اڈانی گروپ پر ایران سے پیٹرو کیمیکل درآمد کرنے کا شبہ، امریکہ نے شروع کی جانچ: رپورٹ

امریکی محکمہ انصاف نے اڈانی گروپ کےاس کردار کی تحقیقات شروع کی ہے جس میں اس پر ایران سے ایل پی جی درآمد کرنے کا شبہ ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں اور دستاویزوں میں بے ضابطگیوں کی جانچ کی جارہی ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے اڈانی گروپ کےاس کردار کی تحقیقات شروع کی ہے جس میں اس پر ایران سے ایل پی جی درآمد کرنے کا شبہ ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں اور دستاویزوں میں بے ضابطگیوں کی جانچ کی جارہی ہے۔

گوتم اڈانی۔تصویر بہ شکریہ: انسٹاگرام

نئی دہلی: امریکی محکمہ انصاف نے (یو ایس ڈپارٹمنٹ آف جسٹس) نے اڈانی گروپ کے اس کردار کی جانچ شروع کی ہے، جس میں اس پر ایران سے پیٹرو کیمیکل مصنوعات (خصوصی طور پر ایل پی جی) درآمد کرنے کا شک ہے۔یہ جانکاری  وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں دی گئی ہے۔ یہ جانچ ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اڈانی گروپ بدعنوانی کے ایک الگ معاملے میں سمجھوتے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے اڈانی گروپ نے امریکی پابندیوں کو جھانسہ دینے یا ایرانی ایل پی جی کی تجارت میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ اڈانی کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسی کسی امریکی تحقیقات سے واقف نہیں ہیں۔

ترجمان نے کہا، ‘وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کی ٹائمنگ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کا مقصد محکمہ انصاف کی جانب سے جاری پراسیکیوشن کو متاثر کرنا ہے۔’

وال اسٹریٹ جرنل نے قبل ازیں 13 اپریل کو خبر دی تھی کہ گوتم اڈانی کے وکیلوں نے امریکی محکمہ انصاف سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے خلاف درج فوجداری مقدمات کو خارج کردیں۔ ان معاملات میں اڈانی پر ہندوستان میں شمسی توانائی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کی رشوت دینے کا الزام ہے۔

ان الزامات کو اکتوبر 2024 میں عام کیا گیا تھا، جس میں اڈانی، ان کے بھتیجے ساگر اڈانی اور تین کمپنیوں کے چھ دیگر عہدیداروں کا نام شامل تھا۔

ایک متوازی مقدمے میں یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن(ایس ای سی) نے گوتم اور ساگر اڈانی پر وفاقی سیکیورٹیز قوانین کی اینٹی فراڈ دفعات کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔

پانچ مئی کو بلیومبرگ نے بتایا تھاکہ اڈانی کے وکیلوں اور ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کے درمیان بات چیت تیز ہو گئی ہے اور آنے والے ایک مہینے میں کسی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی2 جون کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ امریکی استغاثہ اڈانی انٹرپرائزز کے لیے ایل پی جی کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والے کچھ ٹینکروں کی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل نے خلیجی بندرگاہوں اور اڈانی کے زیر انتظام مندرا بندرگاہ کے درمیان سفر کرنے والے ایل پی جی ٹینکروں کے ایک گروپ کا بھی پتہ لگایا۔ رپورٹ کے مطابق، انہیں ان  جہازوں کی نقل و حرکت کو چھپانے کی کوشش کے کچھ واضح نشانات ملے، جن میں جہاز کی لوکیشن بتانے والے خودکار شناختی نظام (اے ائی ایس) میں ہیرپھیرکرنا شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایرانی تیل اور گیس کی مصنوعات کے خریدار اکثر عمان اور عراق میں بنے فرضی دستاویزوں کا استعمال کرتے ہیں۔

اس جانچ کا فوکس پاناما میں رجسٹرڈ ٹینکر جہازپر ہے جسے ایس ایم ایس بروزکہا جاتا ہے، جسے بعد میں نیل کا نام دیا گیا۔ اے آئی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ جہاز 3 اپریل کو عراق کی خور الزبیر بندرگاہ پر تھا۔ لیکن اسی دن کی سیٹلائٹ تصاویر میں جہاز کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔ اس کے بجائے، اسی طرح کی بناوٹ والا ایک جہاز ایران کے ٹومبک میں ایل پی جی ٹرمینل پر کھڑا نظر آیا۔ چار دن بعد، ٹینکر متحدہ عرب امارات کے ساحل پر نظر آیا اور اس کے ڈیٹا سے پتہ چلا کہ یہ پانی میں کچھ  نیچے بیٹھا ہوا تھا – جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں مال لدا ہوا تھا۔

جہاز نے عمان کی بندرگاہ سہار کے قریب لنگر انداز ہونے کا اشارہ بھیجا تھا، لیکن اسے کبھی وہاں لنگر انداز ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ دو دن بعد،اڈانی گلوبل پی ٹی ای نے جہاز سے تقریباً 11250 میٹرک ٹن ایل پی جی لوڈ کرنے اور اسے ہندوستان کی مندرا بندرگاہ تک پہنچانے کا معاہدہ کیا۔ ہندوستانی کسٹم ریکارڈ کے مطابق، 17 اپریل کو، اڈانی انٹرپرائزز نےایک ایسا ہی مال درآمد کیا،جس کی  قیمت 70 لاکھ ڈالر سے کچھ زیادہ تھی ۔

ایس ایم ایس بروز (اب نیل) کے دستاویزوں میں اس سے قبل بھی کئی تضادات پائے گئے ہیں۔ جون 2024 کی ایک بنگلہ دیشی بندرگاہ کے دستاویز میں اس کا ذکر ایرانی نژاد ایل پی جی کی ڈیلیوری کے لیے کیا گیا تھا، جبکہ اے آئی ایس ڈیٹا میں اسے عراق کی جانب جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا -یہ پیٹرن اپریل والے معاملے سے میل کھاتاہے۔

اڈانی کی مندرا بندرگاہ سے منسلک تین دیگر ایل پی جی ٹینکروں کی سرگرمیوں میں بھی بے ضابطگیوں کا پتہ چلا ہے۔ ایک جہاز، جو اسی کمپنی کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو نیل کا انتظام کرتی ہے، وہ امریکی سینیٹ کی اس واچ لسٹ میں شامل تھی  جس میں ایرانی تیل اور گیس لے جانے والے جہازوں کا نام ہے ۔ ایک اور جہاز نے خور الزبیر کی بندرگاہ پر پہنچنے کا دعویٰ کیا، لیکن سیٹلائٹ امیج میں وہ وہاں نظرنہیں آیا۔ چوتھا جہاز، جو بار بارمندرا میں ڈاک کرتا ہے،  امریکی محکمہ توانائی کی 2024 کی رپورٹ میں ایرانی پیٹرولیم برآمد کرنے والے کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔

اڈانی گروپ نے وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کو پوری طرح سے خارج کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایل پی جی کا کاروبار ‘آپریشنل اوراہم نہیں ہے’ – یہ اڈانی انٹرپرائزز کی 11.7 بلین ڈالرکی کل سالانہ آمدنی کا صرف 1.46 فیصد ہے۔

گروپ نے کہا کہ وہ تمام ایل پی جی قابل اعتماد بین الاقوامی سپلائرز کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے خریدتا ہے، او ایف اے سی کی پابندیوں والی  فہرست میں شامل کسی بھی کمپنی کے ساتھ تجارت نہیں کرتا ہےاورشپنگ کا کام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس کمپنیوں کے ذریعے اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کرواتاہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں مذکور کنسائنمنٹس کا جواب دیتے ہوئے اڈانی نے کہا کہ یہ ایک معمول کا تجارتی لین دین تھا، جس کا انتظام تھرڈ-پارٹی لاجسٹکس پارٹنر نے کیا، اور دستاویزات میں سہار (عمان) کو کنسائنمنٹ کا سورس بتایا گیا ہے۔

اڈانی گروپ نے یہ بھی کہا، ‘ہم ان جہازوں (جیسے ایس ایم ایس بروز/نیل)کے مالک، آپریٹر یا ٹریکر نہیں ہیں اور نہ ہی ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہے، اس لیے ہم ان کی موجودہ یا ماضی کی کسی بھی سرگرمی پر تبصرہ نہیں کر سکتے ۔’

گروپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک حقیقی درآمد کرنے والے کی تمام ذمہ داریاں پوری کی گئی ہیں۔

Next Article

ٹام آلٹر: اردو کا سچا عاشق

ٹام صاحب نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے  اور لکھنے کے  قائل تھے۔

ٹام آلٹر، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

مجھے سال اور مہینہ تو یاد نہیں، لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے پہلی بار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ٹام آلٹر کو سامنے سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔ وہ جامعہ کے ڈاکٹر مختار احمد انصاری آڈیٹوریم میں مولانا آزاد کی سوانح عمری ‘انڈیا ونس فریڈم’ پر مبنی اور سعید عالم صاحب کی ہدایت کاری میں ایک سولو ڈرامے کے اسٹیج کے لیے تشریف لائے  تھے۔

ایسا نہیں ہے کہ میں اس سے پہلے ٹام آلٹر کے نام اور کارنامے سے واقف نہیں تھا۔ لیکن اس دن کے پرفارمنس نے مجھے ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ انصاری آڈیٹوریم میں زبردست بھیڑتھی، لوگ ایک دوسرے کے اوپر چڑھے جا رہے تھے۔ سینکڑوں کی گنجائش والے اس آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔

اس کے باوجود جب ڈرامہ شروع ہوا تو لوگوں نے ڈرامے کو اتنے انہماک سے دیکھنا شروع کیا کہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ کھڑے ہیں یا انہیں جگہ نہیں ملی۔ ڈرامے کے بعد ان سے ملنے کے لیے لوگوں کا  تانتا بندھ گیا۔

یہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا اور نہ ہرشخص کے پاس کیمرہ ہوا کرتا تھا، ورنہ اس دن خاصی بھگدڑ مچ جاتی، جسے ٹام صاحب بالکل پسند نہیں کرتے۔ البتہ اس دن کے بعد جب بھی انہوں نے دہلی میں پرفارم کیا، میں نے اس میں شرکت کرنے اور ان کے فن سے محظوظ ہونے کی کوشش کی۔

یہ ٹام صاحب کی بدقسمتی ہے (بلکہ  اسے اپنی بدنصیبی کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کہ ہم میں سے اکثر لوگ انہیں صرف دو کرداروں کی وجہ سے جانتے یا یاد کرتے ہیں۔ پہلا، بالی وڈ فلموں میں ‘انگریز’ کا کردار اور دوسرا ڈراموں میں مولانا آزاد کا کردار۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چالیس سال سے زائد کے کیرئیر میں انہوں نے بڑی خوبی کے ساتھ مختلف کردار نبھائے ۔ ہر کردارایک سے بڑھ کر ایک۔

صرف سعید عالم صاحب کے ساتھ ہی مولانا آزاد کے علاوہ انہوں نے آٹھ اورڈراموں میں کام کیا، جن کے سینکڑوں شوز منعقد ہوئے۔

سعید صاحب کے مطابق، ‘یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ٹام صاحب جیسے ملٹی ٹیلنٹڈ اداکار کوبھی اکثر انگریز یا گورا کے رول میں اسٹریوٹائپ/ٹائپ کاسٹ  کر دیا گیا۔’

اپنی موت سے تقریباً ایک ماہ قبل ٹام صاحب نے ایک انٹرویو میں  کہا تھا کہ ‘میں نے اب تک 400 سے زائد فلموں میں کام کیا ہے، جن میں سے صرف دس فلموں میں میں نےبرٹشر/انگریز کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن 2017 میں بھی مجھے انگریز کہا جاتا ہے۔’

 انہوں نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اس میں وہ کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے  اور لکھے جانے کے  قائل تھے۔

ایک بار انھیں جشنِ ریختہ میں ایک اردو کتاب کی ریلیز کے لیے مدعو کیا گیا، جس کے لیے انھوں نے بخوشی رضامندی ظاہر کی۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ کتاب رومن رسم الخط میں ہے تو انہوں نے اس کے  اجرا سے انکار کردیا۔

سعید صاحب کے بقول، ‘جب انہیں معلوم ہوا کہ اردو کتاب رومن میں لکھی گئی ہے تو انہیں بہت غصہ آیا۔ اور جب ہم میں سے کچھ لوگوں نے انہیں منانے کی کوشش کی تو ٹام صاحب نے کہا کہ اگر یہ (رومن میں) ٹھیک  سے لکھا گیا ہوتا توبھی  میں اس پر دوبارہ غور کرتا۔’ وہ اکثر کہا کرتے تھے، ‘ایک  تو ہندی-اردو رومن میں نہیں لکھی جا سکتی، اور آپ لوگوں کورومن میں بھی ہندی-اردو لکھنا نہیں آتا۔’

 جب میں نے ستمبر 2020 میں ٹام آلٹر صاحب پر ایک اسٹوری  لکھنے کےدوران سعید صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ایک دلچسپ قصہ سنایا۔ سعید صاحب نے مجھے بتایا کہ 2002 میں جب دونوں نے مولانا آزاد (ڈرامے) پر کام شروع کیا تو ٹام آلٹر صاحب کو دیا گیا اسکرپٹ دیو ناگری میں تھا۔

شروع میں تو وہ دیوناگری میں لکھے گئے اسکرپٹ کی ریہرسل کرتے رہے لیکن ہفتے بھر کے اندر ہی انہوں نے کہا کہ انہیں  اردو رسم الخط میں اسکرپٹ چاہیے۔’

مجھے اس وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ ٹام صاحب اردو رسم الخط پڑھ سکتے ہیں، ہفتہ بھر میں انہیں چند اہم اردو کتابوں کے نام تجویز کرتا رہا جن کا انگریزی ترجمہ دستیاب تھا، ایسا کرتےہوئے میرے ذہن میں دو باتیں تھیں، پہلی، یہ ظاہر کرنا کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں جو اردو اور انگریزی دونوں پر عبور رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ میں چاہتا تھا کہ انہیں  اردو ادب بھی پڑھنا چاہیے، ترجمہ ہی سہی۔’

سعید صاحب کا کہنا تھا، ’ یہ ٹام آلٹر صاحب کی عظمت تھی کہ انہوں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ انہوں نے وہ تمام کتابیں پڑھ رکھی  ہیں اور وہ بھی اردو میں‘۔

سعید صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا تھاکہ ٹام آلٹر صاحب کو انہوں نے دیوناگری میں اسکرپٹ اس لیے دی تھی کیونکہ اس سے پہلے دو تین اداکاروں (جو اردوداں سمجھے جاتے ہیں) کو اردو رسم الخط میں اسکرپٹ دے چکے تھے اور ان لوگون  نے کہا تھا کہ وہ اردو نہیں پڑھ سکتے!

اردو سے ان کے لگاؤ ​​اور محبت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی یادداشتیں اردو میں لکھیں اور اس کو ایک اردو رسالے میں چھپوایا۔ یہ بھی شاید اردو سے ان کی محبت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام افشاں رکھا۔

فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کرنے کے علاوہ انہوں نے کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کے انٹرویو بھی کیے۔ انہیں کرکٹ میں خاص دلچسپی تھی اور انہوں نے جنوری 1989 میں سچن تنڈولکر کا انٹرویو کیا تھاجب سچن صرف 16 سال کے تھے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 2000 میں اردو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے خصوصی پروگرام ‘ادبی کاک ٹیل’ کے لیے انہوں نے اداکار جانی واکر، موسیقار نوشاد، اداکارہ ٹن ٹن، صحافی اور مصنف حسن کمال اور اداکار جگدیپ  جیسی شخصیات کے یادگار انٹرویو کیے، جن کے کچھ حصے یوٹیوب اور اسپاٹی فائی پر دستیاب ہیں۔

ان انٹرویوز کو سنتے اور دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک منجھے ہوئے  فنکار تھے بلکہ ایک اچھے صحافی بھی تھے۔ انہیں سنتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اردو ان کی مادری زبان ہو۔ اردو سے ان کا رشتہ فطری لگتا ہے جس میں کسی قسم کی مصنوعیت نہیں تھی۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ اردو سے ان کا رشتہ بہت پرانا تھا۔ وہ لکھتے ہیں؛


‘اردو سیکھنے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ مجھے اپنے والدین سے جو چیز وراثت میں ملی ہے ان میں سے ایک اردو بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ  میرے والد صاحب کی پیدائش سیالکوٹ کی ہے،اس زمانے میں  وہ ایک پادری تھے، ان کے والد بھی پادری تھے۔ پنجاب (غیر منقسم پنجاب) کے گرجا گھروں میں تقسیم سے پہلے عیسائیوں کی عبادت اردو میں ہوتی تھی، ہم نے اپنے بچپن میں لفظ بائبک کبھی سنا ہی نہیں، ہمیشہ انجیل مقدس ہی کانوں میں پڑا۔

پنجاب کے گرجا گھروں میں روزانہ صبح سات بجے سے پونے آٹھ بجے تک پینتالیس منٹ  کی عبادت اردو میں ہوتی تھی۔میرے والد صاحب اکثر بیمار رہتے تھے۔ وہ ذیابیطس کے مریض تھے، اس لیے ان کے پاس ایک چھوٹی سی میز تھی جس پر طرح طرح کی دوائیاں رکھی رہتی تھیں۔ان کو چوں کہ شوگر کی شکایت تھی جس کی وجہ سےانہیں ٹافی وغیرہ کھانی ہوتی تھی، اس لیے وہ میز پر ٹافی کا ایک  ڈبہ رکھتے تھے اور اسی ڈبے کے بغل میں بائبل یعنی انجیل مقدس بھی رکھی رہتی تھی ۔

اس وقت مجھے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی، اس لیے میں ان سے پوچھتا تھا کہ یہ  کیا ہے؟ تو وہ بتاتے تھے ٹام یہ انجیل مقدس ہے۔اردو رسم الخط مجھے شروع سے ہی اچھا لگتاتھا اس لیے جب باقاعدہ اردوپڑھنی شروع کی تو کسی طرح کی پریشانی نہیں ہوئی۔’


وہ مزید لکھتے ہیں کہ؛

’ جب میں نے ایکٹنگ کی لائن میں آنے کا فیصلہ کیا اور مجھے پونے کے فلم انسٹی ٹیوٹ(ایف ٹی آئی آئی ) میں داخلہ مل گیا تب میں نے طے کیا کہ اب مجھے باقاعدہ اردو سیکھنی ہے۔ ‘

وہ ایک سچے اور پکے محب اردو تھےاور انہوں نے دامے درمے قدمے سخنے اردو کی خدمت کی۔ ہم ان کی زندگی اور کارنامےسے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے آپ کو اردو والا، اردو دوست، محب اردو، خادمِ اردو وغیرہ سمجھتے ہیں یاکہلوانا پسند کرتے ہیں۔

اگر ہم ٹام آلٹر صاحب کو کسی بھی طرح سے خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اردو تھیٹر کی ترقی اور فروغ کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ ان کے اپنے الفاظ میں کہیں تو؛

‘ہندوستان میں اچھے اردو تھیٹر کم ہیں اور اول  درجے کے اردوپلے تو بہت ہی کم کھیلے  جاتے ہیں، مگر ہندوستان کا اچھا اردو تھیٹر دنیا کے کسی بھی تھیٹر سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے…

چھوٹی جگہوں پر جو اردو تھیٹر  ہو رہا ہے، اس کا مجھے کچھ زیادہ علم نہیں  اور اپنے محدود تجربے کی بنیاد پر، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب میں  اردوکا کوئی پلے کرتا ہوں  وہ  لوگ بھی جنہیں اردو نہیں آتی مجھ سے کہتے ہیں ہمیں آپ کا پلے سمجھ میں آتا ہے، جونہایت  اہم بات ہے، اردو اس ادبی زبان کے طور پر تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے جو معاشرے میں اردو کے ادب کا ذوق بیدار کرکے اسے اعلیٰ اقدار سے روشناس کرائے، اس کے باوجود جب اچھا اردو تھیٹر ہوتا ہے، تو لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں، جن میں یقیناً اکثریت اردو ادب اور ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے غیر مسلم ناظرین ہوتے ہیں ۔

(مہتاب عالم صحافی، مصنف اور محقق ہیں۔ انہیں ٹام آلٹر سےمتعلق ایک مضمون (مطبوعہ ؛دی وائر انگریزی)کے لیے ممبئی پریس کلب کی جانب سے ریڈ انک ایوارڈ فار ایکسیلنس ان جرنلزم سے نوازا  جا  چکا ہے۔)

Next Article

جلد شرم محسوس کریں گے انگریزی بولنے والے: کیوں خطرناک ہے امت شاہ کا یہ بیان؟

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہےکہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے۔ یہ بیان ثقافتی ہی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے – جو زبان، تعلیم، پہچان اور عالمی مسابقت سے متعلق سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ خیال معاشرے میں تفرقہ پیدا کرتا ہے اور عدم مساوات کو وسیع کرتا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/امت شاہ)

نئی دہلی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جمعرات (19 جون، 2025) کو کہا کہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے، اور ایسا معاشرہ بننے میں اب زیادہ دیر نہیں ہے۔

شاہ نے یہ تبصرہ سابق آئی اے ایس افسر آشوتوش اگنی ہوتری کی کتاب ‘میں بوند سویم، خود ساگر ہوں’ کی تقریب رونمائی کے دوران کیا۔ اس پروگرام میں کی گئی ان کی تقریر کا ویڈیو نیوز ایجنسی اے این آئی نے اپنے ایکس ہینڈل پر شیئر کیا تھا، لیکن بعد میں اسے ہٹا لیا گیا۔ یہی نہیں، اے این آئی نے اپنی ویب سائٹ سے امت شاہ کے تبصرے کی بنیاد پر شائع ہونے والی خبر کو بھی حذف کر دیا۔

تاہم، ہندوستانی سیاست میں اس طرح کی باتیں پہلے بھی سننے کو ملتی رہی ہیں، لیکن امت شاہ کا یہ بیان اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں دوسرے اہم لیڈر مانے جاتے ہیں اور مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ یعنی ان کے بیان کو محض ذاتی رائے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا ہے بلکہ حکمران جماعت کے پالیسی اشارے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

اس بیان کو ہندوتوا کے دیرینہ نظریہ – ‘ہندی، ہندو، ہندوستان’ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ صرف ایک ثقافتی تبصرہ نہیں  رہ جاتا۔ اس کا اثر بہت گہرا اور وسیع ہے، جس میں قومی شناخت، سماجی ترقی، دانشوری اور ہندوستان کی بین الاقوامی امیج جیسے پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔

جہاں شاہ کا بیان ایک طرف ملک میں انگریزی زبان کے بارے میں عام تاثر کو چیلنج کرتا ہے، وہیں اس سے یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ کیا ہندوستان میں کسی زبان کا استعمال اب ثقافتی برتری بمقابلہ شرم کا معاملہ بن گیا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر ہندوستان کی کثیر لسانی شناخت کو ایک طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے – لیکن اندر سے اس شناخت کو ‘ایک زبان، ایک ثقافت’ کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوششیں بھی تیز ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

امت شاہ کے بیان کے پانچ اہم پہلو یہ ہوسکتے ہیں؛

لسانی برتری اور تقسیم

ہندوستان کی اصل طاقت اس کے لسانی تنوع میں مضمر ہے۔ یہاں کوئی ایک قومی زبان نہیں ہے، لیکن آئین کے آٹھویں شیڈول میں 22 تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ ایسے میں انگریزی کو ‘غیر ملکی تسلط’ کہنے اور اسے ‘شرم’ سے جوڑنے کی سوچ لسانی برتری کو فروغ دیتی ہے۔

ہندوستان میں، انگریزی زبان اکثر ایک پل کا کام کرتی ہے – خاص طور پر اعلیٰ تعلیم، کاروبار اور بین ریاستی مواصلات میں۔ امت شاہ کے بیان کو ملک کے ان حصوں میں جہاں ہندی نہیں بولی جاتی ہے (خاص طور پر جنوبی ہندوستان، شمال مشرق اور مشرقی ہندوستان میں) ہندوتوا سیاست کی ہندی تھوپنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے علاقائی عدم اطمینان اور تقسیم کے گہرا ہونے کا خطرہ ہے۔

نوآبادیاتی وراثت کے بہانے ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوشش

امت شاہ کا بیان ہندی کو ہندوستانی شناخت کے مرکز میں قائم کرنے کی بی جے پی کی پرانی سیاسی حکمت عملی سے میل کھاتا ہے۔ انگریزی کو ‘نوآبادیاتی میراث’ اور ‘شرم’ کی علامت قرار دے کر، وہ قوم پرست جذبات سے فائدہ اٹھانے اور پارٹی کے حامیوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ان کی یہ زبان اس خیال کو فروغ دیتی ہے کہ سچا محب وطن وہ ہے جو ہندوستانی زبانوں کو اپناتا ہے (بنیادی طور پر بی جے پی کی نظر میں ہندی)۔

یہ درست ہے کہ نوآبادیاتی ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے، لیکن انگریزی اب عالمی رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جڑنے کا یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ ایسے میں انگریزی کو ‘شرم’ کے ساتھ جوڑنا ایک حساس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔

یہ نقطہ نظر عوام کی توجہ حقیقی مسائل جیسے کہ عوامی تعلیم کے معیار سے ہٹا سکتا ہے۔

ہندوستان کی عالمی مسابقت کو خطرے میں ڈالنے والا خیال

انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) اور خدمات کے شعبے میں ہندوستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت اس کے انگریزی بولنے والے نوجوانوں کے ذریعہ چل رہی ہے۔ یہ لسانی برتری ہندوستان کو چین جیسے ممالک سے الگ کرتا ہے اور اسے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بناتا ہے۔

لیکن جب امت شاہ جیسے سینئر لیڈر انگریزی کو شرم کا باعث قرار دیتے ہیں، تو اس سے پوری دنیا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ ہندوستان ایک تنگ نظر، ماضی میں الجھا ہواملک بن  رہا ہے، جو اپنی طاقت کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اس طرح کا رویہ نوجوانوں کو ان مہارتوں سے محروم کر سکتا ہے جو انہیں عالمی مسابقت میں برتری فراہم کرتی ہیں – ہندوستان کے معاشی مستقبل کو متاثر کرتی ہے۔

اگر شاہ کے بیان کو ہندوتوا حکومت کی پالیسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تو یہ ایک کھلے، جدید اور عالمی سطح پر جڑے ہوئے ملک کے طور پر ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

سماجی تحرک اور تعلیم پر اثرات

ہندوستان میں انگریزی کو اکثر بہتر تعلیم، ملازمتوں اور اعلیٰ سماجی حیثیت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امت شاہ کا انگریزی کو شرم کے ساتھ جوڑنے سے لاکھوں لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے جو عملی وجوہات کی بنا پر یہ زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔

اس بیان کے تعلیمی پالیسی پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں – خاص طور پر زبان سے متعلق فیصلوں میں۔ اگر انگریزی کو تعلیم سے ہٹا دیا جاتا ہے، تو غیر مراعات یافتہ طلباء کے لیے عالمی مواقع تک رسائی مشکل ہو سکتی ہے۔

اس سے شہری اور دیہی تقسیم اور انگلش میڈیم بمقابلہ مقامی میڈیم اسکولوں کے درمیان فرق مزید بڑھ سکتا ہے، جس سے معاشرے میں عدم مساوات بڑھنے کا خطرہ ہے۔

دانشوری  کی مخالفت اور ثقافتی پسماندگی کا فروغ

انگریزی بولنے کو ‘شرم’ سے جوڑنا دانشوری کی شدید مخالف کی علامت ہے۔ امت شاہ کا بیان ان لوگوں کو حاشیے پر ڈالتا ہے، جو انگریزی میں بے ساختگی سے بات چیت کرسکتے ہیں – اور اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بہتر تعلیم یافتہ، عالمی سطح پر جڑے ہوئے اور ہندوستان کے نمائندہ چہرے ہیں۔

اس سے یہ پیغام جاتاہے کہ  کھلا، عالمی نقطہ نظر ہندوستانی نہیں ہے۔ اس طرح کی سوچ ہندوستان کو دنیا سے جوڑنے کے بجائے اندر کی طرف موڑ دیتی ہے، جو سماجی اور ثقافتی تنگ نظری کو  فروغ دیتاہے۔

Next Article

مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے پیغامات فارورڈ کرنے پر غیر معینہ مدت تک جیل میں نہیں رکھ سکتے: عدالت

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کو لے کر وہاٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرنے کے الزام میں گرفتار سرکاری کالج کی گیسٹ فیکلٹی کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ویڈیو کو فارورڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے

نئی دہلی: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے ویڈیو کو فارورڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے ڈنڈوری کے گورنمنٹ ماڈل کالج کی گیسٹ فیکلٹی ڈاکٹر نسیم بانو کو ضمانت دیتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ انہیں پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بارے میں مبینہ طور پر وہاٹس ایپ پیغامات اور ایک ویڈیو فارورڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جسٹس اویندر کمار سنگھ نے 13 جون کے اپنے آرڈر میں کہا، ‘پہلی نظر میں یہ بہت محفوظ طریقے سے کہا جا سکتا ہے کہ کالج میں گیسٹ فیکلٹی کے عہدے پر فائز ایک پڑھے لکھے شخص پر وہاٹس ایپ پیغامات فارورڈ کرتے ہوئے زیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے۔ لیکن محض پیغامات اور ویڈیوز کو فارورڈ کرنے کی بنیاد پر، جس سے کسی کمیونٹی کے مذہبی جذبات مجروح ہوسکتے ہیں، کسی شخص کو غیر معینہ مدت تک جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔’

معلوم ہو کہ ڈاکٹر بانو کو 28 اپریل کو ڈنڈوری پولیس اسٹیشن میں دیپیندر جوگی نامی شخص کی شکایت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف بھارتیہ  نیائےسنہتا(بی این ایس) 2023 کی دفعہ 196، 299 اور 353 (2) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پروفیسر نے ایک وہاٹس ایپ گروپ میں کچھ پوسٹ ڈالے تھے، جن کا مقصد ایک کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے، ساتھ ہی ‘نیا راون’ کے عنوان سے ایک ویڈیو بھی نشر  کیا تھا ہے۔

ایڈوکیٹ ایشان دت اور سینئر ایڈوکیٹ منیش دت نے ڈاکٹر بانو کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے دلیل دی کہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں اور ان کا کسی کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں  تھا۔

ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے سرکاری وکیل رویندر شکلا نے دعویٰ کیا کہ درخواست گزار نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر وہاٹس ایپ پیغام اور ویڈیو کو آگے بڑھایا تھا۔

تاہم، انہوں نے بتایاکہ پروفیسر کے خلاف کوئی اور جرم درج نہیں ہے۔ دونوں فریقوں کو سننے اور کیس ڈائری کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس سنگھ نے حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے ضمانت دینا مناسب سمجھا۔

Next Article

ایران پر اسرائیلی حملے اور ٹرمپ کی دھمکی سے بے نقاب ہوا عالمی سیاست کا حقیقی چہرہ

اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک  ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔

بائیں سے- آیت اللہ علی خامنہ ای، ڈونالڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

پوری دنیا کے لوگ ایک ناقابل یقین منظر دیکھ رہے ہیں۔ یا اصل حقیقت اب بے نقاب ہو گئی ہے۔ یعنی دنیا میں ڈپلومیسی نام کی کوئی شےنہیں ہے۔ جو ہے وہ غنڈہ گردی یا مسلح قوت ہے۔ بین الاقوامی اصول، قوانین اور ضابطوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر کچھ طاقتور غنڈے، جنہیں قوم کے نام سے قابل فخر سمجھا جاتا ہے، ساتھ آ جائیں تووہ  کسی کو بھی گھیر کر مار ڈال سکتے ہیں۔

یہ بھی ایک ناقابل یقین منظر ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور مانے جانے والے ملک امریکہ کے سربراہ کو اسرائیل نے نکیل ڈال رکھی ہے اور اپنی مرضی سے اسے نچا رہا ہے۔ جیسا کہ بہت سے امریکی ماہرین ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل ہے جو امریکہ کی بین الاقوامی پالیسی کا فیصلہ کرتا ہے، امریکہ نہیں۔

اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کر دیا ہے۔ تزویراتی طور پر اہم اہداف پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے ایران کی فوج کے رہنماؤں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا ہے۔


اسرائیل نے فوج اور حکومت میں خامنہ ای کے تمام قریبی لوگوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا ہے۔ اب یہ دھمکی دے رہا ہے کہ وہ ایران کے لیڈر خامنہ ای کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ ایران میں بغاوت کی بات کر رہا ہے۔ نیتن یاہو ایران کے عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو معزول کر دیں۔ اور خود کو اس کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یعنی ایران میں جو تباہی برپا کر رہا ہے اس کے مطابق وہ ایران کی بھلائی کے لیے ہے۔


وہ یہ سوچ بھی پا رہا ہے کہ جو ایرانی عوام اس کی بمباری سے ہلاک اور تباہ ہو رہے ہیں وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس کو خوش آمدید بھی کہیں گے۔

امریکہ اب تک اپنے پٹھے اسرائیل کے ساتھ براہ راست میدان میں نظر نہیں آ رہا۔ نیتن یاہو پہلے دن سے ہی اپنے سرپرست سے کہہ رہاہے کہ اسے میدان میں اترنا ہی پڑے گا۔ امریکی صدر کو اکسانے کے لیے وہ کھلے عام کہہ رہاہے کہ ایران ٹرمپ کا قتل کر سکتا ہے۔ نیتن یاہو ٹی وی پر کہہ رہا ہے کہ ٹرمپ ایران کا پہلا ہدف ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٹرمپ خود کو بچانا چاہتے ہیں تو وہ ایران پر اسرائیلی حملے میں شامل ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تنہا ایران کو شکست نہیں دے سکتا۔

اسرائیل یورپ اور امریکہ کو سمجھا رہا ہے کہ وہ دراصل انہیں بچانے کے لیے ایران پر حملہ کر رہا ہے۔ اور وہ سن رہے ہیں۔


اسرائیل میں امریکی سفیر ٹرمپ کو ایک بے ڈھنگا  خط بھیجتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ٹرمپ کو اسے خدا نے کچھ ایسے کام کو انجام دینے کے لیے بھیجا ہے جو کوئی دوسرا صدر نہیں کر سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ 1945 کے ٹرومین کے بعد وہ دوسرا صدر ہے جسے خدا نے اپنا کام کرنے کے لیے چنا ہے۔ سب کو یاد ہے کہ ٹرومین نے 1945 میں کیا کیا تھا۔ اس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا یا تھا۔ سفیر صدر کو ایران کے ساتھ ٹرومین جیسا کچھ کرنے پر اکسا رہا ہے۔ اور صدر اس خط کو پبلک بھی کر دیتا ہے۔


جب  اسرائیل بغیر کسی اشتعال کے ایران پر بمباری کر رہا ہو اور پورے علاقے میں تباہی کا منظر ہو، اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ بات چیت بہت اچھی چل رہی ہے۔ ایران کی طرف سے جو امریکہ سے بات چیت کر رہے تھے ، ان ایرانی اہلکار کو اسرائیل نے مار ڈالا اورامریکی صدرتالی بجا رہا ہے۔ کہہ رہا ہے؛ وہ مارا گیا۔

امریکہ ایک خودمختار قوم کو دھمکی دے رہا ہے کہ وہ اس کے سربراہ مملکت کو مار سکتا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں کرے گا۔ ایران ہتھیار ڈال دے ورنہ…!

اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک  ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔

اور دنیا کے تمام ممالک جو اپنے آپ کو تہذیب کا محافظ کہتے ہیں، اسرائیل کی طرف سے ایران پر زبانی حملے شروع کر دیتے ہیں۔ فرانس، جرمنی، انگلینڈ سب چیخنے لگتے ہیں کہ ایران خطرہ ہے۔ جس کے پاس ایٹم بم ہے وہ خود کو غیر محفوظ کہہ کر اپنے پڑوسی پر حملہ کر رہا ہے۔ اگر ایٹم بم بھی کسی کو نہیں بچا سکتا تو اس کے ہونے کا کیا فائدہ؟

دنیا کی طاقتور ترین قومیں کینیڈا میں جمع ہوتی  ہیں۔ لیکن یہ جی7 جوکروں کے اڈے کی طرح لگتا ہے۔ یہ جوکر ہیں، لیکن خطرناک ہیں کیونکہ ان کے پاس پوری دنیا کی طاقت ہے۔

امریکہ کا  صدر یہ اڈے بازی درمیان میں چھوڑ کر اٹھ جاتا ہے یہ کہہ کر کہ وہ کچھ بہت بڑا کرنے کے لیے واشنگٹن لوٹ رہا ہے۔

سب قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ وہ بڑا کیا ہوگا! ‘ میرے ذہن میں کیا ہے، کوئی نہیں بتا سکتا ‘، وہ سب کو چڑاتا ہے۔


صحافی پوچھتے ہیں کہ صرف 3 ماہ قبل امریکی محکمہ انٹلی جنس کی سربراہ تلسی گبارڈ نے بیان دیا تھا کہ ایران کے پاس بم بنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پھر امریکہ اب اس بیان سے کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہے؟ اور صدر یہ کہتا ہے کہ اسے  ذرا بھی پرواہ نہیں  کہ وہ کیا بولی تھی۔ ابھی اس کے ذہن میں جو آئے گا وہ کرے گا۔ امریکہ میں لوگ چیخ رہے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ صرف کانگریس یا سینیٹ ہی کر سکتی ہے، لیکن صدر کے پاس ان اصول و ضوابط کے لیے وقت نہیں ہے۔


آپ کینیڈا میں اس منظر کو دوبارہ دیکھیے؛ فرانس، انگلینڈ، اٹلی، کینیڈا، جاپان، امریکہ اور یورپی یونین کے سربراہان کو دیکھیے۔ ان کے باہمی مسخرے پن کو دیکھیے۔ یہ سب اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے اکٹھا ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا یقین کرے کہ وہ انسانیت کے لیے بھلائی کے طریقے سوچ رہے ہیں۔

مستقبل میں جب کوئی یہ تصویریں دیکھے گا تو کیا وہ اندازہ لگا سکے گا کہ یہ اس وقت کا منظر ہے جب ان ملکوں کا ایک پٹھوں دنیا کے ایک حصے میں تباہی مچا رہا تھا؟ جب غزہ میں روزانہ وہ پٹھوںسینکڑوں فلسطینیوں کو قتل کر رہا تھا؟

یہ 6 مغربی ممالک پوری دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ باقی ممالک ان کے دعوت نامے کا انتظار کرتے ہیں، ان کے ساتھ تصویر لینے کے لیے دھکا مکی کرتے ہیں۔ سب کوواپس اپنےملکوں میں اپنے ووٹروں کو تصویر دکھانی ہے!

دنیا میں قیادت کا فقدان ہے، ہم افسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں شاید ٹرمپ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں دکھایا کہ بین الاقوامی تعلقات جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ زمین کے وسائل کی اجتماعی لوٹ مار کے لیے طاقتوروں کے باہمی معاہدے کا دوسرا نام ہے۔ ایک طرح سے 20ویں صدی کا پہلا نصف ختم نہیں ہوا ہے۔ جس طرح یہ ممالک مشرق وسطیٰ کو آپس میں تقسیم کر رہے تھے، آج پھر کر رہے ہیں۔ استعماریت جاری ہے۔

اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔

Next Article

یوپی کانسٹبل بھرتی: امت شاہ نے جس امتحان کو بے داغ کہا، وہ کبھی پیپر لیک کے بعد ہوا تھا رد

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے یوپی پولیس میں بھرتی کے عمل کو ‘شفاف’ قرار دیا ہے، لیکن گزشتہ سال پیپر لیک کی وجہ سے اس امتحان کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس کا انعقاد کرنے والی گجراتی کمپنی ایڈوٹیسٹ کی تاریخ داغدار رہی ہے۔ یوپی حکومت کو بھی اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرنا پڑا تھا۔ اس کمپنی کے بانی ڈائریکٹر کے بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں سے قریبی روابط رہے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ جوائنگ لیٹردیتے ہوئے۔تصویر بہ شکریہ: ایکس/ امت شاہ

نئی دہلی: 15 جون، 2025 کو لکھنؤ میں منعقد ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اتر پردیش پولیس کے ‘اب تک کی سب سے بڑی بھرتی کے عمل’ کے تحت منتخب کیے گئے   60244سپاہیوں کو تقرری لیٹر سونپے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بھرتی مکمل طور پر شفاف تھی اور کسی کی سفارش نہیں چلی، اور نہ ہی رشوت لی گئی اور ذات یا برادری  بھی نہیں دیکھی گئی- انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا۔

اس دعوے میں کتنی صداقت ہے؟

وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کئی سطحوں پر سوالوں کے دائرے میں ہے۔

اول، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے امت شاہ بھول گئے کہ پچھلے سال، اسی امتحان، یعنی ‘کانسٹبل سول پولیس ڈائریکٹ ریکروٹمنٹ-2023’ پربدعنوانی کے تمام طرح کے الزام لگے تھے اور اس کی جانچ یوپی ایس ٹی ایف نے کی تھی۔ وہ بھول گئے کہ سال بھرقبل پرچہ لیک ہونے کی وجہ سے اتر پردیش حکومت کو یہ امتحان منسوخ کرنا پڑا تھا۔

اس کے بعد دوبارہ امتحان ہوا جس کے بعد اب بھرتیاں کی گئی ہیں۔ اس دوسرے امتحان کی شفافیت کا دعویٰ کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ پچھلے سال منسوخ ہونے والے امتحان کا ذکر کر دیا جائے جس نے لاتعداد امیدواروں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی تھیں۔

دوم، امت شاہ نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ اس امتحان کا انعقاد کرنے والی کمپنی ایڈوٹیسٹ سولیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈپربہارحکومت نے ایک دوسرےپیپر لیک معاملے میں بہت پہلے پابندی لگا دی تھی ۔ اس کے باوجود اتر پردیش حکومت نے دوبارہ امتحان کرانے کا ٹھیکہ اس کمپنی کو دیا ۔

سوم، امت شاہ بھول گئے کہ یہ کمپنی دراصل گجرات کی ہے  اور اس کے بی جے پی لیڈروں سے روابط رہےہیں۔

چہارم، انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ 20 جون 2024 کو اتر پردیش حکومت کی طرف سے بلیک لسٹ کیے جانے کے باوجود، سی ایس آئی آر نے، جو کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والا ادارہ ہے، سیکشن آفیسر (ایس او)، اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر(اے ایس او) کے عہدوں پر بھرتی کے لیے ایڈوٹیسٹ کی خدمات کو لینا جاری رکھا، جس پر شدید بے ضابطگیوں کے الزامات تھے۔

یعنی، جس امتحان کو ملک کے وزیر داخلہ نے شفاف قرار دیا ، نہ صرف اس کی تاریخ پیپر لیک اور بدعنوانی کی  ہے بلکہ اس امتحان کو منعقد کرنے والی کمپنی پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے- اور ان پابندیوں کے باوجود کمپنی مختلف امتحانات کا انعقاد کرتی رہی ہے۔

پیپر لیک کی تاریخ

اتر پردیش پولیس میں کانسٹبل کی بھرتی کے لیے امتحان 17 اور 18 فروری 2024 کو منعقد ہوا تھا۔ 48 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔ لیکن سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزام کے بعد دوبارہ امتحان کرانے کا مطالبہ کیا جانے  لگا۔

اس معاملے میں ریاست کے مختلف حصوں سے 120 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ لوگ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ کچھ لوگوں کو اصلی امیدواروں کی جگہ امتحان میں شریک ہونے پر گرفتار کیا گیا، جبکہ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے امیدواروں کے ساتھ  دھوکہ  کیا تھا۔

اس وقت کے پولیس ڈائریکٹر جنرل پرشانت کمار نے کہا تھا ، ‘کل 122 گرفتار لوگوں میں سے 15 کو ایٹا میں، نو-نو کو مئو، پریاگ راج اور سدھارتھ نگر میں، آٹھ کو غازی پور میں، سات کو اعظم گڑھ میں، چھ گورکھپور میں، پانچ کو جونپور میں، چار کو فیروز آباد میں، تین-تین کو کوشامبی میں اورہاتھرس میں،دو-دو کو جھانسی ،وارانسی، آگرہ آگرہ اور کانپور میں ، اور ایک -ایک کوبلیا، دیوریا اور بجنور میں گرفتار کیا گیا ۔’

یہ بدعنوانی ریاست گیر تھی

سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزامات کے بعد ریاستی حکومت نے فروری 2024 میں ایس ٹی ایف کی تشکیل کی تھی۔ ایس ٹی ایف نے مارچ 2024 میں بلیا کے رہنے والے نیرج یادو کو گرفتار کیا تھا ۔ اس پر امیدواروں کو وہاٹس ایپ پر جوابات بھیجنے کا الزام تھا۔

اس کے علاوہ بھی کئی گرفتاریاں  کی گئی تھیں۔

کمپنی پر اٹھائے گئےسوال

ریاست بھر سے امیدواروں نے لکھنؤ پہنچ کر احتجاج کیا ، اور آخرکار یوگی آدتیہ ناتھ نے امتحان کو رد کرنے کا اعلان کیا ۔

گجرات کی جس  ایجنسی ایڈوٹیسٹ کو اس امتحان کے انعقاد کی ذمہ داری دی گئی تھی، اسے ریاستی حکومت نے پیپر لیک کے الزامات کے بعد 20 جون 2024 کو بلیک لسٹ کر دیا ۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ اس کمپنی پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

دی وائر نے گزشتہ سال تین حصوں میں اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا تھا کہ یوپی میں پولیس بھرتی امتحان کے لیے ٹینڈر حاصل کرنے سے پہلے بہار میں امتحان کے عمل میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے ایڈو ٹیسٹ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔

بلیک لسٹڈ کمپنی کی بی جے پی لیڈروں سے قربت

بار بار تنازعات میں آنے کے باوجود اسے بی جے پی مقتدرہ ریاستوں اور خود نریندر مودی کی سربراہی والی سی ایس آئی آر سے ٹھیکے ملتے رہے۔ اس کمپنی کا رجسٹریشن گجرات میں ہوا تھا۔

دی وائرنے اپنی رپورٹ میں بتایاتھا کہ نہ صرف اس کمپنی کو کئی بار بلیک لسٹ کیا گیا، بلکہ اس کے بانی ڈائریکٹر کے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی کے کئی بڑے لیڈروں سے خوشگوار تعلقات ہیں۔

دراصل، ایڈوٹیسٹ کے بانی ڈائریکٹر سریش چندر آریہ ایک ممتاز ہندو تنظیم ‘سارودیشک آریہ پرتینیدھی سبھا‘ کے صدر ہیں ۔ سبھا نے سال 2018 میں چار روزہ بین الاقوامی آریہ مہا سمیلن کا انعقاد کیا تھا ، جس میں بی جے پی اور سنگھ کے کئی سینئر لیڈروں نے شرکت کی تھی۔ اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند مہا سمیلن کی افتتاحی تقریب میں پہنچے تھے اور سریش چندر آریہ نے استقبالیہ تقریر کی تھی۔

فروری 2023 میں نئی دہلی میں دیانند سرسوتی کے 200 ویں یوم پیدائش کی تقریبات کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ آریہ سماج کے اس پروگرام کے دوران پی ایم مودی کے ساتھ اسٹیج پر سریش چندر آریہ موجود تھے۔  مودی نے اپنی تقریر میں سریش چندر کا بھی ذکر کیا تھا ۔

سریش چندر آریہ پی ایم مودی کے دائیں طرف کھڑے ہیں۔ (تصویر بہ شکریہ: نریندر مودی ویب سائٹ)

وزیراعظم کے ادارے کے امتحان پر بھی سوالات اٹھائے گئے

سریش چندر کے بیٹے یعنی ایڈوٹیسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت آریہ کو 2017 میں امتحان سے متعلق بے ضابطگیوں کے الزام میں جیل رسید کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کی سربراہی والی  مرکزی حکومت کے ادارے سی ایس آئی آر اور کئی ریاستوں میں بی جے پی حکومتوں نے امتحان کے انعقاد کے لیے ایڈوٹیسٹ کو ٹھیکہ دیا تھا۔

سی ایس آئی آرکےسیکشن آفیسر (ایس او) اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر (اے ایس او) بھرتی امتحان کے مختلف مراحل میں بے ضابطگیاں سامنے آئی تھیں۔ پہلے مرحلے کا امتحان 5 اور 20 فروری 2024 کے درمیان ملک بھر کے مختلف مراکز پر آن لائن منعقد ہوا تھا۔ 8 فروری 2024 کو اتراکھنڈ پولیس نے ایک امتحانی مرکز پر چھاپہ مارا اور ملزم انکت دھیمان کو گرفتار کیا تھا، جس نے اعتراف کیا کہ اس نے ایک امیدوار کا پرچہ حل کرایا تھا۔

ایسے تمام الزامات کے بعد امیدواروں نے سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) سے رجوع کیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہاں کوئی فیصلہ ہوتا، 7 جولائی 2024 کو ملک کے بڑے میٹرو میں منعقد ہونے والے امتحان کے دوسرے مرحلے میں بدانتظامی اور بے ضابطگیاں سامنے آ گئیں ۔

ظاہر ہے، اگر امت شاہ نے اتر پردیش پولیس بھرتی امتحان کے ماضی اور امتحان منعقد کرنے والی اس کمپنی کی تاریخ پر نظر ڈالی ہوتی، تو شاید وہ ‘بدعنوانی سے پاک عمل اور شفافیت’ کا دعوی کرنے کے بجائے اپنی ہی حکومتوں کی جانب سے ہوئی لاپرواہی کا تذکرہ کرتے۔