے کہا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی  طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کوکنویں  کی کھدائی شروع کی۔

انہوں نے کہا، ‘ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کنویں پر تجاوزات کی گئی تھی اور اسے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ ہم اسے بحال کرنے کے لیے کھدائی کر رہے ہیں۔ مزید تفتیش کے بعد مناسب قانونی کارروائی کی جائے گی۔’

پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق،مقامی لوگوں اور ‘بزرگ  باشندوں’ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کنواں صدیوں سے موجود ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 19 نومبر کو کچھ ہندو کارکنوں کی درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے سنبھل سول جج سینئر ڈویژن نے جلد بازی میں شاہی جامع مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا  ۔ ان کارکنوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں تعمیر ہونے والا یہ اسلامی مقام اصل میں بھگوان وشنو کے کلکی اوتار کے لیے وقف ایک بڑا ہندو مندر تھا۔

عدالت کے حکم کے چند گھنٹوں کے اندر مسجد کا ابتدائی سروے کرنے کے بعد ایڈوکیٹ کمشنر رمیش راگھو کی قیادت میں سروے ٹیم فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کے دوسرے دور کے لیے 24 نومبر کی صبح مسجد پہنچی تھی۔ تاہم اس دن تشدد کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔

شاہی جامع مسجد کے قریب گلیوں میں مسجد کے دوسرے سروے کے دوران ہونے والے تشدد میں کم از کم  چار مسلمان مارے گئے  تھے۔ متاثرہ اہل خانہ نے پولیس پر گولی چلانے کا الزام لگایا ہےجبکہ حکام نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس تشدد میں کئی پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے اور کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

اس کے بعد اتر پردیش حکومت نے 28 نومبر 2024 کو تشدد کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج دیویندر کمار اروڑہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن کے ذریعے  عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا  ۔

دریں اثنا، 12 دسمبر 2024 کو، چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کی قیادت میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے  ہدایت کی  کہ ملک کی عدالتیں دوسرے مذہبی مقامات پر دعویٰ کرنے والا کوئی بھی نیا مقدمہ درج نہ کریں۔ سپریم کورٹ نے عدالتوں کو اگلے نوٹس تک زیر التواء مقدمات میں سروے کی ہدایات سمیت کوئی مؤثر عبوری یا حتمی حکم دینے سے بھی روک دیا تھا۔

عدالت کی یہ ہدایات سنبھل مسجد کے معاملے پر بھی لاگو تھیں۔

پی ٹی آئی نے پولیس افسر چندرا کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں پولیس نے سنبھل تشدد کے سلسلے میں مزید دس لوگوں کو گرفتار کیا، جس کے بعد گرفتاریوں کی کل تعداد 70 ہوگئی۔

غورطلب  ہے کہ بدھ کو کھدائی کا کام سپریم کورٹ کی طرف سے مسجد کے داخلی دروازے کے قریب ایک کنویں پر صورتحال کو برقرار رکھنے کا حکم دینے کے چند ہفتوں بعد ہوا، جو مسجد کے حکام اور ہندو درخواست گزاروں کے درمیان تنازعہ کا موضوع بن گیا ہے۔ مسجد کے ذمہ داران  کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کنویں کے استعمال کی ایک طویل تاریخ ہے، جبکہ ہندو درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ کنواں طویل عرصے سے پوجا کے لیے استعمال کیا جاتا  رہا ہے۔

Next Article

جسٹس بی آر گوئی کو ہرش مندر کا کھلا خط – بے گھر لوگ پیراسائٹس نہیں، مظلوم اور پسماندہ شہری ہیں

جسٹس بی آر گوئی نے حال ہی میں ایک سماعت کے دوران دہلی میں بے گھر افراد کے لیے لفظ ‘پرجیوی’ (پیراسائٹس) کا استعمال کیا تھا۔ ہرش مندر نے خط میں لکھا ہے کہ حقیقی انصاف ہمیشہ ہمدردی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور بے گھر لوگوں کو باوقار زندگی کا حق حاصل ہے۔

جسٹس گوئی کےبے گھر لوگوں کو 'پرجیوی' (پیراسائٹس)کہنے پر ہرش مندر کا خط۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

جسٹس گوئی کےبے گھر لوگوں کو ‘پرجیوی’ (پیراسائٹس)کہنے پر ہرش مندر کا خط۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر نے 15 فروری کو سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گوئی کو کھلا خط لکھا ہے۔ یہ خط جسٹس گوئی کے 12 فروری کو کیے گئے اس تبصرے سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے ایک سماعت کے دوران دہلی میں بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے  ‘پرجیوی’ (پیرا سائٹس)  کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ ہرش مندر کے مطابق جسٹس گوئی کے ذریعے استعمال کیے گئے دو الفاظ ‘پرجیوی’ اور ‘مفت خوری’ نے انہیں یہ خط لکھنے پر مجبور کیا ہے۔

ہرش مندر کا مکمل خط ملاحظہ کریں…

 عزت مآب جسٹس بی آر گوئی،

بے گھر افراد کو پناہ دینے سے متعلق سول  رٹ درخواستوں کی سماعت کے دوران 12 فروری 2025 کو آپ کی طرف سے کیے گئے  تبصروں کا احترام لیکن انتہائی مایوسی کے ساتھ جواب دینے  کے لیے خود کو پابند محسوس کرتا  ہوں ۔

اور چونکہ یہ ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں رہنے والے ہمارے سب سے زیادہ کمزور اور پسماندہ شہریوں کی زندگی (اور ممکنہ موت) سے متعلق ہے، میں اس خط کو عوامی طور پر لکھنے اور شیئر کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔

میرا خط آپ کے ان الفاظ سے متعلق ہے، جب آپ نے کہا تھا؛ ‘مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا، لیکن ان لوگوں کو مرکزی دھارے کا حصہ نہ بنا کر، کیا ہم پیراسائٹس کا ایک طبقہ نہیں تیار کررہے ہیں؟ ریوڑی بانٹنے کی وجہ سے، جب انتخابات کا اعلان ہوتا ہے… لوگ کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ بغیر کوئی کام کیےانہیں مفت راشن مل رہا ہے! کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ انہیں مرکزی دھارے کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ قوم کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکیں؟’ (جیسا کہ پورٹل لائیو لاءنے رپورٹ کیا ہے )۔

میں آپ کے تبصروں میں استعمال ہونے والے دو الفاظ کا خصوصی  طور پر جواب دوں گا۔ ایک ‘پیراسائٹس’ اور دوسرا ‘مفت خوری’۔

سپریم کورٹ آف انڈیا اعلیٰ ترین فورم ہے، جہاں شہری انصاف اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے جا سکتے ہیں

میں اس لیے خط لکھ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ آف انڈیااعلیٰ ترین فورم ہے، جہاں ہندوستان کے شہری انصاف اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے آخری متبادل  کے طور پر جا سکتے ہیں۔ ایسے شہری،جنہیں آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت عزت اور وقار کے ساتھ جینے کے حق سے مسلسل محروم کیا جا رہا ہے، سپریم کورٹ ان کی زندگیوں میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ اور ہم جن شہروں میں رہتے ہیں وہاں کے بے گھر لوگوں کے جینے کے حق کی خلاف ورزی ملک کے دوسرے حصوں میں رہنے والے بے گھر شہریوں کی نسبت زیادہ سفاکی سے کی جاتی ہے۔

میں آپ کو یہ خط کیوں لکھ رہا ہوں  تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے ،آپ نے جس  معاملے کی سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا ہےمیں اس میں ایک  درخواست گزار ہوں۔ میں تاریخی رٹ پٹیشن 196/2001 پی یو سی ایل  بنام  یونین آف انڈیا (جسے خوراک کے حق کا مقدمہ کہا جاتا ہے) کے لیے میں 12 سال تک سپریم کورٹ کا خصوصی کمشنر رہا ہوں، جس کےکمشنر این سی سکسینہ تھے، جس نے بے گھر لوگوں کے لیے پناہ کا سوال اٹھایا تھا۔ میں اس ملک کا شہری ہوں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے جب سے میں مدھیہ پردیش سے واپس آیا ہوں اور دہلی میں رہنے لگا ہوں، تب سے میں نے دہلی اور ملک کے کئی شہروں میں بے گھر عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ میں انہیں بہت قریب سے جانتا ہوں اور انہیں اپنی بہن، بھائی اور بچہ مانتا ہوں۔

سب سے پہلی بات، بے گھر لوگ کون ہیں؟ پرجیوی (پیراسائٹس) ہونا  تو  دور کی بات ہے، وہ شہر کے سب سے زیادہ بے سہارا اور محروم محنت کش لوگ ہیں۔ انہیں حکومت یا لیبر قوانین سے کوئی تحفظ نہیں ملتا اور نہ ہی کوئی یونین ان کی مدد کو آتی ہے۔ وہ ہر صبح کچھ  مخصوص چوراہوں یا کونوں پر جمع ہوتے ہیں، جنہیں  ہم ‘لیبر چوک’ کہتے ہیں۔ ان کے لیے نہ تو سردی  ہوتی ہے نہ گرمی اور نہ بارش۔ یہاں وہ اپنی محنت  کو بیچنے کے لیے کھڑے  ہوتے ہیں، جس کی قیمت وہ خود طے نہیں کر سکتے، جو آئے، جتنا دام لگا جائے۔ ‘لیبر چوک’تاریخ کے غلام بازاروں کی طرح ہی  ہیں۔ انہیں  بہت کم مزدوری  پر بہت مشکل کام کے لیے لے جایا جاتا ہے۔کچھ لوگوں نے بتایا کہ انہیں دور دراز کے کھیتوں میں لے جایا جاتا ہےاور سچ مچ  زنجیروں میں جکڑ کر کام کرنے کے لیےمجبور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بھاری بوجھ ڈھوتے ہیں، ہماری سڑکیں صاف کرتے ہیں، ہمارے گھر اور دفتر بناتے ہیں اور ہماری شادیوں کی تقریبات میں کھانا پکاتے ہیں۔ وہ پرجیوی (پیراسائٹس) تو بالکل نہیں ہیں۔

بے گھر لوگ یقینی طور پر پرجیوی نہیں ہیں

بے گھر مرد  اکثر خاندانی اور نفسیاتی الجھن کے باعث اپنے خاندانوں اور برادریوں سے ہمیشہ کے لیے  الگ  ہو جاتے ہیں ، اور ناامیدی کے اس احساس سے دوچار ہو جاتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کبھی بہتری نہیں آئے گی۔ تقریباً تمام معاملات میں بے گھر خواتین کے خلاف مسلسل وحشیانہ گھریلو تشدد نے انہیں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسی محفوظ جگہ نہیں ہے جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ واپس جا سکیں ، ایس میں ان کے پاس واحد آپشن سڑکوں کو اپنا گھر بنانا ہوتا ہے۔ اکیلے بے گھر بچے اپنے خاندانوں  کے اندر ہونے والی سفاکی ، بدسلوکی اور غیر مہذب فعل  کے علاوہ  اکثر شرابی باپ یا سوتیلے باپ کے تشدد کی وجہ سے  گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ سڑکوں پر اپنی ماؤں کے ساتھ رہنے والے زیادہ تر بچے وہ ہیں جو سڑکوں پر اکیلی عورتوں کی بار بار کی عصمت دری سے پیدا ہوئے ہیں۔ جناب، وہ یقیناً پیراسائٹس نہیں ہیں۔

اب میں اس الزام کی جانب آتا ہوں کہ ہم عدالت میں اپنی درخواستوں میں بے گھر افراد کے لیے جو چاہتے ہیں وہ ‘ریوڑی’ہے۔ 2010-11 کے موسم سرما میں صحت مند بے گھر افراد کے مرنے کی عام لیکن افسوسناک خبریں ہی  تھیں، جس نےپی یو سی ایل کیس میں سپریم کورٹ کے کمشنر کے طور پر ڈاکٹر سکسینہ اور مجھےان کی  زندگی کے حق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر مجبور کیا ۔

جسٹس دلویر بھنڈاری اور جسٹس دیپک گپتا نے جنوری 2012 کو کئی  فیصلوں میں جنہیں  اب عالمی سطح پر غیرمعمولی  کہا جاتا ہے ، کہا،’ریاست کے لیے سب سے زیادہ کمزور ، غریب اور لاچار لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ہے۔بے گھر لوگ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی ہر وقت خطرے میں گھری رہتی ہے اور خاص طور پر شمالی ہندوستان میں شدید سردی میں ان کی زندگی زیادہ خطرناک ہوتی ہے (ان سطور کو میرا بیان سمجھنا چاہیے)۔’ انہوں نےفیصلہ سنایاکہ ‘ریاست کو کمزور اور بے گھر لوگوں کے لیے رات کی پناہ گاہیں فراہم کر کے آئین کے آرٹیکل 21 کی تعمیل کرنے کے لیے اپنی بنیادی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہیے۔’

یہ فیصلہ، جو اخلاقی اور آئینی طور پر بہت اہمیت کا حامل تھا، اس کے نتیجے میں ملک بھر میں 2000 سے زیادہ شیلٹر ہوم بنائے گئے۔ اگرچہ یہ تعداد سپریم کورٹ کے حکم سے کئی گنا کم تھی ، لیکن اس نے ہمیں امید دلائی کہ بے گھر لوگوں کے لیے باوقار زندگی کو یقینی بنانے کے لیے، بہت تاخیر کے باوجود، ملک کی طرف سے اٹھایا جانے والا یہ پہلا قدم  ہے۔

تاہم ، ملک کے بیشتر حصوں میں اس فیصلہ کے بعد بننے والے شیلٹر ہوم حفظان صحت اور وقار کی بنیادی شرائط پر عمل نہیں کرتے تھے اور یہ ٹین  کے شیڈاور عارضی ڈھانچے کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے اکثر وکٹورین انگلینڈ کے ‘غریبوں کے گھروں’ کی یاد آتی تھی ، جہاں رات کو زندہ لاشیں ٹھونس دی  جاتی تھیں اور دن میں نکال لی جاتی تھیں ، صرف اس لیے کہ سردی کی وجہ سے ان کی موت نہ ہوجائے۔

باوقار زندگی کے لیے پناہ گاہ کافی نہیں ہے

یقیناً جمہوری ہندوستان بہتر کام کر سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد برسوں تک ، پہلے پی یو سی ایل کیس میں ایک کمشنر کی حیثیت سے ، اور پھر آپ کے سامنے زیر سماعت کیس میں درخواست گزار کے طور پر ، ہم نے یہ دلیل دینے کی کوشش کی کہ بے گھر لوگوں کے لیے عزت کے ساتھ رہنے کے لیے صرف پناہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں مزید پناہ گاہوں کی ضرورت ہے ، انہیں انسانی وقار کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے ، بے گھر افراد کو ووٹر شناختی کارڈ اور راشن کارڈ ملنا چاہیے ، خواتین کے لیے محفوظ مقامات اور کام کرنے والی خواتین کے لیے ہاسٹل کی ضرورت ہے ، مردوں اور عورتوں کے لیےمہذب کام کے مواقع کی ضرورت ہے ،کفایتی غذائیت سے بھرپور خوراک ضروری ہے ، اور چونکہ ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بے گھر افرادکو  ہر طرح  کی صحت خدمات سے محروم رکھا جاتاہے، کیاہر بے گھرشیلٹر ہوم کو سب ہیلتھ سینٹر کے طور پر تیار کیا جاسکتا ہےجہاں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اپنی خدمات دیں ۔

جناب، یہ وہ ‘ریوڑی’ ہے جن کی  ہم برسوں سے سپریم کورٹ آف انڈیا سے مطالبہ کر رہے ہیں ، پہلے پی یو سی ایل کیس میں کمشنر کے طور پر ، اور پھر موجودہ معاملے میں اس معاملہ کے بند ہونے کے بعد ۔ افسوس کی بات ہے کہ ان  برسوں میں  ہماری کوششوں کو زیادہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ وقتاً فوقتاً ریاستی حکومتوں کو نوٹس بھیجے جاتے ہیں ، وہ عدالتوں میں جاتی ہیں اور زمینی سطح پر بے گھر لوگوں کے لیے اپنی حکومتوں کی طرف سے کیے گئے تمام کاموں کی انتہائی  تعریفی تفصیلات دیتی ہیں ، لیکن زیادہ تر معاملات میں یہ حقائق سے بہت دور ہیں۔ ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بے گھر افراد کے مرنے کے امکانات ان لوگوں کے مقابلے میں پانچ سے دس گنا زیادہ ہوتے ہیں جن کے پاس گھر ہے ، اور یہ خطرہ گرمی اور مانسون اور خاص طور پر سردیوں کے دوران اور بڑھ جاتا ہے۔ ہم نے یونیورسٹی کالج آف لندن کے تعاون سے پتہ لگایا ہے کہ دہلی میں یمنا کے کنارے رہنے والے اکیلے بے گھر مردوں میں علاج نہ ہونے والی ٹی بی کی سب سے زیادہ سطح ہے جو یونیورسٹی کالج آف لندن نے دنیا میں کہیں بھی پائی ہے۔

معاملہ اس وقت اور بھی سنگین ہو گیا جب دہلی حکومت نے فروری اور مارچ 2023 میں سرائے کالے خان اور یمنا پشتہ میں نو بے گھر پناہ گاہوں کو منہدم کر دیا ۔ یہ پی یو سی ایل کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کے لیے بنائے گئے شیلٹر ہوم تھے۔ ایک دہائی بعد بے گھروں کو مطلع کیے بغیر ،جب لوگ  رات کو سو رہے تھے، ، ان پناہ گاہوں کو مسمار کر دیا گیا، اور انہیں دوبارہ بے گھر کر دیا گیا۔ ان پناہ گاہوں کو جی20 سربراہی اجلاس کے مندوبین کے لیےندی  کے کنارے ریور فرنٹ بانس کے باغیچہ کی تعمیر کے لیے مسمار کیا گیا تھا ، جس کو ممکنہ طور پر ہانگ کانگ کے واٹر فرنٹ پرومینیڈ کی طرز پر بنایاجانا تھا۔ ہم انہدام پر فوری روک لگانے کے لیے سپریم کورٹ گئے ؛ ہم مزید انہدام پر روک لگانے میں کامیاب رہے ، لیکن دہلی حکومت نے مزید پناہ گاہیں خالی کرا  دیں۔ کہاں تو ہم ‘ریوڑی’ کا مطالبہ کر رہے تھے، جسے  میں نے پہلے درج کیا تھا ، ہماری عرضی اب دہلی میں رہ جانے والے ان چند شیلٹر ہوم کی حفاظت اور اس تقریباً ہاری ہوئی جنگ سے لڑنے تک محدود ہو گئی ہے۔

بے گھر لوگ مظلوم اورمحنت کش ہم وطن ہیں

میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ ہماری بے گھر بہنیں ، بھائی اور بچے بالکل بھی ‘پیراسائٹس’ نہیں ہیں۔ وہ ہمارے سب سے زیادہ ستائے ہوئے محنت کش ہم وطن ہیں –ریاست اور معاشرے کے ہاتھوں بے گھر اور بے آسرا لوگ جن کی  کسی کو  پرواہ نہیں ہے۔ ہر روز بے گھر لوگوں سے گزرے بغیر کسی بھی ہندوستانی شہر میں رہنا ، کام کرنا اور سفر کرنا ناممکن ہے۔ اس کے باوجود ہمارے پاس ان بے گھر رہائشیوں کے لیے پناہ ، خوراک ، کام اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی قومی پروگرام نہیں ہے۔ سینکڑوں سال  سے جاری ذات پات اور صنفی جبر نے ہمیں اجتماعی طور پر بے حس بنا دیا ہے۔ ہمارے شہروں اور قصبوں میں بے گھر افراد کے ساتھ ریاست اور عوام کا سلوک ہماری غیر معمولی ثقافتی بے حسی  کی سب سے طاقتور علامت ہے ۔ ہم شدید مصائب اور ناانصافی دیکھتے ہیں، لیکن آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

جناب ، مجھے یقین ہے کہ حقیقی انصاف ہمیشہ عوامی ہمدردی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے بے گھر لوگوں کے باوقار زندگی کے حق کے لیےاپنی  جمہوریہ میں انصاف کو یقینی بنانے والے اعلیٰ ترین ادارہ ، یعنی آپ سےرجوع کیا ۔ مجھے آج بھی امید ہے کہ آزادی کے 78 سال بعد، سپریم کورٹ آف انڈیا عاجزی اور ذمہ داری کے ساتھ ہر اس بچے، عورت اور مرد کے حقوق کا تحفظ کرے گی جو پتھریلی سڑک پر کھلے آسمان کے نیچے اپنی راتیں گزارنے کو مجبور ہیں۔

نیک خواہشات کے ساتھ ،

ہرش مندر

Next Article

اترپردیش: کشی نگر کے بعد اب گورکھپور میں مسجد کو منہدم کرنے کا فرمان

گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے شہر کے میواتی پور محلہ میں واقع مسجد کو یہ الزام لگاتے ہوئے منہدم کرنے کا فرمان جاری کیا ہے کہ یہ نقشہ منظور کرائے بغیر تعمیر کی گئی تھی۔ تاہم، مسجد فریق کے وکیل  کا کہنا ہے کہ محکمہ شہری ترقی کی ہدایت  کے لحاظ سے 100 مربع میٹر تک کی اراضی پر تعمیرات کے لیے نقشے کی ضرورت نہیں ہے۔

گورکھپور کے میواتی پور محلے میں واقع مسجد۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ/جی ڈی اے)

گورکھپور کے میواتی پور محلے میں واقع مسجد۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ/جی ڈی اے)

گورکھپور: گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) نےیہ الزام لگاتے ہوئے گورکھپور شہر کے میواتی پور محلے میں واقع  مسجد کو منہدم کرنے کا حکم جاری کیا ہے کہ اسے نقشہ منظور کرائے بغیر تعمیر کیا گیا تھا۔ جی ڈی اے نے 15 فروری کو جاری کردہ ایک حکم نامے میں مسجد کو غیر قانونی تعمیر قرار دیتے ہوئے مسجد فریق کے  شعیب احمد کو 15 دن کے اندر مسجد کو خود گرانے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اگر وہ خود تعمیرات  کو منہدم نہیں کریں  گے تو جی ڈی اے کی جانب سے اس کوگرانے کے اخراجات وصول کیے جائیں گے۔

جی ڈی اے کے اس مسماری کے حکم کی کاپی بھی مسجد پر چسپاں کی گئی ہے۔ دوسری جانب مسجد فریق کے شعیب احمد نے حکم کے خلاف اتھارٹی کے چیئرمین کمشنر کے یہاں اپیل داخل کی ہے جس کی سماعت 25 فروری کو ہو نی ہے۔

جس مسجد کو منہدم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ایک سال قبل تعمیر کی گئی تھی۔ جس جگہ یہ مسجد بنائی گئی ہے، اس کے پاس  بہت پرانی مسجد تھی جسے گورکھپور میونسپل کارپوریشن نے 25 جنوری 2024 کو اس جگہ پر موجود کئی گھروں  اور دکانوں کے ساتھ منہدم کر دیا تھا۔ بعد میں میونسپل کارپوریشن اور مسجد فریق کے درمیان باہمی معاہدے کی بنیاد پر میونسپل کارپوریشن نے 24×26 مربع فٹ زمین دستیاب  کرائی تھی جس پر موجودہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔

مسجد کے متولی سہیل احمد ہوا کرتے تھے جن کا جولائی 2024 میں انتقال ہو گیا، اب ان کی جگہ ان کے بیٹے شعیب احمد مسجد کا انتظام دیکھ رہے ہیں۔

شعیب احمد نےبتایا کہ ان کے وکیل جئے پرکاش نارائن سریواستو نے اتھارٹی کے چیئرمین/کمشنر کے پاس اپیل دائر کی ہے جس کی سماعت 18 فروری کو ہونی تھی، لیکن اس دن سماعت نہیں ہو سکی۔ اب اگلی تاریخ 25 فروری مقرر کی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گھوش کمپنی چوک کے قریب میواتی پور میں ابوہریرہ نام کی بہت پرانی مسجد تھی جس کے متولی ان کے والد تھے۔ میواتی پور میں کافی  پرانا اصطبل اور گاڑی خانہ تھا جس کے عین وسط میں مسجد تھی۔ 1963 میں دیوانی کورٹ میں مقدمہ شیخ پھنابنام میونسپل بورڈداخل ہوا۔ چار سال بعد 19 اپریل 1967 کو شیخ پھنا وغیرہ  اور میونسپل بورڈ کے درمیان مسجد میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کا صلح نامہ ہوا۔ دیوانی کورٹ نے 26.04.67 کو صلح نامہ منظور کیا۔

اس کے بعد گزشتہ سال میونسپل کارپوریشن نے مسجد اور اس کے اردگرد کی زمین پر اپنا دعویٰ کیا۔ 24 جنوری 2024 کو میونسپل کارپوریشن نے مسجد کے ارد گرد تقریباً 46 ڈیسیمل رقبے پر تعمیر کیے گئے 16 مکانات اور 31 دکانوں کو مسمار کر دیا اور اب یہاں ملٹی لیول  پارکنگ اور کمپلیکس تعمیر کرا رہا ہے۔

شعیب کے مطابق، اس وقت دن میں مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا لیکن آدھی رات کو مسجد کو بھی گرا دیا گیا حالانکہ دیوانی کورٹ کے حکم کے مطابق مسجد کو قانونی طور پر نہیں گرایا جا سکتا تھا۔ اس بارے میں ان کے والد نے میونسپل کارپوریشن کو پوری با ت سے آگاہ کیا تو میونسپل کارپوریشن نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے 27 فروری 2024 کو اپنے چھٹے اجلاس میں ایک قرارداد پاس کی اور مسجد کی تعمیر کے لیے زمین کے جنوب مغربی کونے پر 24بائی26 فٹ زمین الاٹ کی۔

اس کے بعد ان کے والد نے اپنی نگرانی میں اور لوگوں کی مدد سے مسجد کی گراؤنڈ فلور، پہلی منزل اور دوسری منزل تعمیر کروائی، جس میں اس وقت سے نمازادا کی جاتی  ہے۔

پھر ملا نوٹس

اس معاملے میں نیا موڑ اس وقت آیا جب گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے سہیل احمد کو 16 مئی 2024 کو نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اتر پردیش ٹاؤن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ 14 اور 15 کے مطابق اتھارٹی سے منظوری حاصل کیے بغیراورنقشہ منظور کرائے بغیرگراؤنڈ فلور بنالیا گیا ہے اور دوسری منزل کی شٹرنگ کا کام کیا جا رہا ہے۔

تب جی ڈی اے نے 30 مئی 2024 تک جواب دینے کو کہا۔

شعیب احمد نےبتایا کہ 16 مئی 2024 کے نوٹس کا تفصیلی جواب ان کے والد سہیل احمد نے 09.6.2024 کو ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سامنے جمع کرایا تھا۔ اس کے بعد جی ڈی اے نے جمع کرائے گئے جواب میں فارم کی قانونی  اور مصدقہ کاپیاں جمع کرانے کو کہا۔ اسی دوران ان کے والد کا 12 جولائی 2024 کو انتقال ہو گیا۔ ‘میں نے11 ستمبر کو جی ڈی اے کودیوانی کورٹ کی ڈگری، والد کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور میونسپل بورڈ کی جانب سے پاس کردہ قرارداد کی ایک کاپی ج جمع کرائی۔ 5 فروری 2025 کا نوٹس 13 فروری کو موصول ہوا، 14 فروری کو اعتراضات دائر کیے گئے اور جواب دینے کے لیے وقت مانگا گیا، لیکن وقت نہ دے کر اگلے ہی دن 15 فروری کو مسماری  کا حکم دے دیا گیا،’ انہوں نے بتایا۔

جی ڈی اے کی جانب سے 15 فروری کو جاری کیے گئے انہدام کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ‘ریجنل جونیئر انجینئر کی جانب سے سائٹ کے معائنے کے دوران معلوم ہوا کہ 60 مربع میٹر کے رقبے میں گراؤنڈ فلور اور پہلی منزل  کی تعمیر کرتے ہوئے فی الحال دوسری منزل کی شٹرنگ کا کام کیا جا رہا ہے۔ کوئی منظور شدہ نقشہ نہیں دکھایا گیا۔ مذکورہ تعمیر کے خلاف ریجنل جونیئر انجینئر کے ذریعےاتر پردیش ٹاؤن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 کی متعلقہ دفعات کے تحت 15.05.2024 کو پریزائیڈنگ آفیسر کے سامنے چالان پیش کیا گیا۔ اس چالانی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے تعمیرات کے خلاف مقدمہ نمبر-جی آر ڈی اے/اے این آئی 2024/0001624درج کیا گیا اور تعمیر کرنے والوں کووجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا جس میں انہیں 30.05.2024 کو دفتر میں پیش ہوکر اپنی بات کہنے کا موقع دیا گیا۔’

نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ فریق شعیب احمد مقررہ تاریخ پر پیش نہیں ہوئے جس پر دوبارہ سماعت کے لیے 04.02.2025 اور 15.02.2025 کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے نیا نوٹس جاری کیا گیا۔ لیکن فریق نے اس کی تعمیر کے بارے میں شنوائی  میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ نہ تو وہ پیش ہوئے اور نہ ہی غیر مجاز تعمیر کا منظور شدہ نقشہ /ریکارڈ پیش کیاگیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ریجنل جونیئر انجینئر کی جانب سے کی گئی چالانی  رپورٹ میں غیر قانونی تعمیرات ظاہر کی گئی ہیں اور چونکہ تعمیرات کا کوئی نقشہ منظور نہیں کیا گیا تھا، اس لیے تعمیرات غیر قانونی ہیں، جس کے خلاف مسماری کا حکم نامہ پاس کرنا ضابطےکے مطابق ہے۔’

اس کے مطابق، ‘اب شعیب احمد کو حکم دیا جاتاہے کہ  مذکورہ غیر قانونی تعمیرات کو اس حکم نامے کے 15 دن کے اندر گرادیں، بصورت دیگر مقررہ مدت کے بعد اگر مذکورہ غیر قانونی تعمیرات اتھارٹی کی جانب سے گرائی جاتی ہے تو مسماری میں آنے والے اخراجات لینڈ ریونیو کی طرح غیر قانونی بلڈر مسٹر شعیب احمد سےوصول کیے جائیں گے۔’

جی ڈی اے کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سہیل احمد 16 مئی 2024 اور اس کے بعد 4 فروری 2025 اور 15 فروری 2025 کی سماعت کی تاریخوں میں پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی منظور شدہ نقشہ، ریکارڈ جمع کرایا جبکہ مسجد کے فریق کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہر نوٹس کا جواب دیا ہے۔

شعیب احمد کے وکیل جئے پرکاش نارائن سریواستو نے کہا کہ مسجد کی اراضی سے متعلق کوئی سوال نہیں ہے۔ جی ڈی اے نے نقشے کی بنیاد پر مسمار ی کا حکم دیا ہے جبکہ محکمہ شہری ترقی کے سال 2008 کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 100 مربع میٹر تک کی اراضی پر تعمیرات کے لیے نقشے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسجد صرف 24 بائی 26 مربع فٹ پر بنائی گئی ہے۔لہذا اس کے لیے کسی نقشے کی ضرورت نہیں۔

شعیب احمد نے بتایا کہ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے دی گئی زمین پر مسجد بنانے سے پہلے ان کے والد نے جی ڈی اے سے نقشہ تیار کرانے کے لیے معلومات مانگی تھیں، انھیں بھی  وہاں یہ بتایا گیا تھا کہ اتنی چھوٹی زمین پر تعمیر کے لیے نقشے کی ضرورت نہیں ہے۔

کانگریس کے سابق  ریاستی نائب صدر وشو وجئے سنگھ نے 20 فروری کو میواتی پور کا دورہ کیا اور مسجد کے منتظمین سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ گورکھپور کی حکومت اور انتظامیہ متعصب  سیاست سے متاثر ہو کر فیصلے لے رہی ہے۔ ایک سال قبل غیر قانونی طریقے سے پرانی مسجد کو  مسمار کر دیا گیا۔ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے زمین دینے کے بعد جب دوبارہ مسجد بنائی گئی تو اب نقشے کی بات اٹھاکر اسے گرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حکومت سماج کو تقسیم کرنے کے لیے ایسا کام کر رہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گورکھپور سے متصل کشی نگر ضلع کے ہاٹا میں واقع مدنی مسجد کو 9 فروری کو غیر قانونی قبضے اور نقشے کے برعکس تعمیرات کے الزام میں منہدم کر دیا گیا تھا ۔ اس معاملے میں، سپریم کورٹ نے 17 فروری کو کشی نگر کے ضلع مجسٹریٹ کے خلاف عدالت عظمیٰ کے نومبر 2024 کے ایک فیصلے کی خلاف ورزی کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے ۔

معلوم ہو کہ سپریم کورٹ نے نومبر 2024 کے اپنے فیصلے میں ملک بھر میں بغیر پیشگی اطلاع کے بلڈوزر چلانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

(منوج سنگھ گورکھپور نیوز لائن ویب سائٹ کے ایڈیٹر ہیں۔)

Next Article

ای ڈی نے مبینہ فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے لیے بی بی سی انڈیا پر 3.44 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا

فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ (ایف ای ایم اے) کے تحت مبینہ غیر ملکی زرمبادلہ کی خلاف ورزی کے لیے بی بی سی انڈیا کے خلاف معاملہ  درج کرنے کے دو سال بعد ای ڈی نےاس پر 3.44 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ اس کے ساتھ ہی بی بی سی کے تین ڈائریکٹروں پر 1.14 کروڑ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

(تصویربہ شکریہ: Tim Loudon/Flickr, CC BY 2.0)

(تصویربہ شکریہ: Tim Loudon/Flickr, CC BY 2.0)

نئی دہلی: فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ (ایف ای ایم اے) کے تحت مبینہ غیر ملکی زر مبادلہ کی خلاف ورزی کے لیے برٹش براڈکاسٹنگ کمپنی (بی بی سی) انڈیا کے خلاف معاملہ  درج کرنے کے دو سال بعد انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے جمعہ کو ایک فیصلہ جاری کرتے ہوئے براڈکاسٹر پر 3.44 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ ایجنسی نے بی بی سی کے تین ڈائریکٹروں  پر 1.14 کروڑ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

معلوم ہو کہ ای ڈی نے فروری 2023 میں نئی دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے احاطوں میں محکمہ انکم ٹیکس کے سروے کے بعد معاملہ  درج کیا تھا ، جس میں مبینہ طور پر ٹرانسفر پرائسنگ کے قوانین کی ‘عدم تعمیل’ اور منافع کی منتقلی کا الزام لگایا گیا تھا۔

واضح ہو کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ہندوستان میں کام کرنے والی ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز کے لیے 26 فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی حد نافذ کر دی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بی بی سی کے ترجمان نے کہا، ‘بی بی سی ان تمام ممالک کے قوانین کے تحت کام کرنے کے لیے پرعزم ہے جہاں ہم موجود ہیں،جس میں  ہندوستان بھی شامل ہے۔ اس مرحلے پر نہ تو بی بی سی ورلڈ سروس انڈیا اور نہ ہی اس کے ڈائریکٹروں  کو ای ڈی کی جانب  سے کوئی عدالتی فیصلہ موصول ہوا ہے۔’

ترجمان نے کہا: ‘کسی بھی فیصلہ کے  موصول ہونے پر ہم اس کا بغور جائزہ لیں گے اور اگلے اقدامات پر غور کریں گے۔’

ای ڈی کی جانب سے لگائے گئے جرمانے پر ایک اہلکار نے کہا، ‘بی بی سی ڈبلیو ایس انڈیا پر 34448850 روپے کا جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ 15 اکتوبر 2021 سے تعمیل کی تاریخ تک ہر دن کے لیے 5000 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، تین ڈائریکٹروں – جائلز انٹنی ہنٹ، اندو شیکھر سنہا اور پال مائیکل گبنس – کو خلاف ورزی کی مدت کے دوران کمپنی کے آپریشن کی نگرانی میں ان کے کردار کے لیے 11482950 روپے کا جرمانہ  عائدکیا گیا ہے۔

اہلکار نے کہا،’ خلاف ورزی کے لیے  بی بی سی ڈبلیو ایس انڈیا، اس کے تین ڈائریکٹرز اور مالیاتی سربراہ کو پر 4 اگست 2023 کووجہ بتاؤ نوٹس جاری کیے جانے کے بعد عدالتی کارروائی شروع کی گئی۔’

مبینہ خلاف ورزیوں پر اہلکار نے کہا، ’18 ستمبر 2019 کوڈی پی آئی آئی ٹی نے ایک پریس نوٹ جاری کیا، جس میں حکومت کی منظوری کے راستے ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ایف ڈی آئی  کی حد 26 فیصد مقرر کی گئی۔ تاہم، بی بی سی ڈبلیو ایس انڈیا، جو ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے خبروں اور حالاتِ حاضرہ کو اپ لوڈ/اسٹریمنگ کرنے والی 100 فیصد ایف ڈی آئی کمپنی ہے، نے اپنی ایف ڈی آئی کو 26 فیصد تک کم نہیں کیا اور اسے حکومت کے جاری کردہ قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 100 فیصد پر ہی رکھا۔’

بتادیں کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی یہ کارروائی 17 جنوری 2023 کو 2002 کے گجرات فسادات پر برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘  نامی دستاویزی فلم جاری کرنے کے بعد ہوئی ہے ۔

فروری 2023 میں تین روزہ سروے کے بعد انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ اسے ‘ٹرانسفر پرائسنگ ڈاکیومنیٹیشن کے حوالے سے کئی تضادات اور خامیاں ملی ہیں۔’ اس نے یہ بھی کہا کہ بی بی سی گروپ کے مختلف اداروں کی طرف سے دکھائی جانے والی آمدنی اور منافع ہندوستان میں ‘آپریشن کے پیمانے کے مطابق نہیں ہیں۔’

معلوم ہو کہ جنوری 2023 میں نشر ہونے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے  کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی  ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، جس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔

دستاویزی فلم کی  دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی  ہے۔

اس میں مودی کو تفرقہ پیدا کرنے والا سیاستداں بتایا گیا تھا۔

اس کے بعد مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت  نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔

اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

Next Article

معطلی، حراست اور توہین کے درمیان حق احتجاج کے لیے جامعہ کے طلباء کی لڑائی

یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے طلباء نے 17 فروری کو معطل طالبعلموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یونیورسٹی میں کلاس کا بائیکاٹ کیا۔ تاہم، انتظامیہ معطل طلباء کی حمایت میں کسی بھی طرح کی مزاحمت اور آواز کو دبانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کے دوران سیکورٹی گارڈز، پولیس اور طلباء۔(تمام تصویریں: یو آر اتھارا)

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کے دوران سیکورٹی گارڈز، پولیس اور طلباء۔(تمام تصویریں: یو آر اتھارا)

نئی دہلی: 13 فروری کی صبح دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے گیٹ نمبر 7 کے اندر احتجاج کرنے والے 14 طلباء کو سینٹرل کینٹین کے سامنے نیند سے بیدار کیا گیا اور یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر سید عبدالرشید کی رہنمائی میں ادارے کے سیکورٹی گارڈ نے زبردستی اٹھا لیا۔

اس کے بعد ان طلباء کو دہلی پولیس کے حوالے کر دیا گیا، جو پہلے سے دوسرے گیٹ پر موجودتھی۔ ان طلباء کو بعد میں بغیر کوئی وجہ بتائے حراست میں لے لیا گیا اور وکلاء تک رسائی کے بغیر تقریباً 12 گھنٹے تک دہلی کے مختلف تھانوں میں رکھا گیا۔

معلوم ہو کہ یہ 14 طلبہ 10 فروری کو یونیورسٹی میں سینٹرل کینٹین کے سامنے شروع ہوئے احتجاجی مظاہرے  کا حصہ تھے۔ وہ چار طالبعلم سوربھ، جیوتی، فضیل شبر اور نرنجن کے خلاف تادیبی کارروائی کو رد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔دراصل ، ان چار طلباء کو 15 دسمبر 2019 کو شہریت (ترمیمی) ایکٹ اور شہریوں کے قومی رجسٹر (سی اے اے –این آر سی) کے خلاف احتجاج کے دوران یونیورسٹی کیمپس میں پولیس کارروائی کی پانچویں برسی کے موقع پر 16 دسمبر کو یوم مزاحمت  منعقد کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایم اے سوشیالوجی کے پہلے سال کی طالبہ اتھارا ان 14 طلباء میں سے ایک تھیں، جنہیں پولیس نے حراست میں لیا تھااور بعد میں یونیورسٹی نے معطل کر دیا۔

انہوں  نے بتایا، ‘گارڈ تین طرف سے آئے، جب میں سو رہی تھی۔ انہوں نے مجھے بالوں سے پکڑ لیا۔ جب میں بیدار ہوئی  تو مرد گارڈ میری ٹانگ کھینچ رہے تھے، انہوں نے ہمیں چپل تک پہننےتک  کی مہلت نہیں دی۔ مجھے ایک مرد اور ایک خاتون گارڈ لے گئے۔ میں چیخ رہی تھی اور ان سے کہہ رہی تھی کہ کم از کم مجھے اپنے کپڑے ٹھیک کرنے دو، میں نے جتنی  مزاحمت کی، وہ اتنے ہی جارح ہوتے گئے۔’

احتجاج کی وجہ

معلوم ہو کہ احتجاج کرنے والے طلباء نے پراکٹر آفس سے 15 دسمبر کو یوم مزاحمت کے طور پرایک پروگرام منعقد کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ لیکن انتظامیہ کی طرف سے اسے اجازت نہیں دی گئی۔

ان طلباء نے اگلے دن (16 دسمبر) شام 5.30 بجے کلاس کے بعد اپنے  پروگرام کا انعقاد کیا۔ اس کا آغاز ایک مارچ سے ہوا، جو سینٹرل کینٹین پرشروع اور  اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد تقاریر کے ذریعے طلباء نے 2019 میں ہونے والی پولیس کی بربریت کو اجاگر کیا اور تعلیمی اداروں پر جاری فاشسٹ حملے کی جانب  توجہ مبذول کرائی۔ یہ پروگرام تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔

گزشتہ 17 دسمبر کو اس پروگرام کے منتظمین میں سے ایک ہندی ڈپارٹمنٹ کے پی ایچ ڈی اسکالر اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اے آئی ایس اے) کے رکن سوربھ کو پراکٹر کے دفتر سے وجہ بتاؤ نوٹس موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس پروگرام  کا بدنیتی پر مبنی سیاسی ایجنڈا تھا،  جو تعلیمی اداروں  کو مفلوج کر دیتا ہے۔

تاہم سوربھ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے دعووں کو خارج کیا۔

سوربھ نے دی وائر کو بتایا،’اس پروگرام میں کوئی بدنیتی پر مبنی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔ 15 دسمبر 2019 کو پولیس ایکشن پوری یونیورسٹی پر وحشیانہ حملہ تھا، ہمارا کوئی ذاتی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔’

سوربھ نے اس کے بعد 20 دسمبر کو انتظامیہ کو اپنا 16 صفحات کا جواب بھیجا، جسے انتظامیہ نے ‘غیر تسلی بخش’ قرار دیا۔

اس کے بعد سوربھ کو 3 فروری کو ایک نوٹس موصول ہوا، جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے ایک تادیبی کمیٹی بنائی جائے گی، لیکن اس کے لیے کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی۔

اس سلسلے میں جیوتی، جو ہندی ڈپارٹمنٹ کی پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور دیارِ شوق  اسٹوڈنٹس چارٹر (ڈی آئی ایس ایس سی) کی رکن بھی ہیں، نے کہا، ‘اب تک ہم سمجھ چکے تھے کہ ہمیں معطل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے طالبعلم  کے طور پرہمارے حقوق کو پوری طرح سے کچل دیا ہے۔’

سوربھ کے خلاف انتظامیہ کی طرف سے کی گئی کارروائی کے خلاف 10 فروری کو احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ تاہم، اس سے ایک دن پہلے (9 فروری)، تین دیگر طلباء- جیوتی، فضیل اور نرنجن کو بھی تادیبی کارروائی کے لیے نوٹس جاری کیا گیا۔ فضیل کمپیوٹر انجینئرنگ میں بی ٹیک کے پہلے سال کے طالبعلم ہیں اور ڈی آئی ایس ایس سی کے ممبر ہیں۔ وہیں، نرنجن، قانون کے چوتھے سال کے طالبعلم اور آل انڈیا ریوولیوشنری اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آے آئی ایس ایس او) کے رکن ہیں۔

جیوتی کہتی ہیں،’اب احتجاج کرنا ضروری تھا کیونکہ بہت سے طلباء اجلاس کے لیے ان بے مطلب  کے وجہ بتاؤ نوٹس سے متاثر ہو رہے تھے۔ انتظامیہ چاہتی ہے کہ ہم ہر تقریب کے لیے اجازت لیں جسے وہ بعد میں مسترد کر دیں۔ اب کیمپس کی یہی حالت ہے۔‘

یونیورسٹی کے رجسٹرار کی طرف سے 29 اگست 2022 کوجاری کردہ ایک میمورنڈم میں کہا گیا  ہےکہ ‘کیمپس کے کسی بھی حصے میں پراکٹر کی پیشگی اجازت کے بغیر طلبہ کی میٹنگ/اسمبلی کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایسا نہ کرنے کی صورت میں قصوروار طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔’

گزشتہ سال 29 نومبر کو جاری کردہ ایک اور میمورنڈم میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی کیمپس کے کسی بھی حصے میں کسی بھی باوقاراورآئینی شخصیت کے خلاف احتجاج، دھرنا، نعرے بازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ کیمپس کے احاطے میں گرافٹی کرنے اور پوسٹر لگانے پر 50 ہزار روپے تک کا جرمانہ ہے۔

انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ میمورنڈم۔

انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ میمورنڈم۔

ایم اے سوشیالوجی کے پہلے سال کے طالب علم مشکوٰۃ تحریم کو بھی احتجاج میں حصہ لینے پر حراست میں لیا گیا تھا اور بعد میں معطل کر دیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘جب ہم نے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر اسٹڈی سرکل منعقد کرنے کی اجازت مانگی تو انتظامیہ نے اس سے انکار کردیا۔ ہمیں پمفلٹ تقسیم کرنے کا سہارا لینا پڑا۔ پھر بھی ہمیں ایسے فون آئے کہ ہم  ایسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہوں۔ کیمپس میں کچھ بھی کرنے کی آزادی نہیں ہے۔’

طلباء بتاتے ہیں کہ تنظیم اور احتجاج کا حق آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی چھ آزادیوں کا حصہ ہے۔ تاہم، وحشیانہ ریاستی جبر اور عسکریت پسندی نے یونیورسٹی میں طلباء کے ان حقوق پر کاری ضرب لگائی  ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کیمپس کے اندر پولیس کی موجودگی طلبہ کے تحفظ پر سنگین سوال اٹھاتی ہے۔

اتھارا کہتی ہیں،’یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پولیس احاطے میں داخل ہوئی ہو۔ یہ 2019 میں سی اے اے –این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران ہوا تھا۔ اس وقت یہ زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ پولیس پہلے سے  ہی احاطے کے اندر موجود تھی۔’

واضح ہو کہ جب دیگر طلباء اور میڈیا کالکاجی تھانے پہنچے تو انہیں حراست میں لیے گئے لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔

صبح تقریباً 10 بجے جب کالکاجی اسٹیشن کے باہر کافی لوگ جمع ہوگئے تو ان طلبہ کو کیمپس واپس لے جانے کے بہانے فتح پور بیری اسٹیشن لے جایا گیا۔ انہیں شام 4 بجے تک وہاں رکھا گیا اور بار باردرخواست  کرنے کے باوجود انہیں ان کے وکیلوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔

مزید برآں، طلباء کو ان دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جن کے مندرجات وہ پڑھ نہیں سکتے تھے – کیونکہ انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ جب تک وہ دستخط نہیں کریں گے انہیں رہا نہیں کیا جائے گا۔

تحریم نے کہا،’ہمارے والدین سے بھی کہا گیا کہ وہ ہمیں ان دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کریں، انہیں اس کے لیے پولیس اسٹیشن بھی بلایا گیا تھا’۔

طلباء نے الزام لگایا کہ پولیس افسران نے ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا اور جسمانی اور زبانی طور پر ہراساں کیا۔

مثال کے طور پر بدر پور پولیس اسٹیشن میں حراست میں لی گئی  حبیبہ کو اپنا فون دینے پر اعتراض کرنے پر ایک پولیس افسر نے مبینہ طور پرتھپڑ مار دیا تھا۔

ایک اور طالبعلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ انہیں اسلامو فک باتیں کہی گئیں، جیسے کہ’یہ مسلمان لوگ صرف ڈانگے فساد کرتے ہیں(یہ مسلمان ہر جگہ فساد اور جھگڑے پیدا کرتے ہیں)۔’

طلبہ کا کہنا ہے کہ یہی نہیں انتظامیہ نے ان کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے ۔

دس فروری کو احتجاج کی پہلی رات حکام نے کیمپس کی بجلی منقطع کر دی، بیت الخلاء بند کر دیے اور کینٹین کے علاقے کو بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی وائس چانسلر مظہر آصف نے مبینہ طور پر طلبہ سے کسی بھی طرح  کی بات چیت سے انکار کر دیا ہے۔

گیارہ  فروری کو ان مظاہرین طلباء کے والدین کو پولیس حکام نے بلایا اور اپنے بچوں کو احتجاج سے دستبردار ہونے کی ہدایت دینے کو کہا۔

تحریم کا کہنا ہے کہ ‘اس کا مطلب یہ تھا کہ انتظامیہ نے ہمارے نمبر پولیس کے ساتھ شیئر کیے تھے۔’

شاہجہاں کہتے ہیں،’ہمیں حراست میں لیے جانے سے ایک دن پہلے، جامعہ نگر پولیس نے میرے والد کو فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ مجھے احتجاج سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں۔وہ کولکاتہ میں آٹو رکشہ چلاتے ہیں، انہیں پولیس کی طرف سے کئی دھمکی آمیز کالیں موصول ہوئیں کہ ان  کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی اور اسے کالج سے نکال دیا جائے گا، یہ انہیں اور مجھے ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا۔’

حراست سے ایک رات پہلے12 فروری کو شاہجہاں سمیت سات طلباء کو احتجاجی مقام سے 800 میٹر کے فاصلے پر ہونے والی جھڑپ کے لیے معطلی کے خطوط موصول ہوئے تھے۔

جامعہ کیمپس میں لگائے گئے پوسٹر۔

جامعہ کیمپس میں لگائے گئے پوسٹر۔

بتا دیں کہ احتجاج میں شامل تمام 17 طلباء کو معطل کر دیا گیا ہے۔ معطلی کے خطوط میں جن وجوہات کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں لوگوں کے ایک بے ہنگم اور بے قابو گروپ کی قیادت کرنا اور یونیورسٹی کی املاک کو نقصان پہنچانا، کیمپس کے معمول کے کام میں خلل ڈالنا، کیمپس کے اندر ہنگامہ آرائی کرنا اور دیگر طلبہ کو شدید تکلیف پہنچانا شامل ہیں۔

اتھارا کہتی ہیں،’معطلی اس طرح نہیں ہو سکتی، اس کے لیے ایک ضابطہ ہے۔ آپ کو وجہ بتاؤ نوٹس ملنا چاہیے۔ اگر جواب غیر تسلی بخش ہے تو، ایک تادیبی کمیٹی معاملے کو دیکھے گی اور فیصلہ کرے گی کہ معطلی ضروری ہے اور اگر ضروری  ہے تو اس کی تفصیلات بتائیں۔’

اتھارا کا مزید کہنا ہے کہ ‘اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ معطلی عام طور پر دو ہفتوں تک رہتی ہے۔ ہمیں موصول ہونے والے خطوط میں وقت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر میں دو ہفتوں کے بعد احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ مجھے دوبارہ معطل کر سکتے ہیں۔’

گزشتہ 14 فروری کو حراست میں لیے گئے طلبہ کی رہائی کے بعد یونیورسٹی کی مہر کے ساتھ ان کے نام، فون نمبر، ای میل آئی ڈی اور سیاسی وابستگی والے پوسٹرادارےکے گیٹ نمبر 7، 8 اور 13 کے اندر چسپاں کر دیے گئے تھے۔

ایک  بیان میں یونیورسٹی نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ کچھ افراد اور سماج دشمن عناصر گمراہ کن، توہین آمیز اور بدنیتی پر مبنی پیغامات پھیلا کر یونیورسٹی اور اس کے طلباء کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بیان میں احتجاج کرنے والے طلباء پر ذاتی معلومات پھیلانے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ انتظامیہ ایسی بے شرمی اور غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی مذمت کرتی ہے۔

ایک اور معطل طالبہ سوناکشی گپتا کا نام اور نمبر پوسٹروں پر ظاہر ہونے کے بعد سےانہیں نامعلوم نمبروں سے کال اور پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

شاہجہاں نے 16 فروری کو پریس کلب آف انڈیا میں جامعہ کی مختلف طلبہ سیاسی جماعتوں کے مشترکہ طور پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں سوال کیا،’اگر یونیورسٹی اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے تو پھر ان پوسٹروں پر ان کی  مہر کیسے لگی؟’

اپنی معطلی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان طلباء نے پریس کانفرنس میں پانچ دیگر مطالبات بھی رکھے۔ اس میں بنیادی حقوق کا استعمال کرنے والے طلباء کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے عمل کو فوری طور پر روکنا، طلباء کو آواز اٹھانے پر جاری کردہ تمام شوکاز نوٹس کو رد کرنا، 29 اگست 2022 اور 29 نومبر 2024 کے میمورنڈم کو رد کرنا، اختلاف ظاہر کرنے کے لیے طلبا کے خلاف وِچ ہنٹ کو ختم کرنا اورسزا دینے والے نوٹس واپس لینا شامل ہیں۔

معطل طلباء کی جانب سے منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں مختلف تعلیمی اداروں اور سیاسی تنظیموں کے طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یونیورسٹی کیمپس میں کس طرح  ‘جمہوری جگہیں’ سکڑ رہی ہیں، جیوتی نے کہا،’ہم اپنے جمہوری حقوق واپس چاہتے ہیں۔ اگر انتظامیہ کو یونیورسٹی کے سیاسی کلچر سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ یا انہیں طلباء کی آزادی اور تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔’

معلوم ہو کہ یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے طلباء نے معطل طلباء کی حمایت میں یکجہتی کے بیانات جاری کیے ہیں۔ اس کے تحت 17 فروری کو یونیورسٹی میں کلاسز کا بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا۔ تاہم،  انتظامیہ معطل طلباء کی حمایت میں کسی بھی طرح کی مزاحمت اور آواز کو دبانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

جیوتی پوچھتی ہیں،’رجسٹرار مہتاب عالم رضوی نے کہا ہے کہ اگر کوئی 17 فروری کو کلاس کا بائیکاٹ کرتا ہے تو پوری کلاس معطل کر دی جائے گی۔ یہ کیسی آمریت ہے۔’

تاہم بائیکاٹ میں طلباء کی بڑی تعداد کا مشاہدہ کیا گیا اور کلاس رومز خالی رہے۔ اسی دن طلباء نے 48 گھنٹے کے الٹی میٹم کے ساتھ ڈین آف اسٹوڈنٹ ویلفیئر کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں تمام معطلی خطوط کو فوراً منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

دہلی: ریکھا گپتا نے وزیر اعلیٰ کے طور پر لیا حلف، بی جے پی کے 14وزرائے اعلیٰ میں واحد خاتون

ریکھا گپتا کو وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی نے خواتین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے، جنہیں گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان کی انتخابی سیاست میں ایک نئے ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ریکھا گپتا کے علاوہ پرویش ورما، منجندر سنگھ سرسا، رویندر اندراج سنگھ، آشیش سود، کپل مشرا اور پنکج کمار سنگھ نے بھی وزیر کے طور پر حلف لیا۔

حلف برداری کی تقریب کے دوران ریکھا گپتا اور بی جے پی کے دیگر رہنما پی ایم مودی اور لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@gupta_rekha)

حلف برداری کی تقریب کے دوران ریکھا گپتا اور بی جے پی کے دیگر رہنما پی ایم مودی اور لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@gupta_rekha)

نئی دہلی: دہلی کے شالیمار باغ سے نومنتخب ایم ایل اے ریکھا گپتا نے دہلی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ اس موقع پر لیفٹیننٹ گورنر ونئے کمار سکسینہ نے ریکھا گپتا کے علاوہ پرویش ورما، منجندر سنگھ سرسا، رویندر اندراج سنگھ، آشیش سود، کپل مشرا اور پنکج کمار سنگھ کو وزیر کے طور پر کا حلف دلایا۔

دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے تقریباً 11 دن بعد، بی جے پی نے بدھ (19 فروری) کو وزیر اعلیٰ کے نام کا انکشاف کرتے ہوئے پہلی بار ایم ایل اے  بنیں ریکھا گپتا کو دہلی حکومت کی قیادت کے لیےاپنی پسند کے طور پر پیش کیا تھا ۔

معلوم ہو کہ 50 سالہ ریکھا گپتا نے اپنے سینئر معاونین  اور بی جے پی دہلی یونٹ کے پرویش ورما، آشیش سود، وریندر سچدیوا، وجیندر گپتا اور ستیش اپادھیائے  جیسے اہم ناموں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے بازی ماری ۔

ریکھا گپتا بی جے پی کی سشما سوراج، کانگریس کی شیلا دکشت اور عام آدمی پارٹی (عآپ) کی آتشی کے بعد دہلی کی چوتھی خاتون وزیر اعلیٰ ہوں گی۔

اس سلسلے میں ریکھا گپتا نے بدھ کی رات دیر گئے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ سے ملاقات کی اور حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا۔ اس کے بعد سکسینہ نے ان کا دعویٰ قبول کرتے ہوئےانہیں حکومت بنانے کی دعوت دی۔

ایسا مانا جارہا ہے کہ ریکھا گپتا کے وزیر اعلی بننے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا بڑا ہاتھ ہے۔ ریکھا گپتا اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز سے ہی سنگھ سے وابستہ ہیں اور یہی وہ اہم وجہ ہے جس نے پارٹی کے فیصلے کو متاثر کیا اور بڑے سیاسی رہنماؤںکو پیچھے چھوڑتے ہوئے انہیں وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچایا۔

معلوم ہو کہ ریکھا گپتا نے 2015 اور 2020 میں شمال مغربی دہلی کے شالیمار باغ حلقہ سے الیکشن لڑا تھا، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی تھی۔ تاہم، اس بار انہوں نے 5 فروری کو ہونے والے انتخابات میں اپنی عام آدمی پارٹی (عآپ) کی حریف بندنا کماری کو 29500 ووٹوں سے شکست دی۔

اس سے پہلے ریکھا گپتا 2023 کے دہلی میئر کے انتخاب میں عآپ  کی شیلی اوبرائے سے ہار گئی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ ملک میں بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں کے 14 وزرائے اعلیٰ میں ریکھا گپتا واحد خاتون وزیر اعلیٰ ہیں۔ مودی حکومت  ممکنہ طور پرانہیں آگے رکھ کر خواتین کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جنہیں عام طور پر ایک ابھرتا ہوا ووٹ بینک سمجھا جارہا ہے، اور جس کا فائدہ  بہار کے آئندہ انتخابات میں بھی پارٹی کومل سکتا ہے۔

غور طلب ہے کہ اس سے قبل دہلی میں بی جے پی کی حکومت 1993 اور 1998 کے درمیان صرف ایک مدت کے لیے تھی، جب اس ریاست میں پہلی بار اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔ اس دور میں بی جے پی نے تین بار اپنے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کیا۔ پہلے مدن لال کھرانہ، صاحب سنگھ ورما اور آخر میں سشما سوراج نے چارج سنبھالا۔

اب جبکہ ریکھا گپتا نے چیف منسٹر کے طور پر حلف لیا ہے، ان کے سامنے پہلا چیلنج فلاحی اسکیموں اور وعدوں کو نافذ کرنا ہوگا،  جو بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے تھے۔ پارٹی کے چند اہم وعدوں میں غریب خواتین کو ماہانہ 2500 روپے کا الاؤنس، دہلی میں آیوشمان بھارت میڈیکل انشورنس اسکیم کا نفاذ، سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا، یمنا  ندی کی صفائی اور ریاست میں فضائی آلودگی کی خطرناک سطح کو کنٹرول کرنا شامل ہیں۔

حکومت بنانے کا دعویٰ کرنے کے بعد، ریکھا گپتا نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کی طرف سے کیے گئے تمام وعدے ‘وقت پر’ پورے کیے جائیں گے۔

انہوں نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی-بھاشا کو بتایا، ‘صرف ایک ہی ترجیح ہے: ہم نے دہلی کے لیے جو وعدے کیے ہیں، انہیں پورا کرنا، وزیر اعظم مودی کا دہلی کے لیے جو خواب ہے، وہ میری پہلی اور سب سے اہم ترجیح ہے۔’

طلبہ سیاست سے ہوئی تھی شروعات

ریکھا گپتا نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے کیا تھا اور بعد میں بی جے پی میں کئی عہدوں پر کام کیا۔ وہ اس وقت پارٹی کی خواتین ونگ کی سکریٹری اور نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

وہ 1974 میں جند، ہریانہ میں بنیا برادری سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان میں پیدا ہوئیں، جو کئی دہائیوں سے دہلی میں بی جے پی کی اہم بنیاد رہی ہے۔

ان کے والد اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ملازم تھے، جب وہ صرف دو سال کی تھیں ، تب وہ  دہلی چلے آئے تھے۔ وہ دہلی یونیورسٹی کی طالبہ کے طور پر آر ایس ایس کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد میں شامل ہوئیں۔

اس کے بعد دولت رام کالج کے طلبہ یونین کی سکریٹری کے طور پر ان کی انتخابی کامیابی کے بعدانہیں 1995 میں دہلی یونیورسٹی طلبہ یونین کا صدر بھی منتخب کیا گیا۔

ریکھا گپتا نے دہلی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی اور بی جے پی میں اپنی جگہ بنا کر مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہو گئیں۔

انتخابی سیاست میں ان کا داخلہ 2007 میں ہوا،  جب وہ پہلی بار شمالی پتم پورہ میں میونسپل کونسلر بنیں۔ اس دوران انہوں نے دہلی بی جے پی کے خواتین ونگ میں جنرل سکریٹری کے طور پر بھی کام کیا، جس کے بعد انہیں پارٹی کے قومی خواتین ونگ میں لایا گیا۔

سال 2012 میں میونسپل کونسلر کے طور پر دوبارہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے میئر کے طور پر خدمات انجام دیں، اس سے پہلے کہ  شہر کی دو دیگر کارپوریشنوں کو میونسپل کارپوریشن آف دہلی بنایا گیا۔

جب انہوں نے 2015 میں پہلی بار دہلی اسمبلی کا الیکشن لڑا توعآپ کی بندنا کماری نے انہیں تقریباً 11000 ووٹوں سے ہرایا۔ پھر 2020 میں کماری سے ان کی شکست کا مارجن تقریباً 3400 ووٹوں پر آ گیا۔