اشوکا کے پروفیسر کو عبوری ضمانت، پہلگام اور آپریشن سیندور پر تبصرہ کرنے سے روکا گیا

سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دیتے ہوئے ان کے سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس کیس سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دیتے ہوئے ان کے سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس کیس سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ (21 مئی) کو اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دے دی ۔ عدالت نے ان کےسوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا بھی حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ وہ اس کیس سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، ‘عدالت نے محمود آباد کو آپریشن سیندور اور ہندوپاک فوجی تنازعہ پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے روک دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے محمود آباد سے  اپنا پاسپورٹ جمع کرانے کو بھی کہا ہے۔

اس معاملے پر ایک غیرمعمولی نوٹ میں عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ اگر طلبہ اور پروفیسر،جو ظاہری طور پراشوکا یونیورسٹی کے ہیں’کچھ بھی کرنے کی ہمت کرتے ہیں، تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے، اگر وہ ہاتھ ملانے کی کوشش وغیرہ کرتے ہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ ان  سے کیسے نمٹا جائے، یہ ہمارے دائرہ اختیار میں ہیں۔’

ایس آئی ٹی جنگ مخالف پوسٹ کی تحقیقات کرے گی

محمود آباد کی سوشل میڈیا پوسٹ کے بارے میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کے سنگھ کی بنچ نے کہا کہ اسے پڑھنے کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ ان کے خلاف جاری تحقیقات پر روک کا کوئی معاملہ نہیں بنتاہے۔

عدالت نے کہا کہ اس کی پیچیدگی کو سمجھنے اور پوسٹ میں استعمال کی جانے والی زبان کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے، وہ ہریانہ کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کو انڈین پولیس سروس کے تین افسران پر مشتمل ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت دے رہی ہے جن کا تعلق ہریانہ یا دہلی سے نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس ایس آئی ٹی کی سربراہی انسپکٹر جنرل آف پولیس کریں گے اور اس کی ایک رکن خاتون افسر ہوں گی۔

سماعت کے دوران جسٹس کانت نے محمود آباد کے ‘فرض’ پر زور دیتے ہوئے کہا، ‘آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا حق ہے وغیرہ… فرض کہاں ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک پچھلے 75 سالوں سے صرف حقوق کی تقسیم کر رہا ہے اور کوئی فرض نہیں ہے۔’

اس دوران جسٹس سوریہ  کانت خان کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل کو یہ سمجھانا چاہتے تھےکہ ‘اسے ڈاگ وہسل’ یعنی کسی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے چھپے ہوئے پیغامات والی زبان کہا جاتا ہے۔

جسٹس کانت کا یہ بھی ماننا تھا کہ ‘اظہار رائے کی آزادی کے حامل معاشرے کے لیے یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ دوسرے فریق کی توہین کرنے اور اسے تکلیف دینے کے لیے جان بوجھ کر الفاظ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔’

اس سے قطع نظر کہ خان کے الفاظ اس طرح کے جرم کا سبب کیسے بن سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس’ لغت میں استعمال کرنے کے لیے الفاظ کی کمی نہیں ہونی چاہیے’ اور ‘وہ ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں جس سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے’۔

تاہم،یہ واضح نہیں ہے کہ جسٹس کانت کو کون سی زبان ناگوار لگی۔

سبل نے کہا کہ خان کے الفاظ میں کوئی مجرمانہ ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ان کی بیوی 9 ماہ کی حاملہ ہے، لیکن وہ جیل میں ہیں۔’ انہوں نے کہا کہ ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن کی طرف سے دوسری ایف آئی آر بھی چونکا دینے والی ہے۔

اس معاملے کے بارے میں وکیل اندرا جئے سنگھ نے ایکس پر بتایا کہ خان اور ان کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن وہ جیل میں بیٹھے ہیں۔ وہیں، کرنل صوفیہ قریشی کو ‘دہشت گرد کی بہن’ کہہ کر گالی دینے والے بی جے پی کے وزیر کو سپریم کورٹ نےگرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔’

اشوکا یونیورسٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار تشکر کیا

اس سلسلے میں اشوکا یونیورسٹی نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار تشکر کیا ہے۔

یونیورسٹی نے کہا، ‘معزز سپریم کورٹ کی طرف سے پروفیسر علی خان محمود آباد کو عبوری ضمانت دینا ان کے خاندان اور اشوکا یونیورسٹی میں ہم سب کے لیے ایک بڑی راحت ہے۔ ہم عدالت کے مشکور ہیں۔’

پولیس محمود آباد سے اس کے غیر ملکی دوروں اور ‘ملک دشمن سرگرمیوں’ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے ریمانڈ میں توسیع کرنا چاہتی تھی۔

اس سے قبل، اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کے ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کرتے ہوئے ہریانہ پولیس نے 18 مئی اور 20 مئی کو ان کے غیر ملکی دوروں اور ‘ملک مخالف’ سرگرمیوں کے لیے ان کے بینک کھاتوں میں ‘فنڈنگ’ آنے کا معاملہ اٹھایا تھا ۔

دی وائر نے محمود آباد کے خلاف دو ایف آئی آر سے متعلق عدالتی دستاویزات دیکھے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ان کے بین الاقوامی دوروں اور سوشل میڈیا پربات چیت کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ان کی حراست میں توسیع کی درخواست کی تھی۔ پولیس نے کہا تھا کہ اگرچہ ان کے پاس محمود آباد کے بینک اکاؤنٹ نمبر موجود ہیں، لیکن انہیں اکاؤنٹ کی  تفصیلات اور اس کا پاسپورٹ نہیں ملا ہے جس سے ان کے غیر ملکی سفر کا پتہ چل سکے۔

اس سلسلے میں 20 مئی کو سونی پت کے فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ آزاد سنگھ نے محمود آباد کے لیے سات دن کے پولیس ریمانڈ کی مانگ کرنے والی پولیس کی درخواست کو مسترد کر دیا اور سیاسیات کے پروفیسر محمود آباد کو 27 مئی تک عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔

اس سے قبل 18 مئی کو عدالت نے پولیس کو اسے اپنی تحویل میں لے کر پوچھ گچھ کے لیے دو دن کا وقت دیا تھا۔ 20 مئی کو پولیس نے عدالت کو بتایا تھاکہ دو روزہ ریمانڈ کے دوران انہوں نے محمود آباد کا لیپ ٹاپ، آدھار کارڈ اور پاس بک کی کاپیاں ضبط کر لی ہیں۔ ان کاکا موبائل فون اور لیپ ٹاپ فرانزک سائنس لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ محمود آباد نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے 14 ممالک کا سفر کیا ہے، اس لیے انہیں ان  کے غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ حاصل کرنا ہوگا۔

پولیس نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر محمود آباد کی بات چیت  کا ریکارڈ بھی ابھی تک برآمد یا حاصل نہیں کیا گیا ہے۔

محمود آباد کے وکلاء نے عدالت میں دلیل دی کہ ان کے بینک کھاتوں سے متعلق تمام تفصیلات پہلے ہی فراہم کر دی گئی ہیں۔ ان کے پاسپورٹ سے متعلق معلومات بھی پولیس کو فراہم کر دی گئی ہیں تاکہ ان کے سفر کے بارے میں حقائق معلوم کیے جا سکیں۔

محمود آباد نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنا پاسپورٹ 21 مئی کی شام 5 بجے تک اپنے وکیل کے ذریعے کیس کے تفتیشی افسر کو جمع کرائیں گے۔

کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے محمود آباد نے شام کی دمشق یونیورسٹی میں عربی کی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے لبنان، مصر، ایران، عراق اور یمن کا بھی سفر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایمہرسٹ کالج، امریکہ سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔

ان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ محمود آباد کیمبرج یونیورسٹی کے اسکالر تھے اور دوسرے ممالک میں ان کے کئی  دوست ہیں۔ اس لیے یہ نہیں مانا جا سکتا کہ ان  کا ‘کسی ملک دشمن عناصر سے کوئی تعلق ہے۔’

محمود آباد کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ان کی اہلیہ کی بینک تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ آزاد سنگھ نے کہا کہ چونکہ تفتیشی ایجنسی کو ابھی تک مطلوبہ تفصیلات موصول نہیں ہوئیں اور یہ حقیقت بھی کہ پولیس بی این ایس کی دفعہ 187 (2) کے مطابق تفتیش کے پہلے 60 دنوں میں حراست طلب کر سکتی ہے، اس لیے تفتیشی افسر کو تمام تفصیلات موصول ہونے کے بعد ہی تحویل کے لیے نئی درخواست دینے کا موقع ملے گا۔

گزشتہ 18 مئی کو ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹرز نے پولیس کی تحویل کی درخواست کی تھی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ محمود آباد کے’ملک مخالف سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور اس مقصد کے لیے ان کے بینک کھاتوں میں جمع کی گئی رقم’ کے حوالے سے کیس کی مزید تفتیش ضروری ہے۔

پولیس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ انہیں محمود آباد کو اتر پردیش کے سیتا پور ضلع میں واقع ان کے آبائی گاؤں لے جانے کے لیے وقت درکار ہے تاکہ مبینہ جرم کے پیچھے مبینہ ‘گہری سازش’ کے بارے میں بتایا جا سکے اور سامان برآمد کیا جا سکے۔

معلوم ہو کہ 18 مئی کو ہریانہ پولیس نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور پر تبصرے کے لیے سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔