
دہلی پی ڈبلیو ڈی نے سوشل میڈیا پر حفاظتی انتظامات اور آلات کے بغیر نالیوں کی صفائی کرتے ملازمین کی تصویریں پوسٹ کی تھیں، جنہیں تنقید کے بعد ہٹا دیا گیا۔تصویروں میں ملازمین کو بغیر جوتے، دستانے اور ماسک کے کام کرتے دکھایا گیا تھا۔ ماہرین اور سماجی کارکنوں نے اسے دستی صفائی کے قانون کی خلاف ورزی کہا ہے۔

(علامتی تصویر: ارپیتا سنگھ اور مینک چاولہ)
نئی دہلی: دہلی کے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) نے اپریل اور مئی میں نالیوں کی صفائی کرنے والے عملے کی کئی تصاویر سوشل میڈیا، خصوصی طور پر ایکس پر پوسٹ کی تھیں۔
تاہم، منگل (3 جون) کو ان میں سے ایک پوسٹ کے وائرل ہونے اور اس حوالے سےتنقید کا نشانہ بننے کے بعد محکمے نے ان تصاویر کو اپنے سوشل میڈیا سے ہٹا دیا۔ان تصویروں میں ملازمین کو دستانے، جوتے، چشمے، ماسک یا کسی دوسرے حفاظتی انتظامات کے بغیر نالیوں کی صفائی کرتے ہوئےدیکھا گیا ۔
کچھ تصویروں میں صفائی اہلکار کو بغیر شرٹ اور چپل -جوتے کے بغیردیکھا گیا، جس سے ان کی صحت پر پڑنے والے اثرات کو لے کر سوال اٹھے۔ ساتھ ہی پوچھاجانے لگا کہ کیا دستی صفائی قانون کے دائرے میں آتی ہے؟
فیڈریشن آف آل انڈیا میڈیکل ایسوسی ایشن کے قومی صدر ڈاکٹر اکشے ڈونگاردیو نے کہا،’یہ جلد کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، پھیپھڑوں کے انفیکشن کو بڑھا سکتا ہے، اور اگر طویل عرصے تک احتیاط کے بغیرکیا گیا تو یہ مہلک بھی ہو سکتا ہے ۔’
غور طلب ہے کہ رواں سال کے شروع میں دہلی حکومت نے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 31 مئی تک ریاست کے 23 اہم نالیوں کی سلٹ(گاد) نکال دے گی۔ وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا اور پی ڈبلیو ڈی کے وزیر پرویش ورما نے گزشتہ ماہ محکمے کے افسران سے ملاقات کی تاکہ ڈیڈ لائن پر اس کی صفائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی وجہ سے پوری دہلی میں نالیوں کی صفائی کی جا رہی ہے۔
نومبر 2024 میں این جی ٹی نے دہلی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی کہ وہ نالیوں میں بنا صاف کیے جا رہے سیوریج کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ ٹربیونل نے تب کہا تھا کہ دہلی جل بورڈ اور دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) ‘گٹر کے پانی کو صاف پانی کی نالیوں میں بہنے کی اجازت دینے کے لیے ذمہ دار ہیں، جس سے یمنا ندی آلودہ ہوتی ہے… اور صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔’
پچھلے سال پلہ علاقے میں ایک پانچ سالہ بچی کے نالے میں ڈوبنے سے موت ہوجانےکے بعد این جی ٹی کو یہ بھی پتہ چلا تھا کہ شمالی دہلی کے قریب ایک بارش کے پانی والے نالے میں سیوریج کا بہاؤ ہو رہا تھا کیونکہ وہاں سیوریج کا کوئی نظام نہیں تھا۔
ملازمین کو حفاظتی انتظامات فراہم نہیں کیے جاتے
دی وائر نے ارجن نگر اور حوض خاص کے قریب ایک نالے کا دورہ کیا اور دیکھا کہ گندا پانی بہہ رہا تھا اور پانی کا ایک پائپ ٹوٹا ہوا تھا، جبکہ سلٹ نکالنے کا کام اس دن روک دیا گیا تھا۔
موقع پر موجود تین مختلف ذرائع نے بتایا کہ ملازمین وہاں سے جا چکے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس نالے کی صفائی ہاتھ سے بھی ہوتی ہے اور مشین سے بھی۔
رپورٹر نے علاقے میں دو مقامات پر چار صفائی اہلکار سے ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ ان کے پاس صفائی کے لیے حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈبلیو ڈی کی طرف سے پوسٹ کی گئی اور بعد میں ہٹا دی گئی کم از کم 12 تصویروں میں ملازمین حفاظتی انتظامات کے بغیر دیکھے گئے۔
اتر پردیش کے کاس گنج ضلع سے تعلق رکھنے والے تین صفائی اہلکار نے دی وائر کو بتایا کہ وہ جہاں کام کرتے ہیں – جنوبی دہلی کی ایک پوش کالونی – وہاں گندا پانی بارش کے پانی کے نالوں میں نہیں ملتا، لیکن شہر کے دیگر حصوں میں ایساہوتا ہے۔
جیت کمار( 45سالہ)، جو بے گھر ہیں اور اب صفائی کا کام کرتے ہیں، نے کہا کہ انہوں نے نالوں کی صفائی اس لیے چھوڑ دی کیونکہ یہ کام بہت خطرناک ہے اور اجرت بہت کم ہے – انہیں ایک دن کے کام کے 500 روپے ملتے ہیں، لیکن نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ کب آپ کا ہاتھ کٹ جائے، زہریلی گیس اندر چلی جائے، یاآنکھوں میں کچرے کی چھینٹ پڑنے سے آپ اندھے ہو جائیں… وہاں کانچ اور دھات کے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔’
کاس گنج سے آئے مزدوروں نے جیت کمار کے اس دعوے کی تصدیق کی کہ انہیں ایک دن کے 500 روپے ملتے ہیں۔
‘دستانے، جوتے اور صاف پانی تو سب سے بنیادی ضروریات ہیں۔ ‘ جیت کمار نے کہا،۔’اگر کوئی چیز آنکھوں میں چلی جائے تو اسے فوری طور پر دھونے کے لیے صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔’
جب دی وائر نے مزدوروں سے پوچھا کہ کیا انہیں حفاظتی آلات ملتے ہیں ، تو انہوں نے شروع میں ‘ہاں ‘میں کہا، لیکن نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں ایسا کوئی سامان فراہم نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا، ‘ہمارے پاس جو واحد حفاظتی سامان وہ ایم سی ڈی کی ہری جیکٹ ہیں ،تاکہ عوام اور پولیس ہمیں پہچان سکے۔’
سرکار کے ایک ذرائع نے بتایا کہ صفائی کا زیادہ تر کام مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، لیکن جہاں مشینیں نہیں جا سکتیں، وہ ہاتھ سے کی جاتی ہیں۔
دہلی کی وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے بھی کچھ ایسا ہی کہا۔ انڈین ایکسپریس نے منگل کو ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘دیکھیے، ہر نالے کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ مشینیں ہر جگہ کام نہیں کرتیں اور انسان بھی ہر جگہ کام نہیں کر سکتے۔ ایسی جگہیں ہیں جہاں مشینیں نہیں پہنچ سکتیں۔ فی الحال حکومت کا مقصد تمام نالوں کو مکمل طور پر صاف کرنا ہے، اور یہ کام عدالت کی ہدایات کے مطابق پوری سنجیدگی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔’
اگرچہ تصویروں میں نظر آنے والے نالے درحقیقت اسٹارم واٹر ڈرین ہیں اور حکام کے مطابق دستی صفائی کے قانون کے تحت نہیں آتے، لیکن مزدوروں کی گواہی، کارکنوں کی آراء اور این جی ٹی کے تبصرے زیادہ پیچیدہ تصویر پیش کرتے ہیں۔
دستی صفائی کی تعریف ایسی جگہوں پر تکنیکی ذرائع کے استعمال کے بغیر ہاتھ سے انسانی غلاظت کو صاف کرنے کے طور پر کی گئی ہے جیسے کہ گندے بیت الخلا، کھلے گڑھے یا نالے جن میں غلاظت بہتی ہے، ریلوے کی پٹریوں پر، یا کسی دوسری جگہ جو مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مطلع کیا جاسکتا ہے۔
دستی صفائی کرنے والوں اور ان کی بحالی ایکٹ (مینوئل اسکیوینجرس ایکٹ)، 2013 کے مطابق، ضروری آلات اور حفاظتی انتظامات کےبغیر کسی شخص کو دستی صفائی کے لیے ملازم رکھنا غیر قانونی ہے۔ یہ قانون گٹروں اور سیپٹک ٹینکوں کی ‘خطرناک صفائی’ کی بھی تعریف کرتا ہے – یعنی انہیں بنا ضروری حفاظتی انتظامات اور آلات کے بغیر ہاتھ سے صاف کرنا۔ یہ کسی بھی شخص کو اس طرح کی صفائی کے لیے مزدوررکھنے کوغیر قانونی قرار دیتاہے۔
صفائی کرمچاری آندولن کے کنوینر بیزواڑا ولسن نے حکام کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یہ صرف ‘بارش کے پانی کے نالے’ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکام خواہ کچھ بھی کہتے ہوں ان میں صرف گاد ہے، لیکن’اگر آپ اس کا رنگ دیکھیں تو یہ صرف گاد ہی نہیں بلکہ سیوریج بھی ہے، یہ کالا ہے، سب جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے…’
ولسن نے سوال کیا،’لوگ مر کیوں رہے ہیں؟’یہ الزام لگاتے ہوئے کہ دستی صفائی دہلی کے کئی حصوں میں موت کا باعث بن رہی ہے۔
اپوزیشن نے مذمت کی
پی ڈبلیو ڈی کی ان تصویروں پر اپوزیشن لیڈروں نے بھی سخت تنقید کی ہے۔
راشٹریہ جنتا دل کے ایم پی منوج جھا نے لکھا، ‘یہ خوفناک تصویریں ان لوگوں کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی ہیں جو ‘ڈبل/ٹرپل انجن’ والی حکومت کی شان میں ڈوبے ہوئے ہیں۔’
عام آدمی پارٹی کے سابق ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے الزام لگایا کہ ‘بی جے پی حکومت’ کی دلتوں اور غریبوں کا استحصال کرنے کی تاریخ رہی ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔’
پی ٹی آئی نے رپورٹ کیا کہ پی ڈبلیو ڈی نے ایک جونیئر انجینئر کو برخاست کر دیا، کیونکہ اس کی نگرانی میں مزدروں نے حفاظتی انتظامات کے بغیر کام کیا تھا ۔
( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)