سات دن کی کوششوں کے بعد ملی دی وائر کےسینئر صحافیوں کے خلاف سمن سے متعلق ایف آئی آر

آسام پولیس کی طرف سے دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور کنسلٹنگ ایڈیٹر کرن تھاپر کو طلب کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی ایف آئی آر کئی دنوں کی آن لائن اور آف لائن کوششوں کے بعد بالآخر بدھ (20 اگست) کو مل سکی، جس میں  دی وائر سے وابستہ کئی صحافیوں اور کالم نگاروں کو  نامزد کیا گیاہے۔

آسام پولیس کی طرف سے دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور کنسلٹنگ ایڈیٹر کرن تھاپر کو طلب کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی ایف آئی آر کئی دنوں کی آن لائن اور آف لائن کوششوں کے بعد بالآخر بدھ (20 اگست) کو مل سکی، جس میں  دی وائر سے وابستہ کئی صحافیوں اور کالم نگاروں کو  نامزد کیا گیاہے۔

نئی دہلی: آسام پولیس کی طرف سے دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور کنسلٹنگ ایڈیٹر کرن تھاپر کو طلب کرنے کے لیے استعمال کی گئی ایف آئی آر کو کئی دنوں کی آن لائن اور آف لائن یعنی گوہاٹی میں  کی گئی کوششوں کے بعد آخرکار بدھ (20 اگست) کو آسام پولیس کی ویب سائٹ سے حاصل کر لیا گیا ہے ۔

دی وائر  کو 9 مئی 2025 کودرج  آسام پولیس کی ایف آئی آر نمبر 3/2025، پی ایس کرائم برانچ، گوہاٹی، کی ایک کاپی ملی ہے، جس میں سدھارتھ وردراجن اور کرن تھاپر کے ساتھ کئی دیگر اہم لوگوں کے نام بھی شامل  ہیں۔

اس ایف آئی آر میں جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے ان میں جموں و کشمیر اور میگھالیہ کے سابق گورنر ستیہ پال ملک بھی شامل ہیں، جن کا اس ماہ کے شروع میں انتقال ہو گیا ۔ اس کے ساتھ ہی صحافی اور پاکستان میں پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی اور دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج بھی اس ایف آئی آر میں نامزد ہیں۔

اس کے علاوہ ایف آئی آر میں پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد دی وائر کے ذریعے شائع ہونے والے 12 مضامین کے مکمل یا جزوی عنوانات کو لسٹ  کیا گیا ہے، جن میں درج ذیل مصنفین یا انٹرویو (ایف آئی آر میں نامزد نہیں) شامل ہیں: دی ٹریبیون کے سابق ایڈیٹر ہریش کھرے، آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سینئر فیلو منوج جوشی، انٹلی جنس بیورو کے سابق افسر اویناش موہنانے، راءکے سابق چیف اے ایس دلت ، کرنل (ریٹائرڈ)اجئے شکلا، سابق بارڈر سیکورٹی فورس کے اے ڈی جی ایس کے سود، سینئر صحافی آنند سہائے، اکیڈمک روہت کمار، دفاعی امور کے سینئر صحافی راہل بیدی، محقق نرمنیا چوہان اور سابق ہندوستانی فوجی افسر علی احمد۔

اس سلسلے میں جب سدھارتھ وردراجن اور کرن تھاپر کو ‘سمن’ کیا گیا تو انہیں ایف آئی آر کی کاپی، اس کی تاریخ یا یہاں تک کہ اس کے مندرجات بھی نہیں دیے گئے۔ مذکورہ ایف آئی آر کے لیے تفتیشی افسر (آئی او) سے درخواست کرنے پر انہوں نے گوہاٹی میں دی وائر کے نمائندے کو ہدایت دی کہ وہ یا تو چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (سی جے ایم) کی عدالت سے اس کی ایک کاپی حاصل کریں یا ڈپٹی کمشنر سے اس کا مطالبہ کریں۔

اس سلسلے میں دی وائر اور کرن تھاپر کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کو پہلے ہی ای میل بھیجی گئی تھی۔ چونکہ اسپیڈ پوسٹ سروسز میں ملک گیر رکاوٹ ہے، ان کے سرورز ڈاؤن ہیں اور خدمات میں بہت تاخیر ہورہی ہے، سدھارتھ وردراجن اور کرن تھاپر نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سمن کا جواب آئی او کو وہاٹس ایپ پر بھیجاجائے، ڈپٹی کمشنر آف پولیس کو ای میل کے ذریعے بھیجا  جائے، اور جواب کی ایک کاپی مقامی وکیل کے ذریعے جمع کرائی جائے۔

دی وائر نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے 16 اگست (ہفتہ)، 18 اگست (پیر) اور 19 اگست (منگل) کو ایف آئی آر حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن تمام کوششیں ناکام رہیں۔ آخر کار، 20 اگست کو دوپہر کے قریب، دی وائر کو آسام پولیس کی ویب سائٹ پر ایف آئی آر کی ایک کاپی ملی۔

اس معاملے پر صحافیوں، جمہوری شخصیات اور اخباروں کے اداریوں سمیت دیگر تنظیموں کی جانب سے جس انداز میں ایف آئی آر درج کی گئی اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے سمن جاری کیے گئے، اور ایف آئی آر کو ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی۔

واضح ہو کہ 14 اگست 2025 کی شام کو کرائم برانچ، پان بازار، گوہاٹی سے وردراجن کو سب سے پہلےسمن کی ایک کاپی ملی تھی، جس کے بعد دی وائر نے ایف آئی آر کی کاپی حاصل کرنے کے لیے درج ذیل کوششیں کیں؛

آسام پولیس کی ویب سائٹ 14 اگست کی پوری شام اور اس کے بعد ہر روز چیک کی گئی۔

تفتیشی افسر، کرائم برانچ، پان بازار کو ان کے بتائے گئے موبائل نمبر پر ایک وہاٹس ایپ پیغام بھیجا گیا، جس میں 15 اگست کو بھیجی گئی ایف آئی آر کی کاپی مانگی کی گئی۔

اسپیڈ پوسٹ 16 اگست کو بھیجی گئی  (15 اگست یوم آزادی کی وجہ سے چھٹی تھی)۔ ہندوستانی محکمہ ڈاک میں ملک گیر تاخیر کی وجہ سے سروس میں خلل پڑا۔

آسام کے ایک مقامی وکیل کی طرف سے 16 اگست اور 18 اگست کو مقامی چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (سی جے ایم) کی عدالت سے ایف آئی آر کی کاپی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔

اگرچہ دی وائر نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی، لیکن مختلف رپورٹرز کی طرف سے تفتیشی افسر سے ایف آئی آر کی کاپی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، جس نے کہا کہ صرف ڈی سی پی اسے فراہم کر سکتے ہیں۔

سترہ اگست (اتوار) کی رات کو، آسام پریس کے سینئر اراکین کی طرف سے کوششیں کی گئیں – این ای ناؤ کے ایڈیٹر مانس ڈیکا کو فون پر بتایا گیا کہ صرف ڈی سی پی ہی ایف آئی آر دے سکتے ہیں۔

کراس کرنٹ اور ڈیلی ٹائم کے صحافی بار بار کوشش کے باوجود تفتیشی افسر سے رابطہ نہیں کر سکے۔ ایک قومی خبر رساں ایجنسی نے ڈی سی پی کرائم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔

اٹھارہ اگست کی آدھی رات کو دی وائر کے ذریعے ڈی سی پی کو ایک ای میل بھیجی گئی۔

انیس اگست کو، گوہاٹی میں دی وائر کے مقامی کے وکیل نے تفتیشی افسر، سومر جیوتی رے سے ملاقات کی، اور ای میل، وہاٹس ایپ اور اسپیڈ پوسٹ کے ذریعے پہلے بھیجے گئے جوابات کی ایک کاپی ریکارڈ پر رکھی، اور ایف آئی آر کی کاپی مانگی۔

انہیں نے سی جے ایم کورٹ کامروپ (میٹرو) گوہاٹی میں درخواست دینے کو کہا گیا۔

تفتیشی افسر سے ملاقات کے بعد سی جے ایم کورٹ کامروپ (میٹرو) گوہاٹی سے ایف آئی آر کی کاپی حاصل کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی۔

دی وائر کے مقامی وکیل نے 19 اگست کو سی جے ایم کورٹ میں ایف آئی آر کی کاپی کے لیے درخواست دی۔

مختلف صحافتی تنظیموں نے اس حرکت اور ایف آئی آر کو عام نہ کرنے کے مبہم انداز کی شدید مذمت کی ۔

انیس اگست کی دوپہر – دی وائر کے ذریعہ سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی، جس میں عدالت کے نوٹس میں کرائم برانچ کی جانب سے سمن جاری کرنے اور ایف آئی آر درج نہ دینے کا معاملہ پیش کیا گیا۔ یہ درخواست آسام پولیس کے وکیل کو بھیجی گئی ۔

آسام پولیس کی ویب سائٹ پر دی وائر کی طرف سے مکمل تلاش کے چند نتائج برآمد ہوئے۔ ایف آئی آر نمبر 3/2025 کے اندراج سے پتہ چلا ہے کہ یہ 9 مئی 2025 کو درج کیا گیا تھا، لیکن اس کے مواد کو ڈاؤن لوڈ کرنا ناممکن تھا۔

بیس اگست، صبح 11:30 بجے سے دوپہر 12 بجے تک: جب 9 مئی کو درج ایف آئی آر کے اندراج کی کاپی پرنٹ کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی، تو ایف آئی آر کے مندرجات کا انکشاف ہوا اور ایف آئی آر ڈاؤن لوڈ کر لی گئی۔ ایف آئی آر اب آسام پولیس کی ویب سائٹ پر ایک لنک کے ذریعے دستیاب ہے۔

پوری ایف آئی آر کو نیچے پڑھ سکتے ہیں۔

دریں اثنا، میڈیا پر نظر رکھنے والے اداروں، صحافیوں اور اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر صحافت کو مکمل طور پر مجرمانہ بنانے کی کوششوں کی ایک مثال ہے – سوال پوچھنا، متنوع خیالات کی حوصلہ افزائی، قومی سلامتی سے متعلق اہم مسائل پر عوام کو آگاہ کرنا اور صحت مند بحث و مباحثے کی فضا کو فروغ دینا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ہندوستانی پریس کا ملک اور معاشرے کے نازک وقت میں اہم مسائل کو اٹھانے کا قابل فخر ریکارڈ ہے، چاہے وہ 1975 میں ایمرجنسی کا دور ہو یا ملک میں معاشی یا دیگر بحرانوں کا دور۔

آج بھی، ہم سمجھتے ہیں کہ اس وراثت کو برقرار رکھنا نہ صرف ہمارا حق ہے، بلکہ ہندوستان میں آزاد صحافت کے تمام اراکین کا فرض اور ذمہ داری بھی ہے۔ جو جمہوریت متحرک پریس کی اجازت نہیں دیتی وہ صرف نام کی جمہوریت ہے۔

مکمل ایف آئی آر:

Wire FIR Assam Police_redacted by The Wire