
ساڑھے چھ سال جیل میں گزارنے کے بعد ایلگار پریشد کے ملزم رونا ولسن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں جیلیں ‘ایمرجنسی کی حالت’ میں ہیں۔

رونا ولسن۔ (تصویر: سکنیا شانتا)
ممبئی: رونا ولسن قیدیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں اور ‘سیاسی قیدی’ جیسی اصطلاح کے کٹر حمایتی ہیں۔ تاہم، رونا نے ایلگار پریشد کیس میں قیدو بند کی صعوبتوں کے دوران اپنے آپ کو ایک ‘اخلاقی کشمکش’ میں گرفتار پایا۔
دراصل، مہاراشٹر کی دو مرکزی جیلوں- پونے میں یرودا اور نوی ممبئی میں تلوجہ- میں اپنے ساڑھے چھ سال کے براہ راست تجربے، قید کے دوران کی سرگرمیوں، اور جیل کی حدود میں کی جانے والی تحقیق کے ساتھ، 53 سالہ رونا اب اس اصطلاح کو ایک الگ نظریے سے دیکھتے ہیں۔ اب وہ ذات پات اور مذہبی جہتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس موضوع پرسوچتے ہیں۔
ہندوستانی تناظر میں- خصوصی طور پر مرکزی دھارے کے ڈسکورس میں- ‘سیاسی قیدی’ کا تصور اکثر بائیں بازو کے کارکنوں کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیے گئے انسانی حقوق کے 16 کارکنوں میں سب سے پہلے جیل رسید کیے گئے روناکی دلیل ہےکہ یہ ‘غلط فہمی’ پر مبنی تصور ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ نوآبادیاتی مخالف جدوجہد کے دوران نہرو اور گاندھی جیسے لوگوں کو بھی سیاسی قیدی ماناجاتا تھا۔ وہ اس اصطلاح کی تاریخ کا سراغ آئرش قوم پرستوں سے لگاتے ہیں، جن کےبارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ شاید سیاسی قیدی کا درجہ مانگنے والے پہلےلوگ تھے۔
تاہم، حالیہ برسوں میں انہوں نے اس تناظر کو وسیع کرنے کی کوشش میں جیل میں کافی وقت گزارا ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سیاسی قیدی کیا ہے، اور کس طرح ہندوستانی معاشرے نے نوآبادیاتی دور سے پہلے اور نوآبادیاتی دور کے بعد صرف پیدائش کی بنیاد پر ایک علیحدہ ‘مجرمانہ زمرہ’ تشکیل دیا ہے،اس بارے میں دلائل میں ‘تاریخی اور سماجی حوالوں کا فقدان’ہے۔
‘یہ رجعت پسند معاشرہ سماجی اہرام (سوشل پیرامڈ) کو بگاڑنے کی کوششوں کو سزا دیتا ہے’
ایسا کرنے کے لیے وہ اپنے شریک ملزم مہیش راوت کے ذریعے جیل میں کی گئی اہم تحقیق کی مدد لیتے ہیں۔
گڑھ چرولی سے تعلق رکھنے والے قبائلی حقوق کے کارکن اور وزیر اعظم کے دیہی ترقی کے سابق فیلوراؤت نے جیل کو تحقیق کی جگہ میں تبدیل کر دیا۔ تلوجہ جیل میں کئی سالوں تک راؤت نے بچوں کے جنسی جرائم سے تحفظ کے قانون (پاکسو) کے تحت گرفتار کیے گئے افراد کے بارے میں احتیاط سےڈیٹا اکٹھا کیا، جوبچوں کو جنسی استحصال، ہراسانی اور بدسلوکی سے بچانے کے لیے 2012 میں متعارف کرایا گیاقانون ہے۔
رونا نےبتایا کہ راؤت کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت آنے والے 80 فیصد سے زیادہ لوگ دلت، مسلمان اور دیگر پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا،’یقیناً ان میں سے کچھ مجرمانہ کاسرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں، لیکن اس کمیونٹی کے ایک بڑے حصے کو صرف سماجی اہرام (پیرامڈ)کو بگاڑنے کے لیے مجرم بنایا جاتا ہے۔’
رونا بتاتےہیں،’ان نوجوانوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر مختلف کمیونٹی کی خواتین کے ساتھ محبت یا جنسی تعلقات قائم کر کے سماجی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، اسے سخت سماجی اصولوں کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ یہ رجعت پسند معاشرہ ایسی خلاف ورزیوں کی سزا دیتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں جیل جانا پڑا ہے۔’

رونا ولسن کا استدلال ہے کہ ہندوستانی معاشرے نے نوآبادیاتی دور سے پہلے اور بعد میں صرف پیدائش کی بنیاد پر ایک علیحدہ ‘مجرمانہ زمرہ’ تشکیل دیا ہے۔ (تصویر: سکنیا شانتا)
رونا ولسن اب یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا یہ مجرمانہ فعل ہے، اور بھی اہم بات یہ ہے کہ ذات پات پر مبنی اور انتہائی فرقہ وارانہ ہندوستانی معاشرے میں ‘ایک سیاسی فعل’ ہے۔
ایک اور تناظر میں رونا ولسن اپنی زمین کے حقوق کے لیے قبائلیوں کی جدوجہد کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک قبائلی محض اس لیے سیاسی قیدی بن جاتا ہے کہ وہ ایک خاص جغرافیہ میں پیدا ہوا ہے، جہاں اسے اپنی زمین کو ریاست اور کارپوریٹ سے بچانے کے لیے لڑنا پڑتا ہے ،جو صرف معدنیات سے مالا مال زمین کو کان کنی کے نظریے سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا،’گزشتہ کئی سالوں میں انتہائی منظم طریقے سے کئی کمیونٹی کے فطری طرز زندگی کو مجرمانہ بنا دیا گیا ہے، جس میں مہاجر کمیونٹی بھی شامل ہیں۔’وہ برٹش ویگرینسی ایکٹ اور اس کے کچھ ہم منصبوں کا حوالہ دے رہے تھے، جنہیں نوآبادیات نے کئی قبائل کو مجرم بنانے کے لیے ملک میں نافذ کیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں،’اس کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے نوآبادیاتی قانونی فریم ورک کی گہری سمجھ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کو نوآبادیاتی حکومت مانتی تھی اور جس کی موجودہ ہندوستانی حکومت نے محض پیروی کی ہے۔ ڈی کالونائزیشن کی تمام باتوں کے باوجود وہی قانونی ڈھانچہ اب بھی جاری ہے۔’
ہندوستانی قانونی نظام کسی بھی قیدی کو ‘سیاسی قیدی’ نہیں مانتا۔ ایک دہائی قبل تک، مغربی بنگال کے جیل مینوئل میں ریاست کی جیلوں میں سیاسی قیدیوں کو ایک الگ زمرہ کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، جس کے تحت انہیں جیل کے اندر کتابوں، خوراک اور جگہ سے متعلق کچھ اہم انتظامات کی اجازت دی گئی تھی۔
سال 2013 میں اس زمرے کو ریاستی جیل مینوئل سے ہٹا دیا گیا۔
ریاست نے ایلگار پریشد کے ملزمین کی سیاسی سرگرمی کو اپنے ‘اختیار کی توہین’ مانا ہے
رونا کا کہنا ہے کہ جیل میں اکثر سیاسی خیالات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اگر کچھ ہوبھی تو ریاست نے ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیے گئے ان کی اور دیگر کی سیاسی سرگرمی کو ‘اپنی (حکومت کی) اتھارٹی کی توہین’ مانا ہے اور ان کے ساتھ ‘مخالف’ جیسا سلوک کیا ہے۔
فروری 2020 میں جب بی جے پی حکومت نے تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا تو اس سے چند ہفتے قبل، ایلگار پریشد کیس میں گرفتار رونا ولسن اور دیگر کو پونے کی یرودا جیل سے تلوجہ جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہاں ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہفتہ وار فون کال اچانک بند کر دی گئی تھیں۔
اصرار کرنے پر رونا کو بتایا گیا کہ اگر ان کے گھر والوں نے پریس سے بات کرنا بند کر دی تو ان کی فون کال بحال کر دی جائیں گی۔
وہ سوال اٹھاتے ہیں، ‘میں اپنے خاندان پر اپنی شرائط کیسے مسلط کر سکتا تھا؟’
پچھلے کچھ سالوں میں جیل حکام نے انسانی حقوق کے کارکنوں پر اپنا کنٹرول کم کر دیا ہے اور یہاں تک کہ جب تک وہ احتجاج نہیں کرتے انہیں کم سے کم سہولیات فراہم کی ہیں۔ جب کارکنوں نے ایلگار پریشد کیس میں احتجاج کیا، تو اس کا وسیع اثر ہوا، دوسرے قیدی بھی بولنے لگے- جو جیل حکام کو پسند نہیں ہے۔
رونا یاد کرتے ہیں کہ کیسے ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیے گئے لوگوں کو احتجاج کرنے پر135 لیٹریا نو بالٹی پانی فراہم کیا گیا تھا، جو مہاراشٹر جیل مینوئل کے مطابق مقرر کردہ مقدار ہے۔
تاہم، یہ تفاوت بہت بڑا تھا۔
وہ یاد کرتے ہیں،جبکہ ہمیں ہمارا کوٹہ دیا گیا، دوسروں کو صرف ایک بالٹی یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ بالٹی ہی ملی۔’ زیادہ تر قیدیوں کو اتنا کم پانی فراہم کرنے سے جیل کے اندر کےحالات خود بخود بدتر ہو جائیں گے۔
رونا کہتے ہیں کہ ہر بیرک میں چار بیت الخلاء ہیں، جن میں سے صرف دو ہی کام کر رہے تھے۔ قیدیوں کے غیر تحریری اصول کے مطابق، سب سے پہلا بیت الخلا جو کہ جیل بیرک کے قریب ہے، استعمال نہیں کیا جانا تھا۔ وہ کہتے ہیں،’یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا تھا کہ ہماری بیرکوں میں بدبو کی وجہ سے دم نہ گھٹے۔’
کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران اور اس کے بعد جیل میں رہنے کے بعد روناکہتے ہیں کہ وبائی امراض کے باوجود ہندوستان کی جیلیں’ہنگامی حالات’ میں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کا اظہار انتقامی مداخلت کے جسمانی احساس کے ذریعے ہوتا ہے۔ لہذا، جب بھی قیدی جیل میں کسی خاص غیر منصفانہ سلوک کے خلاف خود کو منظم کرتے ہیں، حکام ان کے پیچھےپڑ جاتے ہیں۔ ‘یہ (پی ایم مودی کے دور میں) ‘آندولن جیوی ‘ نہیں ہیں بلکہ بہت عام لوگ ہیں جنہوں نے کبھی یونین نہیں بنائی اور نہ ہی اس سے پہلے ناانصافی کے خلاف لڑائی کی۔’
رونا کہتے ہیں،’لہذا جب وہ آخر کار ایسا کرتے ہیں، تو سسٹم ان کی کمر کو توڑنے کے لیےتیار ہو جاتا ہے۔ مراعات اچانک واپس لے لی جاتی ہیں، قیدیوں کو زبردستی ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جاتا ہے۔’وہ کہتے ہیں ،’اور آخر میں ‘ناقابلِ اصلاح 16’ کو ہر چیز کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے’۔
جیل کے کچھ احتجاج ذاتی فائدے کےلیے ہوتے ہیں، جبکہ کچھ اجتماعی بھلائی کے لیے
پچھلے سال کے وسط میں رونا اور ان کے شریک ملزم دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہینی بابو، خشک اور گیلےاشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے ساتھ ساتھ جیل کینٹین کے اندر پھیلی ہوئی بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں سب سے آگے تھے۔
شروع میں بہت سے دوسرے لوگ بھی ان کارکنوں کی حمایت میں آگےآئے ،لیکن جیل حکام کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے دیگر قیدی پیچھے ہٹ گئے۔ نتیجے کے طور پر، ایلگار پریشد کے کارکنوں کے مطالبات پر عمل کیا گیا؛ تاہم، دوسروں کواس سے باہر رکھا گیا۔
رونا نے کہا، ‘شروع میں ایک کلو چکن کے بجائے 400 گرام چکن دینے کی بات کی تھی، لیکن آخر کار ہمیں وہی مقدار دی گئی جو ہم نے منگوائی تھی۔ لیکن دوسروں کے لیے پہلے کا حساب ابھی بھی جاری ہے۔’
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران انہیں احساس ہوا ہے کہ ان میں سے کچھ لڑائیاں جزوی طور پر ذاتی فائدے کے لیے ہو سکتی ہیں جبکہ کچھ اجتماعی لڑائیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر، ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کارکنوں نے تلوجہ اور مہاراشٹر کی دیگر جیلوں میں ناکام عدالتی پیشی نظام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ رونا کا کہنا ہے کہ جب سے وہ جیل میں بند ہیں، انہیں یاد نہیں کہ جیل میں قیدیوں کو عدالت یا ہسپتال لے جا نے لے لیے خاطر خواہ اسکارٹ گارڈ رہے ہوں۔
کارکنوں نے کئی بار احتجاج کیا ہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ کامیاب گزشتہ ماہ ہوا، جب جیل حکام نے انہیں بتایا کہ نوی ممبئی میں کولڈ پلے کنسرٹ کی وجہ سے کسی قیدی کو باہر نہیں نکالا جائے گا ۔ اس سے جیل کے اندر کھلبلی مچ گئی اور ان کارکنوں نے بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا۔
رونا نے کہا، ‘افسران جانتے تھے کہ ہم خاموش نہیں رہیں گے اور دیگر قیدیوں میں بھی بے چینی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ احتجاج کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ اس کے بعد سے زیادہ تر قیدیوں کو عدالتی تاریخوں یا ڈاکٹر کی ملاقاتوں کے لیے جیل سے باہر لے جایا گیا ہے۔’
ان کے شریک ملزم اور سینئر وکیل سریندر گاڈلنگ اور ثقافتی کارکن ساگر گورکھے نے اسی معاملے پر بامبے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی ہے ۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)