یوپی: سنبھل پولیس نے برسوں سے ہونے والے نیجا میلےکو ’اینٹی نیشنل‘ قرار دیتے ہوئے پابندی لگائی

سنبھل میں سالانہ نیجا میلے پر پابندی لگاتے ہوئے پولیس کا موقف آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کے دیرینہ خیالات کے مطابق تھا۔ سنگھ سالار مسعود کی کہانی کو موجودہ سیاست سے جوڑ کر انہیں ولن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سنبھل میں سالانہ نیجا میلے پر پابندی لگاتے ہوئے پولیس کا موقف آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کے دیرینہ خیالات کے مطابق تھا۔ سنگھ سالار مسعود کی کہانی کو موجودہ سیاست سے جوڑ کر انہیں ولن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سنبھل میں 100 سال پرانے نیجا میلے پرسنبھل انتظامیہ کی پابندی کے بعد سیکورٹی اہلکار  نے فلیگ مارچ کیا(بائیں)، اتر پردیش کے بہرائچ ضلع میں سید سالار مسعود غازی کی درگاہ کی ایک تصویر۔ (تصویر: پی ٹی آئی (بائیں) اور بہرائچ ڈاٹ این آئی سی ڈاٹ ان(دائیں)

سنبھل میں 100 سال پرانے نیجا میلے پرسنبھل انتظامیہ کی پابندی کے بعد سیکورٹی اہلکار  نے فلیگ مارچ کیا(بائیں)، اتر پردیش کے بہرائچ ضلع میں سید سالار مسعود غازی کی درگاہ کی ایک تصویر۔ (تصویر: پی ٹی آئی (بائیں) اور بہرائچ ڈاٹ این آئی سی ڈاٹ ان(دائیں)

نئی دہلی: اتر پردیش کے سنبھل میں پولیس نے صدیوں سے منعقد ہونے والے نیجا میلے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس میلے کا اہتمام مسلمان گیارہویں صدی کے مشہور سپاہی سید سالار مسعود غازی کی یاد میں کرتے تھے، جنہیں غزنوی حکمران محمود غزنوی کابھتیجہ خیال کیا جاتا ہے۔

سنبھل کے ایک سینئر پولیس افسر نے اس سال میلے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ‘حملہ آور’، ‘لٹیرے’ اور ‘قاتل’ کے اعزاز میں منعقد ہونے والے پروگرام کی اجازت نہیں دی جائےگی، چاہے یہ روایتی طور پر ہر سال منعقد کیا جاتا رہا ہو۔

تقریب پر پابندی لگاتے ہوئے پولیس کا موقف راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس سے وابستہ تنظیموں کے دیرینہ خیالات کے مطابق تھا۔ آر ایس ایس غازی میاں (سالار مسعود کے نام سے معروف) کی کہانی کو موجودہ سیاست سے جوڑنے اور انہیں ولن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی  رہی ہے۔ سالار مسعود کو ایک پسماندہ ذات کے ہندو جنگجو سہیل دیو نے قتل کیا تھا۔

اتر پردیش کے کچھ علاقوں میں مسلمان غازی میاں کو سنت مانتے ہیں اور ہر سال ہولی کے بعد سنبھل میں منعقد ہونے والے نیجا میلے میں ان کی وراثت کے احترام کے لیےروایتی طور پر رسوم کی ادائیگی کرتے ہیں۔

واضح ہو کہ ضلع بہرائچ میں ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے لوگ غازی کے مبینہ مقبرے پر جاتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے اتحادیوں نے طویل عرصے سے غازی کو پسماندہ ذات اور دلت ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔  پچھلی کئی دہائیوں سے بی جے پی اور آر ایس ایس نے مہاراجہ سہیل دیو کو ایک عظیم ہندوتوا جنگجو اور قومی ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جنہوں نے بہرائچ میں غازی میاں کے مارچ کو روک کر خطے میں اسلامائزیشن  کی کوشش کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔

سال 2021 میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پوچھا تھا کہ کیا مہاراجہ سہیل دیو اور سالار مسعود کے ‘پیروکار’ ہاتھ ملا سکتے ہیں؟ انہوں نے یہ ریمارک سماج وادی پارٹی کو مسلم نواز کے طور پر پیش کرنے اور دیگر پسماندہ ذات پر مبنی جماعتوں کے ساتھ اس کے اتحاد کو متضاد قرار دینے کے لیے دیاتھا۔

سال 2022 کے اسمبلی انتخابات سے چند ہفتے قبل آدتیہ ناتھ نے ایک ریلی میں کہا تھا، ‘کیا مہاراجہ سہیل دیو کے پیروکار سالار مسعود کے پیروکاروں سے ہاتھ ملائیں گے؟ کیا وہ ہاتھ ملا سکتے ہیں؟ ایک سچا ‘راشٹر بھکت’ کبھی بھی حملہ آوروں کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ وہ نہ تو جھکے گا اور نہ پیچھے ہٹے گا۔’

جدید تناظر میں، بھر (پسماندہ ذات) اور پاسی (دلت) دونوں  ہی مہاراجہ سہیل دیو کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تاہم، سہیل دیو کا تاریخی وجود پراسرار ہے۔ انہیں اکثر گھوڑے پر سوار اور ہاتھ میں بھالا پکڑے ہوئے لڑائی کے انداز میں دکھایا جاتا ہے۔ بہرائچ کے ڈسٹرکٹ گزٹیئر کے مطابق، سہیل دیو کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

حال ہی میں سنبھل کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) شریش چندرا نے نیجا میلے کو ‘اینٹی نیشنل’ اور ‘برا رواج’ قرار دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ضلع بہرائچ کی سرکاری ویب سائٹ غازی کے مقبرے کو سیاحوں کی دلچسپی کے ایک اہم مقام کے طور پرمشتہرکرتی ہے اور ان کی یاد میں منعقد ہونے والے سالانہ میلے کو خطے میں منائے جانے والے اہم تہواروں کے طور پر درج کرتی ہے۔

بہرائچ ضلع کی ویب سائٹ پر غازی کے لیے وقف درگاہ کی دو تصویریں  بھی دکھائی گئی  ہیں ، جس میں انھیں ’11ویں صدی کا مشہور اسلامی سنت اور سپاہی’ بتایاگیا ہے۔

تاہم اے ایس پی چندرا نے غازی کے محمود غزنی کے ساتھ روابط کا ذکر کیا۔ نیجامیلہ کو بدنام کرنے کے لیے انہوں  نے اس بات ذکر کیا کہ گیارہویں صدی میں غزنی نے ہندوستان کے کئی شہروں پر حملہ کیا اور ہندوؤں کے مذہبی مقامات کو لوٹ لیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ امن و امان کے خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے، کیونکہ اس میلہ سے ‘دوسرے فریق کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے’ اور یہ ‘تاریخی حقائق’ کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

چندرا نے مقامی میڈیا کو بتایا،’یہ پایاگیا ہے کہ یہ میلہ غازی سید سالار مسعود کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو ایک حملہ آور اور لٹیرا تھا، جس نے سومناتھ مندر سمیت کئی مندروں کو تباہ کر دیا تھا۔ اس نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا تھا۔ ایسے قاتل اور ڈاکو کی یاد میں پروگرام منعقد کرنا سراسر نامناسب اور ملک دشمنی ہے۔’

پولیس نے اس طرح کی تقریب منعقد کرنے کی کوشش کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی دھمکی دی ۔

دوسری جانب میلے کا انعقاد کرنے والی نیجا کمیٹی کے صدر شاہد حسین مسعودی یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ پولیس نے روایتی طور پر ہر سال منعقد ہونے والی تقریب کی اجازت کیوں نہیں دی۔ روایت کے مطابق ہولی کے بعد پہلے منگل کو ایک مخصوص جگہ پر جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔ اس سال یہ 18 مارچ کو ہونا تھا۔

منگل (18 مارچ) کو پولیس نے سڑکوں پر گشت کیا، جہاں پر پرچم کی تقریب روایتی طور پر ہوتی تھی۔ افسر چندرا نے کہا کہ نیجا میلے کو لے کر مقامی لوگوں میں ‘بے اطمینانی’ پائی جاتی تھی اور لوگوں نے اس میلے کو لے کر پولیس کے پاس اپنے اعتراضات بھی درج کرائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ منتظمین کو مطلع کیا گیا تھا کہ ان کی تقریب ‘نامناسب’ تھی۔

پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں پولیس نے اس گڑھے کو سیمنٹ سے بھر دیا جہاں جھنڈا لگایا جانا تھا۔

سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر اکھلیش یادو نے نیجا میلے پر پابندی لگانے پر بی جے پی حکومت پر تنقید کی ہے۔ یادو نے کہا، ‘بی جے پی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی ہر ثقافت کو تباہ کر رہی ہے۔’

انہوں نے زور دے کر کہا کہ میلے ایسی مقام ہوتے ہیں جہاں مختلف مذاہب اور ذاتوں کے لوگ آپس میں ملتے جلتے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )