بہار ووٹر لسٹ ریویژن معاملہ: الیکشن کمیشن کے ساتھ میٹنگ کے بعد ’انڈیا‘ الائنس کے رہنما ’مایوس‘

بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن کے خلاف 'انڈیا' الائنس کے وفد نے بدھ کی شام الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد میں شامل اکثر رہنماؤں نےاس میٹنگ کو  'مایوس کن' اور 'ناخوشگوار' قرار دیا۔

بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن کے خلاف ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ کی شام الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد میں شامل اکثر رہنماؤں نےاس میٹنگ کو  ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا۔

کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی پریس سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: اسکرین گریب)

نئی دہلی: بہار میں ووٹر لسٹ کے ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن'(ایس آئی آر)کے خلاف اپنے احتجاج میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے، ‘انڈیا’ الائنس کے وفد نے بدھ (2 جولائی) کی شام کو الیکشن کمیشن سے ملاقات کی۔

زیادہ تر رہنماؤں نے اس ملاقات کو ‘مایوس کن’ اور ‘ناخوشگوار’ قرار دیا ۔

رپورٹ کے مطابق، ‘انڈیا’ الائنس نے بہار میں اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل ایس آئی آر شروع کرنے کے الیکشن کمیشن کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔

اپوزیشن اتحاد نے اس کی ٹائمنگ اور اس نوع کےمشق کی فزیبلٹی پر سوال اٹھایا ہے، جس کے تحت کمیشن کو بہار میں 7.75 کروڑ اہل ووٹروں کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہوگی، ساتھ ہی  اس کی صلاحیت پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔

کچھ رہنماؤں نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ عمل، جو لوگوں پر خود کو اہل ووٹر ثابت کرنے کی ذمہ داری ڈالتا ہے، ‘بڑے پیمانے پر حق رائے دہی سے محرومی’ کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر پسماندہ طبقوں کے لیے، جنہیں بہار جیسی پسماندہ ریاست میں اپنے اور والدین کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ایس آئی آر میں آدھار یا راشن کارڈ جیسے عام شناختی کارڈ کافی نہیں ہوں گے، اور لوگوں کو اپنی ‘جائے پیدائش’ ثابت کرنے کے لیے اپنے والدین کا پیدائشی سرٹیفکیٹ بھی دکھانا ہوگا۔

اپوزیشن لیڈروں نے یہ بھی بتایا کہ ریاست سے باہر رہنے والے لوگوں  کی ایک بڑی تعداد کو بھی اس مشق سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان میں جلد بازی پر تشویش کا اظہار

بدھ کی شام میٹنگ کے فوراً بعد پریس کو بریفنگ دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ وفد نے الیکشن کمیشن کو تین نکات پیش کیے۔ اس میں 2003 کے بعد، جس کے بعد بہار میں ‘چار یا پانچ’ انتخابات ہوئے ہیں، پہلی ایس آئی آر رکھنے کے پیچھے کی منطق پر سوال اٹھایا گیا۔

انہوں نے پوچھا، ‘کیا وہ اصولوں کے خلاف تھے؟’ دوسرا، انہوں نے کہا کہ وفد نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اعلان میں جلد بازی پر تشویش کا اظہار کیا۔

سنگھوی نے کہا، ‘یہ فیصلہ کیوں لیا گیا؟ اگر ایس آئی ارکی ضرورت ہے، تو یہ جنوری فروری میں کیا جا سکتا تھا۔ آپ نے اس کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ 7.75 کروڑ ووٹروں کی تصدیق کے لیے ایک ماہ کا وقت ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘جب آپ نے 2003 میں ایسا کیا تھا تو اس کے ایک سال بعد عام انتخابات تھے۔ جب آپ نے یہ کام 2003 میں کیا تھا تو دو سال بعد اسمبلی انتخابات تھے۔ اب آپ کے پاس صرف ایک ماہ کا وقت ہے۔ یہ کافی نہیں ہے۔’

سنگھوی نے کہا کہ وفد نے دیہی علاقوں میں بہت سے لوگوں کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور پوچھا کہ آدھار یا راشن کارڈ کیوں قبول نہیں کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘پہلی بار آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو اس کے نام پر غور نہیں کیا جائے گا۔ ایک زمرے میں، اگر آپ 1987 اور 2012 کے درمیان پیدا ہوئے ہیں تو آپ کو والدین کے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت ہوگی۔ ہم نے کہا کہ بہار میں بہت سارے (غریب لوگ اور اقلیتی اور پسماندہ طبقے کے لوگ) ہیں۔ کیا وہ کاغذات کے لیے ادھر ادھر بھاگتے رہیں گے؟ یہ جمہوریت میں مساوی مواقع کے خلاف ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ اس میٹنگ میں 11 پارٹیوں کے 20 لیڈروں نے شرکت کی، جبکہ ترنمول کانگریس کا کوئی لیڈر اس میٹنگ کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

سنگھوی نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے کمیشن کے دفتر آنے والے تمام لیڈروں کو میٹنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے پہلے صرف پارٹی سربراہوں سے ملاقات کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، لیکن دباؤ کے بعد اس نے ہر پارٹی کے دو لیڈروں کو اپنے دفتر کے اندر جانے کی اجازت دی۔

سنگھوی نے کہا، ‘کچھ لوگوں کو باہر انتظار کرنا پڑا۔ ہم نے اس معاملے پر شکایت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔’

ایس آئی آر آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعات کے مطابق: الیکشن کمیشن

قابل ذکر ہے کہ یہ میٹنگ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی، جس میں مبینہ طور پر لیڈروں نے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار اور الیکشن کمشنر سکھبیر سنگھ سندھو اور وویک جوشی سے ملاقات کی۔

وفد میں کانگریس کے رہنما جئے رام رمیش، ابھیشیک منو سنگھوی، پون کھیڑا اور پارٹی کے بہار کے سربراہ راجیش رام، بہار کے رہنما اکھلیش پرساد سنگھ، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیامنٹ منوج کمار جھا ، سماج وادی پارٹی کے ہریندر ملک ، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کی فوزیہ خان، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جان برٹاس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن کے دیپانکر بھٹاچاریہ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ڈی راجہ شامل تھے۔

اس سے پہلے دن میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ بہار میں ایس آئی آرمنصوبہ کے مطابق اور 24 جون 2025 کو جاری کردہ احکامات کے مطابق’ بہتر ڈھنگ سے جاری ہے، اور لوگوں سے ‘کسی بھی غلط معلومات پھیلانے’ پر توجہ نہ دینے کی اپیل کی۔

کمیشن نے یہ بھی کہا کہ 243 الیکٹورل رجسٹریشن افسران، 38 ڈسٹرکٹ الیکشن افسران، نو ڈویژنل کمشنروں اور بہار کے چیف الیکٹورل افسر کی جانب سے تقریباً ایک لاکھ بوتھ سطح کے افسران اور ایک لاکھ رضاکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

‘انڈیا’ الائنس کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار نے کہا کہ وفد میں شامل کئی رہنماؤں کو ‘بغیر وقت لیے’ میٹنگ میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی، کیونکہ کمیشن نے آخر کار ہر پارٹی کے دو نمائندوں سے ملنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اہلکار نے کہا کہ ایس آئی آر آرٹیکل 326 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعات کے مطابق ہے۔

تاہم، جئے رام رمیش نے بعد میں ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘(الیکشن کمیشن) نے خود کو اس طرح سے کنڈکٹ کیا ہے جو ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے’۔

انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ یہ اپوزیشن کی طرف سے سماعت کی درخواستوں کو باقاعدگی سے مسترد نہیں کر سکتا۔ اسے آئین کے اصولوں اور دفعات پر عمل کرنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے صوابدیدی اصول نہیں بنا سکتا، جیسے کہ شرکت کرنے والے افرادکے عہدے طے کرنایا کتنے لوگ شرکت کر سکتے ہیں یاکون  مجاز ہے کون نہیں۔’

نئے اصول الجھن پیدا کرنے والے: جئے رام رمیش

کانگریس لیڈر رمیش نے مزید کہا، ‘جب وفد نے ان نئے قواعد کو من مانی اور الجھن پیدا کرنے والا قرار دے کر مسترد کر دیا، تو الیکشن کمیشن نے ہمیں بتایا کہ یہ ‘نیا’ کمیشن ہے۔ ہم یہ سوچ کر کانپ اٹھتے ہیں کہ اس ‘نئے’ کمیشن کی حکمت عملی کیا ہے؟ ہم کتنے اور ماسٹر اسٹروک کی توقع کر سکتے ہیں؟ نومبر 2016 میں وزیر اعظم کی نوٹ بندی نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا۔ اب، جیسا کہ ایس آئی آر میں دکھایا گیا ہے، بہار اور دیگر ریاستوں میں الیکشن کمیشن کی ‘ووٹ بندی’ ہماری جمہوریت کو تباہ کر دے گی۔’

میٹنگ کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے منوج کمارجھا نے کہا، ‘ہم سب نے بہار کے بارے میں اپنی تشویش ان کے سامنے رکھی ہے… میں نے انہیں آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کا ایک خط سونپا ہے۔ یہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی سازش ہے…’

انہوں نے کہا، ‘اگر کسی مشق کا مقصد شمولیت کے بجائے اخراج ہے، تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں… جب ہم نے پوچھا کہ جو مشق (ایس آئی آر) 22 سالوں میں نہیں ہوئی… وہ اب کیوں ہو رہی ہے؟… زیادہ تر لوگوں کے پاس اہلیت ثابت کرنے کے لیے درکار دستاویز نہیں ہیں…’

ڈی راجہ، بھٹاچاریہ اور خان  جیسے دیگر لیڈروں نے بھی کہا کہ یہ عمل بہت سے غریب لوگوں کو بغیر کسی غلطی کے بھی حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ یا میٹرک سرٹیفکیٹ نہیں ہوسکتے ہیں، جو ان کی تاریخ پیدائش ثابت کرنے کے لیے قابل قبول ہیں۔

زیادہ تر لیڈروں نے یہ بھی محسوس کیا کہ الیکشن کمشنروں نے ان کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کے بارے میں معاندانہ رویہ اپنایا اور ایس آئی آرمشق کے بارے میں پوری طرح سے  مثبت  بنے رہے۔