یوپی: گنگا ندی کی آلودگی کی سچائی سے انکار کرنے کی سی ایم آدتیہ ناتھ کی کوششیں بے سود کیوں ہیں …

سی پی سی بی کی جانب سے این جی ٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گنگا ندی کا پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ اب یہ ڈبکی لگانے کے قابل نہیں ہے۔ اس تلخ سچائی کی تردید کرنے والا یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان حقائق سے چشم پوشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

سی پی سی بی کی جانب سے این جی ٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گنگا ندی کا پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ اب یہ ڈبکی لگانے کے قابل نہیں ہے۔ اس تلخ سچائی کی تردید کرنے والا یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان حقائق سے چشم پوشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025_)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: X/@MahaKumbh_2025_)

بنگلورو: پچھلے مہینے 25  جنوری 2025 کو جب دہلی اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی  مہم اپنے شباب  پرتھی،تب  اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سربراہ اروند کیجریوال کو اتر پردیش کے الہ آباد سنگم میں گنگا میں ڈبکی لگانے کی دعوت دی تھی۔ دراصل، وہ دہلی میں بہنے والی یمنا ندی کو صاف نہ کرپانے پر کیجریوال کو  تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔

تب انہوں نے کہا تھا، ‘سنگم میں ڈبکی لگانے سے انہیں (عآپ  دہلی کابینہ کو) کچھ فائدہ ہو گا۔’

اب، ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں ایسا لگتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنے الفاظ واپس لینےپڑ سکتے ہیں۔ سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) کی طرف سے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) کو 3 فروری کو پیش کی گئی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ الہ آباد ، جہاں مہاکمبھ میں ایک سرکاری اندازے کے مطابق، 45 کروڑ سے زیادہ لوگوں کا مذہبی اجتماع چل رہا ہے ،میں گنگا ندی کے پانی میں فیکل کالیفارم (انسان اور جانوروں کے فضلےسےمائیکرو آرگنزم) کی سطح  جتنی ہونی چاہیے، اس سے تقریباً 20  گنا زیادہ ہے۔

سادہ زبان میں کہیں تو اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ یہاں گنگا کا پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ اب یہ  ڈبکی لگانے کے قابل نہیں ہے۔

تاہم آدتیہ ناتھ نے ان عووں کی تردید کی ہے ۔ بدھ (19 فروری) کو اتر پردیش اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الہ آباد کا پانی نہانے اور گھونٹ پینے کے لیے(آچمن) کافی صاف ہے۔

واٹر ایکسپرٹ ہمانشو ٹھکر،  جوساؤتھ ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمز، ریورز اینڈ پیپل (ایس اے این ڈی آر پی) کے کوآرڈینیٹر ہیں، نے کہا کہ مہا کمبھ کی تیاری کے لیے حکام کی جانب سے ‘خصوصی اقدامات’ کیے جانے کے باوجود فیکل کالیفارم میں اضافہ ہوا ہے، جو طویل عرصے تک ندی  کو صاف کرنے کے لیے سیاسی عزم کے فقدان  کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘گنگا کی صفائی سال بھر ہونی چاہیے نہ کہ صرف کمبھ کے دوران اور پانی کے معیار (کوالٹی)کے بارے میں معلومات کمبھ نہانے والی جگہوں پر درج کی جانی چاہیے کیونکہ لوگوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔’

کالیفارم اور فیکل کالیفارم کی اعلیٰ سطح

سی پی سی بی نے 3 فروری کو این جی ٹی کو  جورپورٹ  سونپی ہے ، اس کا ایک حصہ مہا کمبھ 2025 کے دوران الہ آباد میں بایو کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی او ڈی )، کالیفارم اور فیکل کالیفارم کی مجموعی سطح – ندی کے پانی میں آلودگی کی سطح کی  تمام پیمائش- بشمول پانی کے معیار کے متعدد پیرامیٹرز کو لسٹ کرتا ہے۔

کمبھ میلہ ہر چار سے 12 سال میں ایک بار ہوتا ہے ۔ یہ اس سال 13 جنوری کو شروع ہوا اور 26 فروری تک جاری رہے گا۔

سی پی سی بی کی رپورٹ، جس کے حصے این جی ٹی کی سماعت میں شامل کیے گئے ہیں، نے 12 سے 15 جنوری اور 19، 20 اور 24 جنوری تک پانی کے معیار کے مذکورہ بالا پیرامیٹرز کا ڈیٹا دیا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ندی کے پانی کا معیارنہانے کے لیےبنیادی پانی کے معیار (پرائمری واٹر کوالٹی)  کے مطابق نہیں تھا۔ متعدد مواقع پر تمام نگرانی مقامات پر فیکل کالیفارم (ایف سی) میں اضافہ دیکھا گیا۔ سی پی سی بی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہا کمبھ میلے کے دوران الہ آباد میں شاہی اسنان کے دنوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ ندی  میں نہاتے ہیں، جس کے نتیجے میں فضلے کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر، الہ آباد کے سنگم گھاٹ پر مجموعی طور پرفیکل کالیفارم کی سطح 12 جنوری کو 4500 اور 2000 ایم این پی /100ایم ایل (ہر 100 ایم ایل  میں زیادہ سے زیادہ ممکنہ تعداد) سے بڑھ کر 14 جنوری کو 49000 اور 11000 ایم پی این/100 ایم ایل تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد کل کالیفارم کی سطح مزید بڑھ کر 700000 ایم پی این/ 100ایم ایل  ہوگئی۔ جبکہ 19 جنوری کو فیکل کالیفارم کی سطح 49000 ایم پی این /100 ملی میٹر تھی۔

معلوم ہو کہ ندیوں میں فیکل کالیفارم کی سطح عام طور پران ٹریٹیڈ سیوریج کے بہاؤ کی وجہ سے ہوتی ہے، مثالی طور پر یہ ہر 100 ملی لیٹر پانی کے لیے 2500 ایم پی این سے کم ہونا چاہیے۔

سی پی سی بی کی رپورٹ کے مطابق، الہ آباد میں تمام دس سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس چالو ہیں، لیکن ان میں سے ایک بھی مقررہ آپریشنل معیارات پر پورا نہیں اتر رہا ہے۔

فیکل کالیفارم کی اعلیٰ سطح کا نوٹس لیتے ہوئےاین جی ٹی  نے گنگا ندی  میں آلودگی پر ایک سماعت کے دوران نوٹ کیا کہ اتر پردیش آلودگی کنٹرول بورڈ (یوپی پی سی بی) نے ‘جامع ایکشن رپورٹ’ داخل نہیں کی ہے، جس میں ان اقدامات کی تفصیلات دی گئی ہیں جواین جی ٹی نے گزشتہ سال دسمبر میں بورڈ کو مہا کمبھ کے شروع ہونے سے پہلے اٹھانے کو کہا تھا۔

این جی ٹی نے 17 فروری کوممبر سکریٹری اور دیگر ریاستی عہدیداروں کو 19 فروری کو اس عدم تعمیل پرتبادلہ خیال  کرنے کے لیے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ میٹنگ میں این جی ٹی نے فیکل کالیفارم اور آکسیجن کی سطح جیسے پانی کے معیار کے دیگر پیرامیٹرز کے بارے میں مناسب تفصیلات فراہم نہ کرنے کے  بورڈ اور اتر پردیش حکومت کی سرزنش بھی کی ۔

لائیو منٹ کی رپورٹ کے مطابق، این جی ٹی نے اب حکام کو ان تفصیلات کو ریکارڈ پر رکھنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔

‘سیاسی عزم اور قوت ارادی کا فقدان’

آبی ماہر ٹھکر نے دی وائر سے بات چیت میں کئی خدشات کی جانب توجہ مبذول کرائی ۔

ان کے مطابق، سب سے پہلےفیکل کالیفارم کی سطح میں یہ زبردست اضافہ’خصوصی اقدامات’ کے باوجود ہوا ہے – جیسےکہ ان علاقوں سے سیوریج کوموڑنا جہاں کمبھ ہورہا ہے، تمام قریبی ٹینریز کو بند کرنا، یہ یقینی بنانا کہ تمام ایس ٹی پی آپریشنل ہیں اور زیادہ پانی  اپ-اسٹریم میں چھوڑنا وغیرہ۔

ٹھکر نے کہا، ‘دوسری بات، حکومت نہ صرف کمبھ کے تمام انتظامات کر رہی ہے، بلکہ لوگوں کو کمبھ کے لیے مدعو بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس بوقت  گنگا کا پانی نہ صرف نہانے کے معیار کا ہونا چاہیے بلکہ ممکنہ طور پر پینے کے قابل بھی ہونا چاہیے– کیونکہ وہ جانتی ہے کہ لوگ آچمن (گھونٹ) بھی کرتے ہیں۔ لیکن حکومت اس میں پوری طرح سے  ناکام رہی  ہے۔’

تیسرا، ٹھکر نے نشاندہی کی کہ پانی کے معیار پرصرف سی پی سی بی کی رپورٹ میں’محدود دنوں کا ڈیٹا’ہے۔ تاہم ،باقی ڈیٹا کا ابھی انتظار ہے، جبکہ تمام ڈیٹا فوری طور پر پبلک ڈومین میں ہونا چاہیے تھا۔

معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے تجویز پیش کی کہ کمبھ میں جگہ جگہ بورڈ لگایا جانا چاہیےاور لکھا جانا چاہیے کہ ‘یہ (پانی) نہانے کے معیار کا نہیں ہے، آچمن (گھونٹ لینے)کے معیار کی بات ہی چھوڑ دیں۔’

ٹھکر نے کہا، ‘عوامی مفاد میں اسے وہاں پر مشتہر کیا جانا چاہیے تھا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘سی پی سی بی کی طرف سے دیا گیا ایک بہانہ یہ ہے کہ جب اتنے کروڑ لوگ نہائیں گے  تو بی او ڈی اور فیکل کالیفارم بڑھنے کا امکان  ہے۔ یہ بکواس ہے’

وہ مزید کہتے ہیں، ‘آپ کو اس طرح کے انتظامات کرنے ہوں گے…اس بات کو یقینی بنائیں کہ صرف اتنے ہی لوگ آئیں، جس سے گنگا کے پانی کا معیار برقرار رہے اوراس کے باوجود اس میں گراوٹ نہ ہو۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو آپ نے اپنا فرض ادا نہیں کیا اور نہ ہی آپ لوگوں کو وقت پر اطلاع دے رہے ہیں۔’

ٹھکر کے مطابق، پانی میں نہانے والوں کی تعداد پر ایک حد  مقررہونی چاہیے تاکہ ندی میں پانی کا معیار طے شدہ معیار سے نیچے نہ آئے۔

لیکن کیا اس طرح کی گنجائش ممکن ہے، خاص طور پر جب کسی  مذہبی تقریب کا سوال ہو؟

ٹھکر یقینی طور پر سوچتے ہیں کہ یہ ممکن ہے، انہوں نے 2013 کے بعد اتراکھنڈ حکومت کی طرف سے عائد کردہ حد کی صلاحیت کی مثال دی جب چار دھام یاترا کے دوران ایک واقعہ میں کئی یاتریوں کی موت ہو گئی تھی۔

ٹھکر نے کہا کہ گنگا کے معاملے میں صرف کمبھ کے لیے کیے جانے والے عارضی اقدامات یا ‘کاسمیٹک تبدیلیاں’ کام نہیں کریں گی۔ گنگا کی صفائی سال بھر کی جانی چاہیے، صرف کمبھ کے دوران ہی نہیں… گنگا کو سال بھر ایک ندی کی طرح مانا جانا چاہیے۔ اگر اس پر عمل کرنے کا سیسی عزم ہوتو یہ بڑی حد تک قابل عمل ہے۔

دراصل، سیوریج کا پانی ہر وقت ندی میں داخل ہونے کی تشویش کچھ ایسی ہے جس کا اظہار شہریوں نے بھی کیا ہے۔ سنکٹ موچن فاؤنڈیشن ، جو ایک این جی او ہے، اورجس کا وژن صاف گنگا کو یقینی بنانا ہے، کے صدر وی این مشرانے گزشتہ سال 6 مارچ 2024 کو ایکس پر ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ زیادہ تر حصوں میں ندی ‘نہانے کے  لیےموزوں نہیں ہے۔’

واضح ہو کہ مشرا نے گزشتہ سال دسمبر میں کی گئی ایک پوسٹ میں–اس  وقت میں جب گنگا کو مہا کمبھ کے لیے خصوصی طور پر صاف کیا جانا تھا – انہوں نے ندی میں چھوڑے جارہے سیوریج کا  دستاویز تیار کیا تھا۔

غور طلب  ہے کہ گنگا ندی میں فیکل کالیفارم میں اضافے کی یہ تازہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت گنگا ندی کی صفائی پر مسلسل پیسہ خرچ کر رہی ہے۔ جون 2024 تک،قومی مشن برائے کلین گنگا کے حصے کے طور پر نمامی گنگا پروجیکٹ کے تحت مختلف پروگراموں پر تقریباً 18000 کروڑ روپے (منظور شدہ رقم کے تقریباً 38000 کروڑ روپے میں سے)  خرچ کیے گئے  ہیں، جیسا کہ  دی ہندو نے گزشتہ سال اگست میں اپنی  رپورٹ میں بتایا تھا۔

معلوم ہوکہ اس مشن کے ڈائریکٹر جنرل نے خود تبصرہ کیا تھا کہ رفتار سست ہے۔ اس کے باوجودحکومت کا ٹیکس دہندگان کے کروڑوں روپے گنگا پر خرچ کرنے کےبعد بھی ندی  اب بھی صاف نہیں ہے – ڈبکی لگانے  کے قابل بھی نہیں- خیر سے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اس سے انکار کرتے ہوں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)