
گزشتہ 9 فروری کو کشی نگرضلع کے ہاٹا قصبے کی مدنی مسجد کے ایک حصے کو ضلع انتظامیہ نے تجاوزات قرار دیتے ہوئے بلڈوزر سے توڑ دیا۔ مسجد کمیٹی کے حاجی حامد خان نے انتظامیہ کی کارروائی کو یکطرفہ بتاتے ہوئے کہا کہ جھوٹ کا سہارا لے کر مسجد کوتوڑا گیا ہے۔

مدنی مسجد کا منہدم حصہ۔ (تمام تصویریں: منوج سنگھ/دی وائر)
کشی نگر: اترپردیش کے کشی نگر میں ضلع انتظامیہ نے ہاٹا میں واقع مدنی مسجد کو غیر قانونی قبضے اور نقشے کے خلاف تعمیر کا الزام لگاکر 9 فروری کو توڑ دیا ۔ 9 فروری کو صبح 10 بجے سات جے سی بی اور دو پوکلینڈ مشینوں کی مدد سے مسجد کو توڑنے کا کام شروع کیا گیا جو دیر شام تک جاری رہا۔ مسجد کو اس طرح توڑا گیا ہے کہ اس کی تمام دیواروں میں دراڑیں آ گئی ہیں اور باقی ماندہ ڈھانچہ کسی بھی وقت گر سکتاہے۔
کشی نگر ضلع انتظامیہ نے اپنی کارروائی کو ‘مسجد کے غیر قانونی حصے کو پرامن طور پر مسمار کرنے’ سے تعبیر کیا ہے۔
مدنی مسجد کے منتظمین میں شامل حاجی حامد خان نے انتظامیہ کی کارروائی کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جھوٹ کا سہارا لے کر مسجد کو توڑا گیا ہے۔ ‘مسجد بیع نامہ کرائی گئی زمین پر بنائی گئی ہے۔ اس کی تعمیر میونسپلٹی کے منظور کردہ نقشے کے مطابق کی گئی ہے۔ بلدیہ کے نوٹس کا جواب دیا گیا تھا۔ انتظامیہ کی یہ کارروائی سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے،’ان کا کہنا تھا۔
‘ضابطہ پر عمل کیے گئے بغیرتوڑ پھوڑ کی کارروائی کی گئی’
مسجدوالے فریق کا کہنا ہے کہ انہیں میونسپلٹی کی جانب سے مبینہ غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ اچانک 9 فروری کو انتظامیہ جے سی بی مشین لے کر پہنچ گئی۔ نوٹس کو اسی وقت دیوار پر چسپاں کرکے اس کی تصویر کھینچی گئی اور پھر اس کوپھاڑ دیا گیا۔ کارروائی شروع کرنے سے پہلےمسجد کے سی سی ٹی وی کیمرے کی تاریں توڑ دی گئیں اور کارروائی ختم ہونے کے بعد بلدیہ کے دفتر کے کھمبے کے پاس نیا سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کر دیا گیا۔
بتایاگیا ہے کہ مسجد کو توڑنے سے پندرہ دن قبل 25 جنوری 2025 کو میونسپلٹی کے بلڈوزر نے دو دہائی قبل بنائی گئی باؤنڈری وال کو گرا دیا۔ اسی دن ہاٹا پولیس نے مسجد کمیٹی کے سکریٹری شاکرعلی، جعفر، ذاکر اور دیگر کے خلاف بھارتیہ نیایے سنہتا کی دفعہ 319 (2)، 318 (4)، 338، 336، 340 (2)، 329 (3) اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کی روک تھام ایکٹ، 19 کی دفعہ 2 اور 3 کے تحت ایف آئی آر درج کی۔
اس ایف آئی آر میں مسجد کمیٹی کے لوگوں پر مجرمانہ مقاصد کے حصول کے لیے غیر قانونی طور پر جعلی دستاویز تیار کرنے، زمین پر غیر قانونی قبضہ کرنے اور دکانیں، مکانات اور تجارتی ادارے تعمیر کرنے اور حکام کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہےکہ؛
مختلف ذرائع سے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ یہ لوگ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو لالچ دے کر انہیں مدنی مسجد کے اندر اسلام قبول کرواتے ہیں۔ مذکورہ مسجد کی تعمیر ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کی جا رہی ہے۔ مندرجہ بالا حالات کے پیش نظر اور دیگر نامعلوم ممبران کی جانب سے دھوکہ دہی کے مقصد سے قیمتی حفاظتی دستاویز جعلسازی سے تیار کر کے اصلی کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں اور غیر قانونی قبضے کی بنیاد پر مدنی مسجد بنائی گئی ہے۔ اس وقت بھی تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان سرگرمیوں سے عام لوگوں میں شدید غم و غصہ ہے۔ عام لوگ اپنے مالی وسائل پیدا کرنے کی لاگت کے بارے میں بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں کہ یہ رقم ملک دشمن لوگوں کوبھیجی جا رہی ہے۔
مسجد کی تعمیر 1999 اور 2002 کے درمیان ہوئی تھی
مدنی مسجد، ہاٹا میونسپلٹی کے وارڈ نمبر 21 میں کرمہا تراہے کے قریب واقع ہے۔ ہاٹا کے رہائشی حاجی حامد خان نے اپنی اہلیہ عظمت النسااور بیٹے ذاکر کے نام سے 1988 میں کرمہا تراہے کے قریب گاٹا نمبر 208 میں 29 ڈیسیمل زمین خریدی اورمیونسپلٹی سے نقشہ منظور کروانے کے بعد مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا۔
مدنی مسجد کا نقشہ میونسپل کارپوریشن نے 25 ستمبر 1999 کو منظور کیا تھا۔ مسجد کی تعمیر شروع ہوتے ہی سوالات اٹھنے لگے۔ میونسپل کارپوریشن نے 18 اپریل 2000 کو نقشہ منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے خلاف مسجد کی منتظمہ کمیٹی ہائی کورٹ گئی۔ 12 اپریل 2006 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے میونسپلٹی کے 18.4.2000 کے حکم کو منسوخ کر دیا۔
مسجد کے منتظمین کے مطابق، انہوں نے منظور شدہ نقشے کے مطابق 1999 سے 2002 کے درمیان مسجد کی تعمیر مکمل کی۔ اس کے بعد کوئی نیا تعمیراتی کام نہیں ہوا اور نہ ہی کسی اور زمین پر قبضہ کیا گیا۔
مدنی مسجد میونسپل آفس کے پیچھے واقع ہے۔ یہاں گاٹا نمبر 201 میں کچھ اور زمین ہے جو مویشی خانہ ، آبادی، تھانہ وغیرہ کے نام ہے۔ مسجد کی تعمیر کے وقت مزید تنازعہ سے بچنے کے لیے میونسپلٹی نے باؤنڈری وال بنا کر اپنی زمین محفوظ کر لی تھی۔
بعد میں اسی باؤنڈری وال کے سہارے مسجدکمیٹی کی جانب سے ایک ٹین شیڈ لگا دیا گیا، جس کا استعمال وضو خانےکے طور پرکیا جا رہا تھا۔

مسماری کی کارروائی کے باعث مسجد کے اندر کی دیواروں پر بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
یہ تنازعہ بی جے پی لیڈر کی شکایت سے شروع ہوا
یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب بی جے پی لیڈر رام بچن سنگھ نے شکایت کی کہ میونسپل اراضی پر قبضہ کرکے مسجد کی تعمیر کو بڑھایا جارہا ہے۔ یہی نہیں نقشے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد کو کئی منزلہ بنایا جا رہا ہے۔
سنگھ کے مطابق، وہ دو دہائیوں سے مسجدکمیٹی کے ذریعے نگر پنچایت کی زمین پر قبضہ کرنے کی شکایت کر رہے ہیں لیکن ان کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ میونسپل کی اراضی پر دیوار توڑ کر قبضہ کیا گیا اور اس پر ٹین شیڈ لگا دیا گیا۔
سنگھ نے بتایا کہ وہ 17 دسمبر 2024 کو مسجد کمیٹی کی طرف سے کی جا رہی غیر قانونی تعمیرات کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ سے ملنے لکھنؤ گئے۔ جب انہیں وزیر اعلیٰ سے ملنے کا وقت نہیں ملا تو انہوں نے ہاٹا سمیت کشی نگر ضلع کے تمام چھ بی جے پی ایم ایل اے کو شکایتی خط دیا، جس کو لے کران سبھی نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے ضلع مجسٹریٹ کو کارروائی کا حکم دیا۔
رام بچن سنگھ وشو ہندو پریشد میں رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ رام جنم بھومی تحریک میں سرگرم تھے۔ رام مندر کی تعمیر کے بعد وہ بی جے پی میں ہیں۔ انہوں نے گزشتہ میونسپل چیئرمین کا الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر لڑا تھا۔ بی جے پی نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ ایس پی امیدوار رامانند سنگھ الیکشن جیت کر میونسپل صدر بن گئے۔
میونسپل کونسل کے صدر رامانند سنگھ نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وہ نہ تو فون اٹھا رہے ہیں اور نہ ہی میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ ہاٹا پہنچنے ایس پی کے وفد میں بھی وہ نظر نہیں آئے۔
ضلع انتظامیہ دسمبر سے حرکت میں آئی
معاملہ وزیر اعلیٰ تک پہنچنے کے بعد کشی نگر ضلع انتظامیہ غیر قانونی قبضے کے الزامات کو لے کر دسمبر میں انتہائی سرگرم ہو گئی۔ 18 دسمبر 2024 کو ہاٹا کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ نے پوری زمین کی پیمائش کی اور اس سلسلے میں ایک رپورٹ ضلع انتظامیہ کو دی گئی۔ ڈی ایم کی ہدایت پر محکمہ ریونیو نے بھی اپنی رپورٹ تیار کی۔
پیمائش کے بعد مسجد نے خود ہی ہی ٹین شیڈ کو ہٹا لیا۔ مسجد والے فریق کا کہنا ہے کہ پیمائش کے دوران کوئی تجاوزات نہیں پائی گئیں۔ اس کے برعکس مدنی مسجد کی29 ڈیسیمل اراضی میں سے ایک ڈیسیمل زمین کم پائی گئی۔
دریں اثنا نگر پالیکا ہاٹا کے ایگزیکٹیو آفیسر مینو سنگھ نے مسجد کے منتظمین عظمت النسا اور ذاکر علی کو 21 دسمبر 2024 کو اور پھر آٹھ جنوری 2025 کو غیر قانونی طور پر چار منزلہ مسجد کی عمارت اور سیڑھی کے نیچے دونوں طرف انڈرگراؤنڈ کمرے کی تعمیرکا الزام لگاتے ہوئے نوٹس بھیجا۔
اس نوٹس میں کہا گیا، ‘جونیئر انجینئر کی 21.12.2024 کی معائنہ رپورٹ کے مطابق، آپ کے ذریعے وارڈ نمبر 21، گاندھی نگر میں بلدیہ دفتر کے پیچھے غیر قانونی طور پر چار منزلہ مسجد اورسیڑھی کے نیچے دونوں طرف انڈرگراؤنڈ کمرے کی تعمیرکرائی جا رہی ہے۔ مانگے جانے پر آپ نے تعمیراتی نقشہ اور دیگر ضروری دستاویز پیش نہیں کیں جو کہ خلاف ضابطہ اور غیر قانونی ہے۔ اس سے قبل بھی آپ کو اس دفتر کی جانب سے متعدد بار مطلوبہ دستاویز/ ملکیت کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنے اور تعمیراتی کام کو روکنے کی ہدایت کی گئی تھی، لیکن اب تک آپ کی جانب سے جاری غیر قانونی تعمیرات کو روکا نہیں گیا اور نہ ہی تعمیراتی کام سے متعلق مطلوبہ دستاویز اس دفتر میں جمع کرائے گئے ہیں۔’
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘آپ کو اس نوٹس کے ذریعے مطلع کیا جاتا ہے کہ یہ نوٹس ملنے کے فوراً بعد آپ تعمیراتی کام کو روک دیں اور 15 دن کے اندر مطلوبہ دستاویز/ ملکیت کا سرٹیفکیٹ، منظور شدہ نقشہ، تعمیراتی کام سے متعلق کسی بھی مجاز سطح سے موصول ہونے والی اجازت 07.01.2025 کو زیر دستخطی کے دفتر میں پیش کریں اور یہ واضح کریں کہ آپ کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہ کی جائے؟ اگر آپ مندرجہ بالا دستاویز اور شواہد بروقت جمع کرانے میں ناکام رہتے ہیں اور سماعت کے لیے حاضر ہونے اور اپنی وضاحت/ فریق پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو میونسپلٹی ایکٹ 1916 کی دفعہ 185/186 کے تحت قانونی کارروائی کی جائے گی، جس کے لیے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔’
انتظامیہ کے رخ سے خوفزدہ مسجدوالے فریق نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ہائی کورٹ میں درخواست گزار عظمت النسا نے کہا کہ مسجد منظور شدہ منصوبے کے مطابق تعمیر کی گئی ہے لیکن کچھ لوگوں کی شکایت پر نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ان کے جواب اور درخواست گزاروں کی طرف سے جمع کرائے گئے دستاویزپر غور کیے بغیر ہی اسے منہدم کر دیا جائے گا۔
ہائی کورٹ نے 8 جنوری کو درخواست نمٹاتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ دس دنوں کے اندر متعلقہ مدعا علیہ کے سامنے اپنا جواب داخل کرے۔ بلدیہ کی طرف سے مقررہ وقت کے اندر دائر کردہ اعتراضات پر غور کیا جائے گا اور دو ہفتوں کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد، درخواست گزار کی طرف سے دائر اعتراضات وغیرہ پر غور کرنے کے بعد جواب دہندگان کے فیصلے کے تحت معاملہ زیر انتظام ہوگا۔ اعتراض کی تاریخ سے تین ہفتوں تک کوئی انہدامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

مسجدکا اندرونی حصہ
مسجد والے فریق کا جواب
مسجد کے فریقین کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد 16 جنوری کو انہوں نے میونسپلٹی کے دونوں نوٹس کا جواب دیا اور میونسپل ایگزیکٹو آفیسر کے سامنے اپنا پورا رخ پیش کیا اور تمام دستاویز بھی پیش کیے۔ ہائی کورٹ کے حکم کی کاپی بھی دی۔ مدنی مسجد کے فریق نے اپنے جواب میں کہا کہ انہوں نے کوئی تجاوزات نہیں کی۔ تعمیراتی کام نقشہ کے مطابق ہوا ہے اور کوئی نیا تعمیراتی کام نہیں کیا گیا ہے۔
مسجد کی عمارت میں چار منزلیں تعمیر کیے جانے کے الزام پر مسجد کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مسجد کے منظور شدہ نقشے کے مطابق صرف دو منزلیں تعمیر کی گئی ہیں۔ باہر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی چار منزلیں ہیں کیونکہ اس کی اونچائی کی وجہ سے مسجد کی بیرونی دیواروں پر تین کھڑکیاں نصب کی گئی ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ مسجد دو چھتوں کی صورت میں بنائی گئی ہے۔ یہ الزام کہ سیڑھیوں کے نیچے دونوں طرف زیر زمین کمرے بنائے جا رہے ہیں، سراسر غلط ہے۔
مسجد کمیٹی سے وابستہ ایڈوکیٹ سلمان خان کے مطابق وہ میونسپلٹی کے جواب کا انتظار کر رہے تھے جب 9 فروری کی صبح انتظامی عملہ پولیس کی بھاری نفری لے کر جے سی بی کے ساتھ مسجد پہنچا اور اسے توڑنا شروع کر دیا۔ مسجد کے اطراف کے علاقے کو سیل کر دیا گیا اور کسی کو بھی اندر جانے یا باہر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ تمام دکانیں بند کر دی گئیں۔ سات جے سی بی کی مدد سے شام تک مسجد کو توڑ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ،’ میں کسی طرح مسجد کمیٹی کے وکیل کے طور پر موقع پر پہنچا اور جاننا چاہا کہ مسجد کو گرانے کی کارروائی کس حکم کے تحت کی جا رہی ہے لیکن وہاں موجود کسی افسر نے کوئی جواب نہیں دیا۔’
انہوں نے کہا، ‘انتظامیہ نے جان بوجھ کر کارروائی کے لیے اتوار کے دن کا انتخاب کیا تاکہ ہمیں عدالتی ریلیف نہ مل سکے۔ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق، ہماری طرف سے میونسپلٹی میں اپنا جواب داخل کرنے کے بعد، بلدیہ کو جو بھی کارروائی کرنی تھی، اس کے بارے میں مجھےمطلع کیا جانا چاہیے تھا اور مجھے اپنا موقف اور اپیل پیش کرنے کے لیے وقت دیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن انتظامیہ نے تمام ضابطے کو طاق پر رکھتے ہوئے مسجد کو توڑ دیا۔’
ضلع انتظامیہ کا موقف
پورے معاملے میں ضلع انتظامیہ نے 11 فروری کو اپنا موقف پیش کیا۔ محکمہ اطلاعات کے ذریعہ اخبارات کو بھیجی گئی ریلیز میں ضلع مجسٹریٹ وشال بھاردواج نے کہا کہ قصبہ ہاٹا میں واقع مدنی مسجد کا نقشہ میونسپل کونسل، ہاٹا نے 25.09.1999 کو منظور کیا تھا۔ منظور شدہ نقشے میں مسجد کوگاٹا نمبر 208 پر رقبہ 7080.50 مربع فٹ پر تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
غیر قانونی تعمیرات کی شکایت موصول ہونے پر میونسپل کونسل، ہاٹا کی جانب سے 21.12.2024 کو نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے اپنا موقف پیش کریں۔ جس کے جواب کے لیے جناب ذاکر علی کی طرف سے اضافی وقت کے مطالبے کے بعد مدنی مسجد انتظامیہ کو دوسرا نوٹس مورخہ 08.01.2025 جاری کیا گیا۔
اسی سلسلے میں نگر پالیکا پریشد، ہاٹا کی طرف سے غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے دیے گئے نوٹس کے خلاف عظمت النسا اہلیہ حاجی حامد علی اور دیگر کی جانب سےہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن نمبر-127/2025 دائر کی گئی، جس میں ہائی کورٹ کی طرف سے 08.01.2025 کو دیے گئے حکم میں بتائی گئی وقت کی حد اور ضابطے کی پیروی کی گئی اور مسجد انتظامیہ کو جوابی شواہد پیش کرنے کا خاطر خواہ موقع دیا گیا۔مسجد کی منتظمہ کمیٹی کے ذریعے 16.01.2025 کو سماعت کے لیےتحریری جواب اور ذاتی سماعت کے بعدمیرٹ کی بنیاد پر ایگزیکٹیو آفیسر، نگر پالیکا پریشد، ہاٹا کے ذریعے 23.01.2025 کو منظور شدہ نقشے کے علاوہ تعمیر شدہ 6555 مربع فٹ رقبہ کو غیر قانونی قرار دیا اور 15 دن کے اندر تعمیرات کو ہٹانے کا حکم دیا گیا۔ جب مسجد انتظامیہ نے غیر قانونی تعمیر کو نہیں ہٹایا تو نگر پالیکا پریشد، ہاٹا نے 09.02.2025 کو پرامن طریقے سے مسجد کے غیر قانونی حصے کو منہدم کردیا۔’
اپوزیشن لیڈروں کا ردعمل
مسجد کے انہدام کے بعد سماج وادی پارٹی کا 18 رکنی وفد 11 فروری کو قانون ساز کونسل میں اپوزیشن لیڈر لال بہاری یادو کی قیادت میں پہنچا۔ یادو نے الزام لگایا کہ حکومت اور انتظامیہ نے فساد برپا کرنے کی نیت سے مسجد کو منہدم کیا۔
دوسری طرف کانگریس کے ریاستی صدر اجئے رائے، سابق صدر اجئے کمار للو،سابق ریاستی نائب صدر وشواوجئے سنگھ اور دیگر کئی لیڈروں نے 10، 11 اور 12 فروری کو ہاٹا کا دورہ کیا اور لوگوں سے معلومات حاصل کی۔
اجئے رائے نے کہا، ‘مدنی مسجد کو انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر توڑ دیا۔ بلڈوزر ایکشن پر عدلیہ کی مسلسل سرزنش کے باوجود حکومت سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ کیا حکومت خود کو عدلیہ سے اوپر سمجھ رہی ہے؟ آخر ایسا بار بار کیوں کیا جا رہا ہے؟
اس واقعہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر رہنماؤں کے دوروں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دریں اثنا، 11 فروری کو، ہاٹا پولیس نے سماج وادی پارٹی میڈیا سیل کے ایکس ہینڈل کے خلاف مدنی مسجد معاملے میں کیے گئے تبصرے کو انتشار پھیلانے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے ،سماج میں تفرقہ پیدا کرنے کے الزام میں بھارتیہ نیایے سنہتا کی دفعہ 353 (2)، 196 (1) اور انفارمیشن ٹکنالوجی (ترمیمی) ایکٹ 2008 کی دفعہ 67 کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔
(منوج سنگھ گورکھپور نیوز لائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)