سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے قریب کنویں کی کھدائی، مقامی لوگوں کا اسے غیر قانونی طور پر ڈھکنے کا دعویٰ: رپورٹ

سنبھل پولیس نے بتایا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کو کنویں کی کھدائی شروع کی ہے۔ یہ کنواں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب ہے۔

سنبھل پولیس نے بتایا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کو کنویں کی کھدائی شروع کی ہے۔ یہ کنواں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب ہے۔

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے باہر تعینات پولیس(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے باہر تعینات پولیس(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

نئی دہلی: سنبھل انتظامیہ نے ضلع ہیڈکوارٹر میں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب مبینہ طور پرایک کنویں کی کھدائی  شروع کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، سنبھل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شریش چندر نے کہا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی  طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کوکنویں  کی کھدائی شروع کی۔

انہوں نے کہا، ‘ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کنویں پر تجاوزات کی گئی تھی اور اسے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ ہم اسے بحال کرنے کے لیے کھدائی کر رہے ہیں۔ مزید تفتیش کے بعد مناسب قانونی کارروائی کی جائے گی۔’

پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق،مقامی لوگوں اور ‘بزرگ  باشندوں’ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کنواں صدیوں سے موجود ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 19 نومبر کو کچھ ہندو کارکنوں کی درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے سنبھل سول جج سینئر ڈویژن نے جلد بازی میں شاہی جامع مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا  ۔ ان کارکنوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں تعمیر ہونے والا یہ اسلامی مقام اصل میں بھگوان وشنو کے کلکی اوتار کے لیے وقف ایک بڑا ہندو مندر تھا۔

عدالت کے حکم کے چند گھنٹوں کے اندر مسجد کا ابتدائی سروے کرنے کے بعد ایڈوکیٹ کمشنر رمیش راگھو کی قیادت میں سروے ٹیم فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کے دوسرے دور کے لیے 24 نومبر کی صبح مسجد پہنچی تھی۔ تاہم اس دن تشدد کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔

شاہی جامع مسجد کے قریب گلیوں میں مسجد کے دوسرے سروے کے دوران ہونے والے تشدد میں کم از کم  چار مسلمان مارے گئے  تھے۔ متاثرہ اہل خانہ نے پولیس پر گولی چلانے کا الزام لگایا ہےجبکہ حکام نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس تشدد میں کئی پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے اور کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

اس کے بعد اتر پردیش حکومت نے 28 نومبر 2024 کو تشدد کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج دیویندر کمار اروڑہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن کے ذریعے  عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا  ۔

دریں اثنا، 12 دسمبر 2024 کو، چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کی قیادت میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے  ہدایت کی  کہ ملک کی عدالتیں دوسرے مذہبی مقامات پر دعویٰ کرنے والا کوئی بھی نیا مقدمہ درج نہ کریں۔ سپریم کورٹ نے عدالتوں کو اگلے نوٹس تک زیر التواء مقدمات میں سروے کی ہدایات سمیت کوئی مؤثر عبوری یا حتمی حکم دینے سے بھی روک دیا تھا۔

عدالت کی یہ ہدایات سنبھل مسجد کے معاملے پر بھی لاگو تھیں۔

پی ٹی آئی نے پولیس افسر چندرا کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں پولیس نے سنبھل تشدد کے سلسلے میں مزید دس لوگوں کو گرفتار کیا، جس کے بعد گرفتاریوں کی کل تعداد 70 ہوگئی۔

غورطلب  ہے کہ بدھ کو کھدائی کا کام سپریم کورٹ کی طرف سے مسجد کے داخلی دروازے کے قریب ایک کنویں پر صورتحال کو برقرار رکھنے کا حکم دینے کے چند ہفتوں بعد ہوا، جو مسجد کے حکام اور ہندو درخواست گزاروں کے درمیان تنازعہ کا موضوع بن گیا ہے۔ مسجد کے ذمہ داران  کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کنویں کے استعمال کی ایک طویل تاریخ ہے، جبکہ ہندو درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ کنواں طویل عرصے سے پوجا کے لیے استعمال کیا جاتا  رہا ہے۔

Next Article

ای ڈی نے مبینہ فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے لیے بی بی سی انڈیا پر 3.44 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا

فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ (ایف ای ایم اے) کے تحت مبینہ غیر ملکی زرمبادلہ کی خلاف ورزی کے لیے بی بی سی انڈیا کے خلاف معاملہ  درج کرنے کے دو سال بعد ای ڈی نےاس پر 3.44 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ اس کے ساتھ ہی بی بی سی کے تین ڈائریکٹروں پر 1.14 کروڑ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

(تصویربہ شکریہ: Tim Loudon/Flickr, CC BY 2.0)

(تصویربہ شکریہ: Tim Loudon/Flickr, CC BY 2.0)

نئی دہلی: فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ (ایف ای ایم اے) کے تحت مبینہ غیر ملکی زر مبادلہ کی خلاف ورزی کے لیے برٹش براڈکاسٹنگ کمپنی (بی بی سی) انڈیا کے خلاف معاملہ  درج کرنے کے دو سال بعد انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے جمعہ کو ایک فیصلہ جاری کرتے ہوئے براڈکاسٹر پر 3.44 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ ایجنسی نے بی بی سی کے تین ڈائریکٹروں  پر 1.14 کروڑ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

معلوم ہو کہ ای ڈی نے فروری 2023 میں نئی دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے احاطوں میں محکمہ انکم ٹیکس کے سروے کے بعد معاملہ  درج کیا تھا ، جس میں مبینہ طور پر ٹرانسفر پرائسنگ کے قوانین کی ‘عدم تعمیل’ اور منافع کی منتقلی کا الزام لگایا گیا تھا۔

واضح ہو کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ہندوستان میں کام کرنے والی ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشنز کے لیے 26 فیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی حد نافذ کر دی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بی بی سی کے ترجمان نے کہا، ‘بی بی سی ان تمام ممالک کے قوانین کے تحت کام کرنے کے لیے پرعزم ہے جہاں ہم موجود ہیں،جس میں  ہندوستان بھی شامل ہے۔ اس مرحلے پر نہ تو بی بی سی ورلڈ سروس انڈیا اور نہ ہی اس کے ڈائریکٹروں  کو ای ڈی کی جانب  سے کوئی عدالتی فیصلہ موصول ہوا ہے۔’

ترجمان نے کہا: ‘کسی بھی فیصلہ کے  موصول ہونے پر ہم اس کا بغور جائزہ لیں گے اور اگلے اقدامات پر غور کریں گے۔’

ای ڈی کی جانب سے لگائے گئے جرمانے پر ایک اہلکار نے کہا، ‘بی بی سی ڈبلیو ایس انڈیا پر 34448850 روپے کا جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ 15 اکتوبر 2021 سے تعمیل کی تاریخ تک ہر دن کے لیے 5000 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، تین ڈائریکٹروں – جائلز انٹنی ہنٹ، اندو شیکھر سنہا اور پال مائیکل گبنس – کو خلاف ورزی کی مدت کے دوران کمپنی کے آپریشن کی نگرانی میں ان کے کردار کے لیے 11482950 روپے کا جرمانہ  عائدکیا گیا ہے۔

اہلکار نے کہا،’ خلاف ورزی کے لیے  بی بی سی ڈبلیو ایس انڈیا، اس کے تین ڈائریکٹرز اور مالیاتی سربراہ کو پر 4 اگست 2023 کووجہ بتاؤ نوٹس جاری کیے جانے کے بعد عدالتی کارروائی شروع کی گئی۔’

مبینہ خلاف ورزیوں پر اہلکار نے کہا، ’18 ستمبر 2019 کوڈی پی آئی آئی ٹی نے ایک پریس نوٹ جاری کیا، جس میں حکومت کی منظوری کے راستے ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ایف ڈی آئی  کی حد 26 فیصد مقرر کی گئی۔ تاہم، بی بی سی ڈبلیو ایس انڈیا، جو ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے خبروں اور حالاتِ حاضرہ کو اپ لوڈ/اسٹریمنگ کرنے والی 100 فیصد ایف ڈی آئی کمپنی ہے، نے اپنی ایف ڈی آئی کو 26 فیصد تک کم نہیں کیا اور اسے حکومت کے جاری کردہ قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 100 فیصد پر ہی رکھا۔’

بتادیں کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی یہ کارروائی 17 جنوری 2023 کو 2002 کے گجرات فسادات پر برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘  نامی دستاویزی فلم جاری کرنے کے بعد ہوئی ہے ۔

فروری 2023 میں تین روزہ سروے کے بعد انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ اسے ‘ٹرانسفر پرائسنگ ڈاکیومنیٹیشن کے حوالے سے کئی تضادات اور خامیاں ملی ہیں۔’ اس نے یہ بھی کہا کہ بی بی سی گروپ کے مختلف اداروں کی طرف سے دکھائی جانے والی آمدنی اور منافع ہندوستان میں ‘آپریشن کے پیمانے کے مطابق نہیں ہیں۔’

معلوم ہو کہ جنوری 2023 میں نشر ہونے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے  کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی  ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، جس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔

دستاویزی فلم کی  دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی  ہے۔

اس میں مودی کو تفرقہ پیدا کرنے والا سیاستداں بتایا گیا تھا۔

اس کے بعد مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت  نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔

اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

Next Article

معطلی، حراست اور توہین کے درمیان حق احتجاج کے لیے جامعہ کے طلباء کی لڑائی

یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے طلباء نے 17 فروری کو معطل طالبعلموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یونیورسٹی میں کلاس کا بائیکاٹ کیا۔ تاہم، انتظامیہ معطل طلباء کی حمایت میں کسی بھی طرح کی مزاحمت اور آواز کو دبانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کے دوران سیکورٹی گارڈز، پولیس اور طلباء۔(تمام تصویریں: یو آر اتھارا)

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کے دوران سیکورٹی گارڈز، پولیس اور طلباء۔(تمام تصویریں: یو آر اتھارا)

نئی دہلی: 13 فروری کی صبح دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے گیٹ نمبر 7 کے اندر احتجاج کرنے والے 14 طلباء کو سینٹرل کینٹین کے سامنے نیند سے بیدار کیا گیا اور یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر سید عبدالرشید کی رہنمائی میں ادارے کے سیکورٹی گارڈ نے زبردستی اٹھا لیا۔

اس کے بعد ان طلباء کو دہلی پولیس کے حوالے کر دیا گیا، جو پہلے سے دوسرے گیٹ پر موجودتھی۔ ان طلباء کو بعد میں بغیر کوئی وجہ بتائے حراست میں لے لیا گیا اور وکلاء تک رسائی کے بغیر تقریباً 12 گھنٹے تک دہلی کے مختلف تھانوں میں رکھا گیا۔

معلوم ہو کہ یہ 14 طلبہ 10 فروری کو یونیورسٹی میں سینٹرل کینٹین کے سامنے شروع ہوئے احتجاجی مظاہرے  کا حصہ تھے۔ وہ چار طالبعلم سوربھ، جیوتی، فضیل شبر اور نرنجن کے خلاف تادیبی کارروائی کو رد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔دراصل ، ان چار طلباء کو 15 دسمبر 2019 کو شہریت (ترمیمی) ایکٹ اور شہریوں کے قومی رجسٹر (سی اے اے –این آر سی) کے خلاف احتجاج کے دوران یونیورسٹی کیمپس میں پولیس کارروائی کی پانچویں برسی کے موقع پر 16 دسمبر کو یوم مزاحمت  منعقد کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایم اے سوشیالوجی کے پہلے سال کی طالبہ اتھارا ان 14 طلباء میں سے ایک تھیں، جنہیں پولیس نے حراست میں لیا تھااور بعد میں یونیورسٹی نے معطل کر دیا۔

انہوں  نے بتایا، ‘گارڈ تین طرف سے آئے، جب میں سو رہی تھی۔ انہوں نے مجھے بالوں سے پکڑ لیا۔ جب میں بیدار ہوئی  تو مرد گارڈ میری ٹانگ کھینچ رہے تھے، انہوں نے ہمیں چپل تک پہننےتک  کی مہلت نہیں دی۔ مجھے ایک مرد اور ایک خاتون گارڈ لے گئے۔ میں چیخ رہی تھی اور ان سے کہہ رہی تھی کہ کم از کم مجھے اپنے کپڑے ٹھیک کرنے دو، میں نے جتنی  مزاحمت کی، وہ اتنے ہی جارح ہوتے گئے۔’

احتجاج کی وجہ

معلوم ہو کہ احتجاج کرنے والے طلباء نے پراکٹر آفس سے 15 دسمبر کو یوم مزاحمت کے طور پرایک پروگرام منعقد کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ لیکن انتظامیہ کی طرف سے اسے اجازت نہیں دی گئی۔

ان طلباء نے اگلے دن (16 دسمبر) شام 5.30 بجے کلاس کے بعد اپنے  پروگرام کا انعقاد کیا۔ اس کا آغاز ایک مارچ سے ہوا، جو سینٹرل کینٹین پرشروع اور  اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد تقاریر کے ذریعے طلباء نے 2019 میں ہونے والی پولیس کی بربریت کو اجاگر کیا اور تعلیمی اداروں پر جاری فاشسٹ حملے کی جانب  توجہ مبذول کرائی۔ یہ پروگرام تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔

گزشتہ 17 دسمبر کو اس پروگرام کے منتظمین میں سے ایک ہندی ڈپارٹمنٹ کے پی ایچ ڈی اسکالر اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اے آئی ایس اے) کے رکن سوربھ کو پراکٹر کے دفتر سے وجہ بتاؤ نوٹس موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس پروگرام  کا بدنیتی پر مبنی سیاسی ایجنڈا تھا،  جو تعلیمی اداروں  کو مفلوج کر دیتا ہے۔

تاہم سوربھ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے دعووں کو خارج کیا۔

سوربھ نے دی وائر کو بتایا،’اس پروگرام میں کوئی بدنیتی پر مبنی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔ 15 دسمبر 2019 کو پولیس ایکشن پوری یونیورسٹی پر وحشیانہ حملہ تھا، ہمارا کوئی ذاتی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔’

سوربھ نے اس کے بعد 20 دسمبر کو انتظامیہ کو اپنا 16 صفحات کا جواب بھیجا، جسے انتظامیہ نے ‘غیر تسلی بخش’ قرار دیا۔

اس کے بعد سوربھ کو 3 فروری کو ایک نوٹس موصول ہوا، جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے ایک تادیبی کمیٹی بنائی جائے گی، لیکن اس کے لیے کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی۔

اس سلسلے میں جیوتی، جو ہندی ڈپارٹمنٹ کی پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور دیارِ شوق  اسٹوڈنٹس چارٹر (ڈی آئی ایس ایس سی) کی رکن بھی ہیں، نے کہا، ‘اب تک ہم سمجھ چکے تھے کہ ہمیں معطل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے طالبعلم  کے طور پرہمارے حقوق کو پوری طرح سے کچل دیا ہے۔’

سوربھ کے خلاف انتظامیہ کی طرف سے کی گئی کارروائی کے خلاف 10 فروری کو احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ تاہم، اس سے ایک دن پہلے (9 فروری)، تین دیگر طلباء- جیوتی، فضیل اور نرنجن کو بھی تادیبی کارروائی کے لیے نوٹس جاری کیا گیا۔ فضیل کمپیوٹر انجینئرنگ میں بی ٹیک کے پہلے سال کے طالبعلم ہیں اور ڈی آئی ایس ایس سی کے ممبر ہیں۔ وہیں، نرنجن، قانون کے چوتھے سال کے طالبعلم اور آل انڈیا ریوولیوشنری اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آے آئی ایس ایس او) کے رکن ہیں۔

جیوتی کہتی ہیں،’اب احتجاج کرنا ضروری تھا کیونکہ بہت سے طلباء اجلاس کے لیے ان بے مطلب  کے وجہ بتاؤ نوٹس سے متاثر ہو رہے تھے۔ انتظامیہ چاہتی ہے کہ ہم ہر تقریب کے لیے اجازت لیں جسے وہ بعد میں مسترد کر دیں۔ اب کیمپس کی یہی حالت ہے۔‘

یونیورسٹی کے رجسٹرار کی طرف سے 29 اگست 2022 کوجاری کردہ ایک میمورنڈم میں کہا گیا  ہےکہ ‘کیمپس کے کسی بھی حصے میں پراکٹر کی پیشگی اجازت کے بغیر طلبہ کی میٹنگ/اسمبلی کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایسا نہ کرنے کی صورت میں قصوروار طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔’

گزشتہ سال 29 نومبر کو جاری کردہ ایک اور میمورنڈم میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی کیمپس کے کسی بھی حصے میں کسی بھی باوقاراورآئینی شخصیت کے خلاف احتجاج، دھرنا، نعرے بازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ کیمپس کے احاطے میں گرافٹی کرنے اور پوسٹر لگانے پر 50 ہزار روپے تک کا جرمانہ ہے۔

انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ میمورنڈم۔

انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ میمورنڈم۔

ایم اے سوشیالوجی کے پہلے سال کے طالب علم مشکوٰۃ تحریم کو بھی احتجاج میں حصہ لینے پر حراست میں لیا گیا تھا اور بعد میں معطل کر دیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘جب ہم نے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر اسٹڈی سرکل منعقد کرنے کی اجازت مانگی تو انتظامیہ نے اس سے انکار کردیا۔ ہمیں پمفلٹ تقسیم کرنے کا سہارا لینا پڑا۔ پھر بھی ہمیں ایسے فون آئے کہ ہم  ایسی سرگرمیوں میں شامل نہ ہوں۔ کیمپس میں کچھ بھی کرنے کی آزادی نہیں ہے۔’

طلباء بتاتے ہیں کہ تنظیم اور احتجاج کا حق آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی چھ آزادیوں کا حصہ ہے۔ تاہم، وحشیانہ ریاستی جبر اور عسکریت پسندی نے یونیورسٹی میں طلباء کے ان حقوق پر کاری ضرب لگائی  ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کیمپس کے اندر پولیس کی موجودگی طلبہ کے تحفظ پر سنگین سوال اٹھاتی ہے۔

اتھارا کہتی ہیں،’یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پولیس احاطے میں داخل ہوئی ہو۔ یہ 2019 میں سی اے اے –این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران ہوا تھا۔ اس وقت یہ زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ پولیس پہلے سے  ہی احاطے کے اندر موجود تھی۔’

واضح ہو کہ جب دیگر طلباء اور میڈیا کالکاجی تھانے پہنچے تو انہیں حراست میں لیے گئے لوگوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔

صبح تقریباً 10 بجے جب کالکاجی اسٹیشن کے باہر کافی لوگ جمع ہوگئے تو ان طلبہ کو کیمپس واپس لے جانے کے بہانے فتح پور بیری اسٹیشن لے جایا گیا۔ انہیں شام 4 بجے تک وہاں رکھا گیا اور بار باردرخواست  کرنے کے باوجود انہیں ان کے وکیلوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔

مزید برآں، طلباء کو ان دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جن کے مندرجات وہ پڑھ نہیں سکتے تھے – کیونکہ انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ جب تک وہ دستخط نہیں کریں گے انہیں رہا نہیں کیا جائے گا۔

تحریم نے کہا،’ہمارے والدین سے بھی کہا گیا کہ وہ ہمیں ان دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کریں، انہیں اس کے لیے پولیس اسٹیشن بھی بلایا گیا تھا’۔

طلباء نے الزام لگایا کہ پولیس افسران نے ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا اور جسمانی اور زبانی طور پر ہراساں کیا۔

مثال کے طور پر بدر پور پولیس اسٹیشن میں حراست میں لی گئی  حبیبہ کو اپنا فون دینے پر اعتراض کرنے پر ایک پولیس افسر نے مبینہ طور پرتھپڑ مار دیا تھا۔

ایک اور طالبعلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ انہیں اسلامو فک باتیں کہی گئیں، جیسے کہ’یہ مسلمان لوگ صرف ڈانگے فساد کرتے ہیں(یہ مسلمان ہر جگہ فساد اور جھگڑے پیدا کرتے ہیں)۔’

طلبہ کا کہنا ہے کہ یہی نہیں انتظامیہ نے ان کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے ۔

دس فروری کو احتجاج کی پہلی رات حکام نے کیمپس کی بجلی منقطع کر دی، بیت الخلاء بند کر دیے اور کینٹین کے علاقے کو بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی وائس چانسلر مظہر آصف نے مبینہ طور پر طلبہ سے کسی بھی طرح  کی بات چیت سے انکار کر دیا ہے۔

گیارہ  فروری کو ان مظاہرین طلباء کے والدین کو پولیس حکام نے بلایا اور اپنے بچوں کو احتجاج سے دستبردار ہونے کی ہدایت دینے کو کہا۔

تحریم کا کہنا ہے کہ ‘اس کا مطلب یہ تھا کہ انتظامیہ نے ہمارے نمبر پولیس کے ساتھ شیئر کیے تھے۔’

شاہجہاں کہتے ہیں،’ہمیں حراست میں لیے جانے سے ایک دن پہلے، جامعہ نگر پولیس نے میرے والد کو فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ مجھے احتجاج سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں۔وہ کولکاتہ میں آٹو رکشہ چلاتے ہیں، انہیں پولیس کی طرف سے کئی دھمکی آمیز کالیں موصول ہوئیں کہ ان  کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی اور اسے کالج سے نکال دیا جائے گا، یہ انہیں اور مجھے ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا۔’

حراست سے ایک رات پہلے12 فروری کو شاہجہاں سمیت سات طلباء کو احتجاجی مقام سے 800 میٹر کے فاصلے پر ہونے والی جھڑپ کے لیے معطلی کے خطوط موصول ہوئے تھے۔

جامعہ کیمپس میں لگائے گئے پوسٹر۔

جامعہ کیمپس میں لگائے گئے پوسٹر۔

بتا دیں کہ احتجاج میں شامل تمام 17 طلباء کو معطل کر دیا گیا ہے۔ معطلی کے خطوط میں جن وجوہات کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں لوگوں کے ایک بے ہنگم اور بے قابو گروپ کی قیادت کرنا اور یونیورسٹی کی املاک کو نقصان پہنچانا، کیمپس کے معمول کے کام میں خلل ڈالنا، کیمپس کے اندر ہنگامہ آرائی کرنا اور دیگر طلبہ کو شدید تکلیف پہنچانا شامل ہیں۔

اتھارا کہتی ہیں،’معطلی اس طرح نہیں ہو سکتی، اس کے لیے ایک ضابطہ ہے۔ آپ کو وجہ بتاؤ نوٹس ملنا چاہیے۔ اگر جواب غیر تسلی بخش ہے تو، ایک تادیبی کمیٹی معاملے کو دیکھے گی اور فیصلہ کرے گی کہ معطلی ضروری ہے اور اگر ضروری  ہے تو اس کی تفصیلات بتائیں۔’

اتھارا کا مزید کہنا ہے کہ ‘اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ معطلی عام طور پر دو ہفتوں تک رہتی ہے۔ ہمیں موصول ہونے والے خطوط میں وقت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر میں دو ہفتوں کے بعد احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ مجھے دوبارہ معطل کر سکتے ہیں۔’

گزشتہ 14 فروری کو حراست میں لیے گئے طلبہ کی رہائی کے بعد یونیورسٹی کی مہر کے ساتھ ان کے نام، فون نمبر، ای میل آئی ڈی اور سیاسی وابستگی والے پوسٹرادارےکے گیٹ نمبر 7، 8 اور 13 کے اندر چسپاں کر دیے گئے تھے۔

ایک  بیان میں یونیورسٹی نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ کچھ افراد اور سماج دشمن عناصر گمراہ کن، توہین آمیز اور بدنیتی پر مبنی پیغامات پھیلا کر یونیورسٹی اور اس کے طلباء کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بیان میں احتجاج کرنے والے طلباء پر ذاتی معلومات پھیلانے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ انتظامیہ ایسی بے شرمی اور غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی مذمت کرتی ہے۔

ایک اور معطل طالبہ سوناکشی گپتا کا نام اور نمبر پوسٹروں پر ظاہر ہونے کے بعد سےانہیں نامعلوم نمبروں سے کال اور پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

شاہجہاں نے 16 فروری کو پریس کلب آف انڈیا میں جامعہ کی مختلف طلبہ سیاسی جماعتوں کے مشترکہ طور پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں سوال کیا،’اگر یونیورسٹی اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے تو پھر ان پوسٹروں پر ان کی  مہر کیسے لگی؟’

اپنی معطلی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان طلباء نے پریس کانفرنس میں پانچ دیگر مطالبات بھی رکھے۔ اس میں بنیادی حقوق کا استعمال کرنے والے طلباء کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے عمل کو فوری طور پر روکنا، طلباء کو آواز اٹھانے پر جاری کردہ تمام شوکاز نوٹس کو رد کرنا، 29 اگست 2022 اور 29 نومبر 2024 کے میمورنڈم کو رد کرنا، اختلاف ظاہر کرنے کے لیے طلبا کے خلاف وِچ ہنٹ کو ختم کرنا اورسزا دینے والے نوٹس واپس لینا شامل ہیں۔

معطل طلباء کی جانب سے منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں مختلف تعلیمی اداروں اور سیاسی تنظیموں کے طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یونیورسٹی کیمپس میں کس طرح  ‘جمہوری جگہیں’ سکڑ رہی ہیں، جیوتی نے کہا،’ہم اپنے جمہوری حقوق واپس چاہتے ہیں۔ اگر انتظامیہ کو یونیورسٹی کے سیاسی کلچر سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ یا انہیں طلباء کی آزادی اور تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔’

معلوم ہو کہ یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے طلباء نے معطل طلباء کی حمایت میں یکجہتی کے بیانات جاری کیے ہیں۔ اس کے تحت 17 فروری کو یونیورسٹی میں کلاسز کا بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا۔ تاہم،  انتظامیہ معطل طلباء کی حمایت میں کسی بھی طرح کی مزاحمت اور آواز کو دبانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

جیوتی پوچھتی ہیں،’رجسٹرار مہتاب عالم رضوی نے کہا ہے کہ اگر کوئی 17 فروری کو کلاس کا بائیکاٹ کرتا ہے تو پوری کلاس معطل کر دی جائے گی۔ یہ کیسی آمریت ہے۔’

تاہم بائیکاٹ میں طلباء کی بڑی تعداد کا مشاہدہ کیا گیا اور کلاس رومز خالی رہے۔ اسی دن طلباء نے 48 گھنٹے کے الٹی میٹم کے ساتھ ڈین آف اسٹوڈنٹ ویلفیئر کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں تمام معطلی خطوط کو فوراً منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

دہلی: ریکھا گپتا نے وزیر اعلیٰ کے طور پر لیا حلف، بی جے پی کے 14وزرائے اعلیٰ میں واحد خاتون

ریکھا گپتا کو وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی نے خواتین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے، جنہیں گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان کی انتخابی سیاست میں ایک نئے ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ریکھا گپتا کے علاوہ پرویش ورما، منجندر سنگھ سرسا، رویندر اندراج سنگھ، آشیش سود، کپل مشرا اور پنکج کمار سنگھ نے بھی وزیر کے طور پر حلف لیا۔

حلف برداری کی تقریب کے دوران ریکھا گپتا اور بی جے پی کے دیگر رہنما پی ایم مودی اور لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@gupta_rekha)

حلف برداری کی تقریب کے دوران ریکھا گپتا اور بی جے پی کے دیگر رہنما پی ایم مودی اور لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@gupta_rekha)

نئی دہلی: دہلی کے شالیمار باغ سے نومنتخب ایم ایل اے ریکھا گپتا نے دہلی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ اس موقع پر لیفٹیننٹ گورنر ونئے کمار سکسینہ نے ریکھا گپتا کے علاوہ پرویش ورما، منجندر سنگھ سرسا، رویندر اندراج سنگھ، آشیش سود، کپل مشرا اور پنکج کمار سنگھ کو وزیر کے طور پر کا حلف دلایا۔

دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے تقریباً 11 دن بعد، بی جے پی نے بدھ (19 فروری) کو وزیر اعلیٰ کے نام کا انکشاف کرتے ہوئے پہلی بار ایم ایل اے  بنیں ریکھا گپتا کو دہلی حکومت کی قیادت کے لیےاپنی پسند کے طور پر پیش کیا تھا ۔

معلوم ہو کہ 50 سالہ ریکھا گپتا نے اپنے سینئر معاونین  اور بی جے پی دہلی یونٹ کے پرویش ورما، آشیش سود، وریندر سچدیوا، وجیندر گپتا اور ستیش اپادھیائے  جیسے اہم ناموں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے بازی ماری ۔

ریکھا گپتا بی جے پی کی سشما سوراج، کانگریس کی شیلا دکشت اور عام آدمی پارٹی (عآپ) کی آتشی کے بعد دہلی کی چوتھی خاتون وزیر اعلیٰ ہوں گی۔

اس سلسلے میں ریکھا گپتا نے بدھ کی رات دیر گئے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ سے ملاقات کی اور حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا۔ اس کے بعد سکسینہ نے ان کا دعویٰ قبول کرتے ہوئےانہیں حکومت بنانے کی دعوت دی۔

ایسا مانا جارہا ہے کہ ریکھا گپتا کے وزیر اعلی بننے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا بڑا ہاتھ ہے۔ ریکھا گپتا اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز سے ہی سنگھ سے وابستہ ہیں اور یہی وہ اہم وجہ ہے جس نے پارٹی کے فیصلے کو متاثر کیا اور بڑے سیاسی رہنماؤںکو پیچھے چھوڑتے ہوئے انہیں وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچایا۔

معلوم ہو کہ ریکھا گپتا نے 2015 اور 2020 میں شمال مغربی دہلی کے شالیمار باغ حلقہ سے الیکشن لڑا تھا، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی تھی۔ تاہم، اس بار انہوں نے 5 فروری کو ہونے والے انتخابات میں اپنی عام آدمی پارٹی (عآپ) کی حریف بندنا کماری کو 29500 ووٹوں سے شکست دی۔

اس سے پہلے ریکھا گپتا 2023 کے دہلی میئر کے انتخاب میں عآپ  کی شیلی اوبرائے سے ہار گئی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ ملک میں بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں کے 14 وزرائے اعلیٰ میں ریکھا گپتا واحد خاتون وزیر اعلیٰ ہیں۔ مودی حکومت  ممکنہ طور پرانہیں آگے رکھ کر خواتین کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جنہیں عام طور پر ایک ابھرتا ہوا ووٹ بینک سمجھا جارہا ہے، اور جس کا فائدہ  بہار کے آئندہ انتخابات میں بھی پارٹی کومل سکتا ہے۔

غور طلب ہے کہ اس سے قبل دہلی میں بی جے پی کی حکومت 1993 اور 1998 کے درمیان صرف ایک مدت کے لیے تھی، جب اس ریاست میں پہلی بار اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔ اس دور میں بی جے پی نے تین بار اپنے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کیا۔ پہلے مدن لال کھرانہ، صاحب سنگھ ورما اور آخر میں سشما سوراج نے چارج سنبھالا۔

اب جبکہ ریکھا گپتا نے چیف منسٹر کے طور پر حلف لیا ہے، ان کے سامنے پہلا چیلنج فلاحی اسکیموں اور وعدوں کو نافذ کرنا ہوگا،  جو بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے تھے۔ پارٹی کے چند اہم وعدوں میں غریب خواتین کو ماہانہ 2500 روپے کا الاؤنس، دہلی میں آیوشمان بھارت میڈیکل انشورنس اسکیم کا نفاذ، سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا، یمنا  ندی کی صفائی اور ریاست میں فضائی آلودگی کی خطرناک سطح کو کنٹرول کرنا شامل ہیں۔

حکومت بنانے کا دعویٰ کرنے کے بعد، ریکھا گپتا نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کی طرف سے کیے گئے تمام وعدے ‘وقت پر’ پورے کیے جائیں گے۔

انہوں نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی-بھاشا کو بتایا، ‘صرف ایک ہی ترجیح ہے: ہم نے دہلی کے لیے جو وعدے کیے ہیں، انہیں پورا کرنا، وزیر اعظم مودی کا دہلی کے لیے جو خواب ہے، وہ میری پہلی اور سب سے اہم ترجیح ہے۔’

طلبہ سیاست سے ہوئی تھی شروعات

ریکھا گپتا نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے کیا تھا اور بعد میں بی جے پی میں کئی عہدوں پر کام کیا۔ وہ اس وقت پارٹی کی خواتین ونگ کی سکریٹری اور نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

وہ 1974 میں جند، ہریانہ میں بنیا برادری سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان میں پیدا ہوئیں، جو کئی دہائیوں سے دہلی میں بی جے پی کی اہم بنیاد رہی ہے۔

ان کے والد اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ملازم تھے، جب وہ صرف دو سال کی تھیں ، تب وہ  دہلی چلے آئے تھے۔ وہ دہلی یونیورسٹی کی طالبہ کے طور پر آر ایس ایس کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد میں شامل ہوئیں۔

اس کے بعد دولت رام کالج کے طلبہ یونین کی سکریٹری کے طور پر ان کی انتخابی کامیابی کے بعدانہیں 1995 میں دہلی یونیورسٹی طلبہ یونین کا صدر بھی منتخب کیا گیا۔

ریکھا گپتا نے دہلی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی اور بی جے پی میں اپنی جگہ بنا کر مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہو گئیں۔

انتخابی سیاست میں ان کا داخلہ 2007 میں ہوا،  جب وہ پہلی بار شمالی پتم پورہ میں میونسپل کونسلر بنیں۔ اس دوران انہوں نے دہلی بی جے پی کے خواتین ونگ میں جنرل سکریٹری کے طور پر بھی کام کیا، جس کے بعد انہیں پارٹی کے قومی خواتین ونگ میں لایا گیا۔

سال 2012 میں میونسپل کونسلر کے طور پر دوبارہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے میئر کے طور پر خدمات انجام دیں، اس سے پہلے کہ  شہر کی دو دیگر کارپوریشنوں کو میونسپل کارپوریشن آف دہلی بنایا گیا۔

جب انہوں نے 2015 میں پہلی بار دہلی اسمبلی کا الیکشن لڑا توعآپ کی بندنا کماری نے انہیں تقریباً 11000 ووٹوں سے ہرایا۔ پھر 2020 میں کماری سے ان کی شکست کا مارجن تقریباً 3400 ووٹوں پر آ گیا۔

Next Article

مالیگاؤں: بی جے پی لیڈر کی غیر قانونی ’روہنگیا-بنگلہ دیشی‘ افواہ کے بعد ایس آئی ٹی نے مسلمانوں کو گرفتار کیا

بی جے پی لیڈر نے مالیگاؤں میں ‘غیر قانونی بنگلہ دیشی اور روہنگیا’ کے ہونے کے دعوے کیے تھے، جس کے بعد حکومت نے ایس آئی ٹی تشکیل دی اور تحقیقات شروع کی۔ تاہم، اب تک گرفتار کیے گئے لوگوں پر’غیر قانونی تارکین وطن’ ہونے کا الزام نہیں ہے، بلکہ انہیں مبینہ طور پر دستاویز سے متعلق جعلسازی کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔

مالیگاؤں میں ایس آئی ٹی کے دفتر کے باہر لوگ۔ (تمام تصویریں : اسپیشل ارینجمنٹ)

مالیگاؤں میں ایس آئی ٹی کے دفتر کے باہر لوگ۔ (تمام تصویریں : اسپیشل ارینجمنٹ)

ممبئی: اس سال جنوری میں ممبئی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کریٹ سومیا نے 300 کلومیٹر شمال کا سفر کرتے ہوئے مالیگاؤں کا دورہ کیا اور اس علاقے میں تقریباً ایک دہائی پرانے مقامی زمینی تنازعہ کو سیاسی رہنماؤں کے درمیان اٹھایا۔

ناسک ضلع کے اس مسلم اکثریتی شہر کا دورہ کرنے کے بعد سومیا نے اچانک اعلان کیا کہ یہاں ایک ہزار سے زیادہ ‘روہنگیا اور بنگلہ دیشی لوگ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں’اور انہوں نے بغیر کسی خوف کے یہاں رہتے ہوئے غیر قانونی ہندوستانی دستاویز بھی حاصل کر لیے ہیں۔ سومیا کے اس  دعوے کی تعداد چند دنوں میں بڑھ کر’چار ہزار غیر قانونی تارکین وطن’ تک پہنچ گئی۔

تاہم، سومیا کے الزامات کسی ثبوت پر مبنی نہیں تھے،  بلکہ یہ ایک عام فرقہ وارانہ الزام تھا جو دائیں بازو کے بہت سے کارکن اور سیاسی رہنما گزشتہ ایک دہائی سے لگاتے آ رہے ہیں۔ لیکن سومیا کا بیان بی جے پی کی قیادت والی مہایوتی حکومت کے لیے فوری طور پر ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) بنانے کے لیے کافی تھا۔

اس سلسلے میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے اندر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے ناسک زون کے اسپیشل انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں ایک ایس آئی ٹی کا اعلان کیا۔ اورجلد ہی مالیگاؤں میں ایک خصوصی دفتر قائم ہو گیا۔

ایس آئی ٹی نے زیادہ تر مقامی لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا، 19 گرفتار

اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایس آئی ٹی نے ان سینکڑوں لوگوں کو طلب کیا ہے، جنہوں نے گزشتہ سال اپنے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دی تھی یا اس کو حاصل کیاہے۔

ایس آئی ٹی کی اب تک کی جانچ کی بنیاد پر اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ یہ لوگ غیر قانونی روہنگیا یا بنگلہ دیشی نہیں ہیں۔ زیادہ تر معاملوں  میں، وہ دوسری ریاستوں سے آنے والے مہاجر بھی نہیں ہیں، بلکہ مقامی لوگ  ہیں، جو مالیگاؤں میں نسلوں سے رہ رہے ہیں اور ان کے پاس صرف شہریت کا ثبوت نہیں تھا۔

مالیگاؤں پولیس نے جن 19 لوگوں کو گرفتار کیا ہے، ان میں مقامی درخواست دہندگان (ایک کالج کی طالبہ اور دو خواتین)، کچھ دلال (ایجنٹ)، وکیل اور ایک مقامی صحافی شامل ہیں۔ ان افراد کو ‘غیر قانونی تارکین وطن’ ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا، بلکہ برتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے یا دیگر دستاویز سے متعلق دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات اس بات کی نشاندہی نہیں کرتی ہیں کہ پولیس کو یہ دعویٰ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت ملے ہیں کہ یہ افراد ہندوستانی سرزمین پر رہنے والے غیر قانونی غیر ملکی ہیں۔

تاہم، سومیا حکومت کی اس کارروائی کا کریڈٹ لیتے ہوئے یہ  دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ پوری مشق مالیگاؤں میں’بنگلہ دیشی اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن’ ہے۔

یہ دیکھنے کے بعد کہ ریاستی حکومت مالیگاؤں میں کیے گئے ان کے دعوے پر فوراً کارروائی کر رہی ہے، وہ ریاست کے دیگر حصوں کا بھی دورہ کر رہے ہیں اور اسی طرح  کے الزامات لگا رہے ہیں۔ وہ پولیس پر دوسرے اضلاع میں بھی مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ امراوتی ضلع سومیا کےسب سے حالیہ ہدف میں سے ایک ہے۔

مالیگاؤں کے لوگوں کو ایس آئی ٹی کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹس

مالیگاؤں کے لوگوں کو ایس آئی ٹی کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹس

کئی متاثرہ افراد کی نمائندگی کرنے والے وکیل توصیف سلیم نے دی وائر کو بتایا کہ مالیگاؤں میں گرفتار کیے گئے بہت سے لوگوں نے ایجنٹوں کے ذریعے اپنی پیدائش اور دیگر دستاویز کے لیے درخواست دی تھی۔

توصیف نے دعویٰ کیا کہ ،’ان میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اپنے دستاویزات کیسے حاصل کریں۔ انہوں نے مقامی ایجنٹوں سے رابطہ کیا اور مصیبت میں پھنس گئے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کے دستاویزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی، لیکن نام نہاد چھیڑ چھاڑ بنیادی طور پر ان کے نام کا غلط املا یا غلط تاریخ پیدائش ہے۔’

‘میرا خاندان یہاں نسلوں سے ہے، ایس آئی ٹی نے مجھ سے پوچھا کہ میں ہندوستان میں کیسےداخل ہوا’

بی جے پی لیڈر سومیا کے الزامات سے پورے شہر میں سنسنی پھیل گئی ہے۔ 25 سالہ عبدل شریف کا خاندان مالیگاؤں میں کئی نسلوں سے رہ رہا ہے۔ شریف نے اپنے آدھار کارڈ پر اپنا نام اپڈیٹ کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔ انہوں نے بتایا، ‘جب میں پیدا ہوا تو میرے خاندان نے غلطی سے میرے والد کے نام کے بجائے میرے دادا کا نام شامل کر دیا۔ میں نے دو ماہ قبل اسے ٹھیک کرنے کے لیے درخواست دی تھی اور اسے بغیر کسی پریشانی کے ٹھیک کر دیا گیا۔’

تاہم، 17 فروری کو انہیں نوٹس جاری کیا گیا اور ایک دن کے اندر ایس آئی ٹی کے سامنے حاضر ہونے کو کہا گیا۔ مراٹھی میں جاری اس نوٹس میں کہا گیا ہے، ‘اگر آپ ایک دن کے اندر ایس آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتے ہیں، تو یہ سمجھا جائے گا کہ آپ کے پاس کوئی وضاحت نہیں ہے، اور افسران ضروری کارروائی شروع کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔’

شریف کا کہنا ہے کہ ایس آئی ٹی کے دفتر میں ان سے بمشکل ان کے درمیانی نام میں تبدیلی کے بارے میں پوچھا گیا۔ شریف نے دی وائر کو بتایا،’وہ مجھ سے میرے ہندوستان آنے کے بارے میں سوال پوچھتے رہے، میں مالیگاؤں میں کتنا عرصہ رہا، اور کتنے دوسرے میرے ساتھ آئے،’ شریف نے دی وائر کو بتایا۔

مالیگاؤں میں مقیم انسانی حقوق کے وکیل شاہد ندیم، جو اس وقت سپریم کورٹ میں پریکٹس کر رہے ہیں، نے بتایا کہ ان کے والدین کو بھی ایس آئی ٹی نے پوچھ گچھ اور دستاویز کی تصدیق کے لیے بلایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مکمل جائزہ لینے کے بعد ان کے والدین کو جانے کی اجازت دی گئی۔ ان کے کیس میں دستاویز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا کوئی الزام نہیں تھا، پھر بھی انہیں ایس آئی ٹی نے طلب کیا تھا۔

شاہد کا کہنا ہے کہ مالیگاؤں میں لوگوں میں گرفتاری، ہراساں کیے جانے اور حراست میں لیے جانے کا واضح خوف ہے۔

شاہد کہتے ہیں،’لوگ کئی نسلوں سے یہاں (مالیگاؤں) رہ رہے ہیں، اور اچانک ان سب کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ نہ ہی ریاستی حکومت اور نہ ہی ایس آئی ٹی  ٹیم نے رہائشیوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کچھ کیا ہے کہ یہ ایک معمول کی مشق ہے اور اس کا مقصد کسی کمیونٹی کو ڈرانا یا مجرم کے طورپر پیش کرنا نہیں ہے۔’

مالیگاؤں میں پولیس تشدد اور کریمنلائزیشن کی طویل تاریخ ہے

واضح ہوکہ مالیگاؤں میں پولیس تشدد اور کریمنلائزیشن کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مسلم اکثریتی شہر ہونے کی وجہ سے یہ پولیس کے لیے کافی عرصے سے ایک آسان ہدف رہا ہے۔ یہاں نوجوانوں کو غلط طریقے سے دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی  مثال 2006 کے مالیگاؤں کے دو بم دھماکے ہیں، جن میں 37 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

اس وقت کی کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کے تحت پولیس نے اس معاملے میں کئی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا۔ مسلمان مردوں، جن میں سے زیادہ تر پڑھے لکھے اور پیشہ ور افراد تھے، نے کہا تھا کہ انہیں غلط طریقے سے  پھنسایا جا رہا ہے لیکن سچ سامنے آنے میں پانچ سال لگ گئے۔

سال 2011 میں جب قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے ریاست کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ سے کیس سنبھالا تو پہلی بار یہ تسلیم کیا گیا کہ یہ دھماکہ درحقیقت ہندو انتہا پسندوں کا کام تھا۔ کئی دیگر معاملوں  میں مالیگاؤں کے کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں بری کر دیا گیا۔

لیکن یہ شہر دہشت گردانہ سرگرمیوں کی ‘جائے پیدائش’ کے طور پر بدنام ہو گیا۔

سال 2020 میں منظور ہونے والے شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کے خلاف بڑھتی ہوئی بے چینی کے ساتھ اقلیتی برادریوں، خاص طور پر مسلمانوں نے اپنی پیدائش اور شہریت کے دیگر دستاویز جمع کرنا شروع کر دیے تھے۔

علاقے کے سابق ایم ایل اے آصف شیخ کا کہنا ہے کہ 2020 کے بعد شہریت کے نئے قوانین کے خوف سے درخواستوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔

شیخ کہتے ہیں،’ہر عمر گروپ کے لوگ ہر قسم کے دستاویز کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔ ان تمام سالوں میں کسی نے اپنا وجود یا قومیت ثابت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن 2019 کے آخر میں سب کچھ بدل گیا۔ مسلمانوں کو اچانک بتایا گیا کہ وہ اب اپنی قومیت کو ہلکے میں  نہیں لے سکتے۔’

شیخ نے دیگر سماجی شعور رکھنے والے شہریوں کے ساتھ مالیگاؤں میں ایک ‘رکشا سمیتی’ قائم کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روزانہ کئی درجن لوگ ایس آئی ٹی نوٹس لے کر کمیٹی کے دفتر پہنچتے ہیں۔ شیخ کے مطابق نوٹس اس طرح لکھا گیا ہے کہ سب کو مشتبہ سمجھا جائے۔

وہ کہتے ہیں،’جن لوگوں نے معصومیت میں  اپنے دستاویز کے لیے درخواست دی ہے، ان پر دھوکہ دہی کرنے والے یا اس سے بھی بدتر، غیر قانونی تارکین وطن کا الزام لگایا جا رہا ہے۔’

مالیگاؤں میں ایک  یوٹیوب چینل ‘میدانِ صحافت ‘ کے ایڈیٹر شہزاد اختر مقامی لوگوں کی روزانہ کی حالت زار کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 100 لوگ ایس آئی ٹی کے دفتر کے باہر جمع ہوتے ہیں، کاغذ کے ہرٹکڑے کے ساتھ انہیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ ملک کے قانونی باشندے ہیں۔

اختر کہتے ہیں،’ایس آئی ٹی کو بنے ہوئے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اگر ایس آئی ٹی کو شہر میں کوئی مشکوک شخص ملتا تو وہ اسے اب تک گرفتار کر لیتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ پوری مشق صرف مقامی لوگوں کو ہراساں کرنے اور 2024 کے پارلیامانی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کی سزا دینے کے لیے کی گئی تھی۔’

ایس آئی ٹی دفترمیں اپنے دستاویزکی تصدیق کے عمل کے دوران لوگ۔

ایس آئی ٹی دفترمیں اپنے دستاویزکی تصدیق کے عمل کے دوران لوگ۔

‘یہ مشق لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی امیدوار کی شکست کا نتیجہ ہے’

معلوم ہو کہ مالیگاؤں دھلے لوک سبھا حلقہ کے تحت آتا ہے اور یہاں دو لاکھ سے زیادہ ووٹر ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ  2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 1.8 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے کانگریس کی شوبھا باچاو کو ووٹ دیا تھا، جنہوں  نے دو بار کے بی جے پی کے ایم پی کے خلاف 3000 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ شوبھاکی جیت کا براہ راست سہرا مالیگاؤں علاقے سے ملنے والی حمایت کو دیا جاتا  ہے۔

اختر اور شیخ دونوں کے مطابق یہ ساری مشق پارلیامانی انتخابات کا نتیجہ ہے۔

شیخ پوچھتے ہیں،’ موجودہ حکومت کے خلاف ووٹ دینے والی کمیونٹی کو سبق سکھانے کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟’

شوبھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علاقے کے ووٹوں کی بدولت جیت گئے ہیں، نے پورے معاملے اور کارروائی سے دوری بنا رکھی ہے۔

شیخ کہتے ہیں،’جنوری میں جب ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی تو مقامی لوگوں نے شوبھا سے رابطہ کیا اور ان سے پارلیامنٹ میں مسئلہ اٹھانے کو کہا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔’

دی وائر نے ردعمل  کے لیے شوبھا سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

یوپی: گنگا ندی کی آلودگی کی سچائی سے انکار کرنے کی سی ایم آدتیہ ناتھ کی کوششیں بے سود کیوں ہیں …

سی پی سی بی کی جانب سے این جی ٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گنگا ندی کا پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ اب یہ ڈبکی لگانے کے قابل نہیں ہے۔ اس تلخ سچائی کی تردید کرنے والا یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان حقائق سے چشم پوشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025_)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025_)

بنگلورو: پچھلے مہینے 25  جنوری 2025 کو جب دہلی اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی  مہم اپنے شباب  پرتھی،تب  اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سربراہ اروند کیجریوال کو اتر پردیش کے الہ آباد سنگم میں گنگا میں ڈبکی لگانے کی دعوت دی تھی۔ دراصل، وہ دہلی میں بہنے والی یمنا ندی کو صاف نہ کرپانے پر کیجریوال کو  تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔

تب انہوں نے کہا تھا، ‘سنگم میں ڈبکی لگانے سے انہیں (عآپ  دہلی کابینہ کو) کچھ فائدہ ہو گا۔’

اب، ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں ایسا لگتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنے الفاظ واپس لینےپڑ سکتے ہیں۔ سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کی طرف سے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) کو 3 فروری کو پیش کی گئی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ الہ آباد ، جہاں مہاکمبھ میں ایک سرکاری اندازے کے مطابق، 45 کروڑ سے زیادہ لوگوں کا مذہبی اجتماع چل رہا ہے ،میں گنگا ندی کے پانی میں فیکل کالیفارم (انسان اور جانوروں کے فضلےسےمائیکرو آرگنزم) کی سطح  جتنی ہونی چاہیے، اس سے تقریباً 20  گنا زیادہ ہے۔

سادہ زبان میں کہیں تو اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ یہاں گنگا کا پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ اب یہ  ڈبکی لگانے کے قابل نہیں ہے۔

تاہم آدتیہ ناتھ نے ان عووں کی تردید کی ہے ۔ بدھ (19 فروری) کو اتر پردیش اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الہ آباد کا پانی نہانے اور گھونٹ پینے کے لیے(آچمن) کافی صاف ہے۔

واٹر ایکسپرٹ ہمانشو ٹھکر،  جوساؤتھ ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمز، ریورز اینڈ پیپل (ایس اے این ڈی آر پی) کے کوآرڈینیٹر ہیں، نے کہا کہ مہا کمبھ کی تیاری کے لیے حکام کی جانب سے ‘خصوصی اقدامات’ کیے جانے کے باوجود فیکل کالیفارم میں اضافہ ہوا ہے، جو طویل عرصے تک ندی  کو صاف کرنے کے لیے سیاسی عزم کے فقدان  کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘گنگا کی صفائی سال بھر ہونی چاہیے نہ کہ صرف کمبھ کے دوران اور پانی کے معیار (کوالٹی)کے بارے میں معلومات کمبھ نہانے والی جگہوں پر درج کی جانی چاہیے کیونکہ لوگوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔’

کالیفارم اور فیکل کالیفارم کی اعلیٰ سطح

سی پی سی بی نے 3 فروری کو این جی ٹی کو  جورپورٹ  سونپی ہے ، اس کا ایک حصہ مہا کمبھ 2025 کے دوران الہ آباد میں بایو کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی او ڈی )، کالیفارم اور فیکل کالیفارم کی مجموعی سطح – ندی کے پانی میں آلودگی کی سطح کی  تمام پیمائش- بشمول پانی کے معیار کے متعدد پیرامیٹرز کو لسٹ کرتا ہے۔

کمبھ میلہ ہر چار سے 12 سال میں ایک بار ہوتا ہے ۔ یہ اس سال 13 جنوری کو شروع ہوا اور 26 فروری تک جاری رہے گا۔

سی پی سی بی کی رپورٹ، جس کے حصے این جی ٹی کی سماعت میں شامل کیے گئے ہیں، نے 12 سے 15 جنوری اور 19، 20 اور 24 جنوری تک پانی کے معیار کے مذکورہ بالا پیرامیٹرز کا ڈیٹا دیا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ندی کے پانی کا معیارنہانے کے لیےبنیادی پانی کے معیار (پرائمری واٹر کوالٹی)  کے مطابق نہیں تھا۔ متعدد مواقع پر تمام نگرانی مقامات پر فیکل کالیفارم (ایف سی) میں اضافہ دیکھا گیا۔ سی پی سی بی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہا کمبھ میلے کے دوران الہ آباد میں شاہی اسنان کے دنوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ ندی  میں نہاتے ہیں، جس کے نتیجے میں فضلے کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر، الہ آباد کے سنگم گھاٹ پر مجموعی طور پرفیکل کالیفارم کی سطح 12 جنوری کو 4500 اور 2000 ایم این پی /100ایم ایل (ہر 100 ایم ایل  میں زیادہ سے زیادہ ممکنہ تعداد) سے بڑھ کر 14 جنوری کو 49000 اور 11000 ایم پی این/100 ایم ایل تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد کل کالیفارم کی سطح مزید بڑھ کر 700000 ایم پی این/ 100ایم ایل  ہوگئی۔ جبکہ 19 جنوری کو فیکل کالیفارم کی سطح 49000 ایم پی این /100 ملی میٹر تھی۔

معلوم ہو کہ ندیوں میں فیکل کالیفارم کی سطح عام طور پران ٹریٹیڈ سیوریج کے بہاؤ کی وجہ سے ہوتی ہے، مثالی طور پر یہ ہر 100 ملی لیٹر پانی کے لیے 2500 ایم پی این سے کم ہونا چاہیے۔

سی پی سی بی کی رپورٹ کے مطابق، الہ آباد میں تمام دس سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس چالو ہیں، لیکن ان میں سے ایک بھی مقررہ آپریشنل معیارات پر پورا نہیں اتر رہا ہے۔

فیکل کالیفارم کی اعلیٰ سطح کا نوٹس لیتے ہوئےاین جی ٹی  نے گنگا ندی  میں آلودگی پر ایک سماعت کے دوران نوٹ کیا کہ اتر پردیش آلودگی کنٹرول بورڈ (یوپی پی سی بی) نے ‘جامع ایکشن رپورٹ’ داخل نہیں کی ہے، جس میں ان اقدامات کی تفصیلات دی گئی ہیں جواین جی ٹی نے گزشتہ سال دسمبر میں بورڈ کو مہا کمبھ کے شروع ہونے سے پہلے اٹھانے کو کہا تھا۔

این جی ٹی نے 17 فروری کوممبر سکریٹری اور دیگر ریاستی عہدیداروں کو 19 فروری کو اس عدم تعمیل پرتبادلہ خیال  کرنے کے لیے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ میٹنگ میں این جی ٹی نے فیکل کالیفارم اور آکسیجن کی سطح جیسے پانی کے معیار کے دیگر پیرامیٹرز کے بارے میں مناسب تفصیلات فراہم نہ کرنے کے  بورڈ اور اتر پردیش حکومت کی سرزنش بھی کی ۔

لائیو منٹ کی رپورٹ کے مطابق، این جی ٹی نے اب حکام کو ان تفصیلات کو ریکارڈ پر رکھنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔

‘سیاسی عزم اور قوت ارادی کا فقدان’

آبی ماہر ٹھکر نے دی وائر سے بات چیت میں کئی خدشات کی جانب توجہ مبذول کرائی ۔

ان کے مطابق، سب سے پہلےفیکل کالیفارم کی سطح میں یہ زبردست اضافہ’خصوصی اقدامات’ کے باوجود ہوا ہے – جیسےکہ ان علاقوں سے سیوریج کوموڑنا جہاں کمبھ ہورہا ہے، تمام قریبی ٹینریز کو بند کرنا، یہ یقینی بنانا کہ تمام ایس ٹی پی آپریشنل ہیں اور زیادہ پانی  اپ-اسٹریم میں چھوڑنا وغیرہ۔

ٹھکر نے کہا، ‘دوسری بات، حکومت نہ صرف کمبھ کے تمام انتظامات کر رہی ہے، بلکہ لوگوں کو کمبھ کے لیے مدعو بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس بوقت  گنگا کا پانی نہ صرف نہانے کے معیار کا ہونا چاہیے بلکہ ممکنہ طور پر پینے کے قابل بھی ہونا چاہیے– کیونکہ وہ جانتی ہے کہ لوگ آچمن (گھونٹ) بھی کرتے ہیں۔ لیکن حکومت اس میں پوری طرح سے  ناکام رہی  ہے۔’

تیسرا، ٹھکر نے نشاندہی کی کہ پانی کے معیار پرصرف سی پی سی بی کی رپورٹ میں’محدود دنوں کا ڈیٹا’ہے۔ تاہم ،باقی ڈیٹا کا ابھی انتظار ہے، جبکہ تمام ڈیٹا فوری طور پر پبلک ڈومین میں ہونا چاہیے تھا۔

معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے تجویز پیش کی کہ کمبھ میں جگہ جگہ بورڈ لگایا جانا چاہیےاور لکھا جانا چاہیے کہ ‘یہ (پانی) نہانے کے معیار کا نہیں ہے، آچمن (گھونٹ لینے)کے معیار کی بات ہی چھوڑ دیں۔’

ٹھکر نے کہا، ‘عوامی مفاد میں اسے وہاں پر مشتہر کیا جانا چاہیے تھا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘سی پی سی بی کی طرف سے دیا گیا ایک بہانہ یہ ہے کہ جب اتنے کروڑ لوگ نہائیں گے  تو بی او ڈی اور فیکل کالیفارم بڑھنے کا امکان  ہے۔ یہ بکواس ہے’

وہ مزید کہتے ہیں، ‘آپ کو اس طرح کے انتظامات کرنے ہوں گے…اس بات کو یقینی بنائیں کہ صرف اتنے ہی لوگ آئیں، جس سے گنگا کے پانی کا معیار برقرار رہے اوراس کے باوجود اس میں گراوٹ نہ ہو۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو آپ نے اپنا فرض ادا نہیں کیا اور نہ ہی آپ لوگوں کو وقت پر اطلاع دے رہے ہیں۔’

ٹھکر کے مطابق، پانی میں نہانے والوں کی تعداد پر ایک حد  مقررہونی چاہیے تاکہ ندی میں پانی کا معیار طے شدہ معیار سے نیچے نہ آئے۔

لیکن کیا اس طرح کی گنجائش ممکن ہے، خاص طور پر جب کسی  مذہبی تقریب کا سوال ہو؟

ٹھکر یقینی طور پر سوچتے ہیں کہ یہ ممکن ہے، انہوں نے 2013 کے بعد اتراکھنڈ حکومت کی طرف سے عائد کردہ حد کی صلاحیت کی مثال دی جب چار دھام یاترا کے دوران ایک واقعہ میں کئی یاتریوں کی موت ہو گئی تھی۔

ٹھکر نے کہا کہ گنگا کے معاملے میں صرف کمبھ کے لیے کیے جانے والے عارضی اقدامات یا ‘کاسمیٹک تبدیلیاں’ کام نہیں کریں گی۔ گنگا کی صفائی سال بھر کی جانی چاہیے، صرف کمبھ کے دوران ہی نہیں… گنگا کو سال بھر ایک ندی کی طرح مانا جانا چاہیے۔ اگر اس پر عمل کرنے کا سیسی عزم ہوتو یہ بڑی حد تک قابل عمل ہے۔

دراصل، سیوریج کا پانی ہر وقت ندی میں داخل ہونے کی تشویش کچھ ایسی ہے جس کا اظہار شہریوں نے بھی کیا ہے۔ سنکٹ موچن فاؤنڈیشن ، جو ایک این جی او ہے، اورجس کا وژن صاف گنگا کو یقینی بنانا ہے، کے صدر وی این مشرانے گزشتہ سال 6 مارچ 2024 کو ایکس پر ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ زیادہ تر حصوں میں ندی ‘نہانے کے  لیےموزوں نہیں ہے۔’

واضح ہو کہ مشرا نے گزشتہ سال دسمبر میں کی گئی ایک پوسٹ میں–اس  وقت میں جب گنگا کو مہا کمبھ کے لیے خصوصی طور پر صاف کیا جانا تھا – انہوں نے ندی میں چھوڑے جارہے سیوریج کا  دستاویز تیار کیا تھا۔

غور طلب  ہے کہ گنگا ندی میں فیکل کالیفارم میں اضافے کی یہ تازہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت گنگا ندی کی صفائی پر مسلسل پیسہ خرچ کر رہی ہے۔ جون 2024 تک،قومی مشن برائے کلین گنگا کے حصے کے طور پر نمامی گنگا پروجیکٹ کے تحت مختلف پروگراموں پر تقریباً 18000 کروڑ روپے (منظور شدہ رقم کے تقریباً 38000 کروڑ روپے میں سے)  خرچ کیے گئے  ہیں، جیسا کہ  دی ہندو نے گزشتہ سال اگست میں اپنی  رپورٹ میں بتایا تھا۔

معلوم ہوکہ اس مشن کے ڈائریکٹر جنرل نے خود تبصرہ کیا تھا کہ رفتار سست ہے۔ اس کے باوجودحکومت کا ٹیکس دہندگان کے کروڑوں روپے گنگا پر خرچ کرنے کےبعد بھی ندی  اب بھی صاف نہیں ہے – ڈبکی لگانے  کے قابل بھی نہیں- خیر سے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اس سے انکار کرتے ہوں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)