
الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو نے وشو ہندو پریشد کے ایک پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف متنازعہ بیان دیا تھا، جس کے بارے میں سپریم کورٹ اندرونی تحقیقات شروع کرنا چاہتی تھی، لیکن راجیہ سبھا سکریٹریٹ نے واضح کیا کہ یہ اختیار صرف پارلیامنٹ اور صدرجمہوریہ کے پاس ہے۔

جسٹس شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)
نئی دہلی: سپریم کورٹ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کے خلاف وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ایک پروگرام میں دیے گئے متنازعہ بیان پر اندرونی تحقیقات شروع کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔ لیکن راجیہ سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے ایک خط موصول ہونے کے بعد عدالت نے اس منصوبہ کو ترک کر دیا ۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس معاملے سے واقف لوگوں نے بتایاکہ مارچ میں راجیہ سبھا کی طرف سے بھیجے گئے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ صرف راجیہ سبھا کے چیئرمین کے پاس ایسی کارروائی شروع کرنے کا آئینی اختیار ہے، اور بالآخر یہ پارلیامنٹ اور صدر کے دائرے میں آتا ہے۔
اس خط کی وجہ سے سپریم کورٹ نے جسٹس یادو کے خلاف اندرونی تحقیقات کا منصوبہ روک دیا۔ اس سے قبل، الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سنگین اعتراضات کی رپورٹ کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے یہ جائزہ لینے کے لیے یہ عمل شروع کیا تھا کہ کیا جسٹس شیکھر یادو کے طرز عمل کی تحقیقات ضروری ہے یا نہیں۔
اخبار نے راجیہ سبھا سکریٹریٹ سے یہ پوچھنے کے لیے رابطہ کیا کہ آب آگے کیا کارروائی ہوگی، لیکن اسے فوری جواب نہیں ملا۔
اس سے قبل فروری میں راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے کہا تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا اختیارصرف پارلیامنٹ کے پاس ہے۔
دھنکھڑ نے کہا تھا، ‘معزز اراکین، 13 دسمبر 2024 کو، مجھے راجیہ سبھا کے 55 اراکین کے دستخط شدہ قرارداد کا ایک غیر تاریخ شدہ نوٹس ملا ہے۔ یہ قرارداد آئین کے آرٹیکل 124(4) کے تحت الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ آئین کے مطابق، اس موضوع پر فیصلہ لینے کا حق صرف راجیہ سبھا کے چیئرمین کو ہے، اور بالآخر یہ معاملہ پارلیامنٹ اور معزز صدر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔’
دھنکھڑ کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا تھا جب 55 اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ نے راجیہ سبھا میں جسٹس یادو کے مبینہ ‘طرزعمل’ کے تعلق سے ایک قرارداد پیش کی تھی۔
گزشتہ سال 8 دسمبر کو وی ایچ پی کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس شیکھر یادو نے کہا تھا کہ ہندوستان صرف ‘اکثریت’ یعنی ہندوؤں کی مرضی کے مطابق چلے گا۔ انہوں نے کچھ مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ‘کٹھ ملا’ جیسے متنازعہ الفاظ کا استعمال کیا تھا اور چار شادیوں اور تین طلاق وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک کے لیے ‘مہلک’ ہیں۔